loading

{فقہی مباحث}

مصدر اور اسم مصدر میں فرق

تحریر: سید محمد حسن رضوی
علم فقہ کے مختلف ابواب الفاظ کے معانی لیتے ہوئے مصدر اور اسم مصدر میں فرق کو بیان کیا جاتا ہے۔ فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ مصدر ’’حدث اور فعل کے انجام پانے‘‘ پر دلالت کرتا ہے جبکہ اس فعل کی انجام دہی کے بعد حاصل ہونے وال کیفیت ، حالت اور صورت کو اسم مصدر کہا جاتا ہے، مثلاً وَضُوء مصدر ہے ، جب وضو متحقق ہو جائے تو اس کو ’’وُضُوء‘‘ کہا جائے جوکہ اسم مصدر ہے، اسی طرح ’’غَسل‘‘ مصدر ہے اور جب دھونے کا عمل انجام پا جائے تو اس کو ’’غُسل‘‘ کہا جائے گا جوکہ اسم مصدر ہے، اسی طرح طَهَارة  ’’مصدر‘‘ اور طُهْر اسم مصدر ہے۔ذیل میں مصدر اور اسم مصدر کے درمیان فرق کے چند ضابطے بیان کیے جاتے ہیں:

ابن ہشام نحوی کی نظر میں:

ابن ہشام نے اوضح المسالک فی شرح الفیۃ ابن مالک میں تحریر کیا ہے کہ اگر ایک اسم حدَث یعنی فعل کے رونما ہونے پر دلالت کرے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یا ت عَلَم  ہو، جیسے فَجَار، حَماد جوکہ فجرۃ اور محمدۃ سے عَلَم ہیں، یا مفاعلہ کے علاوہ پر میم زائدہ داخل ہو، جیسے مَضرب، مَقتل،یا اسم اپنے فعلِ ثلاثی سے تجاوز کر جائےجبکہ وہ اسمِ حدث ثلاثی کے وزن پر ہو، جیسے غسل اور وضوء ہے، مثلا آپ کہتے ہیں: اِغتَسَل غُسلًا، تَوَضَّأَ وُضُوءا۔ اس مثال میں غُسل ’’قُرب‘‘ اور وُضوء ’’دُخُول‘‘ کے وزن پر آ رہا ہے ، ان تینوں صورتوں میں حدَث پر دلالت کرنے والا اسم ’’اسم مصدر‘‘ کہلائے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو حدَث پر دلالت کرنے والا اسم فقط ’’مصدر‘‘ کہلائے گا۔ [1]ابن ہشام، جمال الدین، اوضح المسالک فی شرح الفیۃ ابن مالک، ج ۳، ص ۱۷۰۔

جمال الدین خوانساری کی تحقیق

ازہری نے ذکر کیا ہے کہ مصدر بنفسہ خود حدَث پر دلالت کرتا ہے جبکہ ’’اسم مصدر‘‘ مصدر کے توسط سے حدَث پر دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا مصدر کا مدلول معنی ہے جبکہ اسم مصدر کا مدلول ’’مصدر کا لفظ ‘‘ ہے۔ [2]جمال خوانساری، محمد بن حسین،التعلیقات علی الروضۃ البہیۃ، ص ۸۔

محمد کلانتر کا تعلیقہ:

شرح لمعہ پر معروف تعلیقہ لکھنے والے مصنف ’’محمد کلانتر‘‘ نے اپنے تعلیقہ میں مصدر اور اسم مصدر میں فرق کرنے کے لیے پانچ امور ذکر کیے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱: وہ اسم جو فقط حدَث پر دلالت کرتا ہے مصدر کہلاتا ہے اگرچے وہ اسم عَلَم    ہو یا اس اسم کی ابتداء میمِ زائد سے ہو رہی ہوجوکہ مفاعلہ کے وزن پر نہ آتا ہو، جیسے  مَضرَب۔
۲: مصدر بنفسہ حدَث پر دلالت کرتا ہے جبکہ اسم مصدر ’’مصدر کے واسطے‘‘ سے حدَث پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ مصدر کا مدلول معنی ہے جبکہ اسم مصدر کا مدلول خود ’’لفظِ مصدر‘‘ ہے۔
۳: مصدر حدَث پر دلالت کرتا ہے جبکہ اسم مصدر حدَث سے حاصل ہونے والی ہیئت و صورت پر دلالت کرتا ہے۔
۴: اسم مصدر وہ ہوتا ہے جو اپنے فعل کے مصدر کے اوزان میں سے کسی وزن پر نہ آئے لیکن اس کے باوجود مصدر کا معنی دے، جیساکہ اسماءِ افعال میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسماء افعال اپنی فعل کے معانی پر دلالت کرتے ہیں جبکہ افعال کے اوزان میں سے کسی وزن پر نہیں اترے۔
۵: مصدر کو ایک شیء کے فعل کی انجام دہی  اور اس فعل کے اثرات کے لیے وضع کیا گیا ہے جبکہ اسم مصدر اس شیء کی اصل کے لیے وضع کیا گیا ہے ، مثلا کلمہِ اغتسال کو تدریجی افعال یعنی سر اور گردن کا دھونا اور دایاں اور بایاں حصہِ بدن دھونے کے لیے وضع کیا گیا ہے جبکہ غُسل ان تمام افعال کے مجموعے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔[3]کلانتر، محمد، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، ج ۱، ص ۲۴۵۔
Views: 1263

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: طہارت کے لغوی معنی
اگلا مقالہ: حدث اور خبث سے طہارت