loading

قاسم بن يحيی

تحرير: سید محمد حسن رضوی
2021-08-20

 کتب اربعہ کی متعدد اسانید میں قاسم بن یحیی  کا عنوان واقع ہوئے ہیں ۔آپ سے جتنی بھی احادیث نقل ہوئی ہیں وہ سب کی سب آپ نے الحسن بن راشد جوکہ آپ کے دادا لگتے ہیں سے نقل کی ہیں۔ آپ سے متعدد بزرگ محدثین و رواۃ نے احادیث کو اخذ کیا ہے جن میں سرفہرست نام ابراہیم بن ہاشم احمد بن عبد اللہ برقی، احمد بن محمد بن عیسی، وغیرہ ہیں۔ ابن الغضائری نے اپنی رجال میں آپ کو ضعیف قرار دیا ہے۔[1]ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۸۶۔ لیکن ابن الغضائری کی تضعیف اس لیے قبول نہیں ہے کیونکہ کتاب رجال الغضائری کی نسبت ابن الغضائری کی طرف ثابت نہیں ہے۔[2]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸۔ شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں زیارت کو نقل کرنے کے بعد واضح طور پر سندِ روایت کو اصح قرار دیا  [3]شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۵۹۸۔  اور روایت کی سند کو کاملا قبول کیا ۔ شیخ صدوق کا مطلقًا حکم سند کے تمام راویوں کی توثیق پر واضح طور پر دلیل ہے۔[4]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔[5]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸۔

رجالی تفصیلات كا جدول

۱۔ نام : قاسم بن یحیی بن حسن بن راشد [6]نجاشی، احمد بن علی ، رجال النجاشی، ص ۳۱۶، رقم:۸۶۶۔
۲۔ کنیت:  موجود نہیں۔
۳۔لقب/ نسبت: غیر موجود۔ 
۴۔ رجالی حیثیت:
توثیق خاص
۱۔ نجاشی: موجود نہیں۔
۲۔ طوسی: موجود نہیں۔
۳۔ کشی: موجود نہیں۔
توثیق عام شیخ صدوق نے آپ اور آپ کے دادا حسن بن راشد کی توثیق کی ہے اور ان کی روایت کو صحیح ترین حدیث اور ان کے طریق کو معتبر طریق قرار دیا ہے۔ شیخ صدوق کے اس مطلق حکمِ وثاقت کی بناء پر وثاقت ثابت ہو گی۔  [7] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔ [8]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔
۵۔طبقہ: بعض نے امام رضا  × کا صحابی شمار کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آپ کی ملاقات امام رضا×سے ثابت نہیں اگرچے آپ امام رضا ×کے ہمعصر اورہم زمان تھے۔[9]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۹۔

علمی تبصره

قاسم بن  یحیی کی  توثیق خاص وارد نہیں ہوئی۔ نجاشی اور طوسی نے فقط آپ کا نام اور آپ کی کتب کا تذکرہ کیا ہے۔ چوتھی صدی کے بلند پایہ محدث شیخ صدوق نے قاسم بن یحیی اور ان کے دادا حسن بن راشد مطلق حکمِ وثاقت کے ذیل میں توثیق کی ہے اور قاسم اور ان کے دادا ’’حسن بن راشد‘‘ ہر دو کی روایت کو اصح قرار دیا ہے۔   شیخ صدوق من لایحضرہ الفقیہ میں بیان کرتے ہیں: > وَقَدْ أَخْرَجْتُ فِي كِتَابِ الزِّيَارَاتِ وَفِي كِتَابِ مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ × أَنْوَاعاً مِنَ الزِّيَارَاتِ، وَاخْتَرْتُ هَذِهِ لِهَذَا الْكِتَابِ؛ لِأَنَّهَا أَصَحُّ الزِّيَارَاتِ عِنْدِي مِنْ طَرِيقِ الرِّوَايَةِ، وَفِيهَا بَلَاغٌ وَكِفَايَةٌ؛  میں نے كتابِ زیارات اور کتابِ مقتل حسین میں کئی انواع کی زیارات ذکر کی ہیں، البتہ اس کتاب میں اس زیارت کو میں نے اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ میرے نزدیک روایات کے مختلف طرق میں سے یہ سب سے صحیح ترین زیارت ہے اور زیارات میں کفایت کرتی ہے    < ۔[10]شیخ صدوق، محمد بن علی ، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۵۹۸۔ محقق خوئی نے اسی بناء پر قاسم اور ان کے جد امجد حسن بن راشد کی توثیق کی ہے ۔ محقق خوئی نے دو امور کو جداگانہ طور پر ذکر کیا ہے: 

    1. شیخ صدوق کا مطلق حکم کہ یہ روایت صحیح ترین روایت ہے اس حکم کو شامل ہے کہ سند کی جہت سے بھی یہ صحیح ترین ہے۔ ابن الغضائری کی تضعیف اس سے اس لیے معارض نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی کتاب کی نسبت ان کی طرف ثابت نہیں ۔
    2. قاسم بن یحیی سے براہ راست بلا واسطہ کوئی روایت امام معصوم ×سے وارد نہیں ہوئی ۔ لہٰذا شیخ طوسی کا یہ کہنا صحیح ہے کہ قاسم بن یحیی نے آئمہ اہل بیت ^ سے براہ راست کوئی روایت نقل نہیں کی۔[11] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔

شیخ آصف محسنی کی تحقیق:

شیخ محسنی نے ذکر کیا ہے کہ میں قاسم بن یحیی اور حسن بن راشد کی وثاقت کا قائل نہیں تھا اور انہیں میں مجہول الحال راوی سمجھتا تھا۔ لیکن جب میں نے شیخ صدوق کی عبارت پر دقت کی تو میرے لیے ان دونوں کا ثقہ ہونا ثابت ہوا۔[12]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔شیخ مامقانی نے ابن الغضائری اور ان کی بناء پر علامہ حلی کی تضعیف کو اس طرح سے رد کیا ہے کہ ابن غضائری کسی راوی کو غلو سے متہم کرنے اور تضعیف کرنے میں کثرت سے خطاء کا شکار ہوتے ہیں جس کی بناء پر ہم بآسانی ابن الغضائری کی تضعیف پر اعتماد نہیں کر سکتے ، خصوصا اس مورد میں جہاں نجاشی اور طوسی نے سکوت اختیار کیا ہو۔ نیز اجلاء اور کبار محدثین کا قاسم بن یحیی سے روایات نقل کرنا اور کثرت سے ان سے روایات لینا ان کی وثاقت اور اعتماد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ [13]مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج۲، ص ۲۶۔

آیت اللہ سیفی مازندرانی کے دلائل:

کتاب الخمس میں آیت اللہ سیفی ذکر کرتے ہیں کہ قاسم بن یحیی کے حق میں اگرچے توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی لیکن وہ معروف اور نامور شخصیات میں سے تھے۔ اس لیے ان سے کثیر احادیث نقل کی گئی ہیں جن کی تعداد ۸۸ بنتی ہے۔ نیز قاسم بن یحیی کی کتاب ’’آداب امیر المؤمنین ؑ‘‘ معروف اور مشہور کتاب ہے۔ جہاں تک قاسم بن یحیی کے حق میں توثیق عام کا وارد ہونا ہے تو جعفر بن محمد بن قولویہ کی کتاب کامل الزیارات کی اسانید میں قاسم بن یحیی کا ذکر ہوا ہے اور کامل الزیارات کی اسانید میں وارد ہونے والے راوی ثقہ ہیں۔ نیز شیخ صدوق نے اپنی کتاب میں زیارتِ امام حسینؑ کو صحیح ترین زیارت قرار دیتے ہوئے قاسم بن یحیی اور ان کے دادا حسن بن راشد کی توثیق کی ہے۔ چنانچہ ابن الغضائری کی تضعیف کو قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ ایک تواس کتاب کی نسبت اس کی طرف ثابت نہیں ہے ، دوسرا انہوں نے غلو کا گمان کرتے ہوئے اجلاء اور اکابر رواۃِ شیعہ کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ وہ غلو کی نسبت دینے میں قابل قبول نہیں ہیں۔[14]سیفی مازندرانی، علی اکبر، کتاب الخمس، ص ۱۷۔

Views: 33

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ابراہیم بن ہاشم
اگلا مقالہ: الحسن بن راشد