loading
{قاعدہ فقہی: ۵}
مسلمانوں کے بازار کا حجت ہونا
تحریر: سید محمد حسن رضوی
2021-08-30

علم فقہ کے معروف قواعد میں سے ایک حجیتِ سوق مسلمین ہے ۔ اس قاعدہ کی ضرورت اکثر و بیشتر مسلمانوں کو پیش آتی ہیں ۔ مسلمانوں کے متعدد معاملات اسی قاعدہ پر موقوف ہیں۔ اگر اس قاعدہ کی حجیت کی نفی کر دی جائے تو مختلف چیزوں کی خریدو فروخت بالخصوص گوشت خریدنے اور کھانے پینے کے اعتبار سے بہت سے مشکلات اسلامی معاشرے میں ایجاد ہو جائیں گی۔  اگر اس قاعدہ کا انکار کر دیا جائے تو ہر وہ مورد جس میں ذبیحہ کے بارے میں شک ہو جائے کہ اس کا گوشت حلال ہے یا نہیں وہاں اس کے حرام ہونے کا حکم لگانا ہو گا۔ اسی طرح نماز کے لیے لباس اور جگہ کا پاک و حلال ہونا ضروری ہے ۔ اگر کسی چمڑے کے بارے میں شک ہو جائے کہ یہ ذبح شدہ جانور جس کا تزکیہ ہو چکا ہے کے چمڑے سے بنا ہے یا نہیں بلکہ غیر تزکیہ شدہ جانور سے تیار کیا گیا ہے تو ایسے مورد میں نماز اس پر یا اس کے ساتھ جائز نہیں ہو گی۔ پس اس قاعدہ کی ضرورت ہمیں متعدد جگہوں پر دکھائی دیتی ہے۔ لہٰذا اس قاعدہ کا شمار عمومی قواعد میں ہوتا ہے جس سے مسلمان معاشرے اپنی روز مرہ کی زندگی میں کثرت سے دوچار ہوتے ہیں۔[1]سیفی مازندرانی، علی اکبر، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیہ الاساسیۃ، ج ۱، ص ۱۸۱۔  عموما فقہاء اس قاعدہ کو علم فقہ میں نجاسات کے باب میں، صلاۃ کے باب میں لباس کے ذیل میں اور باب اطعمہ و اشربہ کے ذیل حلال گوشت جانور کے کھانے کی بحث میں ذکر کرتے ہیں۔[2]ایروانی، باقر، دروس تمہیدیہ فی القواعد الفقہیۃ، ج ۲، ص ۷۷۔ آئیے زیرِ نظر تحریر میں اس قاعدہ کے معنی، اس کی دلیل و مدرک اور اس قاعدہ کی عملی تطبیق کو ہم ملاحظہ کریں:

قاعدہ کا معنی

یہ قاعدہ ’’سوق المسلمین‘‘ کے عنوان سے معروف ہے۔اس قاعدہ سے مقصود یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے بازار سے جانور کی کوئی ایسی چیز خریدی جاتی ہے جس کا حلال ہونا اس کے شرعی ذبح ہونے پر موقوف ہے اور شرعی ذبح ہونے پر شک لاحق ہو جاتا ہے تو اس شیء کا مسلمانوں کے بازار میں ہونا علامت اور امارۃ ہو گا کہ یہ چیز حلال اور شرعی ذبح شدہ ہے، مثلاً  آپ بازار جاتے ہیں اور وہاں سے کھانے کے لیے گوشت خریدتے ہیں یا کوئی کپڑا جو جانور کی جلد سے بنی ہوئی جائے نماز یا کوئی دری یا لباس خریدتے ہیں ، لیکن اسی وقت آپ کو شک ہوتا ہے کہ آیا یہ جانور تزکیہ شدہ یعنی شرعی طریقے سے ذبح شدہ تھا یا نہیں کیونکہ غیر تزکیہ شدہ جانور کا نہ گوشت حلال ہے اور نہ اس سے بنے ہوئے چمڑے یا لباس میں نماز جائز ہے !! پس ایسی صورت میں ہم سوق المسلمین کا قاعدہ جاری کریں گے اور اس گوشت یا لباس کا مسلمانوں کے بازار میں ہونا نشاندہی کرے گا کہ یہ حلال اور پاک و طاہر ہے اور شرعی ضابطوں کے تحت ذبح کیے گئے جانور سے لیا گیا ہے۔[3]مصطفوی، سید محمد کاظم، القواعد مائۃ قاعدہ فقہیۃ معنی ومدرکا و موردا، ص ۱۴۳۔ [4]ایروانی، باقر، دروس تمہیدیہ فی القواعد الفقہیۃ، ج ۲، ص ۷۸۔

اس قاعدہ کا فائدہ

اس قاعدہ کا فائدہ اس مورد میں ہمارے سامنے آتا ہے کہ اگر ہمیں بازارِ مسلمین میں گوشت یا چمڑا خریدتے ہوئے شک ہو جاتا ہے کہ یہ جس جانور کا گوشت یا چمڑا ہے آیا وہ تزکیہ شدہ تھا یا نہیں؟ اگر یہ قاعدہ نہ ہوتا تو ہم یہاں استصحاب جاری کرتے اور حکم لگاتے کہ یہ گوشت نجس اور چمڑا مردار کا ہے۔ کیونکہ حالت سابقہ اس جانور کی عدم تزکیہ ہے اور اب اگر شک ہو جائے تو حالتِ سابقہ کو برقرار رکھا جائے گا۔ پس شک کی صورت میں بازار میں ملنے والا گوشت اور جانور کی جلد سے بنا ہوا کوئی لباس یا کپڑا نجس شمار ہوتا ہے جس کو نہ کھانا جائز ہے اور نہ اس پر نماز ادا ہو سکتی ہے۔ لیکن اس قاعدہ نے آ کر یہ مسئلہ حل کر دیا اور اس قاعدہ کی وجہ سے ہم مشکوک گوشت اور مشکوک لباس وغیرہ پر تزکیہ شدہ جانور کا حکم لگائیں گے جس کی بناء پر وہ گوشت یا جلد حلال اور پاک و طاہر شمار ہو گی ۔ اگر یہ قاعدہ نہ ہوتا تو ہر گز یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا تھا۔  البتہ یہ قاعدہ فقط سُوق المسلمین یعنی مسلمان بازار کے ساتھ مختص ہے اور فقط جانور کے تزکیہ کو یہ قاعدہ ثابت کرتا بقیہ کسی ملکیت یا طہارت وغیرہ کو ثابت نہیں کرتا۔ [5]سیفی مازندرانی، علی اکبر، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیہ الاساسیۃ، ج ۱، ص ۱۸۲۔ [6]مصطفوی، سید محمد کاظم، القواعد مائۃ قاعدۃ فقہیۃ معنی ومدرکا وموردا، ص ۱۴۳۔

قاعدہ کی دلیل

اس قاعدہ کے مختلف دلائل موجود ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ پیش خدمت ہیں:

پہلی دلیل: متعدد احادیث صحیحہ

کتب احادیث میں متعدد ایسی روایات آئی ہیں جو اس قاعدہ کو ثابت کرتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

حدیث:۱

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِيهِ ( إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَاشِم‏ ) ، عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ ، عَنِ الْفُضَيْلِ وَ زُرَارَةَ وَ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، أَنَّهُمْ سَأَلُوا أَبَا جَعْفَرٍ × عَنْ شِرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الْأَسْوَاقِ وَلَا يُدْرَى مَا يَصْنَعُ الْقَصَّابُونَ ؟ قَالَ ×:  كُلْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ فِي أَسْوَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ.[7]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی ، ج ۱۲، ص ۱۹۰،کتاب الذبائح، باب ۱۴۔

حدیث:۲

الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ فَضَالَةَ ( فَضَالَةَ بن أیوب ) ، عَنْ حُسَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ ، عَنِ الْحَلَبِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ × عَنِ‏ الْخِفَافِ‏ الَّتِي تُبَاعُ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: اشْتَرِ وَصَلِّ فِيهَا حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ مَيِّتٌ بِعَيْنِهِ. [8]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۲، ص ۲۳۴، باب ۱۱۔

اس روایت میں واضح طور پر امام× فرماتے ہیں کہ بازار (سوق) سے تم خریداری کرو اور اس پر نماز بھی پڑھو یہاں تک تمہیں یقین ہو جائے کہ وہ مردہ ہے۔

حدیث:۳

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ ، عَنِ الرِّضَا × قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْخَفَّافِ يَأْتِي السُّوقَ فَيَشْتَرِي الْخُفَّ لَا يَدْرِي أَ ذَكِيٌّ هُوَ أَمْ لَا ؟ مَا تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ فِيهِ وَهُوَ لَا يَدْرِي أَ يُصَلِّي فِيهِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَنَا أَشْتَرِي الْخُفَّ مِنَ السُّوقِ وَيُصْنَعُ لِي وَأُصَلِّي فِيهِ وَلَيْسَ عَلَيْكُمُ الْمَسْأَلَة. [9]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۲، ص ۳۷۱، باب ۱۷۔

حدیث:۴

عَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَأْتِي السُّوقَ فَيَشْتَرِي جُبَّةَ فِرَاءٍ لَا يَدْرِي أَ ذَكِيَّةٌ هِيَ أَمْ غَيْرُ ذَكِيَّةٍ ؟ أَ يُصَلِّي فِيهَا ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَيْسَ عَلَيْكُمُ الْمَسْأَلَةُ، إِنَّ أَبَا جَعْفَرٍ × كَانَ يَقُولُ: إِنَّ الْخَوَارِجَ ضَيَّقُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِجَهَالَتِهِمْ، إِنَّ الدِّينَ أَوْسَعُ مِنْ ذَلِكَ. [10]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۲، ص ۳۶۸، باب ۱۷۔

دوسری دلیل: سیرت متشرعہ

اس قاعدہ کی ایک اہم دلیل سیرت متشرعہ کا ثابت ہونا ہے۔ آئمہ اطہار ^ کے زمانے میں مؤمنین اور دیگر مسلمین جب بازار جاتے تو وہاں سے بغیر تحقیق و جستجو کے گوشت  اور جانور کی جلد نماز یا دیگر استعمال کے لیے خریدتے تھے۔وہ جانور کے ذبح ہونے تحقیق کیے بغیر اس کاگوشت خرید لاتے اور اس کو استعمال کرتے تھے ۔ حتی آئمہ اطہار ^ ، ان کے وکلاء اور ان کے اصحاب بھی اسی روش پر گامزن ہوتے ہوئے جانور کے تزکیہ کی تحقیق کیے بغیر گوشت اور اس کی جلد خریدتے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے غلاموں کو خریدنے غلامی کے بازار جب جاتے تو وہاں تحقیق نہیں کرتے تھے کہ یہ غلام واقعاً غلام ہے یا کسی آزاد کو پکڑ کر لے آئے ہیں۔ بلا شک و شبہ یہ سیرت احادیث و تاریخ کے اوراق سے ثابت ہے اور پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی اس سیرت کے خلاف آئمہ اہل بیت ^کا کسی قسم کا منع نہ کرنا اور کوئی مخالفت ایجاد نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سیرت پر راضی تھے اور اس کو صحیح سمجھتے تھے۔ سیرت متشرعہ روایات صحیحہ سے قطع نظر بذاتِ خود دلیل کے طور پر ہے۔اگر مسلمانوں کی یہ روش درست نہ ہوتی تو آئمہ اطہار ^  یقینی طور پر اس نفی فرماتےاور اپنے اصحاب کو اس روش کو اختیار کرنے سے روکتے۔

تیسری دلیل: اجماع

تمام فقہاء کا اجماع ہے کہ بازارِ مسلمین سے گوشت خریدتے وقت یا جانور کی جلد یا اس سے بنی ہوئے چیز خریدتے وقت جانور کے تزکیہ اور شرعی طریقے سے ذبح ہونے کی تحقیق کرنا لازم نہیں ہے۔ البتہ روایات کے ہوتے ہوئے یہ اجماع مدرکی کہلائے گی جس کا استناد اور اعتماد انہی معتبر احادیث پر ہے۔ پس فقہاء کے اتفاق کی وجہ معتبر احادیث اور سیرت متشرعہ کا ثبوت ہے۔

روایت میں سوق سے مراد

احادیث میں سُوق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے مراد بازار ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مطلقِ سوق ہے یا فقط مسلمانوں کا سوق (بازار) مراد ہے؟ ان احادیث سے واضح ہے کہ سوق سے مراد مسلمانوں کا بازار ہے نہ کہ مطلق طور پر ہر قسم کا بازار۔ روایات میں سوق پر ال داخل ہے جوکہ ال عہدی ہے اور بیان کر رہا ہے کہ راوی یا اصحاب  امام × سے جس بازار کے بارے میں سوال کر رہے ہیں وہ اس شہر کا بازار ہے جہاں امام × اور ان کے اصحاب مقیم ہیں۔  اکثر روایات امام باقر ×  اور امام رضا × سے ہیں اور جب یہ سوالات کیے گئے تو امام × مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ پس مدینہ منورہ کے بازار مسلمین کے بازار شمار ہوتے ہیں۔اس پر ہمارے پاس بہترین دلیل مندرجہ بالا بیان کردہ احادیث میں صحیحہ حلبی ہے جس میں امام ×  واضح طور پر بیان فرماتے ہیں کہ مدینہ کا بازار جو مسلمانوں کا بازار ہے۔[11]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۲، ص ۲۳۴، باب ۱۱۔  اسی طرح زرارہ اور محمد بن مسلم کی روایتِ صحیح میں امام  × نے تصریح فرمائے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا بازار ہے تو بغیر تحقیق کے کھا سکتے ہوں اور تمہیں کسی قسم کا سوال پوچھنے یا تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔[12]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی ، ج ۱۲، ص ۱۹۰،کتاب الذبائح، باب ۱۴۔

Views: 65

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: منطق میں مادہ اور جہت (موجہات) میں فرق
اگلا مقالہ: قرینۃ الحکمۃ