loading

جنگ جمل کے متعلق کچھ معلومات

از سید محمد حسن رضوی

الفاظ معانی:

۱۔   فرس أشهب: وہ گھوڑا جس کا رنگ سفید اور کالے رنگ سے مخلوط ہے۔ [1]ابن معصوم، سید علی خان مدنی، الطراز الاول، ج ۲، ص ۱۸۳۔

۲۔  مصقول: صاف ستھرا ، چمکایا ہوا۔

۳۔  فرس أشقر: گاڑا لال رنگ والا گھوڑا ۔  [2]ابن معصوم، سید علی خان مدنی، الطراز الاول، ج ۸، ص ۱۹۲۔

۴۔  فرس أدهم: شدید سیاہ رنگ کا گھوڑا ۔  [3]ابن معصوم، سید علی خان مدنی، الطراز الاول، ج ۲، ص ۳۶۵۔

۵۔  حرْبَة: لوہے سے بنا ایک چھوٹا آلہ جس کی نوک تیز دھار ہوتی ہے ۔ یہ نیزے کے علاوہ ایک الگ سے آلہ ہےجوکہ  جنگوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع حِرَاب آتی ہے۔   [4]زبیدی، مرتضی، تاج العروس، ج ۲، ص ۲۵۰۔

 رسول ﷺ کاامام علیؑ جنگوں کی خبر دینا:

شیعہ و سنی کتبِ احادیث میں معتبرا ور صحیح سند احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کا  امام علیؑ کو ناکثین، مارقین اورقاسطین سے جنگ لڑنے کی خبردینے کا تذکرہ ہے۔ نیز اس نوعیت کی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ امام علیؑ حق پر اور سنتِ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہیں اور امت امام علیؑ سے غداری کرے گی اور امام علیؑ سے جس نے نفرت و غضب کا اظہار کیا اس نے رسول اللہ ﷺ سے نفرت کی ۔ اسی طرح ان احادیث میں ان افراد پر لعنت کی گئی ہے جنہوں نے امام علیؑ سے دشمنی کی۔ ذیل میں ان میں سے بعض احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

حدیث: ۱

حاکم نے صحیح طریق سے روایت نقل کی ہے جسے ذہبی نے صحیح مسلم کی شرط پر پورا اترنے والی حدیث قرار دیا ہے:

عَنْ حَيَّانَ الْأَسَدِيِّ، سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِكَ بَعْدِي، وَأَنْتَ تَعِيشُ عَلَى مِلَّتِي، وَتُقْتَلُ عَلَى سُنَّتِي، مَنْ أَحَبَّكَ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَكَ أَبْغَضَنِي، وَإِنَّ هَذِهِ سَتُخَضَّبُ مِنْ هَذَا» – يَعْنِي لِحْيَتَهُ مِنْ رَأْسِهِ – «صَحِيحٌ». [5]حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۳، ص ۱۵۳۔

ترجمہ: امام علیؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: یقیناً یہ امت میرے بعد آپ سے غدر و غداری کرے گی اور آپ میری ملت پر ہو گئے اور میری سنت پر قتل کیا جائے گا ، (اے علیؑ) جس نے آپ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے آپ سے کینہ و بغض رکھا اس نے مجھ سے کینہ و بغض رکھا اور یہ اسی سے رنگین کر دی جائے گی ، یعنی امام علیؑ کی داڑھی ان کے سر مبارک سے رنگین ہو جائے گی۔ (رق: ۴۶۷۸: ذہبی: صحیح)۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیؑ سے امت کے جو افراد بھی جنگ و قتال کریں گے وہ ان سے غدر سے کام لے رہے ہیں۔ یہ کلی اور جامع ضابطہ ہمیں بتاتا ہے کہ امام علیؑ سے جنگ لڑنے والے اجتہادی خطاء پر نہیں بلکہ انہوں نے امام علیؑ سے غدر کیا ۔ نیز اس حدیثِ صحیح سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیؑ سے بغض و کینہ اور دشمنی کرنے والا حقیقت میں رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کرنے والا ہے اور یقیناً رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کرنے والا اجتہادی خطاء کرنے والا نہیں کہلاتا۔

حدیث: ۲

حاکم نے اپنے طریق سے بخاری و مسلم کی شرط پر حدیث نقل کی ہے جسے ذہبی نے بھی علی شرط البخاری و مسلم قبول کیا ہے:

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَهْلٍ الْفَقِيهُ، بِبُخَارَى، ثنا سَهْلُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: «أَمَا إِنَّكَ سَتَلْقَى بَعْدِي جَهْدًا» قَالَ: فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِي؟ قَالَ: «فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ[6]حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۳، ص ۱۵۱ ۔

۔

جناب سمیہ والدہِ عمار یاسر:

جناب سمیہ عالم اسلام کی پہلی شہیدہ ہیں جوکہ اسلام کی خاطر شہید کی گئیں۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ جناب عمار ؓ کے والد یاسرؓ یمن سے مکہ اپنے بھائیوں کی تلاش میں تشریف لائے اور پھر مکہ ہی مقیم ہو گئے اور مکہ میں حضرت یاسرؓ نے سمیہ سے نکاح کیا اور حضرت عمارؓ کی ولادت مکہ میں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سرفہرست جناب مقداد، عمار، بلال اور پہلی خاتون جناب سمیہؓ ہیں۔ ابو جہل (لعین)  سمیہؓ کو گالم گلوچ دیا کرتا تھا اور پھر انہیں پکڑ کر ان کے شکم کے نیچے شرمگاہ کے مقام پر لوہے سے بنے تیز دھار نوک والے آلہ سے ضربیں مار مار کر شہید کر دیا ۔ [7]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۲۴۷۔ دلائل الامامۃ میں طبری نے امام جعفرصادقؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: 

وَأَخْبَرَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ هَارُونُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ صَالِحٍ النَّخَعِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عِمْرَانَ، عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) يَقُولُ:

يُكَرُّ مَعَ الْقَائِمِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) ثَلَاثَ عَشْرَةَ امْرَأَةً. قُلْتُ: وَ مَا يَصْنَعُ بِهِنَّ؟ قَالَ: يُدَاوِينَ الْجَرْحَى، وَ يَقُمْنَ عَلَى الْمَرْضَى، كَمَا كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ). قُلْتُ: فَسَمِّهِنَّ لِي. فَقَالَ: الْقِنْوَاءُ بِنْتُ رُشَيْدٍ، وَ أُمُّ أَيْمَنَ، وَ حَبَابَةُ الْوَالِبِيَّةُ، وَسُمَيَّةُ أُمُ‏ عَمَّارِ بْنِ‏ يَاسِرٍ، وَ زُبَيْدَةُ، وَ أُمُّ خَالِدٍ الْأَحْمَسِيَّةُ، وَ أُمُّ سَعِيدٍ الْحَنَفِيَّةُ، وَصُبَانَةُ الْمَاشِطَةُ، وَأُمُّ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّة.

ترجمہ:قائمؑ کے ساتھ تیرہ (۱۳) خواتین ہو گئیں، مفضل بن عمر کہتے ہیں میں نے کہا: وہ ان سے کیا مدد لیں گے؟ امامؑ نے فرمایا: وہ زخمیوں کا علاج کریں گی اور مریضوں کی تیماداری کریں گی ، جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیتے ہوئے خدمات پیش کرتی تھیں۔ میں نے کہا: ان کے نام مجھے بیان فرمائیے، امامؑ نے فرمایا: ۱۔ قنواء بنت رُشَید، ۲۔ امّ ایمن، ۳۔ حبابہ والبیہ، ۴۔ سمیہ جوکہ عمار بن یاسر کی والدہ ہے، ۵۔زبیدہ، ۶۔  ام خالد احمسیہ، ۷۔ ام سیعد حنفیہ، ۸۔ صُبانہ ماشطہ، ۹۔ ام خالد جُہنیہ۔  [8]طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ج ۱، ص ۴۸۴۔

جنگ جمل اصغر:

جنگ جمل دو حصوں میں لڑی گئی۔ پہلی جنگ کو ’’جنگ جمل اصغر‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں امام علیؑ کے والی و حاکم جناب عثمان بن حنیف ؓ کو طلحہ و زبیر نے بصرہ سے ظلم و ستم کے ساتھ بے دخل کر دیا اور حضرت حکیم بن جبلہ سمیت ۷۰ عابد زاہد نجیب افراد جوکہ بیت المال کی نگرانی کے لیے امام علیؑ کی جانب سے مامور تھے کو قتل کر کے بیت المال پر قبضہ کر لیا اور اس طرح جنگ جمل اصغر کے نتیجہ میں حضرت عائشہ کا لشکر بصرہ پر قابض ہو گیا۔امام علیؑ کو جب اطلاع ملی کہ بصرہ پر قبضہ ہو گیا ہے اور بے گناہ مسلمان صحابہ و تابعین کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے تو امام علیؑ نے ان کی مذمت میں خطبہ ارشاد فرمایا جس کا تذکرہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے: 

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهِ ص كَمَا تُجَرُّ الْأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا وَ أَبْرَزَا حَبِيسَ‏ رَسُولِ اللَّهِ ص لَهُمَا وَ لِغَيْرِهِمَا فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَ قَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ وَ سَمَحَ لِي بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَهٍ فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا وَ خُزَّانِ‏ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وَ غَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً  وَطَائِفَةً غَدْراً فَوَاللَّهِ [إِنْ‏] لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ‏ لِقَتْلِهِ بِلَا جُرْمٍ جَرَّهُ لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّهِ إِذْ حَضَرُوهُ فَلَمْ يُنْكِرُوا وَلَمْ يَدْفَعُوا عَنْهُ بِلِسَانٍ وَ لَا بِيَدٍ دَعْ مَا [إِنَّهُمْ‏] أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ‏ الْمُسْلِمِينَ‏ مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِم‏.[9]سید رضی، نہج البلاغہ،ج۳،  ص۵۵۶، خطبہ ۱۷۲۔

جنگ جمل اکبر:

وارد ہوا ہے کہ جنگ جمل میں امام علیؑ کی نصرت اور حمایت کے لیےایک سو تیس (۱۳۰) بدری صحابہ، سات سو (۷۰۰) انصار، چار سو (۴۰۰) بیعتِ رضوان کے صحابہ  اور سات سو (۷۰۰) دیگر صحابہ کرام نے شرکت کی۔ دونوں طرف ۳۰ ہزار افراد مارے گئے۔ [10]ذہبی ، محمد بن احمد ، سیر اعلام النبلاء، ج ۲ ، ص  ۵۱۷۔ امام علیؑ جب ذی قار پہنچے تو آپؑ نے سب سے پہلے محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر کو کوفہ روانہ کیا۔ اس کے بعد حضرت مالک اشتر اور عبد اللہ بن عباس کو بھیجا۔ پھر امام حسنؑ اور جناب عمارؓ کو روانہ کیا۔ کوفہ سے آنے والے لشکر کے سردار ’’ زید بن صوحان، مالک بن حارث اشتر، عدی بن حاتم، سعید بن مالک، ہند بن عمرو، اور ہشیم بن شہاب ‘‘تھے۔[11]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۰۲۔۔

قدیم زمانے میں ایک بڑا لشکر پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا تھا: ۱۔ میمنہ ، ۲۔ میسرہ، ۳۔ مقدمہ، ۴۔ قلب، ۵۔ ساقہ۔ مقدمہ وہ دستہ ہے جس سب سے آگے ہوتا ہے اور اس کے پیچھے تین دستے ہیں ہیں جن میں درمیانی دستہ ’’قلب‘‘ ، دائیں جانب فوج کا دستہ ’’میمنہ‘‘ اور بائیں طرف موجود دستہ ’’ میسرہ ‘‘ کہلاتا تھا۔ ان تینوں کے پیچھے ایک فوجی دستہ ہوتا جس کو ’’ ساقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذی قار میں امام علیؑ کا سات ہزار دو سو افراد پر مشتمل لشکر آمادہ ہو گیا۔ امام علیؑ نے لشکر کے مقدمہ پر ابو لیلی بن عمر جرّاح کو متعین کیا اور پرچم محمد بن حنفیہ کو دیا۔ میمنہ جناب عبد اللہ بن عباس کے سپرد کیا اور میسرہ عمر بن ابی سلمہ کے ۔ بعض نصوص کے مطابق میسرہ عمرو بن سفیان بن عبد الاسد کے حوالے کیا۔[12]طبری، محمد بن جریر ، تاریخ طبری، ج ۳ ،ص ۴۹۵۔شیخ مفید نے ذکر کیا ہے کہ امام علیؑ نے مقدمۃ الجیش پر عبد اللہ بن عباس، ساقہ پر ہندِ مرادی کو، تمام گھوڑوں پر عمار بن یاسر کو ، تمام پیادہ فوج پر محمد بن بکر  کو عامل بنایا۔ [13]شیخ مفید ، محمد بن محمد، الجمل ، ص ۳۱۹۔

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کے نام:

جنگ جمل میں صحابہ و تابعین کی ایک بڑی تعداد قتل ہوئی ۔ ایک اندازہ کے مطابق فریقین کے ۱۰ ہزار یا ۱۵ ہزار افراد قتل ہوئے۔معروف مؤرخ خلیفہ بن خیاط متوفی ۲۴۰ ھ نے ذکر کیا ہے کہ جنگ جمل مین ۲۰ ہزار افراد مارے گئے۔ [14]عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۳۹۔[15]ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۶۔ذہبی نے ایک جگہ سُدی کا قول نقل کیا ہے کہ جنگ جمل میں فریقین کے ۳۰ ہزار افراد مارے گئے۔ [16]ذہبی ، محمد بن احمد ، سیر اعلام النبلاء، ج ۲ ، ص  ۵۱۷۔ طبری میں ذکر ہوا ہے کہ جنگ جمل میں ۱۰ ہزار افراد قتل ہوئے، نصف امام علیؑ کے لشکر سے اور نصف حضرت عائشہ کے لشکر سے۔ قبیلہ مضر کے دو ہزار(۲۰۰۰)، یمن کے پانچ (۵۰۰) ، بنو قیس کے پانچ سو ( ۵۰۰) ، قبیلہ ازد کے دو ہزار (۲۰۰۰) ، بنی ضبہ کے ایک ہزار (۱۰۰۰) ، بنو بکر بن وائل کے پانچ سو ( ۵۰۰) ، کوفی پانچ ہزار( ۵۰۰۰) اور  بنو عدی کے ستّر (۷۰) قاریِ قرآن مارے گئے جن صرف ایک جوان تھا جو قاری نہیں تھا۔ [17]طبری، محمد بن جریر ، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۴۳۔

حضرت عائشہ کے لشکر کے مقتولین:

حضرت عائشہ جب بصرہ آئیں تو عبد اللہ بن خلف خزاعی کے گھر میں ٹھہریں کیونکہ یہ بصرہ کا سب سے بڑا گھر تھا۔ عبد اللہ بن خلف جنگ جمل میں مارا گیا اور اس نے خود امام علیؑ کو مقابلے کے لیے للکارا جبکہ امام علیؑ اجتناب کرنا چاہ رہے تھے۔ امام علیؑ نے اس کے مسلسل للکارنے پر اس سے جنگ کی اور اس کی گردن میں ہوا میں اڑتی ہوئی دور جا گری۔ عبد اللہ بن خلف کی زوجہ صفیہ بنت حارث نے جنگ جمل کے خاتمہ پر امام علیؑ کی توہین کی جسے ابن شہر آشوب نے اس طرح سے ذکر کیا ہے: قَالَتْ صَفِيَّةُ بِنْتُ الْحَرْثِ الثَّقَفِيَّةُ زَوْجَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَلَفٍ الْخُزَاعِيِّ- لِعَلِيٍّ ع يَوْمَ الْجَمَلِ بَعْدَ الْوَقْعَةِ يَا قَاتِلَ الْأَحِبَّةِ يَا مُفَرِّقَ الْجَمَاعَةِ فَقَالَ ع إِنِّي لَا أَلُومُكِ أَنْ تُبْغِضِينِي يَا صَفِيَّةُ وَ قَدْ قَتَلْتُ جَدَّكِ يَوْمَ بَدْرٍ وَ عَمَّكِ يَوْمَ أُحُدٍ وَ زَوْجَكِ الْآنَ وَ لَوْ كُنْتُ قَاتِلَ الْأَحِبَّةِ لَقَتَلْتُ مَنْ فِي هَذِهِ الْبُيُوتِ فَفُتِّشَ فَكَانَ فِيهَا مَرْوَانُ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْر۔ [18]ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، ج ۲، ص ۲۶۲۔

بنو امیہ میں سے’’  عَبْد الرَّحْمَن بْن عتاب بْن أسيد ‘‘ قتل ہوا۔  بنی حبیب بن عبد شمس میں سے ’’ عَبْد الرَّحْمَن بْن عَبْد الله بن عَامر ‘‘، بنی عبد العزّی بن عبد شمس میں سے ’’  عَلِيّ بْن عدي بْن مُحرز بْن حَارِثَة بْن ربيعَة بْن عَبْد الْعُزَّى ‘‘ ، بنی اسد بن عبد العزی میں سے ’’ الزبير بْن الْعَوام  اور   عبد اللَّه ابْن حَكِيم بن حزَام‘‘ قتل ہوئے ۔ زبیر بن عوام کو ’’ عُمَيْر بْن جرموز ‘‘  نے قتل کیا ۔  اسی طرح بنی عبد الدار میں سے ’’  عَبْد اللَّهِ بْن مسافع بْن طَلْحَة بْن أَبِي طَلْحَة ‘‘ ، بنی عبد بن قصی میں سے ’’  عَبْد اللَّهِ مولى الْحَارِث بْن نقيذ‘‘، بنی زہرہ بن کلاب میں سے ’’  الْأسود بْن عَوْف اور عبد اللَّه بن الْمُغيرَة بن الْأَخْنَس   ابْن شريق ، اورعبد اللَّه بْن أَبِي عُثْمَان بْن الْأَخْنَس بْن شريق اور معبد بْن الْمِقْدَاد بْن الْأسود ‘‘، بنی مخزوم میں سے ’’عَبْد الرَّحْمَن بْن الْوَلِيد بْن عَبْد شمس ، عبد اللَّه بْن أَبِي بردة بْن معبد بْن وهب بْن عَائِذ اور معبد بْن زُهَيْر بن أبي أُميَّة‘‘ ، بنی تیم بن مرّۃ میں سے ’’  طَلْحَة بْن عبيد اللَّه اور ان کے بیٹے  مُحَمَّد بْن طَلْحَة اورر اس کے علاوہ عبد الرَّحْمَن بْن عَبْد اللَّهِ بْن عُثْمَان اور  عبد الرَّحْمَن بْن أَبِي سَلمَة بن الْحَارِث‘‘ قتل ہوئے۔ بنی جمیح میں سے ’’  صَفْوَان مولى مُطِيع ، عبد الرَّحْمَن بْن وهب بْن أسيد ،  عبد اللَّه بْن أَبِي بْن خلف،   ابْن العمير بْن وهب، مُسلم بْن عَامر بْن حميل ،  نعيم بْن الصَّلْت  اور عبد اللَّه بْن هَانِئ مولى عَبْد الله بن ابي سَلمَة‘‘ قتل ہوئے۔ بنی عامر بن لؤی میں سے ’’عَمْرو بْن عَبْد اللَّهِ بْن أَبِي قيس ، أَبُو سُفْيَان بْن حويطب  اور أَبُو الْأَخْنَس ‘‘ ، بنی تمیم میں سے ’’ هِلَال بْن وَكِيع الدَّارمِيّ وَأَبُو الجرباء الغيلاني‘‘ ، بنی غیلان میں سے ’’ مَازِن بْن مَالك بْن عَمْرو بْن تَمِيم  کے بھائی‘‘، بنی سلیم میں سے ’’ عَاصِم بن قيس بن الصَّلْت اس کا بیٹا  عَمْرو بن عَاصِم ، شبيب بن الْهَيْثَم ، معوض بن أَسمَاء بن الصَّلْت اور معرض بن علاط أَخُو الْحجَّاج بن علاط‘‘ قتل ہوئے۔بنی باہلہ میں سے سے ’’كُلَيْب بن عَمْرو جوکہ قُتَيْبَة بْن مُسلم کا چچا ہے‘‘ ، یمن والوں میں سے ’’ كَعْب بْن سور اللقيطي اور ابْن لصبرة بن شيمان الْحدانِي‘‘ اور طاحیہ میں سے تیس (۳۰) افراد قتل ہوئے جنہیں مسجد نافع بن خالد کے پاس دفنایا گیا۔قبیلہ جہاضم کے تیس (۳۰) افراد قتل ہوئے جن میں نامور ’’ قيس بْن صهْبَان اور  جودان بْن عَائِذ أَبُو عَبْد اللَّهِ بْن جودان ‘‘ ہے۔ حضرت عائشہ کی اونٹنی جس نے پکڑی ہوئی تھی وہ شخص ’’ عَمْرو بْن الْأَشْرَف  أَبُو زِيَاد بْن عَمْرو ‘‘ کہتے ہیں، اس کو ’’ الْحَارِث بْن عَبْد الشارق الغامدي ‘‘ نے قتل کیا اور حارث بن عبد الشارق کو عمرو بن الاشرف نے قتل کیا ، یعنی دونوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ابو رجاء کہتا ہے کہ میں نے روزِ جمل دیکھا کہ اونٹنی کی لگام پکڑے بنی ضبہ کا ایک شخص کہہ رہا تھا:  

 نَحن بَنو ضبة أَصْحَاب الْجمل           تنازل الْمَوْت إِذا الْمَوْت نزل
ترجمہ: ہم بنو ضبہ والے اصحاب جمل ہیں              جب موت آتی ہے تو ہم موت میں گھس جاتے ہیں  ۔ [19]عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۹۰۔
۔
طلحہ بن عبید اللہ کا قاتل:
طلحہ کا نام ’’طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ كَعْبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ تَيْمِ بْنِ مُرَّةَ‘‘ اور کنیت ابو محمد ہے۔ طلحہ کی والدہ کا نام صعبہ بنت عبد اللہ حضرمی ہے۔ طلحہ نے کئی شادیاں کی جن کا تذکرہ درج ذیل ہے:
۱۔ حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشِ بْنِ رِئَابِ: حمنہ کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب ہے ۔ یعنی حمنہ کے نانا جناب عبد المطلب ہیں ۔حمنہ نے طلحہ کے دو فرزند پیدا ہوئے: ۱۔ محمد جس کا لقب سجاد تھا اور جنگ جمل میں حضرت عائشہ کی معیت میں قتل ہوا، ۲۔ عمران بن طلحہ۔
۲۔ خَوْلَةُ بِنْتُ الْقَعْقَاعِ: خولہ سے طلحہ کا فرزند موسی بن طلحہ پیدا ہوا۔
۳۔ أُمُّ أَبَانَ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ:ام ابان سے طلحہ کی کی اولاد یعقوب بن طلحہ، اسماعیل بن طلحہ اور اسحاق بن طلحہ تھی۔ یعقوب واقعہ حرّہ میں قتل ہوا۔
۴۔ أُمُّ كُلْثُومِ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ:ام کلثوم سے طلحہ کے کی اولاد زکریا بن طلحہ، یوسف بن طلحہ اور عائشہ بنت طلحہ ہے۔
۵۔ سُعْدَى بِنْتُ عَوْفِ بْنِ خَارِجَةَ: اس سے طلحہ کے دو فرزند تھے : عیسی اور یحیی۔
۶۔ الجرباء أُمُّ الْحَارِثِ بِنْتُ قَسَامَةَ :طلحہ کی اس سے ایک بیٹی تھی جس کا نام ام اسحاق بنت طلحہ ہے۔
۷۔ الْفَرَعَةُ بِنْتُ عَلِيٍّ (بنی تغلِب کی قیدی تھی) : اس سے صالح بن طلحہ کی ولادت ہوئی۔ 
۸۔ کنیز (ام ولد) : اس سے ایک بیٹی صعبہ بنت طلحہ پیدا ہوئی۔
۹۔ کنیز (ام ولد) : اس سے ایک بیٹی مریم بنت طلحہ پیدا ہوئی۔[20]ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۲۱۴۔
جب طلحہ جنگ جمل میں مارے گئے تو ان کے پاس سے امام علیؑ گزرے اور انہوں نے جب طلحہ اور ان کے ساتھ عبد الرحمن بن عتاب بن اسید کو قتل ہوئے پڑے دیکھا تو اس وقت یہ جملات ارشاد فرمائے جوکہ  نہج البلاغہ میں اس طرح سے محفوظ ہیں:
جب آپؑ طلحہ اور عبد الرحمٰن ابن عتاب ابن اسید کی طرف گزرے کہ جب وہ میدان جمل میں مقتول پڑے تھے تو فرمایا:
لَقَدْ اَصْبَحَ اَبُوْ مُحَمَّدٍۭ بِهٰذَا الْمَكَانِ غَرِیْبًا! اَمَا وَاللهِ! لَقَدْ كَنْتُ اَكْرَهُ اَنْ تَكُوْنَ قُرَیْشٌ قَتْلٰی تَحْتَ بُطُوْنِ الْكَوَاكِبِ! اَدْرَكْتُ وَتْرِیْ مِنْۢ بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ، وَ اَفْلَتَتْنِیْۤ اَعْیَانُ بَنِیْ جُمَحَ، لَقَدْ اَتْلَعُوْۤا اَعْنَاقَهُمْ اِلٰۤی اَمْرٍ لَّمْ یَكُوْنُوْۤا اَهْلَهٗ فَوُقِصُوْا دُوْنَهٗ.
ترجمہ: ابو محمد (طلحہ) اس جگہ گھربار سے دور پڑا ہے۔ خدا کی قسم! میں پسند نہیں کرتا تھا کہ قریش ستاروں کے نیچے (کھلے میدانوں میں) مقتول پڑے ہوں۔ میں نے عبد مناف کی اولاد سے (ان کے کئے کا) بدلہ لے لیا ہے، (لیکن) بنی جمح کے اکابر میرے ہاتھوں سے بچ نکلے ہیں۔ انہوں نے اس چیز کی طرف گردنیں اٹھائی تھیں جس کے وہ اہل نہ تھے، چنانچہ اس تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی گردنیں توڑ دی گئیں۔[21]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۲۹، خطبہ ۲۱۴۔
تاریخ و رجال کی کتب کے مطابق مروان بن حکم نے طلحہ کو قتل کیا۔ مروان جنگ میں اسی تعاقب میں تھا کہ چھپ کر طلحہ پر حملہ کرے چنانچہ اس نے موقع پا کر طلحہ پر تیر چلایا جو سیدھا اس کی ٹانگ پر لگااور مسلسل خون رسنے کی وجہ سے طلحہ کی موت واقع ہو گئی۔ مروان نے تیر چلانے کے بعد خلیفہ سوم کے بیٹے ابان سے کہا کہ ہم نے تمہارے باپ کے بعض قاتلوں سے بدلہ لے لیا ہے۔ [22]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۵۱۹۔[23]عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۳۹۔

کعب بن سور الازدی:

کعب بن سور کا تعلق ازدی قبیلہ سے تھا۔ ازد اہل یمن کے رہنے والے قبائل کی ایک شاخ ہے۔ بصرہ میں جو ازدی آباد ہوئے ان کے سید و سردار کعب بن سور شمار ہوتے تھے۔ خلیفہ دوم اور خلیفہ سوم نے بصرہ کا قاضی کعب کو بنایا تھا  اور یہ منصب جنگ جمل تک ان کے پاس رہا۔ حضرت عائشہ بصرہ میں قبیلہ ازد کے پاس ہی ٹھہریں اور اسی قبیلے کی شمولیت سے حضرت عائشہ کے لشکر کو تقویت ملی۔ چنانچہ بصرہ اس اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم ہو گیا: ۱۔ وہ قبائل جو حضرت عائشہ کے لشکر کے ساتھ تھے، ۲۔ وہ قبائل جو امام علیؑ کے ہمراہ ہوئے، ۳۔ وہ افراد جو دونوں طرف نہیں تھے، جیسے احنف اور عمران بن حصین وغیرہ۔  [24]مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج ۱۳، ص ۲۴۲۔ قبیلہ ازد اس شدت کے ساتھ حضرت عائشہ سے جڑے کہ جب جنگ زوروں پر تھی تو ابھی انہوں نے ثابت قدمی دکھائی اور حضرت عائشہ کی اونٹنی کے بائیں طرف ڈٹے رہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قبیلہ ازد کے افراد حضرت عائشہ کی اونٹنی کی مینگنیں اٹھاتے تھے اور سونگھتے ہوئے کہتےتھے : بعر جمل أمنا ريحه ريح المسك؛ ہمارے ماں کے اونٹ کی میگنوں کی خوشبو مشک کی خوشبو ہے۔[25]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۳۰۔[26]مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج ۱۳، ص ۲۴۵۔
  شیخ مفید نے تحریر کیا ہے کہ آغاز میں کعب بن سور میں ہر دو فریق کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ طلحہ و زبیر نے دیکھ کہ عین جنگ کا وقت آن پہنچا ہے اور اگر ازدی قبیلہ نے ہماری مدد نہ کی تو ہم جنگ نہیں لڑ سکتے اور ازدی کعب بن سور کے بغیر نہیں لڑیں گے۔ طلحہ  و زبیر نے کعب کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ پھر وہ حضرت عائشہ کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ کعب بن سور نے اگر جنگ میں حصہ نہ لیا تو ازدی جنگ کے لیے نہیں آئیں گے اور اگر ازدی نہ آئے تو جنگ نہیں ہو سکے گی، اس لیے آپ کعب بن سور کے پاس جائیں اور اسے جنگ کے لیے آمادہ کریں۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ وہ یہاں آئے اور مجھ سے بات کرے ۔ حضرت عائشہ نے جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اسے یہاں بلاؤ اور وہ ہم نے معذرت خواہی کرے۔ طلحہ اور زبیر نے کہا: اے ہمارے مادر! اگر کعب بیٹھ گیا تو ازد بیٹھ جائیں گے اور ازد بصرہ کا بڑا قبیلہ اور محلہ ہے۔ لہٰذا اس کی طرف تشریف لے جائیں کیونکہ اگر آپ اس کے پاس گئیں تو وہ آپ کی مخالفت نہیں کرے گا ۔ حضرت عائشہ خچر پر سوار ہوئیں اور اہل بصرہ کی ایک جماعت نے ان کو اپنے حصار میں حفاظت کی غرض سے لے لیا۔ حضرت عائشہ کعب بن سور کے گھر تشریف لے گئیں اور اس سے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی۔ کعب نے اچھے طریقے سے مرحبا کہا ۔ حضرت عائشہ نے کعب سے کہا: اے بیٹے ! میں اس لیے تمہارے پاس آئی ہوں تاکہ تم اللہ عز و جل کی مدد کرو ۔ آخر کس وجہ سے تم مجھے دور ہو رہے ہو؟ کعب نے کہا: اے مادر! میں اس فتنہ میں پڑنا نہیں چاہتا۔ حضرت عائشہ نے کہا: اے بیٹاں میرے ہمراہ نکلو، میرے اونٹ کی لگام تھام لو ، مجھے امید ہے کہ یہ تمہیں جنّت کے قریب کر دی۔ پھر حضرت عائشہ نے گریہ آہ و زاری کیا جس کی وجہ سے کعب بن سور کا دل نرم پڑ  گیا اور اس نے جنگ کی حامی بھر لی۔ کعب نے گردن میں قرآن لٹکایا اور اسی حالت میں میدان جنگ میں اترا۔ جنگ جمل میں کعب بن سور مارا گیا ۔ ((شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل، ص ۳۲۲۔))

امام علیؑ کے لشکر میں قتل ہونے والے:

’’زيد اورسَيحان ‘‘ کہ دونوں صوحان کے فرزند ہیں جنگ جمل میں امام علیؑ کے رکاب میں شہید ہوئے۔ اسی طرح اصحابِ امیر المؤمنین میں ’’ علباء بْن الْحَارِث السدُوسِي ، هِنْد الْجملِي ، الصقعب ، عبد اللَّه دونوں سلیم کےبیٹے ہیں  قتل ہوئے۔ [27]عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۹۰۔امام علیؑ کے اصحاب میں سے جو جنگ جمل میں شہید ہوئے ان میں نامور شخصیات درج ذیل ہیں:

۱۔ هند بْن أبي هالة الأسدي التميمي:آپ کی رسول اللہ ﷺ کی گود میں پلے بڑے ۔ آپ جناب خدیجہؑ کی بہن ہالہ کے بیٹے تھے جبکہ متعدد مؤرخین نے آپ کو جناب خدیجہؑ کا فرزند قرار دیا ہے۔ آ پ نے جنگ بدر اور احد میں شرکت کا شرف حاصل کیا ۔ ہند بن ابی ہالہ رسول اللہ ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے میں معروف تھے اور امام حسن مجتبیؑ سے بھی روایت منقول ہے جس میں امامؑ نے ان کا بیان کردہ حلیہ مبارک ذکر کیا ہے۔ مؤرخین اور علماء رجال کا اتفاق ہے کہ آپ امام علیؑ کی معیت میں جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ [28]ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۵۴۵۔[29]ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۶۔

۲۔ مُسلم الجُهَنيّ:

جہنی قبلیہ سے تعلق رکھنے والے اس جوان کا نام ’’مسلم بن عبد اللہ الجہنی‘‘ ہے۔ مسلم پندرہ سولہ سالہ وہ  نوخیز جوان ہے جس نے خود آگے بڑھ کر لشکر حضرت عائشہ کے سامنے قرآن کریم کو کھولا اور قرآن کی طرف دعوت دی جس کے نتیجہ میں جوانی کی تازہ بہاریں دیکھنے والا یہ خوبصورت جوان بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔  [30]ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۵۔ جنگ جمل کا پہلا شہید یہی نوخیر جوان مسلم الجہنی تھا۔ [31]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۵۲۱۔ اس واقعہ کو بزرگ مؤرخین اور علماء رجال جیسے طبری، ابن اثیر، بلاذُری وغیرہ نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

تاریخ طبری اور شیخ مفید کی کتاب الجمل میں ذکر ہوا ہے کہ جنگ جمل کے آغاز میں امام علیؑ نے اپنے ہاتھ میں قرآن کریم اٹھایا اور تمام لشکر میں چکر لگاتے ہوئے فرمایا : کون ہے جو مخالفین میں اس قرآن کو لے کر جائے گا اور انہیں قرآن قبول کرنے کی دعوت دےگا ۔ جو بھی یہ کرے گا وہ شہید کر دیا جائے گا اور شیخ مفید نے اس جملہ کا اضافہ کیا ہے کہ امام علیؑ نے فرمایا کہ میں اس کی جنّت کا ضامن ہوں۔ امام علیؑ نے جب یہ جملات فرمائے تو ایک نوخیز جوان جس نے سفید قبا اوڑھی ہوئی تھی اور اس کی ماں بھی اس موقع پر موجود تھی ، اس نے کہا کہ میں اس کام کو انجام دوں گا۔ شیخ مفید نے نقل کیا ہے کہ امام علیؑ نے اس کی تازہ جوانی پر رشک کرتے ہوئے  اس سے رخِ انور پھیر لیا اور دوبارہ اعلان کیا لیکن اس مرتبہ بھی یہی جوان اٹھ کھڑا ہوا۔  امام علیؑ نے دوبارہ اپنا چہرہ مبارک اس سے پھیر لیا اور اس کی جوانی پر ترس کھایاجبکہ اس کی ماں بھی موجود تھی۔ تیسری مرتبہ امام علیؑ نے دوبارہ یہی کلمات دہرائے لیکن لشکر میں سے اس جوان کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا۔

تیسری مرتبہ اس جوان کا اپنے آپ کو فداکاری کے لیے پیش کرنے کی صورت میں امام علیؑ نے اس کے سپرد قرآن کریم کیا اور مخالفین کی طرف روانہ کیا۔ جوان حضرت عائشہ کے لشکر کے سامنے کھڑا ہوا اور بلند آواز میں بولا کہ یہ اللہ عزوجل کی کتاب ہے اور جو کچھ اس کتابِ الہٰی میں ہے امیر المؤمنین ؑ تمہیں اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عائشہ نے غضب میں حکم دیا کہ نیزوں سے اسے اکھاڑ پھینکو، اللہ اس کا برا کرے۔ حضرت عائشہ کے کہنے پر نیزے بردار اور تلوار لیے کئی افراد اس پر حملہ آور ہو گئے اور اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ ڈالا ۔ اس نے قرآن کریم بائیں ہاتھ سے پکڑ لیا ۔ لشکرِ مخالفین نے اس مومن جوان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ ڈالا تو اس نے قرآن کریم کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور بالآخر خون میں نہا کر اس عظیم جوان جس کا نام مسلم جہنی تھا نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ امام علیؑ نے جب اس جوان کو شہید دیکھا تو فرمایا : اب جنگ ہم پر حلال ہو گئی ہے۔

اسی موقع پر مسلم جہنی کی ماں  جب اپنے لخت جگر کو کٹے جسم اور بکھرے اعضاء کی صورت میں دیکھا تو جیخ و پکار کرتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑی  اور اپنے آپ کو اپنے فرزند کے اوپر گرا دیا اور میدان سے گھسیٹ کر لانے کی کوشش کی ۔ امام علیؑ کی فوج سے ایک گروہ نکلا اور وہ اس مومن جوان کو امام علیؑ کے لشکر میں لے آیا۔مسلم جہنی کی ماں نے گریہ و آہ و زاری کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے : [32]شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، ج ۱ ، ص ۳۳۹۔[33]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۲۲۔

لا هُمَّ إِنَّ مُسْلِمًا دَعَاهُمْ                  يَتْلُو كِتَابَ اللَّهِ لا يَخْشَاهُمْ
کیا کوئی پریشان کن بات نہیں !! کہ ایک مسلمان نے انہیں دعوت دی         وہ مسلمان  اللہ کی کتاب کی تلاوت کررہا ہے اسے ان لوگوں کا کوئی ڈر نہیں 
وأمهم قائمة تراهم                    تأمرهم بالقتل لا تنهاهم
اور ان کی ماں (عائشہ) کھڑی انہیں دیکھ رہی ہے        وہ انہیں قتل کا حکم دے رہی ہے، حیرت ہے وہ  انہیں روکتی نہیں
قَدْ خُضِبَتْ مِنْ عَلَقٍ لِحَاهُمْ.
ان کی داڑھیاں خون کے لوتھڑوں سے رنگین ہو گئیں ہیں۔  [34]ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۶۲۔[35]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۴۱۔

لشکر حضرت عائشہ کا جنگ کی آمادگی کرنا:

۔

امام علیؑ حضرت عائشہ کی نظر میں:

مکتب تشیع اور اہل تسنن کی کتب میں متعدد احادیث حضرت عائشہ سے وارد ہوئی ہیں جن میں امام علیؑ کی شخصیت اور باہمی ٹکراؤ ہر دو کا تذکرہ ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ سے مکہ میں ہجرت سے تین سال قبل یعنی بعثت کے ۱۰ سال بھی ازدواج کیا جبکہ ان کی عمر ۹ سال اور بعض شواہد کے مطابق ۱۶ سال تھی۔ اہل سنت کتب میں درج ذیل احادیث امام علیؑ کی فضیلت میں حضرت عائشہ کے طریق سے وارد ہوئی ہیں:
حدیث :۱
كادح بْن جعفر أَبُو عَبْد اللَّهِ الزاهد كوفي روى عن هشام بْن عروة وروى عَنْهُ سليمان بْن الربيع ذكر الخليل الحافظ أن أحمد بْن حنبل قَالَ ليس بها بأس وقال حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَاضِي حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَاسِطِيُّ وَيُعْرَفُ بِشُعْبَةَ ثنا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الرَّبِيعِ ثنا كَادِحٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عروة عن أبيه عن عائشة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ: ذِكْرٌ عَلَى عِبَادَةٍ. [36]رافعی، عبد الکریم بن محمد ، التدوین فی اخبار قزوین، ج ۴، ص ۵۴۔[37]ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب علی بن ابی طالبؑ، ص۱۹۶۔
حدیث: ۲
۔

منابع:

منابع:
1 ابن معصوم، سید علی خان مدنی، الطراز الاول، ج ۲، ص ۱۸۳۔
2 ابن معصوم، سید علی خان مدنی، الطراز الاول، ج ۸، ص ۱۹۲۔
3 ابن معصوم، سید علی خان مدنی، الطراز الاول، ج ۲، ص ۳۶۵۔
4 زبیدی، مرتضی، تاج العروس، ج ۲، ص ۲۵۰۔
5 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۳، ص ۱۵۳۔
6 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۳، ص ۱۵۱ ۔
7 ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۲۴۷۔
8 طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ج ۱، ص ۴۸۴۔
9 سید رضی، نہج البلاغہ،ج۳،  ص۵۵۶، خطبہ ۱۷۲۔
10 ذہبی ، محمد بن احمد ، سیر اعلام النبلاء، ج ۲ ، ص  ۵۱۷۔
11 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۰۲۔
12 طبری، محمد بن جریر ، تاریخ طبری، ج ۳ ،ص ۴۹۵۔
13 شیخ مفید ، محمد بن محمد، الجمل ، ص ۳۱۹۔
14 عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۳۹۔
15 ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۶۔
16 ذہبی ، محمد بن احمد ، سیر اعلام النبلاء، ج ۲ ، ص  ۵۱۷۔
17 طبری، محمد بن جریر ، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۴۳۔
18 ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، ج ۲، ص ۲۶۲۔
19, 27 عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۹۰۔
20 ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج ۳، ص ۲۱۴۔
21 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۲۹، خطبہ ۲۱۴۔
22 ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۵۱۹۔
23 عصفری، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۳۹۔
24 مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج ۱۳، ص ۲۴۲۔
25 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۳۰۔
26 مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج ۱۳، ص ۲۴۵۔
28 ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۵۴۵۔
29 ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۶۔
30 ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۵۔
31 ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۵۲۱۔
32 شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، ج ۱ ، ص ۳۳۹۔
33 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۲۲۔
34 ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۶۲۔
35 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۴۱۔
36 رافعی، عبد الکریم بن محمد ، التدوین فی اخبار قزوین، ج ۴، ص ۵۴۔
37 ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب علی بن ابی طالبؑ، ص۱۹۶۔
Views: 32

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قدیم اور حادث کے معنی
اگلا مقالہ: عشق عرفان کی نگاہ میں