loading

{ ضوابطِ جرح و تعدیل }

جرح و تعدیل میں سبب کا تذکرہ

تحریر: سید محمد حسن رضوی

علم رجال میں ایک بحث یہ وارد ہوئی ہے کہ جب رجالی کسی راوی کی جرح کرتا ہے یا کسی کی عدالت کو بیان کرتا ہے تو کیا اس کے لیے جرح و تعدیل کا سبب بیان کرنا ضروری ہے؟ اس حوالے سے پانچ اقوال ہمارے سامنے موجود ہیں:
۱۔ جارح اور معدِّل کے لیے جرح و تعدیل کے سبب کو ذکر کرنا ضروری ہے ورنہ اس کے قول کو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔ جرح و تعدیل کے سبب کا تذکرہ مطلقاً ضروری نہیں ہے اور اگر جارح و معدِّل نے تذکرہ نہیں کیا تو بھی ان کے قول کو اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ جارح کے لیے جرح کے سبب کو ذکر کرنا ضروری ہے لیکن معدِّل کے لیے تعدیل کا نہیں۔
۴۔ معدِّ ل کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدالت کے سبب کا تذکرہ کرے لیکن جارح کے لیے جرح کے سبب کو ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔
۵۔ اگر جارح و معدِّل اہل خُبرہ میں سے ہیں تو ان کے لیے سبب کو ذکر کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر اہل خُبرہ میں سے نہیں ہے تو جرح و تعدیل کا سبب کو ذکر کرنا ضروری ہے
۔

ان اقوال میں سے ہر صاحبِ قول نے اپنے موقف پر دلیلیں دی ہیں۔ شہید ثانیؒ نے اس موضوع سے بحث کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اگر جارح و معدِّل کا مبنی اور ان کے قول کو لینے والے کا مبنی ایک ہے تو پھر جرح و تعدیل کے سبب کا تذکرہ ضروری نہیں ہے لیکن اگر دونوں کا مبنی ایک نہیں بلکہ مختلف ہے تو پھر سبب کا تذکرہ ضروری ہے کیونکہ ہمیں معلوم نہیں ہو پائے گا کہ جارح نے جس معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے جرح کی ہے یا معدِّل نے جس معنی کے مطابق تعدیل کی ہے ان کے قول کو لینے والے کی نظر میں بھی فسق و عدالت کا یہی معنی ہے؟!

جارح اور معدِّل کے قول کو مقدم کرنا:

۱۔ اگر معدِّل یا جارح دونوں میں سے ایک قدماء میں سے ہیں اور دوسرا متأخرین میں سے ہو جس کا زمانہ مجروح اور معدَّل (جس کی تعدیل کی جا رہی ہے) سے بعید ہو تو بلا شک و شبہ قدماء کے قول کو مقدم کیا جائے گا۔
۲۔ اگر جارح اور معدِّل ہر دو قدماء میں سے ہوں لیکن دونوں میں سے ایک کا تعلق اہلِ خبرہ اور اہل دقت و بصیرت و مہارت و احتیاط میں سے ہو تو بلا شک و شبہ جس کا تعلق اہل خبرہ و اہل دقت و مہارت و بصیرت و احتیاط سے ہے اس کے قول کو دوسرے پر مقدم کیا جائے گا۔ [1]سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرواۃ فی کلیات علم الرجال، ص ۱۱۸۔

منابع:

منابع:
1 سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرواۃ فی کلیات علم الرجال، ص ۱۱۸۔
Views: 12

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: علم فقہ میں مثل اور مثلی
اگلا مقالہ: زیارت اربعین