loading

(سیاست امام علیؑ از نہج البلاغہ)

جنگ صفین میں شہید ہونے والے صحابہ کرام

تحریر: سید محمد حسن رضوی

جنگ صفین میں صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہادت سے ہمکنار ہوئی۔ تعجب آور بات یہ ہے کہ شہید ہونے والے بھی صحابہ تھے اور قاتلین و باغی بھی صحابہ تھے۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیسے تمام صحابہ عادل ہو سکتے ہیں  اور اللہ سبحانہ ہمیشہ کے لیے ان سے کسے راضی ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اہل سنت اپنی اعتقادی مبانی کے تناظر میں ایک اہم ترین قاعدہ پیش کرتے ہیں جس کا عنوان ہے کہ تمام کے تمام صحابہ عادل ہیں۔ اگر ہم تاریخی حقائق کو ملاحظہ کریں اور پہلی صدی ہجری میں پیش آنے والے حوادث و واقعات کو ملاحظہ کریں تو عدالتِ صحابہ کا یہ نظریہ قابل ردّ قرار پاتا ہے۔ اس مقالہ میں بعض بزرگ صحابہ کرام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو شہید کیے گئے اور انہیں شہید کرنے والے امت کے باغی تھے۔

==مقدمہ==

جنگ صفین ان جنگوں میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے درمیان لڑی گئی ۔ اس جنگ میں صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ۔ جنگ صفین کی خصوصیت یہ ہے کہ اس جنگ میں حق و باطل کی شناخت کے لیے امام علیؑ کے وجودِ بابرکت کے علاوہ جناب عمار بن یاسر ؓ بھی تھے جن کے بارے نبی اکرم ﷺ کی معروف و معتبر حدیث ہے جوکہ صحیح بخاری کے علاوہ کئی کتبِ احادیث میں وارد ہوئی ہے:  اے عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہو گے اور مخالف انہیں جہنم کی دعوت دے رہے ہوں گے ۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/1/97/447 البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل ابوعبدالله (متوفای256هـ)، صحیح البخاری، ج1، ص97.]</ref> <ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/4/21/2812 البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل ابوعبدالله (متوفای256هـ)، صحیح البخاری، ج4، ص21.]</ref>

ابن جوزی نے نقل کیا ہے کہ اس جنگ میں ۲۵ بدری صحابہ کرام امام علیؑ کی رکاب میں شہید ہوئے ۔ ابن جوزی اپنی کتاب المنتظم میں لکھتے ہیں:

وقتل بصفین سبعون الفا خمسة واربعون الفا من اهل الشام وخمسة وعشرون الفا من اهل العراق منهم خمسة وعشرون بدریا؛ جنگ صفین میں ستّر ہزار افراد قتل ہوئے ، ۴۵ ہزار افراد کا تعلق اہل شام سے تھا اور ۲۵ ہزار اہل عراق سے ، ان میں سے ۲۵ بدری صحابہ بھی شہید ہوئے ۔ <ref>[http://lib.eshia.ir/40060/5/120/سنتين ابن‌الجوزی الحنبلی، جمال‌الدین ابوالفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد (متوفای 597 هـ)، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، ج5، ص120، ناشر: دار صادر – بیروت، الطبعة: الاولی، 1358.]</ref>

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ بدری صحابہ کا قاتل کیسے عادل ہو سکتا ہے؟! پھر ایک یا دو نہیں پچیس (۲۵) بدری صحابہ شہید کیے گئے !! یہاں سے اہل سنت کا عدالتِ صحابہ کا نظریہ مخدوش ہوتا ہے کیونکہ بدری صحابہ کی جلالت و منزلت آشکار ہے اور اتنے بزرگ صحابہ کا قاتل عدالت کے وصف سے کیسے متصف قرار دیا جا سکتا ہے!! ذیل میں چند بدری صحابہ کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جوجنگ صفین میں شہید ہوئے۔

==عمار بن یاسر ==

عمار بن یاسر کا شمار ان عظیم اور جانثار صحابہ میں ہوتا ہے جو دین اسلام پر دل و جان سے ایمان لائے اور مکہ میں ابتدائی ایام میں ہی اسلام قبول کر لیا تا آخرِ عمر رسول اللہ ﷺ سے کیے ہوئے عہدو پیمان پر قائم دائم رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ ؓ کی شخصیت کو حق و باطل کی شناخت کا معیار قرار دیا جس کا تذکرہ شیعہ و سنی معتبر احادیث میں پایا جاتا ہے۔ ذیل میں اہل سنت منابع احادیث سے کچھ شواہد پیش کیے جاتے ہیں:

===طبرانی کی نقل کردہ حدیث===

اہل سنت کے معروف محدث ابو القاسم طبرانی اپنی معجم میں نقل کرتے ہیں:

حدثنا محمد بن عبد اللَّهِ الْحَضْرَمِی ثنا ضِرَارُ بن صُرَدٍ ثنا عَلِی بن هَاشِمٍ عن عَمَّارٍ الدُّهْنِی عن سَالِمِ بن ابی‌الْجَعْدِ عن عَلْقَمَةَ عن عبد اللَّهِ عَنِ النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قال: اذا اخْتَلَفَ الناسُ کان بنُ سُمَیَّةَ مع الْحَقِّ؛ عبد اللہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے تو ابن سمیہ حق کے ساتھ ہوں گے۔  <ref>[http://lib.efatwa.ir/42124/10/95/10071 الطبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (متوفای360هـ)، المعجم الکبیر، ج10، ص95، ح10071، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر: مکتبة الزهراء – الموصل، الطبعة: الثانیة، 1404هـ – 1983م.]</ref>

 ===روایت حاکم نیشابوری===

حاکم نیشاپوری اپنی کتاب [[المستدرک علی الصحیحین]] میں لکھتے ہیں:اَخْبَرَنَا اِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْهَاشِمِی بِالْکُوفَةِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِی بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِی، ثنا مَالِکُ بْنُ اِسْمَاعِیلَ النَّهْدِی، اَنْبَاَ اِسْرَائِیلُ بْنُ یُونُسَ، عَنْ مُسْلِمٍ الاَعْوَرِ، عَنْ خَالِدٍ الْعُرَنِی، قَالَ: دَخَلْتُ اَنَا وَاَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِی عَلَی حُذَیْفَةَ، فَقُلْنَا: یَا اَبَا عَبْدِ اللَّهِ، حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ فِی الْفِتْنَةِ؟ قَالَ حُذَیْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ: «دُورُوا مَعَ کِتَابِ اللَّهِ حَیْثُ مَا دَارَ» فَقُلْنَا: فَاِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فَمَعَ مَنْ نَکُونُ؟ فَقَالَ: «انْظُرُوا الْفِئَةَ الَّتِی فِیهَا ابْنُ سُمَیَّةَ فَالْزَمُوهَا، فَاِنَّهُ یَدُورُ مَعَ کِتَابِ اللَّهِ»، قَالَ: قُلْتُ: وَمَنِ ابْنُ سُمَیَّةَ؟ قَالَ: ” اَوَ مَا تَعْرِفُهُ؟ “، قُلْتُ: بَیِّنْهُ لِی، قَالَ: «عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ»، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ یَقُولُ لِعَمَّارٍ: «یَا اَبَا الْیَقْظَانِ، لَنْ تَمُوتَ حَتَّی تَقْتُلَکَ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ عَنِ الطَّرِیقِ». هَذَا حَدِیثٌ لَهُ طُرُقٌ بِاَسَانِیدَ صَحِیحَةٍ، اَخْرَجَا بَعْضَهَا وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ بِهَذَا اللَّفْظِ؛ خالد عرنی کہتے ہیں کہ میں اور ابو سعید خدری حذیفہ سے ملنے آئے ، ہم نے کہا: اے ابو عبد اللہ ! فتنوں کے بارے میں آپ نے رسول اللہ ﷺ سےجو کچھ سُنا ہے اس سے ہمیں باخبر کیجیے؟ حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: کتاب الہٰی جہاں جہاں جاتی ہے وہاں تو لوگ بھی جاؤ ، ہم نے کہا: جب لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو ہم کس کا ساتھ دیں؟ انہوں نے کہا: اس گروہ پر نظر رکھو جس میں ابن سمیہ ہیں ، پس اس گروہ کے ساتھ جڑ جاؤ، کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کے ہمراہ گردش کرتے ہیں ، راوی کہتا ہے: میں نے کہا: ابن سمیہ کون ہیں؟ حذیفہ نے کہا: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟! میں نے کہا: مجھے ان کے بارے میں بتائیں ، حذیفہ نے کہا: عمار بن یاسر، میں رسول اللہ ﷺ کو عمار کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے : اے ابو یقظان! ہر گز تمہیں موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ تمہیں صحیح راہ سے کنارہ کش باقی گروہ قتل کرے گا۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42119/2/162/2652 الحاکم النیسابوری، ابوعبدالله محمد بن عبدالله (متوفای 405 هـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص162، ح2652، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة: الاولی، 1411هـ – 1990م.]</ref>

==بخاری کی نقل کردہ حدیث===

مدینہ منورہ میں جب مسجد مدینہ بنائی گئی تو عمار بن یاسر دوسروں کے برخلاف دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو اپنے دست مبارک سے ان کے چہرے سے غبار چھاڑتے ہوئے فرمایا: وَیْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، یَدْعُوهُمْ اِلَی الْجَنَّةِ، وَیَدْعُونَهُ اِلَی النَّار ؛  اے عمار ! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ، وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہوں گے اور باقی گروہ ان کو جہنم کی دعوت دے رہا ہو گا۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/1/97/447 البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل ابوعبدالله (متوفای256هـ)، صحیح البخاری، ج1، ص97.]</ref> <ref>[http://lib.efatwa.ir/42174/4/21/2812 البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل ابوعبدالله (متوفای256هـ)، صحیح البخاری، ج4، ص21.]</ref>

ان احادیث صحیحہ کے مطابق جناب عمارؓ معیارِ حق و باطل ہیں اور عمار جس گروہ میں ہوں گے وہ برحق اور اہل بہشت گروہ ہے ۔ اس کے برخلاف جو گروہ عمار ؓ کا مخالف اور مقابل گروہ ہے وہ باطل پر اور جہنمی ہے۔ اس حدیث مبارک سے جناب عمار کو شہید کرنے والے گروہ کو جہنم کی طرف دعوت دینے والا کہا گیا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو افراد صفین میں حضرت عمار کے مقابلے میں مارے گئے ان کے بارے میں معتبر احادیث جہنمی ہونے کی نوید سنا رہی ہیں تو بھلا ہم ان کے لیے کیسے عدالت کو ثابت کر سکتے ہیں؟!

===ذہبی کی نقل کردہ روایت===

شمس الدین ذہبی اہل سنت کی متعصب اور متشدد شخصیت ہے جن کا تعلق متأخر علماء جرح و تعدیل سے ہے۔ ذہبی نے نقل کیا ہے کہ عمار بن یاسر کو ابو غادیہ نے قتل کیا تھاجس کے جہنمی ہونے کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی۔ چنانچہ ذہبی اپنی کتاب میزال الاعتدال میں تحریر کرتے ہیں:

عن ابی‌الغادیة سمعت رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یقول: قاتل عمار فی النار وهذا شیء عجیب فان عمارا قتله ابوالغادیة؛ ابو غادیہ خود نقل کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عمار کا قاتل جہنمی ہے ، عجیب بات یہ ہے کہ عمار کو ابو الغادیۃ ہی نے قتل کیا تھا۔<ref>[http://lib.eshia.ir/40478/1/488/هشام الذهبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748هـ)، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج1، ص488.]</ref> 

جناب عمار کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ قطعی اور یقینی ہیں۔ تمام لوگ اس بات سے آگاہ تھے کہ عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا۔نیز روائی اور تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ معاویہ اور اس کا گروہ ہی وہ باغی جماعت ہیں جنہوں نے عمار بن یاسر کو قتل کیا۔ جنگ صفین میں معاویہ نے عمار بن یاسر کے قتل ہونے کا جب سنا اورلوگوں کی ایک بڑی تعداد پر لرزہ طاری ہو گیا کہ عمار قتل ہو گئے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبانی سن رکھا تھا کہ انہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی تو معاویہ نے فورا عمرو بن عاص کو بلایا اور ایسے حالات میں اس سے مشورہ چاہا۔ باہمی مشاورت کے بعد انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ عمار ؓ کو علیؑ نے قتل کیا ہے کیونکہ علیؑ ہیں جو عمارؓ کو میدانِ جنگ میں لے کر آئے ہیں ۔ اس لیے علیؑ نے انہیں قتل کیا ہے!!

===احمد بن حنبل کی نقل کردہ حدیث===

احمد بن حنبل اپنی مسند میں حدیث نقل کرتے ہیں:

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ اَبِیهِ قَالَ لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ قُتِلَ عَمَّارٌ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا یُرَجِّعُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی مُعَاوِیَةَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِیَةُ مَا شَاْنُکَ قَالَ قُتِلَ عَمَّارٌ فَقَالَ مُعَاوِیَةُ قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ فَمَاذَا قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یَقُولُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِیَةُ دُحِضْتَ فِی بَوْلِکَ اَوَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ اِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِی وَاَصْحَابُهُ جَاءُوا بِهِ حَتَّی اَلْقَوْهُ بَیْنَ رِمَاحِنَا اَوْ قَالَ بَیْنَ سُیُوفِنَا؛ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب عمار بن یاسر قتل کر دیئے گئے تو عمرو بن حزم ’’عمرو بن عاص‘‘ کے پاس آئے  اور انہیں کہا: عمار قتل کر دئیے گئے ہیں اور رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا تھا: انہیں باغی جماعت قتل کرے گی۔ یہ سن کر عمرو بن عاص گھبراہٹ کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا  اور کلمہ ترجیع ’’ ان للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھنے لگا اور یہ پڑھتے پڑھتے معاویہ کے پاس آ پہنچا ، معاویہ نے عمرو سے کہا : تمہیں کیا ہوا ہے؟! عمرو نے کہا: عمار قتل کر دئیے گئے ہیں، معاویہ نے کہا: اگر عمار قتل کر دیئے گئے ہیں تو اس میں کیا بڑی بات ہے؟! عمرو نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا تھا: اس کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ معاویہ نے اس سے کہا: اپنے ہی پیشاب میں جا کر پھسلو ، کیا ہم نے اسے قتل کیا ہے !! اسے تو علی ؑ اور ان کے اصحاب نے قتل کیا ہے ، وہ عمار کو میدانِ جنگ میں لے کر آئے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اسے ہمارے نیزوں کے سامنے پھینک دیا یا ہماری تلواروں کے درمیان لا پھینکا۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42200/29/316/17778 الشیبانی، احمد بن حنبل ابوعبدالله (متوفای241هـ)، مسند احمد بن حنبل، ج29، ص316، ح17778.]</ref> <ref>[http://lib.efatwa.ir/42094/8/328/16790 البیهقی، احمد بن الحسین بن علی بن موسی ابوبکر (متوفای 458هـ)، سنن البیهقی الکبری، ج8، ص328.]</ref> <ref>[http://lib.eshia.ir/40384/1/419/طَاوُوْسٍ الذهبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، (متوفای748هـ)، سیر اعلام النبلاء، ج1، ص419-420، تحقیق: شعیب الارناؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر: مؤسسة الرسالة – بیروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.]</ref>

===ان احادیث کا صحیح السند ہونا===

اس حدیث کو متعدد محدثین نے نقل کیا ہے جن میں سے ایک ہیثمی ہیں جنہوں نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ قرار دیئے ہیں: رواه احمد وهو ثقة، اس حدیث کو احمد نے کیا ہے اور وہ ثقہ ہے۔ <ref>[http://lib.efatwa.ir/43322/7/241/12049 الهیثمی، علی بن ابی‌بکر (متوفای 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص241-242، ناشر: دار الریان للتراث/ دار الکتاب العربی – القاهرة، بیروت – 1407هـ.]</ref>

اسی طرح حاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو شیخین یعنی بخاری و مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے ، جیساکہ وہ لکھتے ہیں:  هذا حدیث صحیح علی شرط الشخین ولم یخرجاه بهذه السیاقة؛  یہ حدیث صحیح ہے جوکہ شیخین کی شرط پر ہے اور اس سیاق کے ساتھ انہوں نے اس کو ذکر نہیں کیا۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42119/2/168/الصَّنْعَانِيُّ الحاکم النیسابوری، محمد بن عبدالله ابوعبدالله (متوفای 405 هـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص168.]</ref>

مناوی نے قرطبی سے اس کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:  وهذا الحدیث اثبت الاحادیث واصحّها، ولمّا لم یقدر معاویة علی انکاره قال: انّما قتله من اخرجه، فاجابه علی بانّ رسول اللّه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) اذن قتل حمزة حین اخرجه. قال ابن دحیة: وهذا من علی الزام مفحم الذی لا جواب عنه، و حجّة لا اعتراض علیها؛یہ حدیث محکم ترین اور صحیح ترین حدیث ہے ۔ جب معاویہ کی بس سے باہر ہو گیا کہ وہ اس کا انکار کرے تو اس نے کہا: عمار کو اس نے قتل کیا ہے جس نے اس کو میدان میں نکالا ہے ، اس پر علیؑ نے جواب دیا کہ پھر تو رسول اللہ ﷺ نے جناب حمزہ کے قتل کی اجازت دی تھی کیونکہ وہ حمزہ کو میدان میں لائے تھے۔ ابن دحیہ کہتے ہیں کہ یہ مدمقابل کو لا جواب کر دینے والا جواب ہے اور  زیر کرنے والی ایسی دلیل ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/43245/6/365/أثبت المناوی، عبد الرؤوف (متوفای: 1031هـ)، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج6، ص365، ناشر: المکتبة التجاریة الکبری – مصر، الطبعة: الاولی، 1356هـ.]</ref>

==بدری صحابی خزیمہ ذو الشہادتین==

خزیمہ بن ثابت ؓ کا شمار رسول اللہ ﷺ کے باوفا صحابہ میں ہوتا ہے جو آخری دَم تک رسول اللہ ﷺ سے کیے ہوئے عہد و پیمان پر استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ خزیمہ بن ثابت نے جنگ بدر اور بقیہ تمام جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شرکت کی سعادت حاصل کی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا ۔ اسی وجہ سے خزیمہ بن ثابت کو ذو الشہادتین کا لقب دیا گیا اور اسی لقب سے ان کی شہرت ہوئی۔ آپ جنگ صفین میں امام علیؑ کے ہم رکاب حاضر ہوئے اور اس جنگ میں شہید کر دئیے گئے۔آپ کی شہادت کا تذکرہ محدثین و مؤرخین نے اپنی کتب میں کیا ہے جن میں سے بعض شواہد درج ذیل ذکر کیے جاتے ہیں:

===ابن عبد البر کی تحریر===

ابن عبد البر قرطبی جناب خزیمہ بن ثابت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: خزیمة بن ثابت بن الفاکه بن ثعلبة الخطمی الانصاری من بنی خطمة من الاوس یعرف بذی الشهادتین جعل رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) شهادته بشهادة رجلین یکنی ابا عمارة شهد بدرا وما بعدها من المشاهد وکانت رایة خطمة بیده یوم الفتح وکان مع علی رضی الله عنه بصفین فلما قتل عمار جرد سیفه فقاتل حتی قتل وکانت صفین سنة سبع وثلاثین، روی عن محمد بن عمارة بن خزیمة بن ثابت من وجوه قد ذکرتها فی کتاب الاستظهار فی طرق حدیث عمار قال ما زال جدی خزیمة بن ثابت مع علی بصفین کافا سلاحه وکذلک فعل یوم الجمل فلما قتل عمار بصفین قال خزیمة سمعت رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یقول تقتل عمار الفئة الباغیة ثم سل سیفه فقاتل حتی قتل ؛ خزیمہ بن ثابت بن فاکہ بن ثعلبہ بن خطمی انصاری کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنی خطمہ سے تھا ۔ وہ ذو الشہادتین کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا، ان کی کنیت ابو عمارہ ہے ۔ جنگ بدر اور دیگر تمام جنگوں میں شرکت کی ۔ فتح مکہ کے موقع پر خطمہ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھا۔ علیؑ کے ساتھ صفین میں حاضر ہوئے ۔ جب عمار قتل کر دیئے گئے تو وہ اپنی تلوار کو سونت کر نکلے یہاں تک کہ قتل کر دئیے گئے ۔ صفین ۳۷ ھ کو لڑی گئی تھی۔ محمد بن عمارۃ بن خزیمہ بن ثابت سے مختلف طرق جنہیں میں نے کتاب استظہار میں حدیثِ عمار کے طرق میں ذکر کیا ہے سے یہ حدیث نقل کی گئی ہیں  کہ وہ کہتے ہیں: میرے جدّ خزیمہ بن ثابت علیؑ کے ہمراہ صفین میں تھے جبکہ ان کی تلوار نیام میں تھی اور اسی طرح جنگ جمل میں انہوں نے کیا تھا۔ صفین میں جب عمار قتل کر دئیے گئے تو خزیمہ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عمار کو باغی جماعت قتل کرے گی ، پھر انہوں نے اپنی تلوار نکالی  اور حملہ آور ہوئے اور اس وقت تک لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/2/448/665 ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج2، ص448، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

===حاکم نیشاپوری کا بیان===

حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک میں لکھتے ہیں:

حَدَّثَنِی ابوبَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ بَالَوَیْهِ، ثَنَا اِبْرَاهِیمُ بْنُ اِسْحَاقَ الْحَرْبِی، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَیْرِی، قَالَ: ” خُزَیْمَةُ بْنُ ثَابِتِ بْنِ الْفَاکِهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ سَاعِدَةَ بْنِ عَامِرِ بْنِ غَیَّانَ بْنِ عَامِرِ بْنِ خَطْمَةَ وَهُوَ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ، جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ شَهَادَتَهُ بِشَهَادَةِ رَجُلَیْنِ، وَاَخْبَرَ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ اَنَّهُ رَاَی فِی الْمَنَامِ کَاَنَّهُ سَجَدَ عَلَی جَبْهَةِ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ، فَاضْطَجَعَ لَهُ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَسَلَّمَ حَتَّی سَجَدَ عَلَی جَبْهَتِهِ ” قَالَ ابْنُ اِسْحَاقَ: «قُتِلَ مَعَ عَلِی رَضِی اللَّهُ عَنْهُ بِصِفِّینَ بَعْدَ قَتْلِ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ، قَالَ: ” شَهِدَ خُزَیْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ مَعَ عَلِی بْنِ ابی‌طَالِبٍ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ صِفِّینَ، وَقُتِلَ یَوْمَئِذٍ سَنَةَ سَبْعٍ وَثَلاثِینَ مِنَ الْهِجْرَةِ ؛ مصعب بن عبد اللہ زبیری نے بیان کیا ہے کہ خزیمہ بن ثابت بن فاکہ بن ثعلبہ بن ساعدۃ بن عامر بن غیان بن عامر بن خطمہ ، وہ ذو الشہادتین ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ خزیمہ نے نبی ﷺ کو بتایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا وہ نبی ﷺ کی پیشانی مبارک پر سجدہ کر رہے ہیں ،پھر نبی ﷺ ان کی خاطر لیٹ گئے تاکہ وہ ان کی پیشانی پر سجدہ کریں ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: خزیمہ صفین میں علیؑ کی ہمراہی میں عمار بن یاسر کے قتل ہونے کے بعد قتل ہوئے۔ محمد بن اسحاق سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں: خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین نے علی بن ابی طالبؑ کے ہمراہ صفین میں شرکت اور اس دن ۳۷ ھ کو قتل کر دئیے گئے۔<ref>[http://lib.efatwa.ir/42119/3/448/5695 الحاکم النیسابوری، ابوعبدالله محمد بن عبدالله (متوفای 405 هـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص448، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة: الاولی، 1411هـ – 1990م.]</ref>

۔

==هاشم بن عتبه==

[[هاشم بن عتبه|هاشم]] بن [[عتبه بن ابی‌وقاص]]، مشهور به‌هاشم مرقال، برادر زاده [[سعد بن ابی‌وقاص]]، یکی از یاران رسول الله است که در جنگ صفین به درجه رفیع شهادت نائل است.

===سخن ابن‌حبان===

[[ابن‌حبان]] در باره او می‌نویسد:

هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص بن اخی سعد له صحبة قتل یوم صفین.

هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص، پسر برادر سعد، صحابی بود و در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40200/3/437/1428 التمیمی البستی، ابوحاتم محمد بن حبان بن احمد (متوفای354 هـ)، الثقات، ج3، ص437، رقم: 1428، تحقیق السید شرف الدین احمد، ناشر: دار الفکر، الطبعة: الاولی، 1395هـ – 1975م.]</ref>

===سخن طبری===

[[محمد بن جریر طبری]] نام او را در زمره شهدای جنگ صفین آورده و می‌نویسد:

وهاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص بن اهیب بن عبدمناف بن زهرة اسلم‌هاشم بن عتبة یوم فتح مکة وهو المرقال وکان اعور فقئت عینه یوم الیرموک وهو ابن اخی سعد بن ابی‌وقاص شهد صفین مع علی بن ابی‌طالب (علیه‌السّلام) وکان یومئذ علی الرجالة وهو الذی یقول:

اعور یبغی اهله محلا ***** قد عالج الحیاة حتی ملا

لابد ان یفل او یفلا ***** وقتل یوم صفین.

هاشم بن عتبه در فتح مکه اسلام آورد، او همان مرقال است و یک چشمش کور بود که در [[جنگ یرموک]] از حدقه اش افتاد. او پسر برادر سعد بن ابی‌وقاص بود، در جنگ صفین در رکاب علی بن ابی‌طالب (علیه‌السّلام) حاضر بود و در این روز امیر سربازان پیاده بود، او همان کسی است که می‌گفت:

اعور کسی است که برای کسان خود محل و مقامی می‌طلبد و زندگی را تا آنجایی سپری کرده که اظهار خستگی می‌نماید، اینک چاره‌ای ندارد از اینکه شمشیر بکشد و دشمن را شکست بدهد و یا شکست بخورد.

او در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/15117/1/17/وهاشم الطبری، ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب (متوفای310)، المنتخب من ذیل المذیل، ج1، ص17، طبق برنامه الجامع الکبیر.]</ref>

===سخن ابن‌حجر===

[[ابن‌حجر عسقلانی]] در توصیف این شیر شجاع و پرچمدار لشکر علی بن ابی‌طالب می‌نویسد:

هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص بن اهیب بن زهرة بن عبد مناف الزهری الشجاع المشهور المعروف بالمرقال بن اخی سعد بن ابی‌وقاص قال الدولابی لقب بالمرقال لانه کان یرقل فی الحرب‌ای یسرع من الارقال وهو ضرب من العدو وقال بن الکلبی وابن حبان له صحبة…

واخرج یعقوب بن سفیان من طریق الزهری قال قتل عمار بن یاسر وهاشم بن عتبة یوم صفین واخرج بن السکن من طریق الاعمش عن ابی‌عبد الرحمن السلمی قال شهدنا صفین مع علی وقد وکلنا بفرسه رجلین فاذا کان من القوم غفلة حمل علیهم فلا یرجع حتی یخضب سیفه دما قال ورایت‌هاشم بن عتبة وعمار بن یاسر یقول له یا‌هاشم:

اعور یبغی اهلی محلا ***** قد عالج الحیاة حتی ملا

لا بد ان یفل او یفلا ***** قال ثم اخذوا فی واد من اودیة صفین فما رجعا حتی قتلا

واخرج عبد الرزاق عن ابی‌بکر بن محمد بن عمرو بن حزم ان‌هاشما انشده فذکر نحوه.

وقال المرزبانی لما جاء قتل عثمان الی اهل الکوفة قال‌هاشم لابی موسی الاشعری تعال یا ابا موسی بایع لخیر هذه الامة علی فقال لا تعجل فوضع‌هاشم یده علی الاخری فقال هذه لعلی وهذه لی وقد بایعت علیا وانشد

ابایع غیر مکترث علیا ***** ولا اخشی امیرا اشعریا

ابایعه واعلم ان سارضی ***** بذاک الله حقا والنبیا

هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص، دلاور نامداری که به مرقال مشهور شد. او برادر زاده سعد بن ابی‌وقاص بود. دولابی گفته: او را «مرقال» نامیدند؛ چرا که با سرعت به جنگ می‌رفت. ارقال از ماده ارقال است به معنای نوعی دویدن. [[ابن‌کلبی]] و ابن‌حبان گفته‌اند که صحابی بوده.

یعقوب بن سفیان از طریق زهری نقل کرده است که عمار بن یاسر و‌ هاشم بن عبته در جنگ صفین به شهادت رسیدند. [[ابن السکن]] از طریق اعملش از [[ابی‌عبدالرحمن]] سلمی نقل کرده است که ما در صفین در رکاب علی (علیه‌السّلام) حاضر بودیم، هر دو نفر بر یک اسب سوار می‌شدیم؛ وقتی مردم در غفلت بودیم به آن‌ها حمله می‌کردیم، کسی بر نمی‌گشت؛ مگر این که شمشیرش را از خون آغشته می‌کرد.‌ هاشم بن عبته و عمار را دیدم، عمار به‌ هاشم می‌گفت:

اعور کسی است که برای کسان خود محل و مقامی می‌طلبد و زندگی را تا آنجایی سپری کرده که اظهار خستگی می‌نماید، اینک چاره‌ای ندارد از اینکه شمشیر بکشد و دشمن را شکست بدهد و یا شکست بخورد.

سپس هر دوی آن‌ها بیابانی از بیابان‌های صفین را در پیش گرفتند، برنگشتند؛ مگر این که به شهادت رسیدند.

عبدالرزاق از [[ابوبکر بن محمد|ابوبکر]] بن [[محمد بن عمرو|محمد]] بن [[عمرو بن حزم]] نقل کرده است که‌ هاشم این شعر را سرود.

مرزبانی گفته: وقتی خبر کشته شدن عثمان به مردم کوفه رسید،‌هاشم به [[ابوموسی اشعری]] گفت: ‌ای ابوموسی بیا و با بهترین فرد این امت؛ یعنی علی (علیه‌السّلام) بیعت کن. ابوموسی گفت: عجله نکن. پس‌ هاشم یک دستش را بر روی دست دیگرش گذاشت و گفت: این دستم برای علی و این هم برای خودم، من با علی بیعت کردم و سپس این شعر را سرود:

بی‌درنگ با علی بیعت می‌کنم و از امیر اشعری هراسی ندارم. با او بیعت می‌کنم و می‌دانم که خدا و پیامبرش از این کار خوشنود خواهند شد. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/6/404/8934 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6، ص404، رقم: 8934.]</ref>

===سخن ابن عبدالبر===

[[ابن عبدالبر قرطبی]] او را این چنین توصیف می‌کند:

هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص القرشی الزهری ابن اخی سعد بن ابی‌وقاص بکی ابا عمرو وقد تقدم ذکر نسبه الی زهرة فی باب عمه سعد قال خلیفة بن خیاط فی تسمیة من نزل الکوفة من اصحاب رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)‌هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص الزهری وقال الهیثم ابن عدی مثله قال ابوعمر اسلم‌هاشم بن عتبة یوم الفتح یعرف بالمرقال وکان من الفضلاء الخیار وکان من الابطال البهم فقئت عینه یوم الیرموک…

ثم شهد‌هاشم مع علی الجمل وشهد صفین وابلی فیها بلاء حسنا مذکورا وبیده کانت رایة علی علی الرجالة یوم صفین ویومئذ قتل وهو القائل یومئذ

اعور یبغی اهله محلا ***** قد عالج الحیاة حتی ملا

لا بد ان یفل او یفلا

وقطعت رجله یومئذ فجعل یقاتل من دنا منه وهو بارک ویقول:

الفحل یحمی شوله معقولا

وقاتل حتی قتل وفیه یقول ابوالطفیل عامر بن وائلة:

یا‌هاشم الخیر جزیت الجنة ***** قاتلت فی الله عدو السنة

افلح بما فزت به من منة

هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص قرشی، برادر زاده سعد بن ابی‌وقاص، پیش از این در باره نسب او که به زهره می‌رسید در شرح حال عمویش سعد سخن گفتیم. [[خلیفه بن خیاط]] نام او را در زمره کسانی از اصحاب رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) که ساکن [[کوفه]] شدند، آورده است. [[هیثم بن عدی]] نیز همانند آن را گفته.

ابو عمر گفته:‌ هاشم بن عتبه در فتح مکه اسلام آورد، مشهور به مرقال است و از دانشمندان و فاضلان برگزیده و شجاع و دلاور بود و در جنگ یرموک، یکی از چشم‌های خود را از دست داد.

سپس‌هاشم به همراه علی (علیه‌السّلام) در جنگ جمل و صفین شرکت کرد و در آن گرفتار بلاهای خوشایندی شد. در این جنگ پرچم سربازان پیاده در دست او بود و در همین جنگ به شهادت رسید؛ او همان کسی است که در آن روز این شعر را سرود:

اعور کسی است که برای کسان خود محل و مقامی می‌طلبد و زندگی را تا آنجایی سپری کرده که اظهار خستگی می‌نماید، اینک چاره‌ای ندارد از اینکه شمشیر بکشد و دشمن را شکست بدهد و یا شکست بخورد.

پای او در این جنگ قطع شد؛ پس با هر کسی که به او نزدیک می‌شد می‌جنگید، او را به زمین می‌زد و زیر سینه اش قرار می‌داد و می‌گفت:

مرد از بستگان دفاع می‌کند؛ حتی اگر دربند باشد.

آن قدر جنگید که به شهادت رسیید، ابوطفیل عامر بن وائله در باره او سروده است:

‌ای‌هاشم نیکوکار، پاداشت بهشت باشد ***** تو در راه خدا با دشمنان سنت جنگیدی

چه قدر مایه رستگاری است، آن منتی که تو به آن دست یافتی. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/4/1546/2700 ابن عبدالبر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج4، ص1546-1547، رقم: 2700، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

===سخن هیثمی===

هیثمی در [[مجمع الزوائد]] می‌نویسد:

وعن ابی‌عبدالرحمن السلمی قال شهدنا مع علی صفین وقد وکلنا بفرسه رجلین فکانت اذا کانت من الرجل غفلة غمز علی فرسه فاذا هو فی عسکر القوم فیرجع الینا وقد خضب سیفه دما ویقول یا اصحابی اعذرونی اعذرونی فکنا اذا توادعنا دخل هؤلاء فی عسکر هؤلاء فکان عمار بن یاسر یقول علما لاصحاب محمد (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) لا یسلک عمار وادیا من اودیة صفین الا تبعه اصحاب محمد (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فانتهینا الی‌هاشم بن عتبة بن ابی‌وقاص وقد رکز الرایة فقال مالک یا‌هاشم اعور وجبنا لا خیر فی اعور لا یغشی الناس فنزع‌هاشم الرایة وهو یقول:

اعور یبغی اهله محلا ***** قد عالج الحیاة حتی ملا

لا بد ان یفل او یفلا

[[ابوعبدالرحمن سلمی]] روایت می‌کند که در صفّین حضور امیرالمؤمنین علی (علیه‌السّلام) بودیم (تا آنجا که گفته است) «عمار» در آن روز پیشوا و جلودار اصحاب رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بود؛ چنانکه در هیچ وادی از وادیهای صفّین، قدم نمی‌گذارد مگر اینکه اصحاب رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) دنباله رو او بودند. آن روز در مسیر خود به «هاشم بن عتبة بن ابی‌وقّاص» که پرچمدار علی (علیه‌السّلام) بود، رسیدیم. «عمار» به او، گفت: ‌ای‌هاشم اعور! تو و ترس؟! خیری نیست در اعوری که نتواند مردم را به شور و هیجان درآورد. «هاشم» ناراحت شده پرچم را برافراشت و گفت:

اعور کسی است که برای کسان خود محل و مقامی می‌طلبد و زندگی را تا آنجایی سپری کرده که اظهار خستگی می‌نماید، اینک چاره‌ای ندارد از اینکه شمشیر بکشد و دشمن را شکست بدهد و یا شکست بخورد.

عمّار گفت: اینک پیش تاز که ورود به بهشت در سایه شمشیرهاست و [[حور العین]] همراه پیغمبر اکرم (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) و همدستان پاکیزه سرشتش، خود را برای هر گونه پذیرائی در رفیق اعلی آماده کرده‌اند. سرانجام از آن سرزمین بازنگشتند تا اینکه هر دو به شهادت رسیدند.

سپس هیثمی در باره سند این روایت می‌گوید:

رواه الطبرانی واحمد باختصار وابو یعلی بنحو الطبرانی والبزار بقوله تقتل عمارا الفئة الباغیة عن عبدالله بن عمرو وحده ورجال احمد وابی یعلی ثقات.

این روایت را طبرانی، احمد و [[ابویعلی]] به صورت خلاصه نقل کرده‌اند. بزار با جمله «تقتل عمار الفئة الباغیة» تنها از طریق عبدالله بن عمر نقل کرده. راویان احمد و ابویعلی موثق هستند. <ref>[http://lib.efatwa.ir/43322/7/240/12048 الهیثمی، ابوالحسن نور الدین علی بن ابی‌بکر (متوفای 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص240-241، ناشر: دار الریان للتراث/ دار الکتاب العربی – القاهرة، بیروت – 1407هـ.]</ref>

==ابوفضاله الانصاری==

ابو فضاله انصاری، یکی از حاضران در جنگ بدر بود که در صفین به شهادت رسید.

===سخن ابن‌ حجر===

ابن‌حجر در شرح حال او می‌نویسد:

ابو فضالة الانصاری ذکره احمد والحارث بن ابی‌اسامة فی مسندیهما وابن ابی‌خیثمة والبغوی فی الصحابة واسد بن موسی فی فضائل الصحابة وذکره البخاری فی الکنی مختصرا قال حدثنا موسی حدثنا محمد بن راشد حدثنا بن عقیل عن فضالة بن ابی‌فضالة الانصاری وقتل ابوفضالة بصفین مع علی وکان من اهل بدر.

واخرجه بن ابی‌خیثمة عن عارم عن بن راشد فقال عنه عن فضالة ان علیا قال اخبرنی النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) انی لا اموت حتی اؤمر ثم تخضب هذه من هذه قال فضالة فصحبه ابی‌الی صفین وقتل معه وکان ابوفضالة من اهل بدر.

[[ابوفضاله انصاری]]؛ احمد بن حنبل و [[حارث بن ابی‌اسامه]] در مسندشان از او یاد کرده‌اند. [[ابن ابی‌خیثمه]] و بغوی نام او را در زمره اصحاب آورده‌اند. [[اسد بن موسی]] نیز در [[فضائل الصحابه]] نام او را ذکر کرده است. بخاری در کتاب [[الکنی]] به صورت مختصر از او یاد کرده و گفته: موسی از [[محمد بن راشد]] از [[ابن‌عقیل]] از [[ابی‌فضاله]] برای من روایت نقل کرده است. ابوفضاله در جنگ صفین به همراه علی (علیه‌السّلام) به شهادت رسید و از او حاضران در جنگ بدر بود.

ابن ابی‌خیثمه همین روایت را از [[عارم بن راشد]] نقل کرده و سپس گفته: از عارم بن راشد از فضاله نقل شده است که علی (علیه‌السّلام) گفت: رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) به من خبر داد، من از دنیا نمی‌روم؛ مگر این که به حکومت می‌رسم، سپس این از این (محاسنم از خون سرم) رنگین می‌شود. پس پدرم علی (علیه‌السّلام) را در جنگ صفین همراهی کرد و در همان جنگ به شهادت رسید. ابوفضاله از حاضران در جنگ بدر بود. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/7/267/10394 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج7، ص267، رقم: 10394.]</ref>

===سخن ابن عبد البر===

ابن عبدالبر در [[الاستیعاب]] می‌نویسد:

ابو فضاله الانصاری شهد بدرا مع النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وقتل مع علی بصفین….

ابوفضاله انصاری در جنگ بدر به همراه رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) حاضر بود و در جنگ صفین در رکاب علی (علیه‌السّلام) به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/4/1729/3125 ابن عبدالبر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج4، ص1729، رقم: 3125، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

==سهیل بن عمرو الانصاری==

او نیز از اصحاب رسول خدا و از حاضران در جنگ بدر بود که در جنگ صفین در رکاب امیرمؤمنان (علیه‌السّلام) به شهادت رسید.

ابن عبد البر درباره او می‌نویسد:

سهیل بن عمرو بن ابی‌عمرو الانصاری ذکره ابن الکلبی فیمن شهد صفین من البدریین فقال سهیل بن عمرو الانصاری شهد بدرا وقتل مع علی بن ابی‌طالب رضی الله عنه بصفین.

سهیل بن عمرو بن ابی‌عمرو انصاری، ابن کلبی نام او را در زمره کسانی که در جنگ صفین حاضر بودند و از شرکت کنندگان در بدر نیز بودند، آورده و گفته: [[سهیل بن عمرو انصاری]]، در جنگ بدر حاضر بود و به همراه علی بن ابی‌طالب (علیه‌السّلام) در صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/2/669/1105 ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج2، ص669، رقم: 1105، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

==عبدالله بن بدیل و برادرش==

ابن‌حجر عسقلانی در کتاب [[الاصابه]] می‌نویسد:

عبدالله بن بدیل بن ورقاء الخزاعی تقدم ذکر ابیه ونسبه قال الطبری وغیره اسلم یوم الفتح مع ابیه وشهد حنینا والطائف وتبوک وقال بن الکلبی کان هو واخوه عبد الرحمن رسولی رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) الی الیمن ثم شهدا صفین مع علی وقتلا بها وکان عبدالله علی الرحال

وفی کتاب صفین لنصر بن مزاحم بسنده الی زید بن وهب ان عبدالله بن بدیل قام بصفین فقال ان معاویة نازع الامر اهله وصال علیکم بالاحزاب والاعراب وانتم والله علی الحق فقاتلوا ومن طریق الشعبی قال کان علی عبدالله بن بدیل بصفین درعان ومعه سیفان فکان یضرب اهل الشام وهو یقول:

لم یبق الا الصبر والتوکل ***** ثم التمشی فی الرعیل الاول

مشی الجمال فی حیاض المنهل ***** والله یقضی ما یشاء ویفعل

[[عبدالله بن بدیل|عبدالله]] بن [[بدیل بن ورقاء]] خزاعی، نسب و نام پدرش پیش از این گذشت. طبری و دیگران گفته‌اند: در جنگ فتح مکه به همراه پدرش اسلام آورد، در جنگ حنین، [[طائف]] و [[تبوک]] حاضر بود. ابن الکلبی گفته: او و برادرش عبد الرحمن، فرستاده‌های رسول خدا به سوی [[یمن]] بودند. سپس در جنگ صفین در رکاب علی (علیه‌السّلام) حاضر شدند و هر دو به شهادت رسیدند و عبدالله در لشکر پیاده‌ها بود.

[[نصر بن مزاحم]] در کتاب صفین با سند خودش از [[زید بن وهب]] نقل کرده است که عبدالله بن بدیل در روز صفین ایستاد و گفت: معاویه، با اهل امر (کسانی که حق حکومت دارند) به نزاع برخواسته و به سوی شما با احزاب و اعراب آمده است، به خدا سوگند شما بر حق هستید؛ پس به نبرد برخیرید.

و از طریق شعبی نقل شده است که عبدالله بن بدیل در جنگ صفین دو زره و دو شمشیر داشت و با اهل شام می‌جنگید و می‌گفت:

باقی نمانده است مگر [[صبر]] و [[توکل]] بر خدا ***** سپس رفتن به صف اول

مثل شتر که به سمت آبشخور می‌رود ***** و خداوند هر آن چه که بخواهد انجام می‌دهد. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/4/18/4577 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج4، ص18، رقم: 4577.]</ref>

==عبدالله بن کعب مرادی==

ابن عبدالبر، [[ابن‌اثیر]] و ابن‌حجر نام او را در زمره اصحاب آورده و تصریح کرده‌اند که در جنگ صفین به شهادت رسیده است:

عبدالله بن کعب المرادی قتل یوم صفین وکان من اعیان اصحاب علی.

عبدالله بن کعب مرادی، در جنگ صفین به شهادت رسید و از سران اصحاب علی (علیه‌السّلام) بود. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/3/981/1644 ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج3، ص981، رقم: 1644، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref> <ref>[http://lib.eshia.ir/40157/3/270/3151 ابن اثیر الجزری، عزالدین بن الاثیر ابی‌الحسن علی بن محمد (متوفای630هـ)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج3، ص270.]</ref> <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/4/184/4921 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج4، ص184، رقم: 4921.]</ref>

==ابو عمره انصاری==

ابو عمره انصاری، یکی از اصحاب رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) است که در جنگ صفین به شهادت رسیده است. البته در نام او که [[بشیر بن عمرو]] است یا [[ثعلبة بن عمرو]] اختلاف است؛ اما در این که او در رکاب امیرمؤمنان (علیه‌السّلام) شهیده است، تردیدی نیست.

همچنین علمای اهل‌سنت نوشته‌اند که او در جنگ جمل یک صد هزار درهم به امیرمؤمنان (علیه‌السّلام) کمک مالی کرد تا بر دشمنان خدا پیروز شود.

===سخن ابن عبدالبر===

ابن عبدالبر قرطبی در الاستیعاب می‌نویسد:

بشیر بن عمرو بن محصن ابوعمرة الانصاری روی عن النبی وقتل یوم صفین وقد اختلف فی اسم ابی‌عمرة الانصاری هذا والد عبدالرحمن بن ابی‌عمرة.

بشیر بن عمرو بن محصن، ابوعمرة انصاری، از رسول خدا روایت کرده و در جنگ صفین به شهادت رسیده است. در باره نام او اختلاف شده، او پدر عبدالرحمن ابی‌عمرة است. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/1/175/200 ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج1، ص175، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

===سخن طبرانی===

طبرانی در [[المعجم الکبیر]] می‌نویسد:

ابو عَمْرَةَ الاَنْصَارِی وَیُقَالُ بَشِیرُ بن عمرو بن محصن رضی الله عنه ویقال ثعلبة بن عمرو بن محصن ویقال عَمْرِو بن مِحْصَنٍ من بنی مَازِنِ بن النَّجَّارِ وَیُقَالُ اِنَّ اَبَا عَمْرَةَ اَعْطَی عَلِیًّا رضی اللَّهُ عنه یوم صِفِّینَ مِائَةَ اَلْفِ دِرْهَمٍ اَعَانَهُ بها یوم الْجَمَلِ وَقُتِلَ یوم صِفِّینَ.

ابو عمره انصاری، گفته شده که او بشیر بن عمرو بن محصن بوده است. برخی گفته‌اند که او ثعلبة بن عمرو بن محصن بوده، دیگری گفته که عمرو بن محصن از [[قبیله بنی‌مازن بن نجار]] بوده. و نیز گفته شده که ابوعمر در جنگ صفین یک صد هزار درهم کمک کرد، در جنگ جمل آن حضرت را یاری کرد و در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.efatwa.ir/42124/1/211/مَالِكٍ الطبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (متوفای360هـ)، المعجم الکبیر، ج1، ص211، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر: مکتبة الزهراء – الموصل، الطبعة: الثانیة، 1404هـ – 1983م.]</ref>

===سخن ابن‌ حبان===

ابن‌حبان بستی شافعی در کتاب [[مشاهیر الامصار]] و در کتاب [[الثقات]] خود همین مطلب را ذکر کرده است:

ثعلبة بن عمرو بن محصن کنیته ابوعمرة والد عبد الرحمن بن ابی‌عمرة شهد مع النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) خیبر وقد قیل ان اسم ابی‌عمرة بشیر بن عمرو بن محصن اعطی علیا یوم الجمل مائة الف درهم اعانه بها وقتل یوم صفین.

ثعلبة بن عمر، در [[جنگ خیبر]] در کنار رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بود. او در جنگ جمل یک صد هزار درهم به علی (علیه‌السّلام) کمک کرد و در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40435/1/45/98 التمیمی البستی، ابوحاتم محمد بن حبان بن احمد (متوفای354 هـ)، مشاهیر علماء الامصار، ج1، ص45.]</ref> <ref>[http://lib.eshia.ir/40200/3/47/160 التمیمی البستی، ابوحاتم محمد بن حبان بن احمد (متوفای354 هـ)، الثقات، ج3، ص47، تحقیق السید شرف الدین احمد، ناشر: دار الفکر، الطبعة: الاولی، 1395هـ – 1975م.]</ref>

==ابو حازم البجلی==

یکی از شهدای جنگ صفین، [[ابوحازم بجلی]] کوفی است، ابن حجر درباره او می‌نویسد:

ابو حازم البجلی والد قیس وقیل اسمه عوف وقیل عبد عوف اخرج حدیثه البخاری فی الادب المفرد وابو داود وصححه وابن خزیمة وابن حبان والحاکم کلهم من طریق اسماعیل بن ابی‌خالد عن قیس بن ابی‌حازم عن ابیه انه جاء والنبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یخطب فقام فی الشمس فامر به فتحول الی الظل قال محمد بن سعد قتل ابوحازم بصفین.

ابوحازم بجلی، پدر قیس، گفته‌اند که اسم او عوف و یا عبد عوف بوده. بخاری از او در کتاب [[ادب المفرد]]، ابوداود، ابن خزیمه، ابن حبان و حاکم از طریق اسماعیل به ابی‌خالد از [[قیس بن ابی‌حازم]] نقل کرده‌اند که او پیش رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) آمد؛ در حالی که آن حضرت خطبه می‌خواند؛ پس در آفتاب ایستاده بوده، رسول خدا دستور داد و به سایه رفت. محمد بن سعد گفته: ابوحازم در جنگ صفین به شهادت رسیده است. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/7/69/9738 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج7، ص69، رقم: 9738.]</ref>

و مزی نیز در تهذیب الکمال می‌نویسد:

بخ د: ابوحازم البجلی الاحمسی، والد قیس بن ابی‌حازم، له صحبة.

وقد ذکرنا ما قیل فی اسمه ونسبه وبعض ما فی ذلک من الخلاف فی ترجمة ابنه قیس بن ابی‌حازم. رَوَی عَن: النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) (بخ د). رَوَی عَنه: ابنه قیس بن ابی‌حازم (بخ د). قال محمد بن سعد: قتل یوم صفین.

ابوحازم بجلی، یکی از اصحاب بود. [[محمد بن سعد]] گفته: در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40342/33/219/7298 المزی، ابوالحجاج یوسف بن الزکی عبدالرحمن (متوفای742هـ)، تهذیب الکمال، ج33، ص219، رقم: 7298.]</ref>

==جندب بن زهیر العامری==

جندب بن زهیر، یکی از اصحاب رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) ویکی از یاران دلاور امیرمؤمنان (علیه‌السّلام) در جنگ صفین بود و در همین جنگ به شهادت رسید.

[[ابونعیم اصفهانی]] در [[معرفة الصحابه]] می‌نویسد:

جندب بن زهیر العامری کان علی رجالة علی بن ابی‌طالب (رضی الله عنه) وقتل یوم صفین ذکره البغوی عن عمه عن ابی‌عبید. وقال: هو ازدی.

جندب بن زهیر العامری، در لشکر پیادگان علی بن ابی‌طالب حاضر بود در جنگ صفین به شهادت رسید. بغوی این مطلب را از عمویش از ابوعبید نقل کرده است. <ref>[http://lib.eshia.ir/40458/2/580/جُنْدُبُ الاصبهانی، ابونعیم احمد بن عبدالله (متوفای430هـ)، معرفة الصحابة، ج2، ص580، طبق برنامه الجامع الکبیر.]</ref>

ابن اثیر در [[اسد الغابة]] می‌نویسد:

جُنْدب بن زُهَیْر بن الحارث بن کثیر بن جُشم بن سُبَیع بن مالک بن ذُهَل بن مازن ابن ذبیان بن ثعلبة بن الدؤل بن سعد مناة بن غامد الازدی الغامدی. کان علی رجَّالة صفین مع علی، وقتل فی تلک الحرب بصفین.

جندب بن زهیر، در لشکر پیادگان علی بن ابی‌طالب (علیه‌السّلام) بود و در همین جنگ به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40157/1/359/802 ابن اثیر الجزری، عز الدین بن الاثیر ابی‌الحسن علی بن محمد (متوفای630هـ)، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج1، ص359، رقم: 802.]</ref>

ابن حجر عسقلانی در باره شجاعت او در جنگ صفین می‌گوید:

وذکر بن درید فی امالیه بسنده الی ابی‌عبیدة عن یونس قال کان عبدالله بن الزبیر اصطفنا یوم الجمل فخرج علینا صائح کالمنتصح من اصحاب علی فقال یا معشر فتیان قریش احذرکم رجلین جندب بن زهیر الغامدی والاشتر فلا تقوموا لسیوفهما اما جندب فرجل ربعة یجر درعه حتی یعفی اثره.

[[ابن‌درید]] در [[امالی]] خود با سندش تا ابوعبید از یونس نقل کرده است که عبدالله بن زبیر ما را در جنگ جمل به صف کرد، سپس فریادگری همانند فریاد زنندگان یاران علی (علیه‌السّلام) آمد و گفت: ‌ای جوانان قریش! من شما را از دو نفر برحذر می‌دارم، مبادا خود را در برابر شمشیر آن‌ها قرار دهید، [[جندب بن زهیر]] و [[مالک اشتر]]. اما جندب مردی میان قامتی است که زره او به زمین کشیده می‌شود. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/1/612/دريد العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج1، ص612.]</ref>

==محمد بن سلیمان==

[[محمد بن سلیمان]]، یکی یاران رسول خدا بود که در جنگ احد نیز شرکت داشت، او نیز در جنگ صفین به شهادت رسیده است. ابن حجر در باره او می‌گوید:

محمد بن سلیمان بن رفاعة بن خلیفة بن ابی‌کعب قال بن القداح شهد احدا وحضر فتح العراق وقتل یوم صفین.

محمد بن سلیمان بن رفاعه. ابن القداح گفته: در جنگ احد حاضر بود، در فتح عراق شرکت داشت و در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/6/13/7792 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6، ص13، رقم: 7792، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ – 1992م.]</ref>

==سعد بن الحارث==

سعد بن الحارث یکی از کسانی است که از اصحاب رسول خدا بوده و در جنگ صفین به شهادت رسیده است، ابن حجر در باره او می‌گوید:

سعد بن الحارث بن الصمة الانصاری اخو جهیم قال بن شاهین له صحبة وشهد صفین مع علی وقال الطبری صحب النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وشهد مع علی صفین وقتل یومئذ.

[[سعد بن الحارث]] انصاری، [[ابن شاهین]] گفته که او صحابی بوده، در جنگ صفین به همراه علی (علیه‌السّلام) شرکت کرد. طبری گفته: او از اصحاب پیامبر (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بود، در جنگ صفین به همراه علی (علیه‌السّلام) حاضر شد و در همین جنگ به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/3/42/3143 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج3، ص42، رقم: 3143.]</ref>

ابن عبد البر قرطبی نیز در الاستیعاب می‌گوید:

سعد بن الحارث بن الصمة قد ذکرنا نسبه فی باب ابیه صحب النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وشهد مع علی صفین وقتل یومئذ وهو اخو جهیم بن الحارث بن الصمة.

سعد بن الحارث، ما نسب او را در شرح حال پدرش ذکر کردیم، او از اصحاب رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بود، به همراه علی (علیه‌السّلام) در جنگ صفین حاضر شد و در این جنگ به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/2/583/921 ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج2 ص583، رقم: 921، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

==عبدالله بن ارقم==

[[ابن کثیر دمشقی]] سلفی در کتاب [[معتبر البدایة والنهایه]] می‌نویسد که [[عبدالله بن ارقم]] که کاتب وحی نیز بوده، در جنگ صفین در رکاب امیرمؤمنان (علیه‌السّلام) به شهادت رسیده است:

عبدالله بن الارقم بن ابی‌الارقم

اسلم عام الفتح وکتب بین یدی رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وقد تقدم مع کتاب الوحی عبدالله بن بدیل بن ورقاء الخزاعی قتل یوم صفین وکان امیر المیمنة لعلی.

عبدالله بن ارقم، در فتح مکه مسلمان شد، یکی از کاتبان وحی بود، در جنگ صفین به شهادت رسید و فرمانده سمت راست لشکر علی (علیه‌السّلام) بود. <ref>[http://lib.eshia.ir/22003/7/344/يدي ابن کثیر الدمشقی، ابوالفداء اسماعیل بن عمر القرشی (متوفای774هـ)، البدایة والنهایة، ج7، ص344.]</ref>

==یعلی بن امیة==

[[یعلی بن امیه]]، یکی از اصحاب است که در ابتدا از طرفداران [[عائشه]] و [[طلحه]] و [[زبیر]] بود، در جنگ جمل با آن‌ها بود. او همان کسی است که جمل مشهور به عسکر را برای عائشه خرید و به زبیر کمک مالی زیادی کرد؛ اما پس از آن به حقانیت امیرمؤمنان (علیه‌السّلام) ایمان آورد و در جنگ صفین در رکاب حیدر کرار به شهادت رسید.

===سخن عسقلانی===

ابن‌حجر عسقلانی در باره او می‌نویسد:

یعلی بن امیة بن ابی‌عبیدة بن همام بن الحارث التمیمی الحنظلی… قال المدائنی عن سلمة بن محارب عن عوف الاعرابی قال استعمل ابوبکر یعلی علی حلوان فی الردة ثم عمل لعمر علی بعض الیمن فحمی لنفسه حمی فعزله ثم عمل لعثمان علی صنعاء الیمن وحج سنة قتل عثمان فخرج مع عائشة فی وقعة الجمل ثم شهد صفین مع علی.

یعلی بن امیه. مدائنی از [[سلمة بن محارب]] از [[عوف الاعرابی]] نقل کرده است که ابوبکر، یعلی را فرماندار [[حلوان]] در [[جنگ رده]] قرار داد؛ سپس در زمان عمر بر بخشی از یمن حاکم بود. پس به نفع خود کارهایی کرد تا این او را عزل کرد. سپس در زمان عثمان حاکم صنعا در یمن شد و در سال کشته شدن عثمان به حج رفت و به همراه عائشه در جنگ جمل بود و سپس به همراه علی (علیه‌السّلام) در جنگ صفین به شهادت رسید. <ref>[http://lib.eshia.ir/40173/6/538/9379 العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفای852هـ)، الاصابة فی تمییز الصحابة، ج6، ص538، رقم: 9379.]</ref>

===سخن ابن‌عبدالبر===

ابن عبدالبر در شرح حال او می‌نویسد:

وذکر عن مسلمة عن عوف قال اعان یعلی بن امیة الزبیر باربعمائة الف وحمل سبعین رجلا من قریش وحمل عائشة علی جمل یقال له عسکر کان اشتراه بمائتی دینار

قال ابوعمر کان یعلی بن امیة سخیا معروفا بالسخاء وقتل یعلی بن امیة سنة ثمان وثلاثین بصفین مع علی بعد ان شهد الجمل مع عائشة وهو صاحب الجمل اعطاه عائشة وکان الجمل یسمی عسکرا.

از مسلمة از عوف نقل شده است که یعلی بن امیه، چهار صد هزار (دینار یا درهم) به زبیر کمک کرد و هفتاد نفر از قریش را به همراه خود برد، عائشه را بر شتری حمل کرد که نام او عسکر بود و آن را به دویست دینار خریده بود.

ابوعمر گفته: یعلی بن امیه، اهل بخشش و به آن مشهور بود، در سال سی و هشت به همراه علی (علیه‌السّلام) در جنگ صفین پس از آن در جنگ جمل به همراه عائشه بود، به شهادت رسید. او صاحب شتری است که آن را به عائشه داد و آن شتر عسکر نام داشت. <ref>[http://lib.eshia.ir/40171/4/1587/وذكر ابن عبد البر النمری القرطبی المالکی، ابوعمر یوسف بن عبدالله بن عبد البر (متوفای 463هـ)، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج4، ص1587، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجیل – بیروت، الطبعة: الاولی، 1412هـ.]</ref>

این‌ها، نام تعدادی از اصحاب و یاران رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بودند که در جنگ صفین به دست [[قاسطین]] به شهادت رسیدند.

خدایا! روحشان شاد است، شادتر گردان.

==پانویس==

{{پانویس}}

==منبع==

[http://lib.eshia.ir/11137/1/194 موسسه ولیعصر، برگرفته از مقاله «چه كساني از اصحاب در جنگ صفين به شهادت رسيده‌اند؟»]

[[رده:مباحث کلامی]][[رده:مباحث تاریخی]][[رده:صحابه کشته‌شده]][[رده:صحابه محبوب شیعه]][[رده:عدالت صحابه]][[رده:همرزمان امام علی در جنگ صفین]][[رده:شهدای صفین]][[رده:صحابه شهید]]

Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عشق عرفان کی نگاہ میں
اگلا مقالہ: علم فقہ میں مثل اور مثلی