loading
{قاعدہ فقہی:۶}
قاعدہ نذر کو پورا کرنا
تحریر:عابد حسین
2021-10-31

فقہی قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ ’’قاعدہِ نذر‘‘ ہے جس کو فقہ کے مختلف ابواب میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قاعدہِ نذر کو فقہاء نے ان کلمات کے ساتھ تحریر کیا ہے:  > لزوم الوفاء بالنذر والعهد واليمين؛ نذر، عہدو پیمان اور قسم کو پورا کرنا لازم ہے   <۔  اس جگہ ہم خصوصی طور پر ’’نذر‘‘ جسے اردو میں منّت بھی کہتے ہیں کو زیر بحث لائیں گے۔

قاعدہ کی وضاحت:

نذر ایک ایسا عمل ہے جسے طول تاریخ میں انسان دائرہِ عمل میں لاتا رہا ہے اور اپنی روز مرہ زندگی میں مختلف ضروریات و حاجات کو حاصل کرنے کے لیے اس طریقہ کو استعمال کرتا ہے۔ نذر و قسم کا طریقہ کار شریعت کی زبانی انسانی معاشروں میں منتقل ہوا ہے اس لیے اس طریقہ پر وہی لوگ عمل کرتے ہیں جو کسی دین کے پیرو ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام نے نذر قسم اور عہدو پیمان کے خصوصی احکام ذکر کیے ہیں۔ قرآن و روایات میں انبیاء اور آئمہ ^ کی سیرت میں نذر ماننے اور اس کو پورا کرنے کے واضح شواہد موجود ہیں۔

نذرکی لغوی تعریف:

نذر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی خوف دلانے اور خوف کھانے کے وارد ہوئے ہیں۔[1]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۴۱۴۔  راغب نے ’’نذر‘‘ کے معنی کسی امر کی وجہ سے اپنے اوپر ایسی چیز کو واجب قرار دینا جو واجب نہیں ہے کے ذکر کیے ہیں۔ [2]راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۷۹۷۔

نذرکی اصطلاحی تعریف:

فقہاء کرام نے نذر کی تعریف مختلف اسلوب اور عبارتوں کے ساتھ کی ہے۔ شہید اول نذر کی تعریف ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

  > فهو التزام الكامل، المسلم، المختار، القاصد، غير المحجور عليه بفعل أو ترك بقوله للّٰه ناوياً القربة   <
ترجمہ:نذر سے مراد ایک مسلمان کا اختیار، قصدو ارادہ کے ساتھ -بشرطیکہ وہ محجور علیہ نہ ہو – کسی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے کامکمل طور پر ملتزم ہونا ہے ، اپنے اس قول کے ساتھ کہ میں اللہ کے لیے انجام دیتا ہوں قربت کی نیت کرتے ہوئے۔ [3]شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، ج ۲، ص ۱۴۹۔

آیت اللہ جعفر سبحانی نے ذکر کیا ہے کہ اس تعریف میں مسلم کی قید سے کافر کو خارج کیا گیا ہے کیونکہ کافر کی نذر شرعی نذر نہیں کہلاتی۔ مختار کی قید سے مجبور اور دباؤ کے ساتھ نذر مانگنے والے کو خارج کیا گیا ہے کہ جو نذر مانگنے میں مجبور ہو اس کی نذر ’’شرعی نذر‘‘ نہیں کہلائے گی۔ اسی طرح ضروری ہے کہ نذر مانگنے والا محجور علیہ نہ ہو۔ محجور علیہ سے مراد وہ شخص ہے جسے حاکمِ شرع نے مال خرچ کرنے اور دیگر تصرفات کرنے سے منع کر دیا گیا ہو اور اس پر پابندی ہو کہ وہ اپنے مال سے کچھ خرچ نہیں کر سکتا۔جو شخص محجور علیہ اس کی منت و نذر بھی شرعی نذر نہیں کہلائے گی۔ اسی طرح نذر مانگنے والا مکمل ارادہ اور اختیار سے نذر مانے ورنہ اس کی نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ [4]سبحانی، جعفر، درس خارج فقہ، ۲۵-۶-۹۴۔ نذر مانتے ہوئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور اسی کی خاطر نذر مانے۔ اس لیے غیر اللہ کی نذر ’’شرعی نذر‘‘ نہیں کہلائے گی۔ جہاں فعل کے انجام دینے اور ترک کرنے کا تعلق ہے تو ضروری ہے کہ فعل کا انجام دینا یا ترک کرنا حرام نہ ہو۔

نذر کے شرعی ہونے کی دلیل

نذر کے شرعی ہونے پر مختلف ادلہ موجود ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نذر شرعی حکم رکھتا ہے اور اگر اپنی شرائط کے ساتھ نذر مانی جائے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے ۔ نذر کے شرعی ہونے کی دلیل احادیث مبارکہ ، سیرت رسول اللہ ﷺ و آئمہ اطہار ؑ اور اجماع کے علارہ قرآن کریم کی واضح آیت کریمہ ہے۔ [5]سبحانی، جعفر، الایضاحات السنیۃ للقواعد الفقہیۃ، ج ۱، ص ۲۷۵۔قرآن کریم نے واضح الفاظ میں نذر کے پورا کرنے کے وجوب کا حکم دیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:

{  وَ لْيُوفُوا نُذُورَهُمْ  ؛اور انہیں اپنے نذریں پوری کرنی چاہیے}. [6]حج: ۲۹۔

نذر کی اقسام

فقہاء کرام نےنذر کی متعدد اقسام ذکر کی ہیں۔ صاحب جواہر نقل کرتے ہیں کہ نذر مانتے ہوئے اسے کسی شرط کے ساتھ مقید کریں گے یا نذر متبرع ہو گی۔ اگر پہلی صورت کو لیں تو نذر مانتے ہوئے نذر کا تعلق ایسی شیء سے جوڑ رہے ہیں جس میں مقصد اللہ کا شکر ادا کرنا ہے یا ایسی شیء سے نذر کا تعلق جوڑ رہے ہیں جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کے انجام دینے سے منع کیا ہے۔ [7]نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج ۳۵، ص ۳۶۵۔ شیخ جعفر سبحانی نے اسی بناء پر نذر کی تین قسمیں ذکر کی ہیں:

۱۔ نذر البِرّ:  اس سے مراد ایسی چیز کی نذر مانگی جائے جس میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے، مثلاً کہے اگر اللہ نے مجھے عافیت عنایت کی یا مجھے اولاد عنایت کی تو میرے اوپر لازم ہے کہ میں اللہ کی خاطر یہ یہ کام کروں۔

۲۔نذر الزجر: اس سے مراد ایسی چیز کی نذر مانگنا ہے جس میں کسی ممنوع عمل انجام دینے کی صورت میں اپنے اوپر کسی شیء کو لازم کرنا ہے، مثلا ً بندہ کہے: اگر میں جھوٹ بولا تو میرے اوپر لازم ہے کہ میں اللہ کی خاطر فلاں فلاں کام کروں۔

۳۔ نذر التبرُّع: اس سے مراد ایسی نذر ہے جس میں کسی شیء پر نذر کو معلق نہ کیا جائے ، مثلاً بندہ کہے: اللہ کی خاطر میرے اوپر لازم ہے کہ میں فلاں فلاں عمل انجام دوں۔ پہلی دو قسم کی نذر بلا شک وشبہ شرعی نذر ہیں جبکہ تیسری نذر یعنی نذرِ تبرُّع میں اختلاف ہے کہ آیا یہ شرعی نذر ہے یا نہیں۔[8]سبحانی، جعفر، الایضاحات السنیۃ للقواعد الفقہیۃ، ج ۱، ص ۲۷۲۔

Views: 16

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قاعدہ اقرار عقلاء
اگلا مقالہ: منطق میں دلیل افتراض