loading
{کفایۃ الاصول: مقصد چہارم}
 عام کی اقسام
(حکم شرعی کا عام سے متعلق ہونے کے اعتبار) 
تحریر: سید محمد حسن رضوی
12/27/2021

         اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب احکام شرعیہ نازل ہوئے توان   احکام شرعیہ میں عام اور خاص ، مطلق مقید ، ناسخ منسوخ ، مجمل مبین پائے جاتے تھے۔ اس تحریر میں ہم عام و خاص کا احکام شرعیہ میں وجود اور حکم شرعی کا عام سے کس نوعیت کا تعلق قائم ہوتا ہے  کو ملاحظہ کریں گے۔ حکمِ شرعی کا عام سے تعلق قائم ہونے کی کیفیت کو ملاحظہ کریں تو اس اعتبار سے عام تین قسموں میں تقسیم ہوتا ہے: ۱۔ عامِ استغراقی، ۲۔ عام مجموعی ، ۳۔ عام بدلی۔اس تقسیم کو ہم اس طرح بھی ذکر کر سکتے ہیں جیساکہ محقق خوئی ؒ نے اجود التقریرات میں بیان کیا ہے کہ حکم مجعول یعنی مرحلہِ اعلان حکم شرعی کے مورد میں یا تو حکمِ شرعی افراد میں سے ہر ہر فرد کے متعلق ہو گا یا نہیں بلکہ مجموعی طور پر افراد سے تعلق قائم کرے گا یا نہیں بلکہ ان افراد میں سے اگر بطورِ بدل ایک کو بھی انجام دے دیا تو حکم شرعی کی بجاآوری کہلائے گی، پہلے کو ’’عام استغراقی ‘‘ کہتے ہیں، دوسرا جس میں مجموعی طور پر افراد سے حکم شرعی کا تعلق ہوا تھا کو ’’عام مجموعی‘‘ کہتے ہیں جبکہ تیسرا ’’عام بدلی‘‘ کہلاتا ہے۔[1]خوئی، سید ابو القاسم، اجود التقریرات ،  ج۱، ص ۴۴۳۔

عام کی یہ اقسام ذاتی و نفسی نہیں ہیں کہ کہا جائے کہ عام ذاتًا ان تین اقسام میں تقسیم ہوتا بلکہ’’ عام‘‘ کا ایک معنی ہے اور یہ ایک معنی ان تمام اقسام میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ اقسام عام کی ذات اور مفہوم سے مأخوذ نہیں ہیں بلکہ ان اقسام کا تعلق اُس حکم شرعی سے ہے جو عام سے مربوط اور متعلق ہوا ہے۔ یہ حکم کبھی عام کے تمام افراد سے مستقل طور پر جدا جدا تعلق قائم کرتا ہے اور کبھی مجموعِ افراد سے من حیث المجموع تعلق قائم کرتا ہے اور کبھی عام کے افراد سے مستقل لیکن ’’بطورِ بدل‘‘ تعلق قائم کرتا ہے۔ اس طرح سے حکم کا عام کے افراد سے تعلق قائم ہونے کے اعتبار سے درج ذیل تین اقسام ہمارے سامنے آ جاتی ہیں:

۱۔ عام استغراقی:

حکم شرعی اگر عام کے ہر فردکو جدا جدا مستقل طور پر شامل ہو تو اس کو عامِ استغراقی کہتے ہیں۔ عامِ استغراقی میں عام کے ہر فرد اور مصداق کے لیے امتثالِ حکم ضروری ہے۔ جو فرد بھی حکم سے موافقت کرتے ہوئے حکم بجا لائے گا اس نے امتثال کیا اور جس نے حکم کی مخالفت کی اس نے عصیان کیا، مثلا کہا جائے: أَكرِمِ العُلَماءَ، اگر علماء کے ایک ہزار مصادیق ہوں تو سب کا جدا جدا احترام کرنا واجب ہے اور اگر ایک بھی عالم کا احترام نہیں کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس فرد کے علاوہ بقیہ میں حکم کو بجا لائے ہیں جبکہ  اس ایک میں حکم کی مخالفت اور عصیان لازم آئے گا۔ بالفاظِ دیگر عام استغراقی میں جن کا احترام بجا لایا گیا اس میں اطاعت اور حکم کی بجا آوری کہلائے گی اور جس میں مخالفت انجام دی گئی اس میں معصیت۔

۲۔ عام مجموعی:

          عامِ مجموعی میں حکمِ شرعی عام کے ہر فرد کو مستقل طور پر جدا جدا شامل نہیں ہوتا بلکہ حکم عام کے ایک مجموعہ کو شامل ہوتا ہے، مثلا کہا جائے: أَكرِمِ العُلَماءَ، تو یہاں مجموعہِ علماء کے احترام سے حکم شرعی کا تعلق قائم ہو رہا ہے۔ اگر اس مجموعہ کا احترام کیا گیا تو حکم انجام پائے گا۔ فرق نہیں پڑتا اس مجموعہ میں سو افراد ہوں یا دس افراد۔ اگر اس مجموعہ میں سے ایک فرد کا احترام نہ کیا جائے تو یہ پورے مجموعہ کا احترام نہ کرنا شمار ہو گا اور اصلاً حکم کی بجاآوری شمار نہیں ہو گا۔ یعنی عامِ استغراقی کی مانند نہیں ہے کہ اگر بعض کا احترام ہوا تو ان میں حکم بجاآوری اور بقیہ میں معصیت کہلائے بلکہ عامِ مجموعی میں مجموعہ کے ایک فرد کے بارے میں حکم کی مخالفت اصلاًٍٍ تمام حکم کی مخالفت کہلائے گی۔ کیونکہ عامِ مجموعی میں یہ مجموع من حیث المجموع موضوع بن رہا ہے جس سے حکم یعنی وجوب اکرام کا تعلق ہے۔

۳۔ عام بدلی:

          عام بدلی میں حکمِ شرعی عام کے ہر فرد سے مستقل طور پر جدا جدا تعلق قائم کرتا ہے لیکن حکم استغراقی و استیعاب کے طور پر نہیں بلکہ بدل کے طور پر متعلق ہوتا ہے، اس طرح سے کہ اگر ایک فرد کے بارے میں حکم کو بجا لایا گیا تو حکم کا امتثال ہو جائے گا۔ بالفاظِ دیگر عاکم افراد میں سے ایک فرد کا بھی بطور بدلیت  امتثال کیا جائے تو حکم کی بجاآوری کہلائے گی، مثلا کہا جائے: أَكرِمِ العَالِم، اس مثال میں اگرچے وجوبِ اکرام کا حکم عام کے افراد میں سے ہر فرد کے متعلق ہو رہا ہے لیکن علماء میں سے ایک عالم کا احترام کر لیا جائے تو حکم کا امتثال ہو جائے گا اور بقیہ افراد کا اکرام لازم نہیں رہے گا۔ پس اس قسم میں حکم کی معصیت اس وقت کہلائے گی جب تمام کے تمام افراد کے اکرام کو بجا نہ لایا جائے۔ لیکن اگر عام کے ایک فرد کا بھی اکرام کر لیا تو اطاعت کہلائے گی۔

نوٹ:

          گذشتہ سطور میں جو مطالب ذکر ہوئے ان سے معلوم ہو گیا کہ عشرۃ، عشرین، ثلاثین ، مائۃ، الف وغیرہ میں ہر عدد کے احاد و افراد ہیں لیکن یہ عموم کے باب سے نہیں ہیں۔ یعنی عشرۃ ایک مفہوم ہے جس کے اجزاء اور احاد میں دس الگ الگ جزء ہیں تو یہاں عشرۃ عام نہیں کہلائے گا۔ کیونکہ عام میں عام کا معنی اپنے تمام افراد میں یکساں اور مشترک رہتا ہے جبکہ عددِ عشرۃ یا عشرین وغیرہ میں ایسا نہیں ہے کہ عشرۃ کا جو مفہوم ہے وہ اس کے تمام اجزاء پر منطبق ہو۔ عشرۃ کا معنی تمام مجموع پر تو منطبق ہوتا ہے لیکن جدا جدا اس کی ہر اکائی پر عشرۃ کا اطلاق ہو ایسا نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر عام میں آحاد عام کے افراد اور مصادیق ہیں جبکہ عشرۃ اور اس کی مثل دیگر اعداد میں اکائیاں اس عدد کے اجزاء ہیں نہ کہ افراد  و مصادیق۔ پس عشرۃ اپنے اجزاء کے اعتبار سے کلّ ہے جبکہ عام اپنے اجزاء کے اعتبار سے کلی ہے جو مصادیق پر ایک معنی میں منطبق ہوتی ہے۔ [2]اخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، ص ۲۱۶۔ [3]فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج ۳، ص ۳۵۷۔ [4]شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول (حلقہ ثالثہ) ، ص ۲۹۳۔

محقق سیفی مازندرانی کا مناقشہ

آیت اللہ سیفی اپنی کتاب ’’بدائع البحوث فی علم الاصول‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ آیت اللہ خوئی نے صاحب ِ کفایہ پر یہ اشکال کیا ہے۔ اخوند قائل ہیں کہ ان تین اقسام کا منشا ’’حکم شرعی کا عام سے متعلق ہونے کی کیفیت‘‘ ہے جس میں کبھی حکم شرعی جدا طور پر ہر فرد سے متعلق ہوتا ہے اور کبھی مجموعی طور پر افراد کے متعلق ہوتا ہے اور کبھی بدل کے طور پر کسی ایک فرد سے متعلق ہوتا ہے۔ ان تینوں قسم میں اخوند خراسانی کی نظر میں عام کا معنی ایک ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس اشکال کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ شارع مقامِ جعل و تشریع میں طبیعتِ موضوع کو ’’بما ھی ھی ‘‘ملاحظہ نہیں کرتا بلکہ وہ طبیعتِ موضوع کو افرادِ خارجی میں فناء کی صورت میں ملاحظہ کرتا ہے جس کی بناء پر طبیعتِ موضوع ان حالات میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں ہوتا۔ طبیعتِ موضوع سے مراد یہ ہے کہ حکم شرعی کا تعلق موضوع اور اس کے افراد سے ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ کلی طور پر طبیعتِ موضوع سے حکم شرعی کا تعلق قائم ہوتا ہے جس کے آئینے میں افرادِ خارجی کو ملاحظہ کیا جاتا ہے، جیساکہ اس مقام پر عبارت سے ایسا ہی ظاہر ہے۔

آیت اللہ خوئی کے اس اشکال کو ردّ کرتے ہوئے محقق سیفی مازندرانی کہتے ہیں کہ اوّلا آیت اللہ خوئی نے فقط ایک نیا مطلب کو ذکر کیا ہے بقیہ ان کے کلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے اور وہ ان تین اقسام کے منشا ء کے بارے میں اختلاف ہے۔ آیت اللہ خوئی کا کہنا یہ ہے کہ عام کی ان تین اقسام کا منشاء ’’حکم شرعی کے کیفیتِ جعل و تشریع میں اختلاف ‘‘ ہے نہ کہ کیفیتِ تعلق حکم ہے جیساکہ اخوند خراسانی بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اشکال قابل قبول نہیں ہے کیونکہ تعلقِ حکم شرعی کی کیفیت کے مختلف ہونے کا منشاء لا محالہ کیفیتِ جعل ہی ہے ، کیونکہ عقلی طور پر حکم شرعی کے متعلق ہونے کی کیفیت کا مختلف ہونا فقط اسی صورت میں معقول ہے جب کیفیتِ جعل بھی مختلف ہو۔ ورنہ حکمِ شرعی مقام جعل میں ان تینوں جہات سے ایک اور متحد ہو اور دوسری طرف سے ہم حکم شرعی کے مقامِ مجعول میں کیفیتِ تعلق کو تین جہات میں تقسیم کریں تو یہ اصلا معقول نہیں ہے !! پس یہاں سے ثابت ہوا کہ آخوند خراسانی نے جب حکم شرعی کا افراد سے تعلق کی کیفیت کو تین حصوں میں تقسیم کیا تو لا محالہ جعلِ حکم میں بھی وہ تین جہات میں پہلے ہی تقسیم تھا۔ چنانچہ آیت اللہ خوئی کا اشکال وارد نہیں ہے۔

دوسرا اشکال آیت اللہ خوئی پر یہ وارد ہوتا ہے کہ آیت اللہ خوئی نے حکم شرعی کا ان تینوں اقسام سے تعلق کو طبیعی قرار دیا ہے جیساکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ آیت اللہ خوئی نے طبیعتِ موضوع سے تعلق کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ حکم مصادیق میں فانی ہوتا ہےاور ایک مرتبہ مجموعی طور پر طبعیتِ موضوع میں موضوعِ واحد کے طور پر فانی ہے اور ایک مرتبہ صِرفِ وجود کے تحقق کے طور پر ایک فرد واحد کے ضمن میں بغیر کسی فرد کو معین کیے فانی ہے۔ محقق خوئی اس تشریح پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ تحقیق سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حکم شرعی طبیعی طور پر فقط عام استغراقی کے ساتھ متعلق ہوتا ہے جبکہ عام مجموعی اور عام بدلی میں حکم شرعی اولِ وضع ہی سے ایک مجموعہ یا فردِ واحد سے بغیر تعیین کے متعلق ہوتا ہے نہ کہ صِر فِ وجود طبیعی کے اعتبارسے۔ [5]سیفی مازندرانی، علی اکبر، بدائع البحوث فی علم الاصول، ج ۴، ص ۲۱۱۔

Views: 1492

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حضرت عثمان بن عفان نہج البلاغہ کے آئینے میں
اگلا مقالہ: طہارت کے لغوی معنی