loading

منطق میں مادہ اور جہت (موجہات) میں فرق

تحریر : سید محمد حسن رضوی
تاریخ: 08/15/2021

علم منطق میں قضایا کی اقسام کے ذیل میں نسبتِ قضیہ کی کیفیت سے جب بحث کی جاتی ہے تو کیفیتِ نسبت کے ذیل میں مادہ اور جہت کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ نسبت کی دلالت محمول کے موضوع سے تعلق یا عدم تعلق کی بناء پر  ہوتی ہے۔ قضایا میں موضوع، محمول اور نسبت کی اصطلاحات حقیقت میں خارج میں موجود حقائق کی تشریح ہے۔ خارج میں ہر موجود شیء کسی نہ کسی صفت، خصوصیت یا حالات سے متصف ہوتی ہے۔ لہٰذا جب بھی خارج میں موجود کسی حقیقت و واقعیت کو انسان بیان کرتا ہے اور اس حقیقت کے لیے کسی خصوصیت کو ثابت کرتا ہے یا کسی امر یا خصوصیت کی نفی کرتا ہے تو لامحالہ ذات کے لیے کسی شیء کو ثابت یا سلب کرتا  ہے۔ پس قضیہ کے وجود میں آنے سے پہلے حقائق اور واقعیت اپنی جگہ موجود ہے جس سے حکایت یا ترجمانی قضیہ کرتا ہے۔ عموما ذات کو قضیہ میں موضوع اور اس کے لیے جس صفت یا خصوصیت کو ثابت یا سلب کیا جا رہا ہے اس کو محمول قرار دیتے ہیں اور نسبت آ کر محمول کا موضوع سے ربط اور تعلق جوڑتی ہے۔ اس نسبت کی کیفیت سے بحث کرتے ہوئے ہمارے پاس ’’مادہ اور جہت‘‘ کی اصطلاحات آتی ہیں۔  پس اگر کیفیتِ نسبت خارج میں موجود ہو تو اس کو مادہ کہتے ہیں اور اگر کیفیتِ نسبت بذاتِ خود قضیہ سے سمجھی جا رہی ہو تو اس کیفیتِ نسبت کو جہت سے تعبیر کرتے ہیں۔

کیفیتِ نسبت سے بحث کرنے کی وجہ:

اگر ہم خارج کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خارج میں موجود ہر ذات کسی نہ کسی خصوصیت یا صفت سے متصف ہے یا بعض خصوصیات یا صفات سے عاری اور مبرّا ہے۔ خارج میں ہمیں ذات اور صفات و خصوصیات متحد نظر آتی ہیں جنہیں خارج میں ایک دوسرے سے جدا کر کے ملاحظہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ذات اور صفات یا خصوصیت کو جداگانہ طور پر ملاحظہ نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے مادی طور پر لیبارٹری میں ایسا کرنا ممکن نہ ہو لیکن اللہ تعالی نے انسانی عقل کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ ذات اور صفات کو عقلی قوت سے درک کر سکے اور اس کو جداگانہ طور پر ملاحظہ کرے۔ البتہ ہم جب بھی کسی ذات کے لیے صفت یا خصوصیت کو ثابت کرتے ہیں یا نفی کرتے ہیں تو اس کو کلام کی صورت میں بیان کرتے ہیں ۔ کلام میں جو نسبت ہےوہ  ذات کی صفت یا خصوصیت کے ساتھ تعلق یا عدم تعلق پر دلالت کرتی ہے۔ اگر یہ نسبت نہ ہوتی تو قضیہ میں موجود کلمات ڈکشنری کی مانند ایک دوسرے جدا اور لا تعلق بن کر رہ جاتے اور ان کا آپس میں کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہوتا۔ پس باہمی تعلق یا تعلق نہ ہونے پر دلالت نسبتِ قضیہ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔یہ نسبتِ قضیہ اگر خارج میں موجود نسبت کے عین مطابق ہو تو قضیہ صادقہ اور اگر مخالف ہو تو قضیہ کاذبہ کہلاتا ہے۔ 

کلمہ مادہ مشترک لفظی ہے

 علومِ عقلی میں مادہ کی اصطلاح مشترک لفظی ہے جس میں لفظ ایک لیکن مختلف علوم اور ابواب میں معنی مختلف ہے۔اردو زبان میں نر کے مقابلے میں مادہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ نیز ایک شیء کے عناصر اور اجزاء کو بھی مادہ کہتے ہیں۔ لیکن  اسلامی علوم میں کلمہِ مادہ ان دونوں معانی سے ہٹ کر درج ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے: 
۱۔ مادہ بمعنی عنصرِ مادی جس سے مادی اجسام تشکیل پاتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں بھی اس کو مادہ کہتے ہیں۔
۲۔ مادہ بمعنی ایک لفظ کے ظاہری وزن اور صورت کے اندر الفاظ کا مجموعہ ، مثلا نَصَرَ جوکہ فَعَلَ کے وزن پر ہے ، اس میں’’  فَعَلَ ‘‘وزن اور  ’’ن-ص-ر ‘‘مادہ کہلائے گا۔
۳۔ مادہ بمعنی ہیولیٰ یعنی استعداد محض جوکہ ایک فلسفی اصطلاح ہے۔ اس معنی میں مادہ کے مقابل صورت ہے۔  
۴۔ مادہ جوکہ جہت کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ ہماری بحث اس معنی میں ہے۔[efn_note][/efn_note]

علم منطق میں مادہ کی اصطلاح

علم منطق میں مادہ کی اصطلاح جہت کے مقابلےاستعمال ہوتی ہے۔  منطق میں اس کا دوسرا نام ’’عنصر‘‘ ہے۔ خارج میں موجود واقعی و حقیقی کیفیت کو مادہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خارج میں ذات اور اس کے اوصاف و خصوصیات کا رابطہ حقیقی اور واقعی ہے۔ خارج میں موجود حقیقی رابطہ کی نوعیت اور کیفیت کو ’’مادہ‘‘ کہتے ہیں۔ فرق نہیں پڑتا ہم اس کیفیتِ واقعی کا تصور کریں یا نہ کریں، اس کو تلفظ کریں یا نہ کریں، یہ ہر صورت میں خارج میں موجود رہتی ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ علومِ اسلامی میں ایک مرتبہ وجودِ رابط کے بارے میں بحث ہوتی ہے اور ایک مرتبہ رابطہ کی کیفیت اور نوعیت سے بحث ہوتی ہے۔ہمارے پیش نظر موضوع اور محمول کے درمیان نسبت کی کیفیت ہے۔ اگرچے ہم مادہ کو خارج میں موجود کیفیتِ نسبت سے تعبیر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کیفیت عالم ذہن سے مربوط ہے نہ کہ عالم خارج سے ۔ خارج میں وجوب عین حقیقتِ وجود ہے جوکہ واجب ہے نہ کہ ’’وجوب‘‘ سے مراد وہ وجود ہے جوکہ وجوب کی طرف منسوب ہو۔ اسی طرح امکان وجودات کے لیے عینِ فقر و احتیاج ہے نہ کہ ان وجودات کی ذاتِ اشیاء کی طرف نسبت کی کیفیت ہے۔ نیز اس طرف توجہ رہے کہ منطق میں رابط اور رابطی کی اصطلاح ایک معنی رکھتی ہے اور دونوں مترادف ہیں جبکہ حکمت متعالیہ میں وجودِ رابط اور وجودِ رابطی میں فرق کیا جاتا ہے۔ فلسفہ میں وجودِ رابط سے مراد غیر مستقل اور وجودِ رابطی سے مراد مستقل وجود یعنی ’’وجودِ محمولی‘‘ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وجود رابط کو بیان کرتے ہوئے موادِ ثلاث یعنی وجوب، امکان اور امتناع سے فلسفہ میں بحث کی جاتی ہے۔ علم منطق میں اس پہلو سے مادہ اور جہت سے بحث نہیں کی جاتی ۔ منطق میں فقط یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ محمول کی موضوع سے جو نسبت ہے آیا وہ نسبت وجوب کی ہے یا امتناع کی ہے یا امکان کی۔ 

علم منطق میں جہت سے مراد

 جہت سے مراد موضوع اور محمول کے درمیان پائی جانے والی نسبت کی ’’کیفیت ونوعیت‘‘ ہے۔ اگر ہم خارج میں ایک ذات کے کسی وصف یا خصوصیت کو ملاحظہ کریں اور اس وصف یا خصوصیت کو ذات سے نسبت دیں تو یہ امر تین صورتوں سے خارج نہیں ہو گا:

۱۔ یا تو اس وصف یا خصوصیت کو ذاتِ موضوع پر حمل کرنا ضروری اور لازم ہے، اس کو کہتے ہیں ’’وجوب‘‘۔
۲۔ یا اس وصف یا خصوصیت کو ذاتِ موضوع پر حمل کرنا ممنوع اور محال ہے، یعنی ضروری ہے کہ حمل نہ کیا جائے، اس کو کہتے ہیں ’’امتناع‘‘۔
۳۔ یا وصف یا خصوصیت کو ذاتِ موضوع پر نہ حمل کرنا ضروری ہے اور نہ اس خصوصیت کو ذاتِ موضوع سے سلب کرنا ضروری ہے، اس کو کہتے ہیں ’’امکان‘‘۔
وجوب، امتناع اور امکان کو کیفیتِ نسبت کہا جاتا ہے۔ اگر یہی کیفیتِ نسبت خارج میں واقعیت رکھتی ہو تو منطق میں اس کو مادہ کہتے ہیں اور اگر یہ قضیہ میں موجود ہو تو اس کو ’’جہت یا موجہات‘‘ کہتے ہیں۔
ہر قضیہ موضوع ، محمول اور ان کے درمیان نسبت پر مشتمل ہوتا ہے۔ بعض اوقات قضیہ میں نسبت کو بیان کرنے کے لیے لفظ کو ذکر کیا جاتا ہے جیساکہ اردو زبان میں لفظِ ’’ہے‘‘ اور فارسی میں ’’است‘‘ آتا ہے، مثلا عربی میں کہا جاتا ہے: الله هو أحد، اس مثال میں ’’ھو‘‘رابط ہے جوکہ نسبت کو بیان کر رہا ہے۔ عربی زبان میں عموما نسبت کو بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں لایا جاتا بلکہ قضیہ کی ہیئت اس نسبت پر دلالت کرتی ہے۔ قضیہ میں موجود اس نسبت کی تین کیفیات اور حالات سے خالی نہیں:
۱۔ کیفیتِ نسبت کبھی وجوب ہوتی ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ محمول کا موضوع پر حمل ہونا ضروری ہے اور محمول موضوع سے جدا نہیں ہو سکتا۔
۲۔ کبھی کیفیتِ نسبت امتناع ہوتی ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ محمول کا موضوع پر حمل ہونا ممنوع اور محال ہے اور محمول کا موضوع سے کبھی تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔
۳۔ کبھی کیفیتِ نسبت امکان ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ محمول کا موضوع پر نہ حمل ہونا ضروری ہے اور نہ سلب ہونا۔ یعنی دونوں ضرورتوں کو سلب کر لیا جائے۔

نسبت قضیہ میں مادہ اور جہت میں فرق

 مادہ اور جہت میں فرق درج ذیل فرق ہے:

رقم مادہ جہت

۔

 

http://lib.eshia.ir/71452/1/44/المواد

http://lib.eshia.ir/50018/1/232/وجوب

http://eshia.ir/feqh/archive/text/heshmatpour/manzoome/94/950219/

Views: 49

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ:  دوام اور اس کی اقسام
اگلا مقالہ: قاعدہ حجیۃ سوق المسلمین