loading
{قاعدہ فقہی: ۱} 
قاعدہ ید
تحریر: سید محمد حسن رضوی
2021-08-20

قاعدہ ید مشہور فقہی قواعد میں سے ہے جس سے علم فقہ کے مختلف ابواب میں تمسک کیا جاتا ہے۔ تمام معاملات کے احکام اسی قاعدہ ید کے گرد گردش کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ قاعدہ باب معاملات کی اہم مباحث میں شمار ہونے لگا ہے۔  اس تحریر میں ہم درج ذیل عناوین کے تحت اس قاعدہ سے بحث کریں گے: 

  1. اس قاعدہ کامعنی
  2. قاعدہ کا منبع و مدرک
  3. قاعدہ کا شمار امارات میں سے ہے یا اصول عملیہ میں سے؟
  4. کسی چیز کے ذریعے ید متحقق ہوتا ہے؟
  5. جب ید ایک شیء سے متعلق ہو جائے تو کیا اس شیء کو بغیر خصوصی اجازت کے فروخت کرنا جائز نہیں ہے جیسے وقف یا جائز ہے؟
  6. اگر ید پہلے بعنوان ملکیت واقع نہ ہو تو کیا تب بھی حجت ہے؟
  7. کیا ید منافع اور اعیان ہر دو موارد میں مستقر ہے؟
  8. کیا فقط ید کا ہونا ملکیت کے اثبات پر بطور شاہد کافی ہے؟
  9. کیا ید صاحبِ ید کے لیے حجت ہے؟
  10. چور یا اسی طرح کے دیگر موارد میں ید کی عدم حجیت
  11. مختلف دعوی جات میں حجیت ید سوائے اس مورد کے جو مستثنی ہے

۱۔ قاعدہ کا معنی:

ایک شیء کا کسی کے قبضے اور تسلط میں ہونا کہ وہ شیء اس شخص کے احاطے میں ہو اور اس کے ماتحت چیزوں میں شمار ہوتی ہو تویہ غلبہ و تسلط و قبضہ اس کی ملکیت کی علامت ہے، مثلا کسی شخص کے پاس ایک لباس ہے جس کو وہ استعمال کرتا ہے اور اس میں تصرف کرتا ہے تو اس کا یہ تصرف بطور مالک تصرف کہلائے گا۔ اسی طرح کسی کے پاس کوئی کتاب یا گاڑی یا گھر بار ہے تو اس کا ان میں تصرف کرنا بطور مالک تصرف کرنا کہلائے گا۔ یہ تصرف اور استیلاء اس شخص کی ملکیت کی علامت قرار پائے گا۔ سوائے اس مورد کے کہ جس میں اس کے خلاف بینہ اور واضح ثبوت مہیا ہو جائیں۔ اس صورت میں ید کا امارہ معتبر ہونا ساقط ہو جائے گا۔پس اس قاعدہ میں یدسے مراد انسان جسم کا ایک عضو نہیں ہے بلکہ ید بطور کنایہ استعمال ہو رہا ہے جس سے مراد تسلط و قبضہ میں ہونا اور کسی کے زیر تصرف ہونا ہے۔ 

قاعدہ ید کو ید کہنے کی وجہ

ممکن ہےاس قاعدہ میں ید کہنے کی وجہ یہ ہو کہ عموما تصرف اورتسلط ہاتھ سے انجام پاتا ہے اس لیے کنایہ کے طور پر ہاتھ کے لفظ کو عنوان بنا دیا گیا۔ خصوصا اگر ہم انسانی زندگی کی ابتداء میں انسان کی ملکیت کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ انسان آغاز میں حیازت کے ذریعے سے ملکیت بناتا تھا۔ حیازت سے مراد ایک شیء پر اپنا تسلط قائم کرنا اور اس کی حد بندی ظاہر کر کے اپنا قبضہ دکھانا ہے۔ اشیاء کی حیازت کا مطلب اشیاء پر مسلط ہونا اور اس کو اپنے ماتحت لانا ہے۔ آغاز میں میں ملکیت اس طریقہ سے قائم کی جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ دیگر معاملات اور عقود سامنے آئے اور اس میدان میں وسعت آنے لگی۔ معاشروں میں عمومًا حیازت ہاتھ سے انجام پاتی تھی اس لیے تسلط اور استیلاء کے لیے ید کو بطور کنایہ استعمال کیا گیاہے۔ 

قاعدہ ید اور قاعدہ اخبار ذی الید میں فرق

 قاعدہ ید  اور قاعدہ اخبار ذی الیددو جدا قاعدہِ فقہی ہیں۔ قاعدہ ید سے مراد یہ ہے کہ ایک شیء پر ’’ید‘‘ ہونا یعنی تسلط اور زیر تصرف ہونا اس شیء کی ملکیت کی علامت ہے بغیر کسی کے بتائے اور خبر دئیے۔ اگر ایک شخص کسی گھر میں رہتا ہے اور اس میں تصرف کرتا ہے تو وہ گھر اس شخص کی ملکیت کہلائے گا اور اس کا تصرف بطور مالک تصرف کہلائے گا اگرچے ہمیں کسی نے خبر نہیں دی کہ یہ گھر اس شخص کا ہے یا نہیں، کیونکہ ایک شیء کسی کے ماتحت اور زیر تسلط ہو تو ایسا ہونا ہی ملکیت کے عنوان کے لیے کافی ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس کے خلاف کوئی بیّنہ یا ٹھوس ثبوت سامنے آ جائے اس صورت میں قاعدہ ید کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور اس کے ذریعے سے ملکیت ثابت نہیں ہو گی۔ 
اس کے مقابلے میں قاعدہ اخبار ذی الید ہے کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ کسی شخص کے زیر تسلط ایک شیء ہو اور اس وقت اس کی ملکیت کی تصدیق کی جا سکے جب اس شیء کے احوال میں سے کسی حالت کو بیان کیا جائے مثلا یہ پاک ہے یا نجس ہے ، یا یہ فلاں جنس کی ہے وغیرہ ۔ جب یہ خبر دی گئی اور یہ خبر دینا حجت بنی تو ملکیت کی تصدیق ہوئی۔ اس مورد میں ایک شیء کا کسی کے ہاتھ میں یا زیر تسلط ہونا کافی نہیں ہے اور نہ زیر تسلط ہونا اس کی ملکیت کی علامت بن رہا ہے بلکہ ید کو خبر دینے سے مقید کیا گیا تو ملکیت کی تصدیق ہوئی۔ ان دونوں قاعدہ کے اجمالی تعارف کے بعد ان کے درمیان درج ذیل فرق کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ دونوں کی دلالت میں فرق ہے۔ قاعدہ ید میں بذاتِ خود’’ ید‘‘ دال ہے جبکہ قاعدہ اخبار ذی الید میں ’’ید کی خبر دینا اور اس کے متعلق بتانا‘‘دال ہے۔
۲۔قاعدہ ید کا مدلول اور قاعدہ ذی الید کا مدلول مختلف ہے۔ قاعدہ ید کا مدلول ملکیت ہے کیونکہ ’’ید‘‘  امارہ اور علامت ہے ملکیت پر ۔ جبکہ قاعدہ اخبار ذی الید میں مدلول دیگر احوال ہیں۔

قاعدہ ید اور قاعدہ علی الید ما أخذت میں فرق

قاعدہ ید ملکیت پر امارہ ہے کیونکہ ید اور زیر تسلط میں ہونا علامت ہے کہ اس شیء کامالک وہ شخص ہے جس کے زیر تسلط یہ شیء ہے۔ جبکہ قاعدہ علی الید ما أخذت حتی تؤدی سے مراد ید کا ضمانت کا سبب بننا ہے ۔ پس ید کا ضمانت سے تعلق ہو تو یہ دوسرا مستقل قاعدہِ فقہی قرار پاتا ہے۔

۲۔ قاعدہ ید کا منبع و مدرک:

 ید کی ملکیت پر دلالت پر تمام مسلمین کا اجماع ہے اور دیگر مذاہب و ادیان بھی اس قاعدہ کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ یہ قاعدہ عقل کے عین مطابق ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکم اجمالی پر ضروریات دین میں سے شمار ہوتا ہے۔ البتہ مزید اطمینان کے لیے اور کسی شبہ کا شکار ہونے سے محفوظ رہنے کے لیے ذیل میں چند دلائل پیش کیے جا رہے ہیں:

دلیل اول: اجماعِ امت

پہلی دلیل فقہاء شیعہ اور اہل سنت علماء کا اجماع ہے۔ بلکہ اس قاعدہ کا ضرورت دین میں سے ہونا بہترین دلیل ہے کہ امت اسلامیہ میں یہ قاعدہ روشن اور واضح ہے۔مکتب اہل بیتؑ کے مطابق چونکہ اس قاعدہ کے مدارک کثرت سے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ یہ اجماع مدرکی کہلائے گا۔

دلیل دوم: سیرت عقلاء 

دوسری دلیل سیرت مسلمین ہے تمام زمانوں اور تمام جگہوں میں جہاں ملکیت کے لیے معاملہ انجام پاتا ہے وہاں جس کے ہاتھ میں شیء یا عین موجود ہوتی ہے اس میں اس شخص کی اجازت کے بغیر تصرف کو صحیح شمار نہیں کیا جاتا۔ نیز شیء جس کے ہاتھ میں ہے تصرف کے لیے اس شخص کی اجازت کو سمجھا جاتا ہے۔ تمام معاملات میں ہم یہی سیرت ملاحظہ کرتے ہیں، مثلا اجارہ، خریدو فروخت ، ہبہ ، وصیت وغیرہ۔ ظاہرا یہ سیرت معاشرے میں عقلاء کی سیرت سے اخذ کی گئی ہے۔ مسلمانوں میں یہ سیرت ہر دور میں عام رہی ہے اور شارع نے اس کو اختیار کرنے سے منع نہیں کیا تو شارع کا عمومی یا خصوصی طور پر منع نہ کرنا اس سیرت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

دلیل سوم: متعدد احادیث

تیسری دلیل سیرت عقلائیہ ہے کہ تمام ادیان و مذاہب و ملل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ملکیت کے آثار ید کی اساس پر مترتب ہوتے ہیں۔ ید کی ملکیت پر دلالت ارتکازی طور پر لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ ممکن ہے اس قاعدہ کو ہم ملکیت کے باب میں مبادئ اولیہ میں سے قرار دیں۔   كره ارض پر انسان زندگی کی ابتداء میں انسان ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اشیاء کو اپنی ملکیت میں تصرف اور حیازت کے ذریعے لیا کرتا تھا۔ یہ دو طریقے ابتدائی طریقے ہیں جن کے ذریعے ایک شیء پر اپنی ملکیت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اگر دقت کریں یہ دونوں اسباب ملکیت یعنی حیازت اور تصرف بھی ید پر ہی اعتماد کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا انسان کے ہاتھ میں جو چیز آتی انسان کو اپنے زیر تسلط قرار دے دیتا۔ بعض اوقات انہی اشیاء کو اپنی ملکیت اور اپنے تصرف سے نکال کر دوسرے کی ملکیت میں داخل کر دیتا ، مثلا میراث کا منتقل ہونا غیرہ۔ 
یہی سے ہمارے پاس یہ قاعدہ ایجاد ہوا کہ ہر شخص جس کے ہاتھ میں کوئی چیز یا عین ہے اور وہ اس پر مسلط اور قدرتِ تصرف رکھتا ہے وہ شخص اس چیز پر دوسروں کی نسبت اولویت رکھتا ہے ۔ ملکیت اسی اولویت اور اختصاص کا نام ہے نہ کہ خارج میں بنام ملکیت کوئی تکوینی یا وجودی شیء پائی جاتی ہے۔ ایک شخص کے ساتھ شیء کا اختصاص یا اولویت اسی تسلط ، استیلاء اور قبضہ سے جنم لیتا ہے۔ مالک وہ شخص کہلاتا ہے جس کےہاتھ میں ایک چیز ہو اور وہ اس چیز پر قبضہ، استیلاء اور تسلط رکھتا ہے۔ شریعت نے مالک اور ملکیت کے امور کو آ کر منظم کیا اور ملکیت و مالکیت کے لیے مختلف احکام کو اعتبار کیا۔ قرآن کریم میں کاسب کے عنوان سے آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:{ فَبِما كَسَبَتْ أَيْديكُمْ … اس آیت کریمہ میں کسب سے مراد اعمال کو کسب کرنا ہے۔ پس کسبِ اعمال کو ہاتھوں سے کمانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ید کا معنی وسیع ہے ، یہ فقط انسانی جسم کے ایک عضو میں استعمال نہیں ہوتا۔ ید کے وسیع  

۳۔ قاعدہ اصل ہے یا امارہ؟

Views: 133

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قاعدۃ الجُبّ
اگلا مقالہ: قاعدہ حجیۃ سوق المسلمین