loading

قرينة الحكمة

تحریر: سید محمد حسن رضوی
2021-09-06
علم اصول فقہ کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول  قرينة الحكمة  ہے جس سے مباحث الفاظ کے ذیل میں بحث کی جاتی ہے۔ قرینہِ حکمت اصول فقہ میں ’’ مقدِّمات الحكمة‘‘ سے بھى تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چونكہ یہ ایسے متعدد مقدموں سے مركب ہو كر تشکیل پاتا جو حكمت كے تقاضوں كے تحت اخذ كیے جاتے ہیں اس لیے اس كو مقدِّمات الحكمة کیا گیا ہے۔  کہا جاتا ہے کہ سلطان العلماء نے سب سے پہلے اس کو  ’’ مقدِّمات الحكمة ‘‘ کا عنوان دیا ۔ ان مقدمات كو مدنظر ركھتے ہوئے اگر ہم  قرينة الحكمة  كا جائزہ لیں تو مناسب یہ تھا  كہ اس كو ’’عناصر الحكمة يا قرائن الحكمة ‘‘ كہا جاتا  كیونكہ قرينة الحكمة بذات خود کوئی مقدمہ نہیں بلکہ چند مقدمات سے مل کر بنا ہے۔  لیكن اصولیوں كے درمیان  لفظ ’’قرينة الحكمة ‘‘ رائج ہو گیا۔ زیر نظر تحریر میں ہم اپنى بحث كو دو حصوں میں تقسیم كرتے ہیں : 
۱)   قرينة اور الحكمة كے الفاظ کے لغوى معنى۔
۲)   قرينة الحكمة كے اصطلاحِ اصولى میں كیا معنى بنتے ہیں ؟ 

قرینہ کا لغوى معنى : 

قرینہِ حکمت کا  لفظ قرینہ اور حکمت سے مرکب ہے۔ اس کا پہلا لفظ ’’قرینہ‘‘ مضاف ہے جس کے معنی درج ذیل ہیں:
قرینہ: 
قرینۃ كا لفظ ’’ قرن ‘‘ سے مشتق ہے ۔اہل لغت نے تحریر کیا ہے کہ  اس لفظ كا اصلى معنى ’’ ایك شیء كو دوسرى شىء كے ساتھ جمع کرنا اور ملانا ‘‘ ہے۔ اس كا ایك معنى کسی  امر كو دوسرے امر كى طرف ضم كرنا بھى بیان كیا گیا ہے ۔[1] ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ ،ج ۵، ص ۷۶ ۔   اس طور پر كہا جا سكتا ہے كہ قرینہ كا مطلب ہے كہ ایك پہلو كو دوسرے پہلو سے جوڑتے ہوئے ایك معنى حاصل كرناہے ۔ 
حكمت :
حكمت كا لفظ ’’ حكم ‘‘ سے مشتق ہے ۔ ابن فارس نے تصریح كى ہے كہ اس كا ایك اصلى معنى ’’ ظلم سے منع كرنا ‘‘ ہے ۔ بعض اہل لغت نے منع كرنا اس كا معنى ذكر كیا ہے ۔[2]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ،  ج ۲ ، ص ۹۱۔   پس كہا جا سكتا ہے كہ حكمت كا مطلب ہے كہ وہ شىء جو انسان كو خطاء و غلطى یا باطل و پستى سے روك دے ۔ ہر وہ شىء جو انسان كو پستى اور رذیل و باطل اشیاء سے منع كر دیتى ہے وہ حكمت كہلائے گى۔  پس اگر لغوى معانى كے طور پر دیكھا جائے تو قرینة الحكمة كا مطلب یہ ہو گا انسان كا ایك صحیح معنى لینے كا وہ پہلو یا مقایسہ  جو اس كو غلطى سے بچائے ۔

قرینہِ حکمت  كا اصطلاحى معنى :

قرينة الحكمة یا  مقدمات الحكمة  سے مراد  لفظ كا وہ معنى ہے جو كسى قید سے مقید نہ ہو اور متكلم كى ظاہرى حالت سے آشكار ہو۔  پس  قرينة الحكمة  متكلم كے ’’ ظاہرى حالت یعنى مرحلہ تصدیقى ‘‘ سے  سامنے آتا ہے ۔ بالفاظِ دیگر  قرينة الحكمة  كا تعلق مدلول تصورى یعنى لفظ كے لغوى و وضعی معنى سے نہیں ہے بلكہ اس کا تعلق متكلم كى ظاہرى حالت سے ہےکیونکہ معاشرے میں متكلم كى ظاہرى حالت دیكھ كر عام دیكھنے والے لوگ جو معنى سمجھتے ہیں اس  كو  قرينة الحكمة سے تعبیر كیا جاتا ہے ۔[3]شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج ۱، ص ۲۳۳۔ علماء اصول نے قرینہ کو تین انواع میں تقسیم کیا ہے: 
-قرینہ مقالیہ / لفظیہ : اس سے مراد متكلم كے بولے ہوئے الفاظ كى اپنے  معانى پر دلالت  ہے۔ لفظ کی معنی پر دلالت کرنے کی صورت میں جو معنی مراد لیا جاتا ہے وہ قرینہِ مقالیہ یا لفظیہ کہلاتا ہے۔
– قرینہ مقامیہ  / حالیہ : متكلم كى وہ حالت یا عمل جس سے متكلم كى اصل مراد كا علم ہو جائے اس کو حالت کو قرینہِ مقامیہ یا حالیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنى متكلم كى وہ حالت جس سے معلوم ہو كہ اس نے لفظ بول كر كونسا معنى مراد لیا ہے ۔
-قرینہِ حکمت:قرینہِ حکمت سے مراد متکلم کے کلام سے معنی حكمت کے تقاضوں کے تحت سمجھنا ہے۔  قرینہ کی بناء پر متکلم کے کلام سے ایسا معنی سمجھنا اور مراد لینا ہے جس کا تقاضا مقدماتِ حکمت کرتے ہیں ، مثلا حكمت كا تقاضا ہے كہ اگر متكلم ایك معنى بیان كرے اور وہ اپنے بیان میں سنجیدہ بھى ہو تو جو لفظ سے ظاہر ہونے والا یہی معنی مقصود و مطلوب ہے اور اسی معنی کو مراد لیا جائے گا۔    پہلے مرحلے میں قرینہ اور حکمت کے لغوی الفاظ کا تعارف پیش کیا ہےاور  اس کے ضمن میں ہم نے اصولیوں کی تعبیر کے مطابق قرائن لفظیہ، حالیہ اور قرینہ حکمت کا اجمالی تعارف ملاحظہ کیا۔  اب ہم دوسرے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے قرینہِ حکمت کے اصطلاحی معنی کو ااصولیوں کے مطابق جاننے کی کوشش کرتے ہیں :

علماء اصول کے مطابق مقدماتِ حکمت

اصول فقہ كى روشنى میں  قرينة الحكمة بعض مقدمات سے مركب ہو كر بنتا ہے ۔  قرينة الحكمة  جن مقدمات سے مركب ہوتا ہے اس كى تعداد کے بارے میں اصولیوں میں اختلاف پایا گیا ہے۔  بعض نے دو، بعض نے تین ، بعض نے چار اور بعض نے پانچ امور بیان كیے ہیں ۔ صاحب الكفایۃ نے اپنی کتاب میں تین مقدمات ذکر کیے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں: 
– متكلم اپنى تمام مراد بیان كرنے كے درپے ہو اور اجمال و ابہام اس کے کلام میں نہ ہو ۔
– ایسى كوئى چیز ذكر نہ كرے جو معنى كا دائرہ معین كر دے۔
– متكلم خطاب كرتے ہوئے ایسا كوئى معنى ذكر نہ كرے جو متكلم اور سامع كے درمیان قدر متیقن قرار پائے۔[4]اخوند خراسانی، کاظم، کفایۃ الاصول،ص ۲۴۷۔
صاحب کفایہ نے  قرينة الحكمةكے لیے جن بنیادى مقدمات یا عناصر کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں ایسے موارد کو خارج کیا گیا ہے جن میں متکلم کے کلام سے اس کے پیش نظر معنی کو یہ تو کسی قید سے سمجھ جاتا ہے یا سامع کے ساتھ باہمی ہمآہنگی کی بناء پر سمجھا جاتا ہے ۔ ان صورتوں میں قرینہ حکمت کے مقدمات وجود میں نہیں آئیں گے کیونکہ قرائن سے ہم معنیِ مقصود نہیں سمجھ رہے۔ صاحب کفایہ کے بیان کردہ تین نکات کی تشریح اس طرح سے کی جا سکتی ہے:
۱) متكلم مقام بیان میں ہو۔ یعنى متكلم اپنے پیش نظر معنی کو مکمل طور پر بیان کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور کوئی مانع اس کے لیے موجود نہ ہو، مثلا تقیہ کا مورد نہ ہو جس میں متکلم اصلِ مراد کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ لہٰذا اگر متکلم کلام کوئی مبہم یا مجمل کلام بیان کرے یا کسی وجہ سے وہ اپنے مقصود معنی کو ذکر نہ کر سکے تو اس کا مطلب ہے کہ متکلم مقامِ بیان میں نہیں ہے۔
۲) متكلم نے كوئى ایسى قید نہ لگائے جس  کی وجہ سے معنی کی تعیین ہوتی ہو اور عرف اس قید کی وجہ سے معنیِ مقصود کو سمجھے ۔ اگر متکلم اپنے کلام میں کوئی ایسی قید ذکر کرتا ہے جس سے مقصود معنی کا تعین ہوتا ہے تو یہاں معنی تک پہنچ قرینہ حکمت کے ذریعے نہیں ہوا بلکہ قید کے اضافہ کی وجہ سے ہوا ہے۔
۳) مقامِ تخاطب میں كوئى ایسا معنى بیان نہ کیا جائے جو  متكلم اور سامع كے درمیان قدر متیقن ہو۔ یعنى ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دورانِ گفتگو باہمی ہمآہنگی کی وجہ سے مخاطب متکلم کا معنیِ مقصود سمجھ گیا کیونکہ اس صورت میں قرینہ حکمت کی ضرورت نہیں پیش آئے گی بلکہ متكلم اور سامع کا باہمی تعلق معنی کے سمجھنے میں مددگار ثابت ہو ا ہے۔ ظاہر سی بات ہے كہ اس نوعیت کے کلام سے عرفِ عام کو متکلم کا معنیِ مقصود سمجھ نہیں آئے گا بلکہ سامع متکلم سے ہمآہنگی کی وجہ سے معنیِ مقصودسمجھ لے گا۔ [5]صنقور، محمد صنقور علی، المعجم الاصولی، ص ۸۰۶۔ بعض اصولیوں نے نے تیسرے كو دوسرے كى طرف پلٹایا ہے اور كہا ہے كہ قرينة الحكمة كے مقدمات فقط دو ہیں : 
۱۔ متكلم كا مقام بیان میں ہونا، یعنى متكلم اپنى تمام مراد بیان كر رہا ہے۔ 
۲۔ متكلم كا كسى قسم كى قید کا ذكر نہ كرنا ۔
Views: 180

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قاعدہ حجیۃ سوق المسلمین
اگلا مقالہ: قطع کی اقسام