loading

فہرست مقالہ

مثنوی

پس کمند هستها حاجت بود

قدر حاجت مرد را آلت دهد
پس بیفزا حاجت ای محتاج زود (ای یعنی این ، یہ فقیر)
تا بجوشد در کرم دریای جود

این گدایان بر ره و هر مبتلا

حاجت خود می‌نماید خلق را

کوری و شلی و بیماری و درد

تا ازین حاجت بجنبد رحم مرد

هیچ گوید نان دهید ای مردمان

که مرا مالست و انبارست و خوان

چشم ننهادست حق در کورموش

زانک حاجت نیست چشمش بهر نوش

می‌تواند زیست بی چشم و بصر

فارغست از چشم او در خاک تر

جز بدزدی او برون ناید ز خاک

تا کند خالق از آن دزدیش پاک

بعد از آن پر یابد و مرغی شود

چون ملایک جانب گردون رود

هر زمان در گلشن شکر خدا

او بر آرد همچو بلبل صد نوا

 

اگر حد اور محدودیت ہے یا تقدیر یا مقدرات ہے تو وہ اسی کی اساس پر ہے ، صرف نظر اس کے کسی قسم کی محدودیت نہیں ہے۔ 

الَّذي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً ما تَرى‏ في‏ خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى‏ مِنْ فُطُور. ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَ هُوَ حَسير [1]الملك: آيت ۳-۴۔

بندہ رحمت کو طلب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کا طالب ہے۔ فطور موجود نہیں ہے۔ یہ اس کے پیچھے ہے اور وہ اس کے ، بغیر کسی فطور یا بغیر کسی سستی و کاہلی کے۔ مثل دو قطب، جو ایک دوسرے کے مقابل ہوں۔ اگر ایک سستی یا فطور آ جائے تو یہ سارا نظم مختل ہو جائے  گا۔ استاد حسن زادہ سید قاضی سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے مراجعہ کیا کہ کھانے کے لیے روٹی کچھ نہیں اور شکوے کیے۔ سید نے کہا کہ روٹی رکھنے والا ڈبے کو کھلا رکھو اسے بند نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کھلے منہ کو روزی دیتا رہتا ہے اور کھلے منہ کو بے روزی نہیں رکھتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو اگرچے اللہ تعالیٰ مانگے بغیر بھی دیتا ہے، جیساکہ دعا رجب میں ہےِ يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ سَأَلَهُ يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ لَمْ يَسْأَلْهُ وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْهُ تُحَنُّناً مِنْهُ وَ رَحْمَة ۔  [2]ابن طاووس، سید علی، إقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۴۴ یہاں مانگنے سے مراد ظاہری زبان سے مانگنا ہے۔ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے قابلیت اور حاجت کے مطابق جاری ہوتا ہے۔ اگر آپ کے کی حاجت اور ضرورت میں اضافہ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسعت نہیں آئے گی۔ اگر ہم اپنی قابلیت اور استطاعت کو بڑھائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہوتا ہے۔ روایات میں تصریح ہوئی ہے کہ اپنے اندازہ اور اپنی قابلیت کو جانو ، تمہارے اندر جتنی قابلیت ہے اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہو۔ جو دعا میں تجاوز کرے اور انبیاء و اولیاء کا مقام اور ان پر جاری ہونے والی خصوصی نعمت کا تقاضا کرے تو یہ معتدین ہے کیونکہ اس میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوا ہے اس کی قابلیت ہم میں نہیں ہے۔ یہی مطلب قرآن کریم کی آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے:{ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَه‏}۔ [3]الانعام: آیت ۱۲۴

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ قابلیت دی ہے تو مجھے کیوں نہیں دی؟!! اللہ تعالیٰ تو حکیم اور عادل ہے پھر اس نے کیوں انہیں یہ عظیم مقام دیا ہے اور ہمیں اس مقام سے محروم رکھا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ذات کی بناء پر ہے ۔ ان کی ذات اللہ تعالیٰ کی وجود ہے ، اب کیوں اس کی ذات ہمیشہ سے موجود ہے تو اس لیے وہ اس مقام کی قابلیت رکھتا ہے ، اگر وہ نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ !! اللہ تعالیٰ کی رحمت عام ہے جوکہ حد نہیں رکھتی، اس کے فیض کی کوئی حد نہیں ہے ، فیضِ حق محدود نہیں ہے۔

تم محتاج ہو گئے تو وہ تمہاری مدد کرے گا ۔ جو محتاج نہیں ہوتا اس کو کوئی کچھ نہیں عطا کرتا ۔ اگر کوئی تعفف کی وجہ سے مالک اصلی کی طرف رجوع کرے اور ہر کسی سے بے نیاز رہے تو یہ کمال ہے۔ لیکن اگر اپنی محتاجی کا اقرار نہ کرے اور اظہار بے نیازی کا کرے اور فخر و مباہات کرے تو اس کو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرتا ہے۔ پس تعفف الگ چیز ہے اور اپنی محتاجی کو محتاجی قرار نہ دے  تو درست نہیں ۔ جو مال، گھر، وافر خوراک رکھتا ہو وہ اگر مانگے تو لوگ اسے نہیں دیں گے کیونکہ وہ محتاج نہیں ہے۔ اس لیے جس جانور کو جس کی ضرورت نہیں اس کو عطا بھی نہیں کیا۔ چیونٹی چونکہ اندھیری زمین کے اندر زندگی بسر کرتی ہے اور اس کو اصلا آنکھوں کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی سونگھنے کی حس اللہ تعالیٰ نے تیز رکھی ہے پس اس کو آنکھیں نہیں دیں کیونکہ اس کو آنکھوں کی ضرورت نہیں ہے۔ پس جس میں جو قابلیت ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کرتا ہے۔

منابع:

منابع:
1 الملك: آيت ۳-۴۔
2 ابن طاووس، سید علی، إقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۴۴
3 الانعام: آیت ۱۲۴
Views: 34

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: معرفت نفس قرآن و برہان کی روشنی میں
اگلا مقالہ: قوت خیال حقیقت کے آئینے میں