loading

{ اصحاب امام علیؑ }

معقل بن قیس ریاحی

تحریر : سید محمد حسن رضوی

01/07/2023

معقل بن قیس ریاحی کا شمار امام علیؑ کے عظیم ترین حکام اور سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ امام علیؑ نے اپنے دور حکومت میں معقل بن قیس سے مختلف کی خدمات لیں اور معقل نے بھی انتہائی جانفشانی کے ساتھ اپنے آپ کو امام علیؑ کے توقعات کے مطابق سرخرو کیا۔

فہرست مقالہ

مختصر تعارف:

شیخ طوسی نے اپنی رجال میں ان کا نام ’’معقد بن قیس‘‘ لکھا ہے اور انہیں امام علیؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ محقق مامقانی نے ذکر کیا ہے کہ معقد بن قیس وہی معقل بن قیس ہیں۔ آپ کا ’’ریاحی اور تمیمی‘‘ کی نسبت سے معروف ہیں۔ آپ کا شجرہ اس طرح سے وارد ہوا ہے: معقل بن قيس الرّياحى التّميمى من ولد رياح بن يربوع بن حنظلة بن مالك بن زيد مناة بن تميم۔ [1]مامقانی، عبد اللہ ، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج ۳، ص ۲۲۹، رقم: ۱۱۹۸۲۔معقل کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ کے با شرف اور شجاع و بہادر مردوں میں شمار ہوتے تھے۔ امام علیؑ نے آپ کو قبیلہ بنی ناجیہ کی بغاوت اور خرّیت بن راشد کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ جنگ صفین کے موقع پر امام علیؑ نے مدائن سے تین ہزار کا لشکر معقل بن قیس ریاحی ربوعی کی قیادت میں روانہ کیا [2]نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۱۴۸۔ امام علیؑ نے  معقل کو ایک مکتوب لکھا جس کا تذکرہ نہج البلاغہ میں ان الفاظ میں وارد ہوا ہے:{ اتَّقِ اللَّهَ الَّذِي لَا بُدَّ لَكَ مِنْ لِقَائِهِ وَ لَا مُنْتَهَى لَكَ دُونَهُ وَ لَا تُقَاتِلَنَّ إِلَّا مَنْ قَاتَلَكَ وَ سِرِ الْبَرْدَيْنِ وَ غَوِّرْ بِالنَّاسِ وَ رَفِّهْ فِي السَّيْرِ وَ لَا تَسِرْ أَوَّلَ اللَّيْلِ فَإِنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ سَكَناً وَ قَدَّرَهُ مُقَاماً لَا ظَعْناً فَأَرِحْ فِيهِ بَدَنَكَ وَ رَوِّحْ ظَهْرَكَ فَإِذَا وَقَفْتَ حِينَ يَنْبَطِحُ السَّحَرُ أَوْ حِينَ يَنْفَجِرُ الْفَجْرُ فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ فَإِذَا لَقِيتَ الْعَدُوَّ فَقِفْ مِنْ أَصْحَابِكَ وَسَطاً وَ لَا تَدْنُ مِنَ الْقَوْمِ دُنُوَّ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يُنْشِبَ الْحَرْبَ وَ لَا تَبَاعَدْ عَنْهُمْ تَبَاعُدَ مَنْ يَهَابُ الْبَأْسَ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي وَ لَا يَحْمِلَنَّكُمُ شَنَآنُهُمْ عَلَى قِتَالِهِمْ قَبْلَ دُعَائِهِمْ وَ الْإِعْذَارِ إِلَيْهِم؛ اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کے روبرو پیش ہونا لازمی ہے اور جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی اور آخری منزل نہیں۔ جو تم سے جنگ کرے اس کے سوا کسی سے جنگ نہ کرنا، اور صبح وشام کے ٹھنڈے وقت سفر کرنا اور دوپہر کے وقت لوگوں کو سستانے اور آرام کر نے کا موقع دینا۔ آہستہ چلنا اور شروع رات میں سفر نہ کرنا، کیونکہ اللہ نے رات سکون کیلئے بنائی ہے اور اسے قیام کرنے کیلئے رکھا ہے، نہ سفر و راہ پیمائی کیلئے۔ اس میں اپنے بدن اور اپنی سواری کو آرام پہنچاؤ۔ اور جب جان لو کہ سپیدہ سحر پھیلنے اور پو پھوٹنے لگی ہے تو اللہ کی برکت پر چل کھڑے ہونا۔جب دشمن کا سامنا ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان ٹھہرو۔ اور دیکھو!دشمن کے اتنے قریب نہ پہنچ جاؤ کہ جیسے کوئی جنگ چھیڑ نا ہی چاہتا ہے اور نہ اتنے دور ہٹ کر رہو جیسے کوئی لڑائی سے خوفزدہ ہو، اس وقت تک کہ جب تک میرا حکم تم تک پہنچے۔ اور دیکھو! ایسا نہ ہو کہ ان کی عداوت تمہیں اس پر آمادہ کردے کہ تم حق کی دعوت دینے اور ان پر حجت تمام کرنے سے پہلے ان سے جنگ کرنے لگو } [3]سید رضی، نہج البلاغہ ، مکتوب ۱۲، ص ۳۷۲۔

۔

منابع:

منابع:
1 مامقانی، عبد اللہ ، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج ۳، ص ۲۲۹، رقم: ۱۱۹۸۲۔
2 نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۱۴۸۔
3 سید رضی، نہج البلاغہ ، مکتوب ۱۲، ص ۳۷۲۔
Views: 46

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تعادل و تراجیح
اگلا مقالہ: تفکر قرآن و حدیث کی روشنی