loading

« شرح الکافی : درس نمبر ۳ »

منتظر ِ امام کا مرتبہ و مقام

تدریس: آیت اللہ رضا عابدینی
تدوین: عون نقوی
گزشتہ دروس میں عرض ہوا کہ زمانہ غیبت امت کے لیے ایک کمال ہے۔ غیبت صرف بارہویں امام کے ساتھ مختص نہیں بلکہ تقریبا تمام امتوں  نے زمانہ غیبت گزارا ہے ۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ گزشتہ امتوں میں سے انبیاء اور ان کے اوصیاء غیبت میں جاتے رہے۔ اللہ تعالی نے ہر امت کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ غیبت سے حاصل ہونے والے رُشد اور کمال کو حاصل کرےاور  اسم ِظاہر سے اسم باطن کی طرف عبور کرے۔ امتوں میں زیادہ تر اوقات حجت ظاہر ہوتی اور یہ امتیں اپنے دور کی حجت کے ابدان کی طرف رجوع کرتی تھیں۔ لیکن زمانہ غیبت میں امت نے اپنے زمانے کی حجت کے بدن کی طرف رجوع نہیں کرنا کیونکہ اس زمانے میں بدن کو غائب کر دیا جانا ہے۔ لیکن امت نے پھر بھی امام سے ارتباط برقرار رکھنا ہے، اب یہ امتیں امام کے بدن کی طرف نہیں بلکہ امام کے وجود سے رجوع کریں گی جو ہر وقت، ہر جگہ اور ہر لحظہ ممکن ہے۔ روایات کے الفاظ اس طرح سے ہیں کہ غیبت میں حجت اس طرح سے موجود ہوتی ہے جس طرح سے بادلوں کے اندر سورج چھپا ہوتا ہے۔ اب ظاہری طور پر سورج آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن کیا پیچھے حقیقت میں بھی ختم ہو گیا ہے؟ جی نہیں! بلکہ اس کے آثار موجود ہیں اور اس کا نور پھیلا ہوا ہے۔ زمانہ غیبت میں بھی امام کی شخصیت نظر نہیں آۓ گی لیکن ان کا وجود ہوگا، بلکہ ان کا وجود ہر جگہ اور ہر وقت پہلے سے زیادہ فعال تر موجود ہوگااور ان سے ارتباط برقرار کرنا بھی ممکن ہوگا۔

منتظر کی خصوصیات

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ ابو خالد کابلی امام سجادؑ سے نقل کرتے ہیں:

«یَا أَبَا خَالِدٍ إِنَ‏ أَهْلَ‏ زَمَانِ‏ غَیْبَتِهِ الْقَائِلِینَ بِإِمَامَتِهِ وَ الْمُنْتَظِرِینَ لِظُهُورِهِ أَفْضَلُ مِنْ أَهْلِ کُلِّ زَمَانٍ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى أَعْطَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَ الْأَفْهَامِ وَ الْمَعْرِفَةِ مَا صَارَتْ بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاهَدَةِ».

اے ابا خالد!  بے شک زمانہ غیبت کے لوگ جو امام کی امامت کے قائل اور ان کے  ظہور کے منتظر ہوں گے ہر زمانے کے لوگوں سے افضل ہیں۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے ان کو ایسا عقل و فہم اور معرفت عطا کی ہے کہ ان کے نزدیک غیبت (زمانہ) حضور اور مشاہدے کی مانند ہے۔ [1]  صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۳۲۰۔  

منتظر کا مرتبہ یوں ہی بڑھا چڑھا کر نہیں بیان کیا گیا۔ صرف انتظار کرنے کی تو کوئی اہمیت نہیں بلکہ منتظر نے کچھ انجام دینا ہے ان اعمال کی اہمیت کی وجہ سے اسے بلند مقام حاصل ہونا ہے۔ مثلا ایک روایت میں وارد ہوا ہے:

«الْمُنْتَظِرُ لِأَمْرِنَا کَالْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِی سَبِیلِ اللَّه».

وہ جو ہمارے امر کے فرح کے لیے منتظر ہے اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہو۔ [2] صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۶۴۵۔

یا قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ اگر لقاء اللہ چاہتے ہو تو عمل صالح انجام دو۔ «فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا». [3] کہف: ۱۱۰۔

روایت بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ منتظر نے کچھ نہیں کرنا اور صرف بیٹھ کر دعا کرنی ہے۔ بلکہ منتظر حالت جہاد میں ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو «القائلین بامامته» اور «المنتظرین لظهوره» کا مصداق ہے۔

عقل و فہم میں برتر لوگ

روایت کے مطابق ایک اور خصوصیت جو منتظرین میں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کوبلند درجہ کے عقل اور فہم کی نعمت سے نوازا ہے۔ عقل انسان کی ادراک کی توانائی کا نام ہے۔ جس سے انسان بقیہ جانوروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ لیکن فہم ایک نکتے تک تیزی سے پہنچنے کا نام ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی شخص ایک نکتے کو دیر سے سمجھے لیکن اسی بات کو با فہم انسان تیزی سے سمجھ لیتا ہے۔ فہم ایک خاص توانائی ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ فہم کو انسان خود بڑھا سکتا ہے مشق زیادہ کرے اور علمی نکات میں تسلسل سے غور کرے اس کو فہم عطا ہو جاۓ گا۔ ان دو کے علاوہ ایک تیسری خصوصیت بھی منتظر میں پائی جاتی ہے اور وہ معرفت ہے۔ دراصل معرفت ان دو کا نتیجہ ہے۔ انسان جو چیزیں عقل اور فہم سے لیتا ہے اس سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اسے معرفت کہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو عقل، ایک حد تک فہم اور معرفت دی ہے لیکن ان سب کو مزید قوی کیا جاۓ تو اللہ تعالی مزید عطا کرتا ہے اور معرفت کے مقامات پر پہنچا جا سکتا ہے۔

منتظر کا امام سے قلبی ارتباط

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ منتظرین کو اللہ تعالین نے جو نعمات عطاکی ہیں ، اس عطا سے وہ کیسے بقیہ سب زمانوں کے لوگوں سے افضل ہو گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس عطا سے یہ لوگ زمانہ غیبت میں بھی امام کو مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کے اندر ایک ایسی قدرت ایجاد کر دی ہے کہ یہ امام کے جسم کو ظاہری طور پر نہیں دیکھتے، اور نہ ہی ان کے جسم سے ارتباط میں ہیں لیکن اسی حالت میں «القائلین بامامته و المنتظرین لظهورہ» کے مصداق ہیں۔ ان کے عقول، فہم اور معرفت اس درجہ تک پہنچ چکی ہیں کہ ان کے قلوب امام کو مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے غیبت معنی نہیں رکھتی۔ ان کی نظروں سے امام غائب ہیں جیسا کہ روایت کے الفاظ ہیں کہ بدنِ امام غائب ہوگا لیکن کیا ان کی دل کی نگاہیں بھی امام کو نہیں دیکھ سکیں گی؟ روایت میں آیا ہے کہ وجود امام غائب نہ ہوگا بلکہ زمانہ حضور سے فعال تر ہوگا۔ مومنین ان  سے قلبی ارتباط برقرار کریں گے۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظر کے لیے غیبت کا زمانہ صرف بدنی نظام سے عبور کے لیے قرار دیا گیا ہے۔ اسے بدن کے نظام سے یعنی ظاہری آنکھوں سے امام کو دیکھنے کی بجاۓ اپنے وقت کی حجت سے قلبی ارتباط برقرار کرنا ہے۔ اس لیے تکراری طور پر کہا جا رہا ہے کہ بدنی نظام سے انسان عبور کرے، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بدن کی ضروریات کو پورا ہی نہ کریں۔ بلکہ بدن کو غالب نہیں آنے دینا، مطلب جہاں پر انسان آنکھوں سے دیکھتا ہے، کانوں سے سنتا ہے۔ غیبت کے زمانے میں ایک منتظر اپنے امام کو بدنی آنکھوں سے نہیں دیکھے گا بلکہ امام سے شہودی رابطہ برقرار کرے گا۔ یہ آنکھیں اور کان یوں بھی نہیں کہ کسی کام کے نہیں ہیں بلکہ ان آنکھوں اور کانوں سے انسان نے حقیقت تک پہنچنا ہے۔ در اصل حقیقت تک پہنچنے کا یہ واسطہ ہیں کیونکہ بہرحال آنکھوں سے ہم دیکھیں گے اور سنیں گے کہ حقیقت کیا ہے؟ یہی کام جو ابھی ہم کر رہے ہیں دیکھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں یہ بھی ضروری ہے لیکن اسی تک محدود نہیں رہنا۔ بدن کے تقاضے پورے کر کے رک نہیں جانا بلکہ قلوب کو منور کرنا ہے۔

آیت اللہ بہجتؒ فرماتے تھے کہ ہم میں سے بعض آج اور ابھی محضرِ امام میں ہیں ان کے لیے غیبت نہیں ہے۔ انسان بعض افراد کے بارے میں یہ احساس بھی کرتا ہے کہ یہ لوگ واقعی غیبت میں نہیں بلکہ محضر میں ہیں۔ اور یہی ان لوگوں کے افضل ہونے کی نشانی بھی ہے کہ جس زمانے میں حضراتِ معصومینؑ ظاہر ہوتے تھے مومنین ان سے ملنے کے لیے مدینہ یا نجف جاتے لیکن دوران غیبت ہر جگہ بغیر کسی واسطے کے امام سے مرتبط ہیں۔

انفسی فرج اور عمومی فرج

غیبت اور ظہور کے درمیان ایک ربط ہے جسے ہم انفسی فرج کہہ سکتے ہیں۔ زمانہ غیبت میں بہت سے افراد ایسے ہونگے جن کے لیے انفرادی طور پر فرج ہوگا اگرچہ حضرتؑ کو عمومی فرج حاصل نہیں ہوا ہوگا لیکن ان افراد کے لیے فرج ہوگا۔ در اصل انفسی فرج عمومی فرج کا مقدمہ بنے گا۔ جن ۳۱۳ افراد کے بارے میں وارد ہوا ہے در اصل یہ وہ لوگ ہیں جو عمومی فرج کا اعلان ہوتے ساتھ ہی امام سے ملحق ہو جائیں گے گویا ان کے لیے پہلے سے ہی فرج ہوگا۔ یہ عام لوگوں کی طرح زمانہ غیبت میں ہی زندگی گزار رہے ہونگے لیکن ان کے لیے انفرادی طور پر غیبت نہیں ہوگی بلکہ ان کو فرج حاصل ہوگی۔ روایت میں آیا ہے کہ یہ لوگ تیز رفتار بادلوں کی طرح امام سے ملحق ہو جائیں گے، یہ لوگ وہ ہونگے جو مرحلہ بدن سے عبور کر چکے ہونگے اور ان کی ارواح کا ان کے ابدان پر غلبہ ہوگا۔ اس لیے جس وقت اور جہاں کہیں پہنچنا چاہیں گے حاضر ہو جائیں گے۔ امام اور ماموم کے درمیان یہ عشق اس فاصلے کو تیزی سے ختم کر دے گا۔ جیسے ہی اذن حاصل ہوگا حرکت میں آ جائیں گے۔ جیسا کہ امیرالمومنینؑ متقین کی صفات بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

«وَ لَوْلاَ الاْجَلُ الَّذِی کَتَبَ اللّهُ عَلَیْهِمْ لَمْ تَسْتَقِرَّ أَرْوَاحُهُمْ فِی أَجْسَادِهِمْ طَرْفَهَ عَیْن شَوْقاً إِلَى الثَّوَابِ، وَ خَوْفاً مِنَ الْعِقَابِ».

اگر (زندگی کی مقررہ) مدت نہ ہوتی جو اللہ نےان کے لیے لکھ دی ہے تو ثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے جسموں میں چشم زدن کے لیے بھی نہ ٹھہرتیں۔ [4] شیخ رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۳۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے ان پرندوں کو ذبح کیا اور خدا کے حکم سے ان کو بلایا تو وہ زندہ ہوگئے اور تیز رفتاری سے حضرت کی طرف بڑھے۔ ان مردہ پرندوں کا زندہ ہونا اور پلٹنا فرع کا اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ زمانہ ظہور میں بھی یہ چند افراد جن کے لیے انفسی فرج حاصل ہوگی ایسے ہی حضرت کے ساتھ ملحق ہونگے جیسے وہ مردہ پرندے حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ملحق ہوۓ۔

فہم و ادراک کے مراتب

ایک اور نکتہ جو اس روایت سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ امام زمانؑ سے ارتباط کی اساس اس بنا پر ہے کہ امت کا فہم اور ادراک کس مرتبے پر ہے؟ جتنا امت اجتماعی طور پر ادراک اور فہم کے مراتب میں ترقی کرتی ہے اتنے ہی فرج کے مرتبے ان کو حاصل ہونگے۔ اگر انسان محسوسات کے دائرے تک محدود رہے، اس نے معرفت کا ابتدائی ترین مرتبہ حاصل کیا ہے۔ خیال اور حواس باطنیہ ادراک کا اگلا مرتبہ ہیں۔ ایک مرتبے میں انسان علم حصولی کی شکل میں فہم حاصل کرتا ہے۔ مثلا تعلیم حاصل کرنا یا مطالعات۔ اس کا آخری مرتبہ قلوب سے مشاہدہ کرنے کا ہے۔ ہر مرتبے کو فرج کا ایک مرحلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہے کہ امام کو ایسے مشاہدہ کیا گیا کہ جیسے حضورِ امام کا دور ہو، بہت سے افراد کو یہ شرف حاصل ہوا ہے۔ یہ مشاہدہ اکثر طور پر مرتبہ مثال میں حاصل ہوتا ہے لیکن وہ شخص جس کے لیے یہ مشاہدہ حاصل ہوا وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مرتبہ ظاہر پر ہے۔

تشرفِ امام زمانؑ کے نمونے

حضرت آیت اللہ بہجتؒ اکثر اوقات اس موضوع کو بیان کرتے معلوم ہوتا کہ یہ واقعات ان کے ساتھ پیش آۓ ہیں۔ فرماتے تھے کہ چند لوگ ایک جگہ سے گزر رہے تھے دوسری طرف سے ایک شخص ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ان چند افراد میں سے ایک شخص نے دل میں سوچا کہ یہ شخص جو آ رہا ہے وہ امام ہے یا نہیں؟ اس نے سوچا کہ دل ہی دل میں اس شخص کو سلام کرتا ہوں اگر جواب دیا تو معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ امام ہیں۔ کیونکہ امام تو باطن اور دل کے احوال سے واقف ہیں۔ جب وہ شخص قریب سے گزرا تو اس نے سلام کا جواب دیا۔ معلوم ہوا کہ خود حضرتؑ تھے۔ اس شخص نے بقیہ دوستوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا کہ اس گزرنے والے شخص نے کیا کہا؟ انہوں نے کہا کونسا شخص؟

وارد ہوا ہے ایک شخص نے سامرا میں آنکھوں سے معذور شخص سے پوچھا کہ امام کس دروازے سے خارج ہوۓ ہیں؟ اس نے کہا کہ فلان دروازے سے امام خارج ہوۓ ہیں۔ وہ ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن ابو ہارون مکفوف کی طرح کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ امام کہاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے ساتھ ہی تو کھڑے ہیں۔ حالانکہ ابو ہارون بھی آنکھوں سے معذور تھے۔

تشرف کی حقیقت

حضرت حجتؑ کو جن افراد نے بھی دیکھا اکثر طور پر یہ مشاہدہ نظام تمثلی میں تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے بھی ان کا مشاہدہ کیا ہے صرف وہی دیکھ پاۓ بقیہ ان کو نہیں دیکھ سکے۔ نوے فیصد سے زائد مشاہدات عالم مثال کے مرتبہ میں حاصل ہوۓ۔ عالم مثال سے مراد یہ نہیں کہ ان کو ذہنی خیال یا وہم ہوا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دیکھنے والے کے لیے امام عالم مثال میں نظر آۓ، لیکن بقیہ کے لیے یہ عالم نہیں تھا اور وہ نہ دیکھ سکے کیونکہ وہ سب عالم ابدان میں تھے۔ لیکن اس شخص نے امام کو دیکھا، حتی محسوس کیا اور ممکن ہے امام اس کو کوئی شے عطا کریں۔

نقل ہوا ہے کہ بعض افراد امام کے ساتھ ہر روز ارتباط میں ہیں اور ان کے ساتھ خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے ہیں بعد میں پورے عالم میں منتشر ہو جاتے ہیں۔ پس فرج کی اساس ہماری اجتماعی نگاہ پر منحصر ہے۔ اگر ہماری اجتماعی طور پر امام پر نگاہ تبدیل ہو جاۓ تو فرج ہو جاۓ گا۔ ممکن ہے یہ اجتماعی نگاہ کبھی علم حصولی سے حاصل ہو، ایسا نہیں کہ علم حصولی کی کوئی تاثیر نہیں بلکہ اس کی بھی تاثیر ہے۔ ۔ جیسا کہ روایت کے الفاظ ہیں۔ «صارت الغیبة عندهم بمنزلة المشاهدة»۔

اگر «آمنو بسواد علی بیاض» کے مرتبے پر ہوں جس میں انسان فقط ایمان لے آتا لیکن اسے کوئی شہودی فرج حاصل نہیں ہوا، یہ بھی تاثیر گذار ہے اسے علمِ حصولی کہتے ہیں۔ امام نے اپنے اصحاب کو فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھے ظاہری آنکھوں سے دیکھا اور ایمان لے آۓ اور یہ لوگ ایک کاغذ کی لکھائی پر ایمان لے آئیں گے۔ ان کے عقول اس رُشد کو پہنچے ہوۓ ہونگے کہ ہم پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ ان لوگوں کی مانند ہونگے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی میں جہاد کیا۔ یہ روایت اس مطلب کو بیان کرتی ہے کہ ہم لوگ بھی اس عظیم منزلت پر پہنچ سکتے ہیں۔ اگر ہمارا علم حصولی طہارت کے ہمراہ ہو تو ہمیں عالی مراتب تک پہنچا سکتا ہے۔ لیکن اگر علم طہارت کے ہمراہ نہ ہو تو یہی علم ملکوت اسفل میں پہنچانے کا سبب بنے گا۔ ہاں ایسا ممکن ہے کہ کوئی سال ہا سال طلب کرے اور اسے عطا نہ ہو، یا ممکن ہے اسے لحظہ مرگ عطا ہو۔ مرحوم آیت اللہ حسن زادہ آملی فرماتے تھے کہ خدا کے معاملے میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ممکن ہے کسی نے بیس یا تیس سال زحمت کی ہو اسے آخرِ عمر میں عطا ہو، البتہ جسے دیر سے عطا ہوتا ہے اس میں بقاء ہے۔ کیونکہ اگر فورا ہی عطا ہو جاۓ تو عین ممکن ہے کہ وہ اسے انحراف کی طرف لے جاۓ۔

غیبت امامؑ میں انبیاء کے سنن

گزشتہ امتوں میں جتنے انبیاء کو غیبت حاصل ہوئی اور اس غیبت کے نتیجے میں جو کمال امت کو حاصل ہوا، وہ سب غیبتیں اور کمال امامؑ کی غیبت میں جمع ہونگی۔ حضرت موسیؑ کو چند بار غیبت حاصل ہوئی۔ ایک مرتبہِ غیبت وہ تھا کہ جب حضرت موسیؑ موعظہ کر رہے تھے لیکن لوگ سختی میں تھے اور موسیؑ کی شناخت نہیں رکھتے تھے۔ جب اس امت کو کہا گیا کہ چالیس سال بعد تمہارا نبی ظہور کرے گا تو انہوں نے«الحمد للہ»کہا۔ اس چالیس سال کو تیس سال میں بدل دیا گیا۔ پھر انہوں نے  کہا «لا یأتی بالخیر الا اللہ» اس مدت کو بیس سال کر دیا گیا۔ جب قوم نے کہا «لا نعمۃ الا من اللہ» دس سال، اور جب «لا یدفع الشر الا اللہ» کہا تو فرمایا وہ دیکھو جو سامنے سے آ رہا ہے وہ موسیؑ کلیم اللہ ہیں۔ دوسری مرتبہ جب حضرت موسیؑ کو غیبت حاصل ہوئی یہ وہ دور ہے جب آپ دس سال کے لیے حضرت شعیبؑ کے پاس مدین میں ٹھہرے۔ اس دورانیے میں بھی قوم بنی اسرائیل سے حضرت موسیؑ غائب تھے اور ان کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں؟ اور جب واپس آۓ تو ایک اور ظہور حضرت موسیؑ کو حاصل ہوا۔ اس طرح سے دیگر انبیاء بھی کئی مرتبہ غیبت میں گئے اور ظہور فرمایا، ہر غیبت کے دور نے امت کو ایک کمال تک پہنچایا۔ حتی حضرت موسیؑ جب میقات پر تیس یا چالیس دن کے لیے تشریف لے گئے اس غیبت کی قلیل مدت نے بھی امت کو گوسالہ پرستی میں مبتلا کر دیا۔ اور یہ آزمائش تھی جو امت موسیؑ سے لی گئی۔ بہت کم لوگ دین موسیؑ پر قائم رہے باقی سارے گوسالہ پرست ہو گئے۔

قوم بنی اسرائیل کی توبہ

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ گوسالہ پرستی میں قوم مبتلا ہوئی تو اللہ تعالی نے حکم دیا:

«فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ».[5]بقرہ: ۵۴۔حکم ہوا کہ توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ تاریخ بشریت میں اس طرح کا حکم پہلی دفعہ اللہ تعالی نے جاری کیا۔ ان کے لیے اللہ تعالی نے زبانی توبہ قرار نہ دی کہ وہ استغفر اللہ کہیں اور معاف کر دیے جائیں بلکہ عملی توبہ کا حکم دیا۔ معلوم نہیں تھا کہ کون کس کو قتل کرے گا؟ باپ بیٹے کو یا بھائی بھائی کو؟ وارد ہوا ہے کہ دس ہزار کے قریب افراد قتل ہوۓ خطاب ہوا کہ کافی ہے توبہ قبول ہو گئی۔ در اصل قوم موسیؑ نے ظاہر پر توقف کیا اور بدن کے مرحلے سے عبور نہ کر سکے، اور جب انسان پر اس کے روح کی بجاۓ بدن کا غلبہ ہو جاۓ تو ان کو یہی سزا دی جاتی ہے کہ خود ہی اپنا قتل کریں۔ یہ بدن خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا خون بہاۓ۔ یہ لوگ حضرت موسیؑ کے بدن کے ساتھ ارتباط میں تھے اس لیے جب تک خود شخصیت موسیؑ ان کے درمیان تھی گمراہ نہیں ہوۓ لیکن جیسے ہی حضرت موسیؑ ان کے درمیان سے غائب ہوۓ یہ گمراہ ہو گئے، ان کا حضرت موسیؑ سے قلبی ارتباط نہیں تھا صرف بدنی ارتباط تھا۔روایات میں وارد ہے کہ جو واقعات بنی اسرائیل کے ساتھ ہوۓ ہیں وہ سب امت ختمی کے ساتھ تکرار ہونگے۔

ایک روایت میں وارد ہوا ہے:

«عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع یَقُولُ‏ إِنَّ سُنَنَ الْأَنْبِیَاءِ ع بِمَا وَقَعَ بِهِمْ مِنَ الْغَیْبَاتِ حَادِثَةٌ فِی الْقَائِمِ مِنَّا أَهْلَ الْبَیْتِ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ وَ الْقُذَّةِ بِالْقُذَّةِ قَالَ أَبُو بَصِیرٍ فَقُلْتُ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ مَنِ الْقَائِمُ مِنْکُمْ أَهْلَ الْبَیْتِ فَقَالَ یَا أَبَا بَصِیرٍ هُوَ الْخَامِسُ‏ مِنْ‏ وُلْدِ ابْنِی‏ مُوسَى‏ ذَلِکَ ابْنُ سَیِّدَةِ الْإِمَاءِ یَغِیبُ غَیْبَةً یَرْتَابُ فِیهَا الْمُبْطِلُونَ.» [6] صدوق، مجمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۳۴۵۔

ابو بصیر نے امام صادقؑ سے روایت نقل کی جس میں امام نے فرمایا تھا کہ تمام گزشتہ اقوام کی غیبتوں کے حادثات اور انبیاء کی سنتیں ہمارے قائم کی غیبت میں جمع ہو جائیں گی اور ان کی آپس میں اتنی شباہت ہوگی جیسے جوتے کے دو جوڑوں میں شباہت ہوتی ہے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے تمام انبیاء کرامؑ کے سنن اور ان کی وہ سب چیزیں جو انہوں نے وراثت کے طور پر چھوڑی ہیں، وہ امام زمانؑ کے پاس ہیں۔ وہ اشیاء وہی کام کریں گی جو اس نبی کے ہاتھ میں کام کرتی تھیں۔ مثلا عصاء موسیؑ امام کے پاس ہوگا اور باقی انبیاء کے مواریث یکجا اور ایک وقت میں امام کے پاس ہونگے، خصوصا سنتِ غیبت کا ذکر ہوا ہے کہ یہ سنت امام زمانؑ کے وجود میں تکرار ہوگی۔

شک میں مبتلا ہونے والا

روایت میں آیا ہے کہ بہت سے افراد امام کے وجود کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو نا صرف خود باطل پر ہونگے بلکہ باطل کو ترویج دینے والے ہونگے۔ اصطلاح میں اس کو ’’مبطل‘‘ کہتے ہیں۔ مبطل وہ انسان ہے جو باطل بولتا ہے، سند کے بغیر کلام کرتا ہے، اپنی ذوق کے مطابق بات کرتا ہے، خود کو امام کی طرف نسبت دیتا ہے لیکن امام کی اس سے کوئی نسبت نہیں۔ یہ لوگ پہلے شک میں پڑیں گے اور بعد میں جدا ہو جائیں گے۔ غیبت کے دور کا ایک اہم ترین ہدف یہی ہے، اس دور میں ’’سنت محوضت‘‘ یعنی خالص سازی کی سنت شدت اختیار کر جاۓ گی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَلِیُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِینَ».

نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔ [7] آل عمران: ۱۴۱۔

محوضت سے مراد خالص سازی ہے۔ چھانٹنا یا ناخالص شے کو خالص شے سے جدا کر دینا محوضت کہلاتا ہے۔ امام کے وجود کے بارے میں شک کرنے والے افراد حقیقی مومنین سے جدا ہو جائیں گے۔

امت کا ارتقاء

غیبت ایک لحظے کے لیے بھی امت کے لیے گمراہی کا باعث نہ بنے گی۔ ہم نے روایت میں پڑھا کہ امام فرماتے ہیں:

«و قد علم الله تبارک و تعالی ان اولیائه لم یرتابون و لو علم انهم یرتابون ما غیّب حجّته عنهم طرفة عین». [8]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۳۳۔

اگر خدا کو علم ہوتا کہ غیبت کی وجہ سے کوئی امت کا فرد شک میں پڑ جاۓ گا تو کبھی بھی امام کو غائب نہ کرتا۔ غیبت اس لیے نہیں ہے کہ کسی کے ایمان کو خطرے میں ڈال دیں اور وہ شک میں پڑ کر ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھےاور روز قیامت اللہ تعالی کے آگے اعتراض کرے کہ اس نے مجھے حجت کے بغیر تنہا چھوڑ دیا۔ غیبت شک کا باعث نہیں بن سکتی بلکہ صرف وہ لوگ شک میں پڑیں گے جو «فی قلوبهم مرض» ہیں۔ جو پہلے سے ہی مبطل تھے، ابطال اور باطل گرائی میں مزید گرتے چلے جائیں گے۔ وہ حقیقی شیعوں سے بہت تیزی سے جدا ہو جائیں گے۔ لیکن کیا اولیاء الہی اور مومنین بھی غیبت کی وجہ سے شک میں پڑ جائیں گے؟ جی نہیں! یہ لوگ غیبت کی وجہ سے سرگردان نہیں ہونگے، اگر کوئی شخص زمانہ غیبت میں حیرت یا سرگردانی کا شکار ہے اس کی وجہ غیبت کو قرار نہ دے بلکہ اپنے اندر کےنقص کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔

Views: 114

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زمانہ غیبت میں امت کا معنوی رُشد درس۲
اگلا مقالہ: غیبت کا اللہ تعالی کا ایک راز