loading

{ سیاسی افکار }

شکریہ عمران خان ۔ ایک بڑی مشکل سے نکلا
تحریر : سید محمد حسن رضوی
04/18/2022

سوچنے کی بات!!

میں اکثر سوچتا تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ آخر کیا ہے؟! مسلمان تو ایک جسم اور ایک خاندان کی مانند ہے جس کے اعضاء کا ایک دوسرے سے اخوت و برادری کا تعلق رکھتے ہیں اور ان سب کا مذہب ایک، رسول ﷺ ایک ، کتاب ایک اور منزل بھی ایک ہے۔ مکہ و مدینہ کی وادیوں سے ابھرنے والے اسلام کی شعاعوں نے تاریک قلوب کوایمان کی رونق سے مالا مال کر دیا  اور تہذیب و تمدن سے عاری قوم میں بشریت کی مہذب ترین ریاست اور معاشرے کو جنم دیا۔ ایسا معاشرہ جس کے سربراہ خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ تھے اور معاشرے کے لیے عملی نمونہ ان کی سنت مبارکہ تھی۔ اس اسلامی ریاست پر اپنوں غیروں کی جانب سے اکھاڑ پھینکنے والی سازشیں ہوئیں اور طوفانی ہواؤں کے گرا دینے والے جھکڑ چلے لیکن اس معاشرے نے استقامت و پامردی کا مظاہرہ کیا اور اس طرح اسلامی معاشرہ کا قیام اپنے وجود کی منازل طے کرنے لگا۔ اسی اثناء میں رحلتِ رسول اللہ ﷺ کا جانسور واقعہ پیش آیا جس کے بعد اسلامی معاشرے کا امن و امان متزلزل ہو گیا۔

سوچنے کی بات یہ تھی کہ ایک ریاست میں ایک قوم اور اس کے سنجیدہ اہل علم و دانش آخر  کیسے فرقوں اور شدید نزاع میں گرفتار ہو گئے !! ایک خاندان کے بھائی کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے !! خصوصا امامت کا موقف رکھنے والے ملوکیت و جمہوریت کے دلدادہ کیسے ہو گئے ؟! جبکہ پیروِ امامت اقلیت میں ہونے کو قبول کرتے تھے اور غیر قانونی حاکمیت پر تنقید کو ایمان سمجھتے تھے لیکن یہ سبق کسے فراموشی کی نذر ہو گیا ؟! عمران خان صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اس مسئلہ کو حل کر دیا اور جواب عملی صورت میں مہیا ہو گیا … کیسے آئیے درج ذیل سطور میں اس کو ملاحظہ کرتے ہیں … ۔

جمہوری سربراہ اور مدمقابل موقف:

رحلت رسول ﷺ کے بعد سیاسی طور پر ریاست اور معاشرے کے حاکم و رہبر کا مسئلہ پیش آیا تو ابتدائی طور پر دو تفکر سامنے آئے :

۱۔ ایک فکر یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کو اسلامی ملک اور معاشرے کا علی الاطلاق حاکم مقرر کیا ہے اور امام علیؑ خود بھی خلافت کے دعویدار تھے۔

۲۔ دوسرا تفکر یہ تھا کہ اسلامی ملک میں حاکم کا چناؤ ہونا چاہیے اور پھر لوگ جسے تسلیم کر لیں وہی ہمارا لیڈر اور حاکم ہو گا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اکثریتی عوام نے حضرت ابو بکر کو پہلا خلیفہ اور اسلامی ملک کا سربراہ قبول کر لیا اور اس طرح جمہوری طور پر اسلامی ملک کے جمہوری سربراہ حضرت ابو بکر کہلائے ۔ اگرچے ان کی سربراہی کی ابتداء جمہوری طریقے سے نہیں ہوئی تھی  بلکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں مختصر گروہ نے باہمی نزاع کے بعد جلد بازی میں ان کا انتخاب کیا تھا لیکن رفتہ رفتہ اکثریتی عوام نے انہیں بطور خلیفہ اور سربراہ چُن لیا ۔ اس کے مقابلے میں امام علیؑ کو خلیفہ برحق ماننے والے اقلیت میں رہ گئے اور وہ امامت کے منصوص من اللہ ہونے کے دلائل دیتے رہ گئے۔ اس اثناء میں سیاسی بحث مباحثہ شروع ہو گیا اور مناظروں کی فضاء بن گئی۔ لیکن حکومت وقت نے ان مباحث کو آغاز میں ہی  چند ماہ کے اندر اندر کنٹرول کر لیا اور  ان موضوعات پر سخت پابندی عائد کر دی ۔ اگرچے یہ پابندیاں ۲۰ سے ۳۰ سال جاری رہی لیکن دَر پردہ سیاسی موقف اور اس کے دلائل رشد و نمو کا سفر طے کرتے رہے یہاں تک کہ آنے والے دنوں میں انہی سیاسی اختلافات نے شدت اختیار کر  لی اور عوام الناس میں مختلف اسباب کی بناء پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی یہاں تک کہ دھوا بول کر اس دور کے خلیفہ اور جمہوری سربراہ یعنی حضرت عثمان کو قتل کر دیا گیا ۔ پھر امام علیؑ کا انتخاب اس معاشرے میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے نامزد ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ جمہوری انداز میں معاشرے کے تحرک کی بناء پر ہوا اور ماضی کے سیاسی اختلافات اور ملکی مسائل پہلی داخلی جنگ کا باعث بنے ۔ یہی سیاسی سفر جب اگلی صدی میں داخل ہوا تو اس نے کلامی اور عقائدی مباحث اور مناظروں کی صورت اختیار کر لی اور دلائل و توجیہات و تاویلات کے پیچیدہ سلسلے شروع ہو گئے۔

معاشرے کی تقسیم:

صدرِ اسلامی میں سیاسی اتار چڑھاؤ اور مختلف معرکہ آرائیوں کے بعدبالآخر  حکومت ’’معاویہ بن ابی سفیان‘‘ کے زیر اقتدار آ گئی۔ اس وقت استعمار اور بیرونی بڑا دشمن ’’روم‘‘  تھا اور روم کی طرف سے اسلامی ملک میں ریشہ اندازیوں کے کئی گھمبیر واقعات وقوع پذیر ہو چکے تھے۔ دوسری طرف اسلامی ریاست سیاسی کشمکش کا شکار تھی کیونکہ تازہ تازہ جنگی حالات تھمے تھے جبکہ دلوں میں شدید تعصب اور نفرت کے عناصر اپنی جگہ موجود تھے۔ بعض ’’معاویہ‘‘  کی حکومت کو آئینی اور ملکی مفادات کی حامل حکومت قرار دیتے تھے جبکہ دوسرا اقلیت گروہ  قرآن و سنت کی بناء پر اس حکومت کو ملوکیت اور بادشاہت قرار دیتا  تھا اور خلیفہ راشد امام حسنؑ کو تسلیم کرتا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کتبِ اسلامی میں خلیفہ اول سے معاویہ بن ابی سفیان کی حکومت کے آئینی اور ریاستی مفاد میں ہونے کے جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان میں اور عمران خان کی حمایت اور ملکی مفاد میں ہونے کے جو  دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی قیادتوں کی طرف سے خان صاحب کا جو استقبال کیا جاتا ہے ان میں بڑی حد تک مماثلت اور شباہت پائی جاتی ہے۔ یہاں سے ہمیں یہ جواب مل گیا کہ صدرِ اسلام میں ایک ریاست کے اندر مختلف موقف کیسے وجود میں آئے اور یہ واقعہ کیسے رونما ہوا کہ امامت کا موقف رکھنے والوں سے بھی سیاستِ مفاد کے نام پر اور عوامی اجتماعات کی منظر کشی کر کے ’’برسراقتدار آنے والے حاکم ‘‘ کی حمایت کا ووٹ ِ اعتراف لے  لیاگیا !! 

عمران خان اور معاویہ بن ابی سفیان میں مماثلت:

حدیث و تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان اپنے سیاسی حریف یعنی آل امام علیؑ کو دشمن سمجھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے بیرونی طاغوت اور دشمن ’’روم‘‘ کے بھی شدید مخالف تھے لیکن جہاں حکومت کو چلانے کی بات آتی اور درباری طور طریقے اختیار کرنے کی نوبت آتی تو ریاست مدینہ کے آئیڈیل ہونے کے اعتراف کے باوجود ’’فرزندِ ہند بنت عتبہ‘‘ کو روم ہی آئیڈیل نظر آتا تھا جس کی بناء پر روم کی مخالفت پس پردہ چلی جاتی۔ یہی منظر آج ہمیں نیازی صاحب میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب حکومت چلانی ہے تو ریاست مدینہ کے آئیڈیل ہونے کا دل و جان سے اعتراف ہے لیکن جھکنا غربی جمہوریت کے سامنے ہی ہے اور امریکہ کی غلامی کا انکار کرنے کے باوجود اپنی زندگی کا شاندار ترین استقبال اور قربت کا اظہار امریکہ ہی سے کرنا ہے!! اقتدار کی خاطر جس طرح معاویہ بن ابی سفیان ہر طریقہ جس سے اقتدار حاصل ہو کو اختیار کرنا عقل مندی اور زیرکی سمجھتے تھے خان صاحب بھی اسی طریقہ سے اقتدار کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے کو اختیار کرنا سیاست قرار دیتے ہیں، چاہے اس کے لیے بن سلمان کی ڈرائیونگ کرنا پڑے!! چاہے اس کے لیے آل سعود کے ایک اشارہ پر عربستان مطیع ملازم بن کر حاضر ہونا پڑے، چاہے یمن کے مظلومین کی مخالفت کرنا پڑے ، چاہے اس کے لیے نہتے شیعہ قتل عام پر مجرمانہ سکوت اختیار کرنا پڑے…  غرض کوئی بھی عمل انجام دینا پڑے مجبوری کے نام پر اس کو انجام دینا  صحیح ہے!!

علماء و خواص کا کردار:

کسی بھی ریاست میں برسر اقتدار حکومت کے قیام و دوام میں خواص کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اگر خواص حکومت سے موافق ہو جائیں تو حاکم جَم کر حکومت کرتا ہے اور اگر خواص ریشہ دوانیاں ایجاد کرنے لگیں یا مخالف موقف اختیار کرنا شروع کر دیں تو حکومت متزلزل ہو جاتی ہے۔ معاویہ بن ابی سفیان کی  شخصیت کے لیے جو دلائل محدثینِ اہل سنت نے پیش کیے ہیں ان میں سے متعدد دلائل وہی ہیں جو بعض شیعہ علماء کی جانب سے عمران خان کے حق میں دکھائی دیتے ہیں ، مثلاً ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ معاویہ اور ان سے پہلے حکمران معصوم نہیں تھے اور یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سی کوتاہیاں اور خطائیں سرزد ہوئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا چاہیے کہ ’’پسرِ ہندجگر خور‘‘ نے اسلامی ملک کے مفاد کے حصول کی کوششیں کیں ، غربت و فقر کا خاتمہ کر کے عوام کو امن  وسکون کے حالات مہیا کیے، ترقی یافتہ ممالک کے انداز اختیار کر کے ریاست کو ترقی کی راہ پر لگایا اور اپنے وقت کے استعمار ’’روم‘‘ کی غلامی کا کامل انکار کیا۔ اہل سنت محدثین و متکلمین قائل ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ تھے اور ان کی حکومت ملوکیت کے خطوط پر استوار تھی لیکن وہ تمام بادشاہوں میں سے زیادہ بہتر بادشاہ تھے اور ان کی پالیسیاں عوام اور اسلام ہر دو کے حق میں تھیں۔ بالکل اسی طرح عمران خان کے بارے میں بعض شیعہ علماء کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ عمران خان نہ معصوم ہے اور نہ شرِ محض، اس سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اور خیر کے امور بھی اس سے انجام پائے ہیں ۔ اگرچے بہت سے کرپٹ حریص حکمران ہیں لیکن ان سب میں ملکی مفاد کے لیے سب سے بہتر حکمران خان صاحب ہیں ۔ عمران خان چونکہ معاویہ بن ابی سفیان کی مانند بقیہ سیاستمداروں سے بہتر ہیں اس لیے انہیں امام ضامن بھی باندھنا چاہیے، ان کی ملاقات اور زیارت کا شرف بھی حاصل کرنا چاہیے، ان کے ہر خوش نما شعار پر ان کی تائید بھی کرنی چاہیے، آج کے روم یعنی امریکہ کی مخالفت کریں تو کم سے کم اس میں تو ان کا ساتھ دے دیں ، اگر بنی ہاشم میں سے عباسی اموی حکومت پر دانت تیز کریں تو چونکہ عباسی شیعہ دشمنی میں امویوں سے بڑھ کر تھے اس لیے دو شروں میں سے اسی شر کا انتخاب کر لیا جائے !! ہاں اگر بات یہاں تک پہنچ جائے کہ معاویہ نے یارانِ علیؑ کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا جیسے خان صاحب نے شہید عظیم جناب قاسم سلیمانی رحمہ اللہ کے بہیمانہ قتل کی ٹرامپ کو مبارک باد دی تو صحیح السند ایک ثبوت پیش کر دیں!! معاویہ بن ابی سفیان کو بچانے کے لیے جس طرح اہل  سنت قواعد حدیث و رجال پر اتر آتے ہیں اور تاریخی کتب کو غیر معتبر قرار دے کر بہت سے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتےہیں  اسی طرح بعض شیعہ علماء اور عوام کی جانب سے یہی رویہ عمران خان کے حق میں نظر آتا ہے کہ خان صاحب کی شخصیت پر جس واقعہ یا خبر سے کوئی آنچ آتی ہے تو فورا تحقیقی انداز اختیار کر لیا جاتا ہے اور قواعد درایت و رجال اور جرح و تعدیل کے ضوابط کی اساس پر توجیہات و تاویلات کے الجھاؤ میں مبتلا کر دیا جاتا !! ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں امت اسلامیہ ماضی میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ، عہدِ صحابہ و تابعین میں ایک گروہِ علماء قائل تھا کہ معاویہ کی حکومت آئینی اور قانونی ہے اور ملکی اور اسلامی مفاد میں ہے جس کے لیے توجیہات و تاویلات کے دفاتر رقم کیے گئے ہیں جبکہ دوسرا گروہِ علماء قائل تھا کہ معاویہ کی حکومت غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی قسم کا حقِ حکومت انہیں حاصل نہیں ہے اس لیے حکومت و حاکم کا اسلامی تصور امت میں عام کرنا چاہیے۔ یہی صورتحال آج بھی کماحقہ باقی ہے۔

عوامی ریلے کا دباؤ اور اس کے اثرات:

حکومتوں کے اتار چڑھاؤ میں عوام کا کردار اساسی ترین کردار ہے۔ عموماًعوام جذبات سے زیادہ کام لیتے ہیں اور عقل و فکر سے کم سروکار رکھتے ہیں۔ جلد شبہ کا شکار ہو جاتے ہیں اوران میں  ایسے افراد کم ہوتے ہیں جو بصیرت کی دولت سے ہمکنار ہونے کی بناء پر شعوری فیصلہ کر پاتے ہیں۔ خوش نما شعار پر جذباتی مناظر عوامی ریلے میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور اس بات کو سیاست کی دنیا میں قدم رکھنے والا ہر سیاستمدار اچھی طرح سے جانتا ہے۔ عوام عوامی رنگ و جوش و جذبہ سے پہچانی جاتی ہے ، فرق نہیں پڑتا وہ شیعہ ہوں یا سنی، چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم، حق پر ہو یا باطل پر … ۔ عوام  چلتی ہوا اور اٹھی لہروں کے دوش پر بہہ جانے میں مہارت کی حامل ہوتی ہے۔ اگر ان میں شبہ چھوڑ دیا جائے تو وہ وبا کی طرح پھیل جاتا ہے  ۔  مکتبِ اہل بیتؑ کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگانی میں متعدد مرتبہ امت کو نظامِ امامت کا تعارف کروایا اور  امام علیؑ کو امت کا رہبر و سربراہ اور امام منتخب کر کے دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں عوام کی اکثریت سیاسی موقف میں اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئی۔ معاویہ بن ابی سفیان کی بغاوت اور ظالمانہ دہشت گردی کے زخم اسلامی ریاست میں بسنے والی عوام کے سینوں میں تازہ تھے اور ابھی سسکتی آہیں تھمی نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود اکثریتی عوام نے ’’معاویہ‘‘ کو بطور سربراہ  قبول کر لیا  اور معصوم ہستی نواسہ رسول ﷺ امام حسن مجتبیؑ کو تنہا چھوڑ دیا!! آج جس طرح عمران خان کے لیے عوامی حلقہ جات کے جذبات و احساسات اور دیوانہ ور حمایت کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ اس کے مجرمانہ اقدامات ، منفی سیاسی موقف  اور دوغلی پالیسی کے آشکار واقعات سامنے ہیں اسی طرح ماضی میں معاویہ بنی ابی سفیان کے لیے عوامی حلقہ جات کٹ مرنے کے لیے آمادہ و تیار ہوتے تھے ۔  اہل سنت کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ صحابی متعدد جرائم انجام دینے کےباوجود بھی عادل ہی رہتا ہے اور اس مدح و ستائش کے گُن گائے جانے چاہیے  اور اس کی عدالت و صداقت کی گواہی دی جانی چاہیے۔ اس کے مدمقابل صدرِ اسلام سے  شیعہ موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ کوئی بھی ہستی یا شخصیت ہو اور جس اسٹیٹس کی مالک ہو وہ اسلام کے قوانین سے مبرّا نہیں ہو سکتی۔ اس لیے حاکم کے ہر عمل کا جائزہ قانون کے دامن میں لیا جانا چاہیے ۔

ہم اکثر یہی سوچتے تھے کہ اہل سنت بالخصوص علماء اعلام جب بعض صحابہ کرام کے  گھمبیر جرائم کا تذکرہ اپنی ہی کتب میں مطالعہ کرتے  ہیں تو اس کے باوجود وہ ان کی کیوں حمایت کرتے ہیں!! اگر ان جرائم کو پڑھ کر کوئی  اعتراض کر دے تو آخر تاویلات و توجیہات کی ایک لمبی فہرست دیکھنےکو کیوں ملتی ہے  !! ہونا تو یہ چاہیے کہ اعتراض کی صورت میں حقیقت کا اعتراف کیا جاتا  اور بے جا دفاع کی بجائے سنجیدہ صورت میں اعتراف کیا جاتا ہے کہ اس پہلو سے یہ امور قابل تنقید ہیں !! الحمد للہ  … یہ مسئلہ عمران کی خان حمایت کرنے والے ان شیعہ حلقہ جات نے ختم کر دی جو عقیدہ و ایمان  کا اظہار کرتے ہوئے تو بارہ اماموں کا نام لیتے ہیں لیکن انتہائی جذبات اور خوشی و غمی کی اوج عمران خان کے لیے ظاہر کرتے ہیں!! حیرت تو اس پر ہے کہ چار سالہ اقتدار میں آل سعود کی غلامی کا جو منظر عمران خان نے پیش کیا شاید ہی اس سے پہلے دیکھنے کو ملا ہو لیکن ان سب اعتراضات کے باوجود عمران خان کے لیے جذبات بھی حاضر ہیں اور  احساسات بھی، دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں اور حمایت بھی !! لگتا ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ’’بعض شیعہ بھی اہل سنت ہوتے چلے آئے ہیں‘‘ کہ جب اقرار کرنا ہے تو عصمت کی حامل شخصیات کا نام لے لیں گے  اور جب عملی طور پر قبول اور اعتراف کرنا ہے اور گھروں میں خوشی منانی ہے تو پھر عمران خان کی حمایت کریں گے  !! شیعہ ہر دور میں حکومتوں کا حامی نہیں ناقد رہا ہے کیونکہ اس کے باطن و ظاہر اور روح و جسم پر جس فکر کی حکومت ہے اس کا نام ’’نظام امامت و ولایت‘‘ ہے جسے دین سمجھ کر اختیار کرتا ہے اور نجات قرار دے کر قدم بڑھاتا ہے۔ کاش یہ دین زبان سے اتر کر دل و جان میں سما جائے اور اقلیت ہونے کے باوجود حق کی صدا کو بلند کرنے کا سبقِ امامت دوبارہ سے یاد کر لے … ۔ 

Views: 739

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نظریہ مہدویت سے مراد
اگلا مقالہ: اصلاحی تحریک کے ابتدائی خدوخال