loading

{کلامی و فلسفی مباحث}

قدیم اور حادث کے معنی

تحریر : سید محمد حسن رضوی

علمی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ما سوا کو ’’عالم‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کائنات کے وجود و تحقق کے بارے میں جب بحث کی جاتی ہے تو دو کلمات عمومًا دیکھنے کو ملتے ہیں: ۱۔ قدیم، ۲۔ حادث۔ قدیم و حادث کے کلمات ہمیں قرآن و احادیث میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حکماء نے قدیم اور حادث کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے اور عمیق مطالب کو ذکر کیا ہے۔ آئیے زیر نظر سطور  میں ہم قدَم اور حدوث کے معنی کو ملاحظہ کرتے ہیں :

قدیم و حادث:

حکماء کے مطابق ہر موجود ’’قدیم اور حادث‘‘ میں تقسیم ہوتا ہے۔ عوام الناس اپنی عادی زندگی میں قدیم و حادث کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ان سے عرفی معنی مراد لیتے ہیں۔ یہیں سے حکماء اور متکلمین نے حقائق کو بیان کرتے ہوئے ان کلمات کو اصطلاحی معنی عطا کیے اور اپنے علوم کی زینت بنایا۔ حکماء نے متکلمین سے ہٹ کر قدیم و حادث کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے جس کو اس تحریر میں ہم ملاحظہ کریں گے۔ پہلے قارئین کی خدمت میں قدیم و حادث کا عوامی معنی ذکر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے اصطلاحی معنی کی طرف منتقل ہوتے ہیں:

قدیم وحادث کا عوامی معنی:

عوام الناس میں اس شیء کو قدیم کہتے ہیں جو زمانے کے اعتبار سے پہلے ہو اور بعد والے کو حادث کہتے ہیں، مثلاً اگر زید اپنے بھائی سے ۱۰ سال پہلے پیدا ہوا اور اس کا بھائی اس کے ۱۰ سال بعد پیدا ہوا تو زید پہلے زمانے میں یا زیادہ زمانہ گزارنے کی بناء پر قدیم اور اس کا بھائی حادث کہلائے گا۔ پس عوامی معنی کے مطابق قدیم و حادث کے  معنی دو اشیاء میں مقارنہ و مقایسہ کرنے کی صورت میں سامنے آئیں گے، اس طرح سے کہ دو وصف ہیں جنہیں ایک دوسرے سے نسبت دی جائے تو جو پہلے موجود تھا وہ قدیم اور جو اس کے بعد وجود میں آیا حادث کہلائے گا۔ ہم نتیجہ کے طور پر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ عوامی طور پر حادث سے مراد وہ شیء ہے جو پہلے زمانے میں معدوم تھی ،جیسے ایک سکول پانچ سال پہلے نہیں تھا جبکہ اسی علاقہ میں ۵ سال پہلے کالج موجود تھا۔ اس سکول کا جب زمانے کے اعتبار سے کالج سے مقایسہ کریں گے تو ہم کہیں گے کہ کالج قدیم ہے چونکہ ۵ سال پہلے وہ موجود تھا اور سکول حادث (جدید) ہے کیونکہ وہ کالج کی تأسیس کے ۵ سال بعد بنا ہے۔ بالفاظِ دیگر قدیم اور حادث کے عوامی معنی کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے:

۱۔دو اشیاء ایک زمانے میں پائی جائیں جبکہ ان میں سے ایک کا زمانہ زیادہ یا پہلے ہے اور دوسرے کا زمانہ قلیل اور بعد میں ہے۔ زیادہ زمانے والے کو قدیم اور کم زمانے والے کو حادث کہہ دیا جائے گا۔

۲۔قدیم اور حادث کے معنی دو اشیاء کے درمیان نسبت اور اضافت سے سامنے آتے ہیں کیونکہ ان میں سے جس کا زمانہ زیادہ اور پہلے ہے وہ قدیم اور اس کے مقابلے میں جس کا زمانہ قلیل اور کم ہے وہ حادث کہلائے گا۔

اس مناسبت سے عوام الناس کے درمیان کہہ دیا جاتا ہے کہ قدیم وہ ہوتا ہے جو مسبوق بالعدم نہ ہو یعنی جو شیء پہلے معدوم نہ ہو جبکہ حادث سے مراد وہ شیء لی جاتی ہے جو اس زمانے میں معدوم تھی جس زمانے میں قدیم موجود تھا۔ پس عوام قدیم و حادث کو زمانے کے تناظر میں استعمال کرتے ہیں۔ [1]لاہیجی، عبد الرزّاق، شوارق الالہام، ج ۱، ص ۳۸۳۔[2]حیدری، سید کمال، شرح نہایۃ الحکمۃ، ج ۹، ص ۲۵۲۔[3]طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ج ۱، ص ۲۸۷۔

قدیم و حادث کا فلسفی معنی:

علامہ طباطبائی نہایۃ الحکمۃ میں تحریر کرتے ہیں کہ قدیم سے مراد وہ وجود ہے  جو پہلے عدم کے ہمراہ نہ ہو۔بالفاظ دیگر جو معدوم ہونے کے بعد وجود میں نہ آیا ہو یا عدم سے وجود میں نہ لایا گیا ہو۔ قدیم کے مقابلے میں حادث ہے جس کا معنی وہ وجود ہے جو مسبوق بالعدم ہو، یعنی وہ وجود جو عدم سے دائرہِ وجود میں آیا ہو۔ حادث پہلے معدوم تھا پھر وجود میں آیا۔ اگر ہم حدوث اور قدم کی صحیح تعریف کرنا چاہیے ہیں کہ ضروری ہے کہ پہلے سَبق اور لَحوق (یعنی سبقت اور لاحق ہونا) کے معنی اور اس کی اقسام کو جانیں۔ جتنی قسمیں ’’سَبق‘‘ کی بنیں گی اتنی قسمیں قدیم و حادث کی بنیں گی۔ حکماء کی نظر میں سَبق (سبقت) کی چار قسمیں ہیں اس لیے قدیم و حادث کی بھی چار قسمیں ہوں گی: ۱۔ قدم و حدوث زمانی، ۲۔ قدم و حدوث عِلِّی، ۳۔ قدم و حدوث بالحق، ۴۔ قدم و حدوث دہری۔ [4]طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ ، ج ۱، ص ۲۸۷۔  قدم اور حدوث کی بحث کو سمجھنے کے لیے تین مقدمات کا بیان ضروری ہے تاکہ یہ بحث ہمارے لیے روشن ہو سکے:

۱۔ حرکت             ۲۔ زمان            ۲۔ سَبق و لَحوق

۱۔حرکت:

۔

Views: 475

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اللہ تعالی کا ظاہر ہونا
اگلا مقالہ: حقیقت محمدی کا خلیفہ اور قطب الاقطاب ہونا