loading

قاعدہ اقرار عقلاء

علم فقہ کا شمار ان علوم میں ہوتا ہے جس کی ضرورت  ہر مسلمان اور مومن کو ہے ۔ اس اہمیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے فقہاء  نے اس علم میں اپنی تمام وسع کو بذل کیاہے۔ ان کی انہی کوششوں کے بہت سارے ثمرات ہیں ان میں سے ایک ثمرہ قواعد فقہیۃہیں۔ فقہاء نے ان قواعد کو تاسیس کرنے کےلئے کتاب ،سنت ،عقل و اجماع سے استفادہ کیا ہے۔  قواعد کی تاسیس کا فلسفہ استنباط کے میدان میں ان کو آسانی سے بروئے کار لانا ہے۔ انہی قواعد میں سے ایک قاعدہ اقرار عقلاء ہے۔ اس قاعدے کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے :   اقرار العقلاء علی انفسھم جائز، عقلاء کا اپنے برخلاف اقرار کرنا جائز ہے۔ دنیا میں عموما ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بھی عاقل انسان اپنے نقصان اور ضرر والے امور کا اعتراف نہیں کرتا ، لیکن اگر کسی مورد میں انسان ایسے امر کا اعتراف کرتا ہے جس سے اس کو ضرر پہنچتا ہو تو وہاں بغیر گواہ کے اس کے اقرار پر حکم شرعی جاری کیا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں رسول اللہ ﷺ اور آئمہ ؑکی زندگی میں ایسے نمونے ملتے ہیں جس میں کسی مرد یا عورت کے اقرار کی بنیاد پر حکم شرعی سناتے تھے۔ 

فہرست مقالہ

مفہوم قاعدہ

قاعدہ اقرار عقلاء ایک جملہ ناقصہ کی شکل میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے جبکہ پورا قاعدہ اس طرح سے ہے: اقرار العقلاء علی انفسھم جائز[1]مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقہیہ،ج۱، ص۴۰۳-۔اس قاعدہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک لفظ کا معنی ہے ۔ سب سے پہلا کلمہ اقرار ہے ۔ اقرار عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی {الإِقْرارُ: إِثْبَاتُ الشَّيْءِ إِمَّا باللّسَان وإِمّا بالقَلْبِ أَو بِهِمَا جَمِيعًا.} کسی چیز کو زبان یا دل یا دونوں کے ذریعے سے ثابت کرنے کو کہاجاتا ہے۔ [2]زبیدی، مرتضی، تاج العروس، ج۱۳، ص ۳۹۶-علم فقہ میں اقرار سے مراد اقرار کرنے والے کا اعتراف  ہے۔ جب مقر یعنی اقرار کرنے والا یا اعتراف کرنے والا کسی قرضے کایا کسی حق یا کسی چیز وغیرہ کا خود کوضامن قرار دیتا ہے تو یہاں اس قاعدہ سے استفادہ کیا جاتا ہے اور حکم شرعی جاری کیا جاتا ہے۔ اس قاعدے میں اقرار کو عقلاء کی طرف اضافہ کیا گیا ہے جس کا اس قاعدہ کے مفاد کو بیان کرنے میں دخل ہے۔ عقلاء یہاں پر فقہی اصطلاح ہے جس   سے مراد معاشرے کےوہ افراد ہیں جو اپنے نفع و نقصان کی معرفت رکھتے ہیں اور اس تشخیص میں دین و قبیلہ اور  زمان و مکان و بیرونی عوامل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔  عقلاء سے بھی مراد عرف عام ہے۔[3]محقق نائینی، محمدحسین، فوائد الاصول، ج۳، ص۱۹۲-.عقلاء کی قید لگا کر اس قاعدے سے غیر عقلاء کو خارج کیا گیا ہے۔ اگر غیر عاقل انسان کسی بات کا اقرار کرتا ہے اور وہ اقرار اس کے ضرر میں ہو تب بھی اس کا اقرار قابل قبول نہیں ہے ۔ قاعدہ میں  موجود کلمات علی انفسھم کا مفاد قاعدہ بیا ن کرنے میں اہم کردار ہے۔ علی انفسھم سے مراد یہ ہے کہ عقلاء ایسا اقرار کریں کہ جو ان کے ضرر میں ہو۔ اگر ایسا اقرار کرتے ہیں کہ جو ان کے مفاد میں ہو تو یہ قبول نہیں۔ 

Views: 18

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: فقہی اور اصولی قواعد میں فرق
اگلا مقالہ: قاعدہ نذر