loading

{فقہی مباحث}

طہارت کےلغوی معنی

تحریر: سید محمد حسن رضوی

طہارت اورطہور دو ایسے کلمات ہیں جو علم فقہ میں بالخصوص کتابِ طہارت میں استعمال ہوتے ہیں۔ لغت میں طہارت کے معنی گندگی اورآلودگی سے نظافت اور صفائی و ستھرائی کے ہیں۔ کتاب العین میں فراہیدی نے نقل کیا ہے کہ طُهْر  کا لغوی معنی  حیض کی نقیض ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی آیات سے شاہد لاتے ہوئے خلیل بن احمد فراہیدی نے اس لفظ اور اس کے مشتقات کے معانی گناہوں سے پاک و منزہ ہونا، ہر صاف پانی اور پاکیزگی کے ذکر کیے ہیں۔[1]فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۴، ص ۱۸۔ ابن فارس نے ذکر کیا ہے کہ طُهْر  کا مطلب گندگی اور آلودگی کی ضد ہے۔[2]ابن فارس، احمد معجم مقاییس اللغۃ، ج ۳، ص ۴۲۸۔صاحب مصباح المنیر نے اس کلمہ کے مشتقات کی درج ذیل وضاحت کی ہے:

طَهُرَ:

فیومی نے ذکر کیا ہے کہ کلمہِ طہارت مصدر ہے جوکہ طَهُرَ بروزن فَعُلَ  کا مصدر ہے۔یہ ثلاثی مجرد کے دو اوزان سے  آتا ہے: ۱۔ باب قَرُبَ يَقرُبَ یعنى طهُرَ يَطْهَرُ  ۲۔ باب قَتَلَ يَقتُلُ یعنی طَهَرَ يَطْهُرُ  ، ہر دو سے مصدر طہارت آتا ہے۔ جبکہ اسم مصدر ’’الطُّهْر‘‘ ہے۔ اس کا لغوی معنی نجاست اور گندگی سے پاک و صاف ہونے کے ہیں ۔[3]فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۲، ص ۳۷۹۔

طہارت:

بعض اہل لغت نے ’’طُهْر‘‘کو مصدر بھی شمار کیا ہے اور اس کلمہ کے دو مصادر نقل کیے ہیں : ۱۔ طُهْر، ۲۔ طہارت، جیساکہ اس قول کی نسبت سیبویہ کی طرف دی گئی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ’’طُهْر‘‘مصدر بھی استعمال ہوتا ہے اور اکثر بیشتر بطورِ اسم مصدر آتا ہےجبکہ بالاتفاق اس کا مصدر ’’طہارت‘‘ آتا ہے۔[4]زیبدی، مرتضی، تاج العروس، ج ۱۲، ص ۴۴۲۔اس سے اسم فاعل ’’طَاهِرٌ ‘‘ آتا ہے جس کی جمع اَطْهَار آتی ہے۔

طَهُور:

یہ کلمہ مبالغہ کا صیغہ ہے جوکہ فَعُول کے وزن پر آتا ہے۔ ازہری نے اس کے معنی اس طرح ذکر کیے ہیں: ’’وہ جو کہ پاک و طاہر ہو اور اپنے غیر کو پاک و طاہر کرے‘‘۔[5]فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۲، ص ۳۷۹۔سید بحرالعلوم تحریر کرتے ہیں کہ لغت میں طہور مصدر بھی آتا ہے اور اسم مصدر بھی اور بطور صفت بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ مصدر کے طور پر آئے تو تطهُّرکے معنی میں ہو گایعنی پاک و صاف۔اگر یہ اسم مصدر کے طور پر استعمال ہو تو اس سے مراد ہو وہ شیء ہو جس سے طہارت حاصل کی جاتی ہے۔اس صورت میں اس کا معنی ’’آلی‘‘ ہو گا، جیسے وَضوء، غَسول، فَطور وغیرہ ہے۔ اگر لفظِ طہور صفت کے طور پر آئے تو اس کی طاء پر ضمہ بھی آ سکتا ہے۔ طہور کا بطورِ وصف استعمال ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ البتہ جب یہ بطورِ صفت استعمال ہو تو اس وقت اس کا کیا معنی ہو گا؟ اس صورت میں اس کے معنی کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے: ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں یہ طہارت کے مبالغہ کے طور پر استعمال ہو گا۔ ہم جانتے ہیں کہ اسم مبالغہ اسم فاعل سے بنتا ہے۔ فقہاء کرام اور مفسرین و علماء حدیث کے مابین مشہور ہے کہ اہل لغت نے طہور کا مطلب بذاتِ خود پاک و طاہر اور اپنے غیر کو پاک کرنے والا لیا ہے۔ شیخ طوسی نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ شیخ طوسی خلاف میں بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک طہور حدَث اور نجاست کو زائل کرنے والا ہے۔ شہید ثانی نے شرح لمعہ دمشقیہ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ [6]بحر العلوم، محمد مہدی ، مصابیح الاحکام، ج ۱، ص ۵۹- ۵۶۔سید بحر العلوم کی اپنی تحقیقی نظر یہ ہے کہ طہور بمعنی   مُطهِّر کے آتا ہے جبکہ طہارت کا معنی اس کے مفہوم سے خارج ہے ۔ کیونکہ طہارت اس کا لازمہ ہے اور ہر وہ شیء جو کسی دوسری شیء کو پاک و طاہر کرے وہ بذاتِ خود پاک و طاہر ہوتی ہے۔ [7]بحر العلوم، محمد مہدی، مصابیح الاحکام، ج ۱، ص ۶۱۔

قرآن کریم میں استعمال:

قرآن کریم اس لفظ کے متعدد مشتقات وارد ہوئے ہیں، مثلا قرآن کریم میں ثلاثی مجرد ، باب تفعیل، باب تفعل سے اس کے مشتقات وارد ہوئے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں لفظِ طَہور بھی استعمال ہوا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُورًا؛ اور ہم نے آسمان سے پاک طاہر پانی نازل کیا}. [8]فرقان: ۴۸۔
Views: 439

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عام کی تین اقسام
اگلا مقالہ: مصدر اور اسم مصدر میں فرق