loading
{علم المنطق}
دلیل افتراض

تحریر: سید محمد حسن رضوی

منطق میں قیاس اقترانی کی دو قسمیں جاتی ہیں جن میں سے پہلی اقترانی حملی  اور دوسری اقترانی شرطی کہلاتی ہے۔ اہل منطق نے قیاس اقترانی حملی کی چار اَشکال بیان کی ہیں جن میں سے پہلی شکل بدیہی اور واضح ہے جس میں حد اوسط نتیجہ میں اصغر کے اکبر کے ساتھ تعلق و ربط پر دلالت کرتی ہے۔ بقیہ تین اشکال چونکہ طبع سے دُور ہیں اس لیے ان کے اثبات کے لیے برہان کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شکلِ دوم اور شکل سوم کے اثبات کےلیے تین قسم کی برہان سے اہل منطق نے استفادہ کیا ہے جن میں سے ایک دلیل افتراض ہے ۔ اس تحریر میں دلیل افتراض کو زیر بحث لایا گیا ہے جبکہ بقیہ دو سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ شکل دوم اور سوم کے لیے درج ذیل تین براہین سے استفاد کیا جاتا ہے:

۱۔ طریقہ خلف                            ۲۔ دلیل افتراض                         ۳۔ طریقہ ردّ

دلیل افتراض:

دلیل افتراض کو قیاس افتراض اور برہانِ افتراض بھی کہا جاتا ہے۔ دلیل افتراض سے مراد یہ ہے کہ قیاس میں حدِ وسط نتیجہ کے اصغر کے بعض افراد پر حمل ہوتا ہے اور بعض افراد پر نہیں۔ حدِ وسط ’’اصغر‘‘ کے جن بعض افراد پر حمل نہیں ہو رہا اس کو جدا کر لیا جائے اور اس مجموعے کا خاص نام رکھ دیا جائے تاکہ اس کو جداگانہ طور پر ملاحظہ کیا جا سکے۔جب اصغر کے وہ افراد جن پر حد اوسط حمل نہیں ہوتا کو جدا کر لیں تو پھر انہیں قیاس کی شکل میں دوبارہ ڈھالیں ۔ اس کو ہم شکل دوم کی درج ذیل مثال سے سمجھ سکتے ہیں:

صغرى: ليس بعض الحيوان بإنسان.

كبرى: كل ناطق إنسان.

نتيجة: فليس بعض الحيوان بناطق.

اس مثال پر دقّت کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ شکل دوم ہے کیونکہ شکلِ دوم کی دو اہم شرائط تھیں: ۱۔ کیفِ قضیہ میں اختلاف ہونا چاہیے ، ۲۔ کبریٰ کلی ہونا چاہیے۔ اس مثال میں صغریٰ سالبہ جزئیہ ہے اور شکلِ ثانی میں نہ صغری کے موجبہ ہونے کی شرط ہے اور نہ ہی کلی ہونے کی ۔ چنانچہ صغری سالبہ جزئیہ ہو سکتا ہے۔ اس مثال میں دوسری شرط بھی پوری ہے جوکہ کبری کا کلی ہونا ہے۔ مثال میں حدِ وسط صغری اور کبری ہر دو کا محمول بن رہا ہے جوکہ ’’انسان‘‘ ہے۔ انسان حد وسط ہے جوکہ حیوان کے تحت مندرج ہوتا ہے۔ چنانچہ نتیجہ میں اصغر صغری کا موضوع اور اکبر کبری کا موضوع قرار پائے گا :’’ فليس بعض الحيوان ناطق‘‘، اصغر: بعض الحیوان ہے اور اکبر: ناطق۔

اب ہم دلیل افتراض کے ذریعے شکل دوم کو شکل اول میں تبدیل کر دیں گے۔ ہم اسی نتیجہ ’’ فليس بعض الحيوان ناطق‘‘کو اٹھائیں گے جس میں ’’حیوان‘‘  حد اوسط سے اعم تر ہے۔ اوپر مثال پر دقت کریں تو نظر آئے گا کہ ’’انسان‘‘ حدِ وسط بن رہا ہے اور انسان کو حیوان سے نسبت دیں تو حیوان اعم اور انسان اس سے اخص تر ہے۔ چنانچہ حد وسط یعنی انسان کا اطلاق نتیجہ میں اصغر یعنی بعض حیوان پر نہیں ہو رہا ہے جس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصغر کے بعض افراد حد اوسط کو شامل ہیں اور بعض افراد شامل نہیں ہیں۔ پس اس مثال میں حد وسط ’’انسان‘‘ اصغر کے بعض افراد جیسے فرس، اسد، ثعلب … وغیرہ پر حمل نہیں ہو رہا۔ اصغر کے جن افراد پر حد وسط منطبق نہیں ہو رہا ہم ان میں سے ایک فرد کو اٹھا لیتے ہیں، مثلاً فرس کو اٹھا لیتے ہیں جبکہ سورِ قضیہ’’ لیس بعض‘ ‘ تھا۔ اس طرف توجہ رہے کہ ’’لیس بعض‘‘ کا تعلق اصغر یا اکبر سے نہیں ہے کیونکہ سورِ قضیہ موضوع یا محمول کا جزء شمار نہیں ہوتے بلکہ قضیہ کے اوپر داخل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ’’لیس بعض‘‘ اصغر کا جزء نہیں ہے۔

مثال کو ہم دوبارہ ملاحظہ کریں  کہ انسان حیوان کے بعض افراد کے ساتھ مباین ہے ، جیسے فرس۔ اگر انسان کی فرس سے نسبت کو دیکھا جائے تو ہم سالبہ کلیہ قضیہ بنا سکتے ہیں اور سورِ قضیہ کو بعض سے کلیہ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ چنانچہ کہا جائے گا:  ’’ لا شيء من فرس بإنسان‘‘۔ یہاں توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے بعض حیوان سے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا جو حدِ وسط ’’انسان‘‘ سے مباین تھا اور اس کا نام ’’فرس‘‘ رکھ دیا۔ پھر فرس اور انسان میں تباین کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’لیس بعض ‘‘ کو ’’ لا شیء ‘‘ یعنی سالبہ کلیہ میں تبدیل کر دیا۔

ہم نے خود ایک قضیہ کو فرض کر لیا جوکہ  ’’ بعض الحيوان فرس‘‘ سے عبارت ہے کیونکہ یہ ’’بعض حیوان‘‘ انسان کے ماتحت مندرج نہیں ہو رہا۔  ’’ بعض الحيوان فرس‘‘ کو ہم نے فرض کیا ہے۔اب ہم اس فرض کیے گئے قضیہ کو اوپر موجود سالبہ کلیہ کے ساتھ ضم کر دیں تو قیاس  کی شکل اول ہمارے سامنے آ جائے گی جس میں ہم ’’اخس المقدمتین‘‘ کے قانون  کے تحت نتیجہ لیں گے۔ پس قیاس کی شکل اول اور اس کا نتیجہ درج ذیل صورت میں ہمارے پاس آتا ہے:

صغرى: بعض الحيوان فرس.

كبرى: لا شيء من فرس بإنسان.

نتيجة: فليس بعض الحيوان بإنسان.

یہاں توجہ کیجیے کہ ہم تھوڑا سا تصرف کر کے انسان کی بجائے ’’ناطق‘‘ رکھ دیتے ہیں اور یہ وہی نتیجہ نکل رہا ہے جو شکل ثانی سے نتیجہ نکلا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ دلیل افتراض کے ذریعے سے شکل دوم یا شکل سوم کو شکل اول کی طرف پلٹا جا سکتا ہے اور جب نتیجہ یکساں نکل رہا ہے تو یہ دلیل بن جاتا ہے کہ نتیجہ مطابقِ واقع ہے کیونکہ شکل اول واضح اور بدیہی طور پر نتیجہ دیتی ہے۔ [1]حشمت پور، درس برہان شفاء، ۱۴-۱۱-۹۴۔

شیخ رضا مظفر کی وضاحت:

منطق شیخ رضا میں دلیل افتراض کو قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن آغاز میں تحریر کیا کہ ہم اس دلیل کی وضاحت اس لیےکر رہے ہیں تاکہ طالب علم کا ذہن منطقی افکار سے منور ہو جائے۔ بعض شارحین نے دلیل افتراض کی شرح نہیں کی کیونکہ علوم میں دلیل افتراض استعمال نہیں ہوتی۔[2]حیدری، سید کمال، شرح کتاب المطنق، ج ۳، ص ۲۲۶۔  اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال شکل دوم اور شکل سوم کی نتیجہ دینے والی صورتوں پر اقامہِ برہان کی خاطر ہے۔ دلیل افتراض کے ذریعے سے ہم عکس اور طریقہِ خلف سے مستغنی و بے نیاز ہو جائیں گے۔شیخ رضا مظفر نے دلیل افتراض کے تین مراحل بیان کیا کیے ہیں:

۱۔ افتراض                   ۲۔فرض کے بعد دو صادق قضیہ کو اخذ کرنا               ۳۔ مطلوب کو حاصل کرنے کے لیے قضایا کو آپس میں ملانا

پہلا مرحلہ: افتراض:

ہم شکل دوم کو مثال کے طور پر انتخاب کرتے ہیں جس میں صغری سالبہ جزئیہ اور کبری موجبہ کلیہ قرار دیں جیساکہ اوپر مثال میں ذکر کیا گیا ہے۔ اوپر مثال میں نتیجہ ہمارے پاس ’’ فليس بعض الحيوان ناطق‘‘نکلا تھا جس میں حدِ اوسط ’’انسان‘‘ تھا۔ یہاں ہم ہمیں ایک ایسی فرض کی ضرورت ہے جس سے انسان کو سلب کیا جا سکے۔ یہاں پر حیوان اعم مفہوم رکھتا ہے جس سے ہم فرس، قرد، اسد وغیرہ مراد لیتے ہیں جن پر انسان منطبق نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک کا ہم انتخاب کر لیتے ہیں ، مثلاً فرس جس سے انسان کو سلب کیا جا سکتا ہے۔ اس کو معین کرنے کے بعد ہم فرس کے لیے ایک رمز مثلاً ’’د‘‘ ایجاد کر لیتے ہیں۔شیخ رضا مظفر نے انہی رموز کو استعمال کرتے ہوئے بقیہ وضاحت کی ہے جس میں صغری کے موضوع کو ’’م‘‘ اور محمول کو ’’ب‘‘ سے مرموز کیا ہے اوریہی ترتیب بقیہ قضایا میں باقی رہتی ہے۔ ہم یہاں آسانی کی خاطر رموز کی جگہ اصل شیء کے نام کو ذکر کر رہے ہیں جوکہ ہماری مثال میں ’’فرس‘‘ ہے۔ فرض کے مرحلہ میں ہم نے ایسے فرد کو فرض کرنا ہے جس پر اعم مفہوم منطبق ہوتا ہو تاکہ ہم بعد میں دو صادق قضایا بنا سکیں۔

اس طرف توجہ رہے کہ اوپر مثال میں ہم نے شکل دوم سے استدلال کیا تھا جبکہ شیخ رضا مظفر نے شکل سوم پر دلیل افتراض کو جاری کیا ہے۔ پس ہمارے پاس شکل دوم اور شکل سوم ہر دو می مثالیں اس طرح سے سامنے آ جاتی ہیں۔

دوسرا مرحلہ: دو صادق قضیوں کا استخراج:

فرض کے مرحلے کے بعد ہم اگلے مرحلہ داخل ہوتے ہیں اور دو ایسے قضایا تشکیل دیتے ہیں جو یقینی طور پر صادق ہوں، مثلا پہلا قضیہ موجبہ کلیہ ہو اور دوسرا قضیہ کلیہ ہو ، فرق نہیں پڑتا موجبہ ہو یا سالبہ۔

قضیہ موجبہ کلیہ :

پہلا قضیہ اس طرح سے تشکیل دیں گے کہ ہم نے جس فرد کو فرض کیا تھا مثلاً ’’فرس‘‘ اس کو موضوع اور اصل مثال میں جو موضوع تھا اس کو محمول بنا لیں۔ پس ہمارے پاس یہ قضیہ بن جاتا ہے:’’ كل فرس حيوان‘‘، حیوان مثال میں موضوع اور فرس مفروض فرد ہے۔ یہاں حیوان کا مفہوم اعم اور فرس کا اخص ہے اور اعم اپنے سے اخص مفہوم کے تمام افراد کو شامل ہے اس لیے ’’کل فرس‘‘ کہا جاتا سکتا ہے۔  

قضیہ کلیہ (موجبہ یا سالبہ) :

دوسرا قضیہ اپنی ضرورت کے مطابق ہم اس طرح صادق بناتے ہیں کہ ’’فرس‘‘ جسے مفروض کیا گیا تھا کو موضوع اور اصل مثال کے محمول کو اس قضیہ کا محمول بنا دیں اور کیف کو مدنظر رکھتے ہوئے سالبہ بنائیں گے، اس طرح سے ہمارے پاس قضیہ بن جائے گا:’’ لا شيء من فرس بناطق‘‘۔

تیسرا مرحلہ: قضایا کو باہمی طور پر ملایا جانا:

تیسرے مرحلہ میں ہم مطلوب حاصل کرنے کے لیے ان قضایا کو اس طرح سے ملاتے ہیں کہ نتیجہ ہمارے پاس واضح طور پر آ جائے۔ اس تیسرے مرحلے میں ہم دیکھیں گے کہ ہم شکل اول بنا کر مطلوب ثابت کرتے ہیں یا عکس بنا کر مطلوب ثابت کرتے ہیں۔

مثال:

شیخ رضا مظفرؒ نے متعدد مثالیں دلیل افتراض کو بیان کرنے کے لیے دی ہیں اور ان میں تینوں مراحل کو تطبیق دیا ہے۔ ہم انہی مثالوں کو رموزسے صرفِ نظر کرتے ہوئے اصل عنوان ذکر کر کے زیرِ بحث لاتے ہیں، مثلاً  ہم شکل ثالث کی پانچویں شکل بناتے ہیں جس پر دلیل افتراض کے ذریعے سے برہان قائم کرتے ہیں۔ 

مفروض صغرى: کل إنسان حيوان

كبرى: ليس بعض إنسان بفرس

نتيجة: فليس بعض الحيوان بفرس.

دلیل افتراض کے ذریعے ہم اس نتیجہ کو ثابت کر سکتے ہیں۔ [3]شیخ مظفر، محمد رضا، المنطق، ص ۲۶۳۔

منابع:

منابع:
1 حشمت پور، درس برہان شفاء، ۱۴-۱۱-۹۴۔
2 حیدری، سید کمال، شرح کتاب المطنق، ج ۳، ص ۲۲۶۔
3 شیخ مظفر، محمد رضا، المنطق، ص ۲۶۳۔
Views: 38

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قاعدہ نذر
اگلا مقالہ: دشمن اسلام معاویہ بن مغیرہ