loading

الحسن بن راشد (مولی بنی العباس)

تحرير: سید محمد حسن رضوی
2021-08-20

 کتب اربعہ کی متعدد اسانید میں  الحسن بن راشد  کا عنوان وارد ہوا ہے ۔ حسن بن راشد امام جعفر صادق × اور امام موسی کاظم ×کے صحابی ہیں۔ كتب احاديث میں آپ سے جتنی بھی احادیث نقل ہوئی ہیں وہ سب قاسم بن یحیی  نے آپ سے نقل کی ہیں جوكہ آپ کے پوتے ہیں۔ آپ نے متعدد بزرگ اصحابِ اہل بیت ^ سے احادیث کو نقل کیا ہےجن میں سرفہرست نام ابو بصیر، معاویہ بن وہب ، حماد بن عیسی وغیرہ ہیں۔[1]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۳۱۲۔ 

حسن بن راشد مشترک راوی

حسن بن راشد مشترک نام ہے جو ثقہ اور غیر ثقہ راوی میں مشترک ہے۔ دونوں میں راوی مروی عنہ، نسبت اور طبقہ کے اختلاف سے فرق جانا جا سکتا ہے۔ وہ حسن بن راشد جس کو نجاشی نے ضعیف قرار دیا ہے وہ طفاوی ہے جوکہ امام رضا × کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔ [2]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۳۱۱۔ جبکہ وہ حسن بن راشد جن کی توثیق واضح الفاظ میں کی گئی ہے وہ امام جواد × صحابی ہیں اور بغداد کے رہنے والے ہیں اور آپ کی کنیت ابو علی وارد ہوئی ہے ۔[3]مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۱۹، ص ۱۸۰۔ ہم جس حسن بن راشد کےبارے  بحث کر رہے ہیں وہ امام صادق و کاظمکے صحابی ہیں۔ پس حسن بن راشد کے نام سے تین افراد ہمارے سامنے آ گئے:

  1. حسن بن راشد ، ابو علی، مولی آل المہلب، یہ ثقہ ہیں اور امام تقی  ×کے صحابی ہیں۔[4]طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۳۷۵، رقم: ۵۵۴۵۔
  2. حسن بن راشد ، طفاوی، نجاشی نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[5]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۸، رقم: ۷۶۔
  3. حسن بن راشدمولی بنی العباس، جن سے قاسم بن یحیی حدیث نقل کرتے ہیں۔ یہ ہمارے مورد بحث ہیں اور شیخ صدوق نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔[6]شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۵۹۸۔ [7]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔[8]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸۔

رجالی تفصیلات كا جدول

۱۔ نام : الحسن بن راشد [9]طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۸۵، رقم: ۲۱۵۹۔
۲۔ کنیت:  ابو محمد[10]ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۴۹، رقم: ۲۸۔
۳۔لقب/ نسبت: مولی بنی العباس، آپ عباسی خلفاء میں مہدی، موسی اور ہارون کے وزیر رہے ہیں۔[11]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۳۱۲، رقم: ۲۸۲۱۔ابن الغضائری نے مولی منصور بھی لکھا ہے۔ [12]ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۴۹، رقم: ۲۸۔
۴۔ رجالی حیثیت:
توثیق خاص
۱۔ نجاشی: موجود نہیں۔
۲۔ طوسی: موجود نہیں۔
۳۔ کشی: موجود نہیں۔
توثیق عام شیخ صدوق نے مطلق حکمِ وثاقت کے ذریعے حسن بن راشد کی توثیق کی ہے۔ [13] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔ [14]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔
۵۔طبقہ: آپ امام جعفر صادق و موسی کاظمکے صحابی ہیں۔[15]مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۱۹، ص ۱۸۵، رقم: ۵۱۵۵۔

علمی تبصره

الحسن بن راشد مولی بنی العباس کی  توثیق خاص وارد نہیں ہوئی۔  طوسی نے فقط آپ کا نام اور آپ کی کتب کا تذکرہ کیا ہے۔ چوتھی صدی کے بلند پایہ محدث شیخ صدوق نے حسن بن راشد کی توثیق ایک مطلق حکم ساتھ کی ہے۔   شیخ صدوق من لایحضرہ الفقیہ میں بیان کرتے ہیں: > وَقَدْ أَخْرَجْتُ فِي كِتَابِ الزِّيَارَاتِ وَفِي كِتَابِ مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ × أَنْوَاعاً مِنَ الزِّيَارَاتِ، وَاخْتَرْتُ هَذِهِ لِهَذَا الْكِتَابِ؛ لِأَنَّهَا أَصَحُّ الزِّيَارَاتِ عِنْدِي مِنْ طَرِيقِ الرِّوَايَةِ ، وَفِيهَا بَلَاغٌ وَكِفَايَةٌ؛  میں نے كتابِ زیارات اور کتابِ مقتل حسین میں کئی انواع کی زیارات ذکر کی ہیں، البتہ اس کتاب میں اس زیارت کو میں نے اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ میرے نزدیک روایات کے مختلف طرق میں سے یہ سب سے صحیح ترین زیارت ہے اور زیارات میں کفایت کرتی ہے    < ۔[16]شیخ صدوق، محمد بن علی ، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۵۹۸۔ محقق خوئی نے قاسم بن یحیی کے حالات کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ شیخ صدوق کا مطلق حکم کہ یہ روایت صحیح ترین روایت ہےکے حکم سے واضح ہوتا ہے کہ سند کی جہت سے بھی یہ صحیح ترین ہے۔ ابن الغضائری کی تضعیف اس سے اس لیے معارض نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی کتاب کی نسبت ان کی طرف ثابت نہیں ۔[17] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔ابن الغضائری نے جہاں قاسم بن یحیی کو ضعیف قرار دیا ہے وہاں الحسن بن راشد کو بھی ضعیف قرار دیا ہے [18]ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۴۹، رقم: ۲۸۔  لیکن جیساکہ سابقہ سطور میں گزر چکا ہے کہ ابن الغضائری کا کسی راوی کو ضعیف قرار دینا دو وجوہات کی بناء پر قابل قبول نہیں ہے:

    1. ابن الغضائری کی کتاب کی نسبت ان کی طرف ثابت نہیں ہے۔
    2. ابن الغضائری ضعیف اور غلو کے حکم لگانے میں متشدد ہیں۔ راویوں کی تضعیف میں ان کے اشتباہات کثیر ہیں، جیساکہ شیخ مامقانی نے ابن الغضائری اور ان کی بناء پر ابن داود حلی کا حسن بن راشد کو ضعیف قرار دینے کا رد اسی پہلو کو بیان کرتے ہوئے کیا ہے۔ مامقانی بیان کرتے ہیں کہ  ابن غضائری کسی راوی کو غلو سے متہم کرنے اور تضعیف کرنے میں کثرت سے خطاء کا شکار ہوتے ہیں جس کی بناء پر ہم بآسانی ابن الغضائری کی تضعیف پر اعتماد نہیں کر سکتے ، خصوصا اس مورد میں جہاں نجاشی اور طوسی نے سکوت اختیار کیا ہو۔ نیز اجلاء اور کبار محدثین کا قاسم بن یحیی سے روایات نقل کرنا اور کثرت سے ان سے روایات لینا ان کی وثاقت اور اعتماد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ [19]مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج۲، ص ۲۶۔
    3.  شیخ محسنی نے ذکر کیا ہے کہ میں قاسم بن یحیی اور حسن بن راشد کی وثاقت کا قائل نہیں تھا اور انہیں مجہول الحال راوی سمجھتا تھا۔ لیکن جب میں نے شیخ صدوق کی عبارت پر دقت کی تو میرے لیے ان دونوں کا ثقہ ہونا ثابت ہوا۔[20]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔

شیخ صدوق کا طریق حسن بن راشد تک

شیخ صدوق نے من لا يحضرہ الفقيه کے اختتام میں اپنا طریق حسن بن راشد تک اس سند سے بیان کیا ہے:

وما كان فيه عن الحسن‏ بن‏ راشد فقد رويته عن أبي- رضي اللّه عنه- ( علي بن الحسين بابويه ) ، عن سعد بن عبد اللّه؛ و أحمد بن محمّد بن عيسى؛ و إبراهيم بن هاشم جميعا عن القاسم بن يحيى عن جدّه الحسن‏ بن‏ راشد . ورويته عن محمّد بن عليّ ماجيلويه- رضي اللّه عنه- عن عليّ بن إبراهيم بن هاشم، عن أبيه، عن القاسم بن يحيى ، عن جدّه الحسن‏ بن‏ راشد.[21]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۴۸۴۔ شیخ صدوق کے قاسم سے حسن بن راشد تک کے دو طریق ہیں:  پہلے طریق میں وہ اپنے والد گرامی سے نقل کرتے ہیں جبکہ دوسرے طریق میں محمد بن علی ماجیلویہ سے نقل کرتے ہیں۔ یہ دونوں طریق صحیح اور معتبر ہیں۔[22]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال ، ص ۱۷۰۔

منابع:

منابع:
1 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۳۱۲۔
2 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۳۱۱۔
3 مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۱۹، ص ۱۸۰۔
4 طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۳۷۵، رقم: ۵۵۴۵۔
5 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۸، رقم: ۷۶۔
6 شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۵۹۸۔
7 محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔
8 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸۔
9 طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۸۵، رقم: ۲۱۵۹۔
10 ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۴۹، رقم: ۲۸۔
11 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۵، ص ۳۱۲، رقم: ۲۸۲۱۔
12 ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۴۹، رقم: ۲۸۔
13 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔
14 محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔
15 مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۱۹، ص ۱۸۵، رقم: ۵۱۵۵۔
16 شیخ صدوق، محمد بن علی ، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۵۹۸۔
17 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۶۸، رقم:۹۵۸۹۔
18 ابن الغضائری، احمد بن حسین، رجال الغضائری، ص ۴۹، رقم: ۲۸۔
19 مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج۲، ص ۲۶۔
20 محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۱۷۰۔
21 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۴۸۴۔
22 محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال ، ص ۱۷۰۔
Views: 19

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قاسم بن یحیی
اگلا مقالہ: یعقوب بن یزید