loading

{فقہی مباحث}

حدَث اور خبَث سے طہارت

تحریر: سید محمد حسن رضوی

اسلامی فقہ میں نجاسات سے پاک و طاہر ہونے کے احکام تفصیل کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ دین اسلام نے جہاں باطنی طہارت کے حاصل کرنے کا خصوصی حکم دیا ہےوہاں ظاہری نجاسات سے اجتناب اور اس نوع کی طہارت کے حصول کی بھی تاکید کی ہے۔ طہارت نجاست کے مقابلے میں ہے۔  دین اسلام میں ظاہری طہارت کو علم فقہ میں قابل بحث قرار دیا جاتا ہے اور باطنی طہارت کو علم اخلاق میں موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے۔

فقہی طہارت سے مراد:

علم فقہ میں ظاہری طہارت کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر انسان ظاہری طہارت حاصل نہ کرے تو وہ باطنی طہارت کے مرتبہ کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ عبادات اور پاک  و صاف زندگی کے لیے ظاہری طہارت ضروری ہے۔  مشہور فقہاء نے طہارت کے لغوی معنی اور شرعی معنی میں فرق کرتے ہیں۔ لغت میں اگرچے طہارت کا معنی نظافت ، پاکیزگی اور نجاست کا زائل کرنا ہے[1]ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ج ۱، ص ۵۶۔  لیکن انہوں نے شرعی طہارت سے مراد وضو، غسل اور تیمم مراد لیا ہے۔ فقہاءِ مشہور نے وضو، غسل اور تیمم پر شرعی معنیِ طہارت کا اطلاق کرنے کے لیے طہارت کی تعریف ذکر کی ہے۔ شہید اول نے طہارتِ شرعی کو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ’’طَہور‘‘ کو نیت کی شرط کے ساتھ استعمال کرنا طہارت کہلاتا ہے۔ [2]شہید اول، محمد بن جمال الدین، اللمعۃ الدمشقیۃ، ص ۱۳۔  شرعی معنی کو ایک اور اسلوب میں اس طرح بیان کیاہےکہ وہ جس کے ذریعے نماز پڑھنا مباح قرار پائے طہارت کہلاتا ہےجیساکہ شیخ طوسی نے النہایۃ میں ذکر کیا ہے۔ [3]طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ، ص ۱۔  شیخ طوسی نے جو معیار ذکر کیا ہے اسی کو اکثر فقہاء کرام نے اختیار کیا ہے۔فقہاء کرام نے طہارتِ شرعی کی منطقی ضوابط کے مطابق تعریف کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے فقہی کتب میں اشکالات و جواب پر مشتمل ایک طویل بحث سامنے آتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک امرِ اعتباری کی حقیقی تعریف ممکن نہیں ہے۔ شہید اول نے غایۃ المراد میں ان متعدد تعاریف اور ان پر ہونے والے اشکالات کو نقل کرنے کے بعد جواب دیا ہے۔ صاحب المفتاح کا کہنا ہے کہ ان متعدد تعاریف اور اشکال جواب کو ذکر کرنا بے جا طولانیت کا باعث ہے اور کسی قابل ذکر فائدہ سے عاری ہے اس لیے اس سے گریز کرنا بہتر ہے۔ [4]حسینی عاملی، سید جواد، مفتاح الکرامۃ، ج ۱، ص ۲۲۔ نتیجہ کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم فقہ میں طہارتِ شرعی سے مراد وضو، غسل اور تیمم ہے۔نجاسات کو حدث اور خبَث میں تقسیم کیا جاتا ہے تو اس معنی کی طہارت حدث کو دور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اگر حدثِ اصغر ہو تو وہ وضو سے برطرف ہو جاتی ہے اور اگر حدث اکبر ہو تو اس کے لیے غسل کرنا لازم ہے۔ جبکہ تیمم ان دونوں کے بدلے میں اضطراری حالت میں کیا جاتا ہے۔

۲۔ مسائل شرعیہ میں بعض اوقات طہارت اپنے عمومی معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ طہارت کے عمومی معنی سے مراد یہ ہے کہ نجاست جس سے زائل ہو اور نظافت و پاکیزگی حاصل ہو جائے وہ طہارت کہلاتا ہے ، چاہے اس سے نماز پڑھنا مباح ہو یا نہ ہو۔ [5]شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج ۱، ص ۲۴۷۔ خبَث کو اس نوعِ طہارت سے رفع کیا جاتا ہے۔ اس بناء پر بعض اوقات کہہ دیا جاتا ہےکہ خبَث ظاہری نجاست اور حدَث غیر ظاہری نجاست ہے۔

خبث کے معنی

فقہی اصطلاح کے مطابق ظاہری نجاست کو خبث کہا جاتا ہے۔ اس نوعِ نجاست سے پاک اور طاہر ہونے کے لیے علم فقہ میں مطہرات سے بحث کی جاتی ہے۔ بعض فقہاء کے مطابق خبث سے مراد وہ نجاست کو کہتے ہیں جس کے لیے نیت شرط نہیں ہے بلکہ وہ  نیت کے بغیر بھی زائل ہو جاتی ہے۔

حدث کے معنی

 انسان پر باطنی نجاست کا طاری ہونا حدث کہلاتاہے۔ حدث سے طہارت نیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ حدث کے لیے جہاں طَہور یعنی پانی یا مٹی کا استعمال ضروری ہے وہاں نیت کرنا بھی شرط ہے۔ حدث کا شمار ظاہری نجاست میں نہیں ہوتا بلکہ عبادات کے لیے مطلوب کیفیت کے حصول کے لیے جب وضو یا غسل کیا جائے تو اس کو حدث سے طاہر ہونا کہا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدث ایک حالتِ نفسانی ہے جس کے طاری ہونے کی صورت میں انسان بعض عبادات کو انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور اس وقت اس کو ان عبادات کا جواز حاصل ہوتا ہے جب وہ اس نفسانی حالت سے نجات حاصل کر کے طہارت حاصل کر لے۔ [6]مشکینی، شیخ علی، مصطلحات الفقہ، ص ۲۰۴۔

نجاست سے پاک ہونا

نجاست کو پاک کرنے کے اعتبار سے ہمارے پاس دو چیزیں آ جاتی ہیں:

1. خبث سے پاک ہونا، جیسے دھو لینا، نہا لینا  وغیرہ۔

2. حدث سے پاک ہونا، وہ چیزیں جو حدث سے انسان کو پاک کرتی ہیں اور عبادات کی انجام دہی کے قابل کر دیتی ہیں تین چیزیں ہیں:  وضو، غسل، تيمّم۔[7]جواہری نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۲۳۹۔

Views: 9

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مصدر اور اسم مصدر میں فرق
اگلا مقالہ: قدیم اور حادث کے معنی