loading

فقہی اور اصولی قواعد میں فرق

تحریر : رضایت حسین

2021-10-20

حکم شرعی کو آیات و روایات سے استنباط کرنے کے لیے فقیہ متعدد علوم اور قواعد کو استعمال کرتا ہے۔ انہی قواعد میں سےایک قاعدہِ فقہی اور اصولی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم قاعدہ فقہی اور اصولی میں فرق کو جانیں ۔

قواعد فقہی و اصولی کا تاریخی جائزہ

شیخ انصاری نےسب سے پہلے اصولی قواعد اور فقہی قواعد میں فرق کو بیان کیا ہے ۔ قواعد فقہیہ پر سب سے پہلے مستقل کتاب ” قواعد ، فوائد ” کے نام سے ابو عبد اللہ محمد بن مکی عاملی جو کہ شہید اول کے نام سے معروف  ہیں نے لکھی  ۔ جس میں انہوں نے تین سو تیس کے قریب قواعد لکھے ۔  اس کتاب میں قواعد کے ما  بین ترتیب نہیں تھی جس کی وجہ سے بعد میں جناب  فاضل مقداد  آئے اور انہوں نے اس کی ترتیب ابواب فقہی کے اعتبار سے درست کی اور اس کانام نضد القواعد الفقہیۃ فی فقہ آل البیت ع  رکھا۔قواعدفقہیہ کے عنوان سے آج تک بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں۔

 تعریف قواعد فقہیہ

قواعد فقہی اور اصولی میں فرق کو فقہاء نے اس طرح سے بیان کیا ہے قواعد اصولی کا نتیجہ کلی ہوتا ہےاور انکی حیثیت آلی ہوتی ہے جبکہ قواعد فقہی کا نتیجہ جزئی ہوتا ہےاور انکی حیثیت استقلالی ہوتی ہے۔ قواعد فقہی کوثابت کرنے کے لئے قواعد اصولی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ قواعد اصولی اپنے اثبات کے لئے قواعد فقہی کے محتاج نہیں ہوتے ہیں۔ اصولی قواعد   قابل تخصیص نہیں ہوتے جبکہ قواعدفقہی قابل تخصیص ہیں۔ فقہی قواعد شرعی ہوتے ہیں جبکہ اصولی قواعد عقلی و عقلائی ہوتے ہیں۔

قاعدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی اہل لغت نے  ضابطہ ایک امر کلی کہ جو تمام جزئیات پر منطبق ہوتا ہو کے ذکر کیے ہیں ۔[1]قیومی مقری،احمد ابن محمد بن علی، مصباح المنیر ، ج۱،ص۲۶۳- اس کے ا صطلاحی معنی اس طرح سے ذکر کیے گئے ہیں: وہ  شرعی احکام  کہ جو کلی ہیں اور  مقام عمل میں  مکلف کے ویفہ کی تشخیص کو تطبیق کی صورت میں کشف کرنے  کے طریق میں کام آجاتے ہیں ۔ ایک قاعدہ فقہی اصل میں ایک کلی حکم شرعی ہے جس کو مصادیق اور افراد میں تطبیق دے کر مصادیق اور افراد کے حکم کو معلوم کیا جاتا ہے۔ قاعدہ فقہی کی کلیت اس قاعدے کا فقہ کے بعض ابواب میں استفادہ ہونا ہے ۔ 

تعریف قواعد اصولیہ

شہید باقر الصدر ؓ علم اصول کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :  وہ علم جس میں عناصر مشترکہ کہ جو حکم شرعی کے استنباط میں کام آتے ہیں سے بحث ہوتی ہے۔[2]شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج۲، ص۹۔

اصولی اور فقہی قواعد فقہاء کی نظر میں 

شیخ انصاری ؒ  ان دو قسم کے قواعد کے درمیان فرق بیان    کرتے ہوئے کہتے  ہیں: اصولی قواعد کو أمادہ کیا گیا ہے تا کہ اس کے  ذریعے سے ادلہ شرعی سے احکام کو استنباط کیا جائے ۔ ان قواعد کا استعمال مجتہد کرسکتاہے باقی کسی کا ان میں  کوئی حصہ نہیں ہے۔مقلدین اور عام انسان  کے لئے قواعد اصولی قابل استفادہ نہیں ہیں ۔ فقہا ان قواعد سے استفادہ کرتے ہوئے ادلہ سے احکام کو استنباط کرتے ہیں۔ [3]شیخ انصاری، مرتضی،فرائد الاصول، ج۳، ص ۱۸و ۱۹-

شیخ انصاری کے اس قول کی جناب محقق نائینی نے اس طرح سے وضاحت بیان کی ہے۔ نتیجہ نکلتا ہے کہ اصولی قواعد سے صرف مجتہد ہی استفادہ کر سکتا ہے اور مقلد کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔ اس لئے مجتہد ان قواعد کو ہی فتوی بنا کر پیش نہیں کر سکتا۔ مجتہد خبر واحد کی حجیت کا فتوی اپنے رسالہ عملیہ میں نہیں درج نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ قواعد کو خارجیات پر تطبیق کرنا مقلد کا کام نہیں ہے بلکہ یہ تو مجتہد کا فریضہ ہے ۔ لیکن قواعد فقہیہ کے نتیجہ کا مقلد کو فائدہ ہوتا ہے اس طرح کہ مجتہد ان کے مطابق فتوی دیتا ہے ۔

اس بات پر اشکال کیا گیا ہے کہ بہت سارے فقہی قواعد بھی ایسے ہی ہیں جنہیں قواعد اصولی کی طرح صرف فقی ہی استفادہ کر سکتا ہے۔ اس قاعدہ کی حدود کا اور اس کی تطبیق کا علم صرف مجتہد ہی کو ہے ۔ اگر اس قاعدے کا مطلب عام مقلدین کو سمجھا بھی دیں تواس سے وہ استفادہ نہیں کر سکتے ہیں۔ محقق نائینی فرماتے ہیں کہ قواعد اصولی کا نتیجہ کلی ہوتا ہے اور جزئی نہیں ہو سکتا ہے اور ان قواعد کے برخلاف قواعد فقہیہ ہیں کہ جن کا نتیجہ جزئی ہوتا ہے۔اگر بالفرض کہیں پر کلی ہوا تو بھی  چند موارد میں ہوتا  ہے اور روسرے باب میں پھر جرئی ہوجاتا ہے۔ اصولی قواعد کو مجتہد استنباط  کے مقام پر استعمال کرتا ہے اور  اس سے نتیجہ نکالتا ہے۔ بس قواعد فقہی اور اصولی میں فرق یہ ہوا کہ اصولی قاعدہ ہمیشہ ایک حکم کلی ہوتا ہے اور اس کا تعلق خود اعمال سے نہیں ہوتا ہےمگر یہ کہ استنباط کیا جائے  جبکہ فقہی قاعدہ جزئی ہوتا ہے اورغالبا اس کو استنباط کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔[4]نائینی،میرزا محمد حسین،فوائد الاصول ج۴، ص۳۰۹-

اس فرق پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ کلی چاہے افراد کے مقابلے میں ہو یا اشخاص کے مقابلے میں ہو یا کسی ایک باب سے مختص ہونے کے مقابلے میں ہوہمیں ایسے قواعد فقہی بھی مل جاتے ہیں جن میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں۔ محقق خوئی نے قواعد اصولی اور فقہی میں دو فرق بیان کئے ہیں۔

۱۔ قواعد اصولی کو استنباط اور توسیط دے کر  استعمال کیا جاتا ہے جبکہ قواعد فقہی کو مصادیق پر تطبیق کرکے استفادہ کیا جاتا ہے۔

۲۔ اصولی قواعد کا نتیجہ کلی ہوتا ہے اور قواعد فقہی کا نتیجہ جزئی ہوتا ہے۔ [5]فیاض ، محمد اسحاق،محاضرات فی اصول الفقہ ج۱، ص۹ و ۱۰-

امام خمینی نے فقہی اور اصولی قاعدہ میں فرق کرتے ہوئے اصولی ضابطہ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ وہ احکام الہٰیہ جو کلی اور عمومی ہیں اور وظائف عملیہ کے حصول کے لیے فقہی استنباط میں کبریٰ واقع ہوتے ہیں اور آلہ کا کام دیتے ہیں ایسے قواعد کو اصولی قواعد کہا جاتا ہے۔ آلی سے مراد بھی یہی ہے کہ جس کو نہیں بلکہ کسی اور چیز کے لئے اس کی طرف رجوع کیا جائے ۔ قواعد فقہی اس کے برخلاف ہیں جو خود  حکم کلی کو بیان کرتے ہیں۔  زارعی سبزواری نے ان تمام اقوال کو جمع کر کے ان پر اشکال کیا ہے پھر آخر میں اپنی رای بھی دی ہے۔ انہوں نے قواعد اصولی اور فقہی میں چار فرق بیان کئے ہیں۔

۱۔ قواعد فقہی شریعت کے کلی احکام ہیں اور بطور آلہ استعمال ہوتے ہیں جبکہ قواعد اصولی عقلی یا عقلائی احکام ہوتے ہیں جو کلی اور جزئی احکام کے استنباط میں کام آجاتے ہیں۔

۲۔ فقہی قواعد مقام عمل میں مکلف کے بیان کرتے ہیں البتہ تطبیق کے بعد لیکن اصولی قواعد بصورت توسیط ہوتے ہیں ۔

۳۔ فقہی قواعد خود اصولی قواعد کے محتاج ہوتے ہیں جبکہ اصولی قواعد کسی کے محتاج نہیں۔ اس فرق کو دوسری عبارت میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اصولی قواعد ثبوت میں قواعد فقہی کے محتاج نہیں ہیں برخلاف فقہی قواعد کے کہ ان کو ثابت کرنے کے لئے اصولی قواعد کو کبری کے طور پر رکھا جاتا ہے ۔

۴۔ اصولی قواعد تخصیص و تقیید کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن فقہی قواعد قابل تخصیص و تقیید ہیں۔[6]زارعی سبزواری، عباس علی، القواعد الفقہیۃ فی فقہ الامامیۃ، ج۱، ص ۲۷-

Views: 40

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: استدلال مباشر
اگلا مقالہ: قاعدہ اقرار عقلاء