loading

خاتمہِ رسائل شیخ انصاری کے نوٹس }

تعادل و تراجیح

تحریر: سید محمد حسن رضوی

شیخ انصاریؒ نے فرائد الاصول کے خاتمہ میں تعادل و تراجیح کی بحث کو مطرح کیا ہے جس میں تعارض اور اس کی مختلف صورتوں اور تراجیح کے اصول و ضوابط کو درج کیا ہے۔ اس باب کا شمار ان اہم قواعد و ضوابط میں ہوتا ہے جو آیات و روایات میں نظری پہلو کے ساتھ ساتھ عملی اور تطبیقی جہت بھی رکھتے ہیں۔ آغاز میں شیخ تعارض کے لغوی و اصطلاحی معانی ذکر کیے ہیں اور اس کے بعد ورود اور حکومت کی اہم ترین اصطلاحات سے بحث کی ہے۔ ذیل میں ہم اسی ترتیب سے ان مباحث کا جائزہ لیتے ہیں۔

وهو لغة من العرض بمعنى الاظهار…

دو دلیلوں کے مدلول میں باہمی طور پر تعارض اور ٹکراؤ ہو جس کی وجہ دو دلیلوں کا آپس میں تضاد رکھنا ہے یا دونوں مدلول متناقض ہیں، مثلاً ایک دلیل کہے کہ نماز پڑھنا واجب ہے اور دوسری دلیل کہے کہ نماز پڑھنا حرام ہے۔ واجب اور حرام آپس میں متضاد ہیں۔ تناقض کی مثال ہم اس طرح سے دے سکتے ہیں کہ ایک دلیل کہے : نماز پڑھنا واجب ہے اور دوسری دلیل کہے کہ نماز پڑھنا واجب نہیں ہے۔

تعارض کی شرط دو دلیلوں کے موضوع کا ایک ہونا ہے۔ وحدتِ موضوع اہم شرط ہے ، اگر یہ شرط مہیا نہ ہو تو تعارض متحقق نہیں ہو گا۔ لہٰذا اگر دو دلیلیوں کا موضوع ایک نہ ہو تو ان دلیلوں کے درمیان تعارض نہیں کہلائے گا، مثلاً   ایک دلیل کسی موضوع سے اور دوسری دلیل کسی دوسرے موضوع سے تعلق رکھتی ہےتو ایسی صورت میں تعارض نہیں کہلائے گا۔  ۔

اصول عملیہ کی انواع:

علم فقہ میں اول سے آخر تک چار اصولِ عملیہ استعمال ہوتے ہیں: ۱۔ براءت، ۲۔ احتیاط، ۳۔ استصحاب، ۴۔ تخییر۔ ان میں سے پہلے عقلی اور شرعی میں تقسیم ہوتے ہیں جبکہ استصحاب فقط شرعی ہوتا ہے اور ’’تخییر‘‘ ہمیشہ عقلی ہوتی ہے۔ان اقسام کی تقسیم درج ذیل ہے:
۱۔ براءت یا تو شرعی یا عقلی۔ قبح العقاب بلا بیان براءت عقلی سے عبارت ہے اور ’’رفع ما لا یعلمون ‘‘ براءت شرعی کہلاتا ہے۔
۲۔ احتیاط بھی یا شرعی یا عقلی: جس عقاب و عذاب کا احتمال ہو اس کو دور کرنے کا واجب ہونا ’’احتیاطِ عقلی‘‘ کہلاتا ہے جبکہ ’’احتط لدينك أخوك دينك‘‘ احتیاطِ شرعی کہلاتا ہے۔
۳۔ استصحاب فقط شرعی ہوتا ہے ، جیساکہ ضابطہ وارد ہوا ہے کہ ’’لا تنقص اليقين بالشك‘‘۔
۴۔ تخییر فقط عقلی ہوتی ہے شرعی نہیں، مثلاً دو محذورین کے درمیان ایک امر کا دائر ہونا۔ اب معلوم نہیں ہے کہ فلاں عمل واجب ہے کہ حتمی طور پر انجام دوں یا حرام ہے کہ ترک کروں؟! عقل کہتی ہے کہ تمہیں اختیار ہے جس کو چاہو انجام دے سکتے ہو۔

بارہ  صورتیں اور حکومت و وُرود کے موارد:

تعارض و تراجیح کے باب میں دو دلیلوں کے مدلول کا ٹکراؤ اور تعارض مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہاں پر عملی طور پر ٹکراؤ کی بارہ صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کیونکہ علم فقہ میں سب سے پہلے ادلہ اربعہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جوکہ یا تو علم و یقین کا فائدہ دے گی جیسے خبر متواتر، نصِ آیت، خبر واحد محفوف بالقرینۃ، اجماع محصل وغیرہ ۔  پس یہ دو صورتیں ہوں گئیں۔ اگر یہ ادلہ میسر نہ ہوں تو اصول عملیہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ سطور میں اصولِ عملیہ کی چھ صورتوں کی طرف اشارہ ہوا کہ براءت کی دو صورتیں، احتیاط کی بھی دو صورتیں، یہ مل کر چار صورتین بن جاتی ہے جن میں استصحاب اور تخییر کو اضافہ کریں تو کل چھ صورتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ اصول عملیہ کی ان چھ صورتوں کو اگر ادلہ اربعہ کی دو صورتوں کے مقابلے اور ٹکراؤ میں رکھیں تو ہمارے پاس ۱۲ صورتیں آ جاتی ہیں۔ دلیلِ محرز کا اصول عملیہ کے ساتھ تعارض کو ملاحظہ کیا جائے تو درج ذیل موارد ہمارے سامنے آ جاتے ہیں:

الف: دلیلِ علمی کے ساتھ اصول عملیہ کا تعارض:

اگر اصولِ عملیہ کی چھ صورتوں کے ساتھ دلیلِ علمی کا تعارض ہو تو دلیلِ علمی ’’وارد‘‘ اور اصول عملیہ کی یہ تمام صورتیں ’’مورُود‘‘ کہلائیں گی۔ کیونکہ جب بھی دلیلِ علمی مہیا ہو تو وہ اصولِ عملیہ کے موضوع کو ختم کر دیتا ہے ۔ اصول عملیہ کا موضوع ’’عملية الشيء المشكوك حكمه‘‘ ہے۔یعنی جس حکمِ شرعی کا حکم معلوم نہ ہو اس وقت مکلَّف کے عمل کا تعین کرنے کے لیے اصول عملیہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اگر حکم شرعی موجود ہے تو پھر وہی مکلف کا وظیفہ قرار پائے گا۔ پس اصول عملیہ کی کسی بھی صورت کا ٹکراؤ اگر دلیلِ علمی سے ہو تو یہ دلیلِ علمی ہر اصولِ عملی پر ’’وارد‘‘ ہو گی اور اس کے موضوع پر برطرف کر دے گی جس کی وجہ سے اصول عملیہ تمسک نہیں کیا جا سکے گا۔ جب علم آتا ہے تو عدم علم کا مورد ختم ہو جاتا ہے، مثلاً اگر خبرِ متواتر آ کر بتائے کہ شراب حرام ہے تو اس باب میں شک ختم ہو جائے گا اور اصول عملیہ کی طرف رجوع کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اس کے مقابلے میں اس مثال پر دقت کریں کہ اگر روزِ جمعہ شک ہو کہ نماز ظہر واجب ہے یا نمازِ جمعہ تو یہاں علم اجمالی کی بدولت تکلیفِ وجوب کا تعین ہے لیکن نہیں معلوم وہ نمازِ ظہر ہے یا نماز جمعہ؟ ایسی صورت میں اصول عملیہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے احتیاط سے تمسک کریں گے اور ہر دو کو بجا لائیں گے تاکہ مکلف کو یقین ہو جائے کہ اس نے امتثالِ امر کیا ہے اور وہ اپنی شرعی ذمہ داری سے بَری ہو گیا ہے۔ اگر مکلف کو علم ہو جائے کہ مثلاً نماز جمعہ واجب ہے تو یہاں اصولِ عملیہ کی طرف رجوع کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اسی طرح ایک اور مثال ہم لے لیتے ہیں کہ اگر شک ہو کہ پانی جو نجاست کے ملنے سے متغیر ہو گیا تھا اب زوالِ تغیر ہو چکا ہے تو کیا پانی پاک ہے یا نجس؟ یہاں شک کا مورد ہے اس لیے اصول عملیہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے استصحاب سے تمسک کریں گے اور پانی کو نجس قرار دیں گے۔ اسی طرح اگر کافر کے بارے میں شک ہو کہ کافر کو دفن کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ یہاں بھی شک کا مورد پایا جاتا ہے اس لیے اصول عملیہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے تخییر کے مورد سے استفادہ کریں گے اور دفن کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بطور نتیجہ اخذ کریں گے۔ لیکن اگر ایسی صورت میں خبر متواتر آ کر کہے یا خبر واحد محفوف بالقرینۃ آ کر کہے کہ دفن کرنا واجب ہے تو یہاں شک کی گنجائش باقی نہیں رہی اس لیے اصول عملیہ سے استفادہ نہیں کیا جائے گا ۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ دلیل علمی کا اگر اصول عملیہ کی چھ صورتوں  کے ساتھ ٹکراؤ ہو جائے تو دلیل علمی ’’وارد‘‘ کہلائے گی اور اس کو مقدم کیا جائے گا۔

ب: اصول عملیہ کی دلیل ظنی سے مخالفت:

اگر دلیل ظنی مثلاً خبرِ ثقہ کا اصول عملیہ کی چھ صورتوں سے تعارض ہو تو ہمارے پاس دو مورد سامنے آتے ہیں جن میں سے اصول عملیہ کی تین صورتیں ’’وُرود‘‘ اور بقیہ تین صورتیں ’’حکومت‘‘ کہلائیں گی۔ پس ان چھ صورتوں سے تعارض کو دو مورد میں تقسیم کر سکتے ہیں:
موردِ وُرود: اگر  دلیل ظنی جیسے خبرِ ثقہ کا تعارض براءتِ عقلی، احتیاطِ عقلی اور تخییر سے ہو تو دلیلِ ظنی ’’وارد‘‘ اور یہ تین صورتیں ’’وُرود‘‘ کہلائیں گی۔
موردِ حکومت: اگر دلیلِ ظنی جیسے خبر ثقہ کا تعارض براءت شرعی، احتیاط شرعی اور استصحاب سے ہو تو دلیل ظنی ’’حاکم‘‘ اور تین صورتیں محکوم کہلائیں گی۔پس دلیل  ظنی اصولِ شرعیہ کے مقابلے میں ’’حاکم‘‘ ہے اور اصول عقلیہ کے مقابلے میں ’’وارد‘‘ ہے۔اصولِ عقلیہ یعنی براءت عقلیہ اور احتیاطِ عقلی میں وُرود ان کے موضوع کو ختم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اصل سے استفادہ نہیں کر سکتے ، مثلاً براءت عقلی ’’قبح العقاب بلا بیان‘‘ ہے ، اب اگر کوئی دلیل ظنی جیسے خبر ثقہ آ کر شراب کو حرام قرار دیتی ہے تو یہاں خبر ثقہ وارد کہلائے گی جوکہ براءتِ عقلی کے موضوع کو نابود کر رہی ہے اور براءت عقلی سے تمسک کرنے میں مانع بن رہی ہے۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ اصول سے متعارض ہونے والی دلیلیں نو موارد میں وارد اور تین موارد میں حاکم ہیں۔اب ہم اگلے مرحلہ گفتگو میں داخل ہوتے ہیں۔ 

Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اصحاب اجماع
اگلا مقالہ: معقل بن قیس ریاحی