loading

{قاعدہ فقہی: ۳}

قاعدہ  لاحرج

تحریر :مجاہد حسین
09-10-2021

قاعدہ  ’’لا حرج‘‘ علم فقہ کے ابواب میں جا ری ہونے والےا قواعد میں سے ایک  قاعدہ ہے جوعلم  فقہ کے  متعدد   ابواب میں جاری ہوتاہے فقہاءکرام  ؒ  نےاس کو فقہی احکام میں استعمال کیا ہے ۔آئیے اس  کے بارے میں جانتے ہیں۔

قاعدے کی وضاحت 

حرج عربی زبان کا لفظ ہے۔ فقہاءکرام نےحرج کا معنی  ضیق یا  ضیق شدیدکیا  ہے

 حرجالحرج: المأثم. والحارج: الآثم، قال: ياليتني قد زرت غير حارج [3] ورجل حرج وحرج … ” يجعل صدره ضيقا حرجا ” [5] وحرجا. وقد حرج صدره: أي ضاق ولا … إذا سفرت * وتحرج العين فيها حتى تنتقب والحرجة من الشجر: … رمية حجر، وجمعها حراج، قال: ظل وظلت كالحراج قبلا * وظل …(خلیل بن احمد فراھیدی،کتاب العین، ج ، ۳ ،ص، ۷۶)

(یعنی وہ حکم جو بندوں پر شدید تنگی کا باعث بنے )ان کے لیے یہ حکم شرعی ناقابل برداشت ہے ۔ اسی طرح گناہ اور حرام امور کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔فقہاءکرام بیان کرتے ہيں کہ جس طرح سورہ حج میں لفظ حرج کا ذکر ہوا ہے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ لقظ تکرارہوا ہے  اس کے بعد اس کو قاعدے کی صورت میں مختلف ابواب فقہ میں جاری کیا گیا ۔اس قاعدہ سے  مراد ہر اس کی حکم نفی ہے جو بندوں کے لیے شدیدتنگی کا باعث ہو۔جب بھی حرج  لازم آئےیہ حکم مرفوع ہو جائے گا ۔

اس قاعدہ سے مراد ہر اس حکم کی نفی ہے کہ جو لوگوں پر عائدہونے سے حرج لازم آئے ۔حرج سے جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ فعل کی انجام دہی میں مشقت شدیدہ کاسامنہ کرنا   ہے نہ کہ اس فعل پر عدم قدرت  کا ہونا ہے ۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضرر اور حرج میں فرق ہے ۔ ضرر نقص کو کہتے ہيں جو مال اور بدن  یا دوسری اشیا ء میں نظر آتا ہے ۔لیکن حرج  سےکبھی بھی نقص   مراد نہیں ہے ۔ مثلا ً سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا ، یہ حرج کے زمرے میں تو آسکتا ہے لیکن ضرر نہیں ہے ۔ [1]ایروانی ،محمد باقر ،دروس تمہیدیہ فی القواعد الفقہیہ ،جزاوّل ، ص ، ۱۷۲۔

قاعدہ لاحرج کی  دلیل

مدرک قاعدہ میں شیخ نے بیان کیاہے کہ اس قاعدہ کے لیے چار ادلہ ہوسکتے ہیں(کتاب ،سنۃ ،عقل ،اجماع) لیکن انہوں نے پہلے دو سے  اس قاعدہ پرادلہ قائم کی ہیں اور بقیہ دو کی نفی کی ہے جو کہ عقل ا ور اجماع ہيں  اور ساتھ وجہ بھی بیان کی ہے کہ عقل  امر شاق کی نفی نہیں کرتا ہے بلكہ امور غیر مقدو رہ سے  منع کرتاہے  اور اجماع مدرکی ہونے کی وجہ سے قبول نہیں ہے ۔اجماع کی حجیّت موقوف ہے کہ یہ حکم امام  علیہ السلام کی طرف سے کشف ہوا ہے ۔پس واضح ہوگیا کہ مدرک قاعدہ کے طو رپر کتاب اور سنت کو پیش کیا جا سکتاہے مگر عقل اور اجماع کو نہیں ۔   [2] ایروانی،محمد باقر،دروس تمہیدیہ فی القواعد الفقہیہ ،جز اوّل،ص ،۱۷۳۔

دلیل اوّل: كتاب الہٰی

فقہاء عظام کی نظر میں قرآن کی متعدد آیات قاعدہ لا حرج پر دلالت کرتی ہیں ۔سورہ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: {وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ  ‏‏، (اللہ تعالی )نے دین میں تمہارے اوپر کسی حرج(مشقت شدیدہ) کو قرار نہیں دیا ہے۔}.[3]سورہ حج: آیت ۷۸۔ قرآن كریم میں سورہ مائدہ میں حرج سے متعلق فرمانِ الہٰی ہوتا ہے: {وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى‏ أَوْ عَلى‏ سَفَرٍ أَوْ جاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْديكُمْ مِنْهُ ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ }.[4]سورہ مائدہ : آیت ۶۔

دلیل دوم:سنت شریفہ

۱۔ روایت ابو بصیر

امام صادق ع سے ایک مجنب شخص کے بارے سوال کیا کہ وہ برتن کو اٹھانے کے لیے اس میں انگلیاں ڈالتاہے ۔تو امام ع نے  فرمایا کہ اگر اس کے ہاتھ نجس ہیں تو دھو  لے اور اگر نجس نہيں ہيں تو  ان سے غسل کرلے  ۔یہ مسئلہ  ان  مسائل میں سے ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج.[5]وسائل الشيعہ  ۱ :۱۱۵ ،الباب ۸ من ابواب الما ء المطلق،حدیث   ۱۱

۲۔روایت زرارہ

زرارہ  سے روایت ہے کہ امام صادق ع نے حاملہ عورت کہ جس کے وضع حمل کے دن قریب ہوں اور دوسری وہ کہ جس کا دودھ کم ہوان پر کوئی حرج نہیں کہ رمضان میں روزے رکھیں۔کیونکہ وہ دونوں اس فعل کے انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں ۔[6]حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج ۷، ص ۱۵۳۔

قاعدہ لا حرج کے فقہی مسائل میں شواہد

۱۔ ایک آدمی کے پاس اتنا مال آئے کہ وہ حج کے لیے مستطیع ہو جائے لیکن اس کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں ہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ،کیا وہ حج کے لیے جائے یا اپنا گھر بنائے ؟ اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ           اس قاعدہ کے مطابق اس پر حج واجب نہیں ہوگا ،اگر اس کو گھر کی ضرورت ہےتو  وہ اس مال سے اپنا گھر بنوائے ۔[7]حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ،ج۷ ،ص۱۵۳ ۔

منابع:

منابع:
1 ایروانی ،محمد باقر ،دروس تمہیدیہ فی القواعد الفقہیہ ،جزاوّل ، ص ، ۱۷۲۔
2 ایروانی،محمد باقر،دروس تمہیدیہ فی القواعد الفقہیہ ،جز اوّل،ص ،۱۷۳۔
3 سورہ حج: آیت ۷۸۔
4 سورہ مائدہ : آیت ۶۔
5 وسائل الشيعہ  ۱ :۱۱۵ ،الباب ۸ من ابواب الما ء المطلق،حدیث   ۱۱
6 حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج ۷، ص ۱۵۳۔
7 حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ،ج۷ ،ص۱۵۳ ۔
Views: 26

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اصالت طہارت
اگلا مقالہ: استدلال مباشر