loading

{حديث یوم}

تعجب آورترین حقیقت۔۔۔جس نےانبیاء ؑ کولرزادیا

شارح:سیدمحمدحسن رضوی حفظہ اللہ

امام جعفرصادقؑ فرماتےہیں: کہ جناب عیسی بن مریم س نےفرمایا:

تم لوگ دنیا کےلئےعمل انجام دیتےہوجبکہ دنیامیں تمہیں بغیر عمل کےرزق عطاکیاگیاہے،تم لوگ آخرت کےلئےعمل انجام دیتے جبکہ آخرت میں صرف او رصرف عمل کی بناءپررزق دیاجائےگا

لمحہ غوروفکر

۱۔انبیاءؑوآئمہؑ کےغم وپریشانیاں اورتعجب آورمواردعام لوگوں سےجداہوتےہیں۔لوگ عموما جن وبلاؤں اورمصبیت ومشکل سےگھبراتےہیں اورموت کاتصورکرنابھی ممنوع سمجھتےہیں۔الہی شخصیات کےغم وخوشی اور تعجب کےمواقع یکسر مختلف ہوتےہیں۔اولیاءالہی کوجہالت سےخوف آتاہے،دنیاسےڈرتےہیں،موت سےمانوس ہوتےہیں،فقرکولبیک کہتےہیںاور مال سےبھاگتےہیں ۔۔۔اسی طرح وہ دنیاکےلئےنہیں بلکہ آخرت کےلئےعمل انجام دیتےہیں۔

۲۔انسان کاہرعمل دو میں ایک ہوتاہے:

الف۔دنیا کی خاطر،حتی نمازروزہ،حج زیارت۔۔۔سب کامقصد دنیادارکےلئےدنیاکاحصول ہےاورمنہ سےقربتہ الی اللہ کہتاہےلیکن عملا دنیالیناچاہتاہے۔

ب۔آخرت کی خاطر:انسان اگرعمل انجام دیتےہوئےآخرت کومدنظررکھےاورآخرت کےحصول کوچاہےتویہ آخرت کاعمل کہلاتاہے۔۳دنیا میں رزق بھاگ دوڑوعمل سےمیسر نہیں آتابلکہ رزق کی عطامشیت الہی کےمطابق ہوتی ہے،کسی کےلئےاللہ تعالی نےوسیع و عریض رزق توکسی کےلئےتنگ رزق قراردیاہے۔پس دنیا میں رزق توبغیرعمل اورکام کیے بھی مل جاتاہےلیکن اس کےباوجودانسان دنیا کےپیچھےہلکان ومراجاتاہے!!آخرت تصورات کےمطابق نہیں بلکہ جتنی زحمت مشقت اورمحنت کی بس وہی ملےگی۔پھراللہ جتنا فضل کرناچاہےتوالگ بات ہے۔لیکن ایسانہیں ہوگاکہ آخرت عمل ومحنت کےبغیرمل جائے۔اس موضوع پراس قدرروایات ہیں کہ ان امورمیں انسان کوشک بھی نہیں گزرناچاہیےکیونکہ یہی وہ نظریہ ہےجوانسان  کوعمل پرابھارتا ہے۔بعض نظریہ رکھتےہیںکہ قبرمیں آخرت میں امام ؑ کوپکاریں گےاورسب مسائل ختم اورپھراللہ او رامام ؑ کامقابلہ  ہوگااورنعوذباللہ  امامؑاپنےبندوں کو لےجائیں گے!!جبکہ معاملہ کاملاجداہےکیونکہ امامؑ صرفاس کی شفاعت فرمائیں گےجن کی شفاعت  اللہ سبحانہ چاہےگا،ایساممکن نہیں کہ امامؑ اللہ تعالی کی رضامندی کےعلاوہ کچھ اوراہتمام کریں۔اللہ تعالی نےیہی معیاررکھاہےکہ جوزحمت تم نےکی ہےوہی پاؤگے۔

 

[1] الکافی،ج۲،ص۳۱۹،حدیث ۱۳

منابع:

منابع:
1 الکافی،ج۲،ص۳۱۹،حدیث ۱۳
Views: 12

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: محبت اہل بیت
اگلا مقالہ: حدیث یوم