loading
{شرح نهج البلاغة}
حضرت عثمان بن عفان نہج البلاغہ کے آئینے میں

تحریر: سید محمد حسن رضوی

نہج البلاغہ میں متعدد جگہ امام علیؑ نے حضرت عثمان سے متعلق اپنے موقف کو بیان کیا ہے اور عالم اسلام اٹھنے والے فتنوں کی بیخ کنی کے لیے حتی الامکان سعی و کوشش کرتے ہوئے نورانی کلمات ارشاد فرمائے ہیں۔

فہرست مقالہ

شجرہ نسب:

حضرت عثمان بن عفان بنو امیہ کی نسل سے تھے۔ کتبِ انساب میں وارد ہوا ہے کہ جناب عبد مناف بن قصی کے چار بیٹے تھے : ۱۔ عمرو، جنہیں ہاشم کہا جاتا ہے، ۲۔ مطلب کہ انہیں فیض کہا جاتا تھا، ۳۔ عبد شمس، ۴۔ نوفل، ان کا نام عبید درج اور کنیت ابو عمرو تھی۔ ان میں سے تین یعنی ہاشم، مطلب اور عبد شمس کی والدہ ’’عاتکہ بنت مرۃ بن ہلال بن فالج‘‘ تھیں  ۔ جبکہ نوفل کی والدہ ’’واقدۃ من بنی مازن‘‘ تھیں۔[1]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۶۱۔ کہا جاتا ہے کہ  ہاشم اور عبد شمس جڑواں پیدا ہوئے تھے۔

بنو ہاشم:

جناب ہاشم کی متعدد اولاد  میں سے صرف ایک اولاد سے نسل چلی اور وہ جناب عبد المطلب ہیں۔ جناب عبد المطلبؑ کی والدہ کا نام ’’سلمی بنت عمرو بن زید بن لبید‘‘ ہے۔جناب ہاشم کے بقیہ بیٹوں کے نام عمرو ( ابو صیفی)، نضلہ اور اسد ہے ۔ اسد بن ہاشم سے ایک بیٹا حنین اور ایک بیٹی فاطمہ بنت اسد تھیں ۔ حنین کے ایک بیٹے عبد اللہ تھے اور ان کی آگے اولاد نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اسد کی نسل سے جناب ہاشم کی نسل منقطع ہو گئی۔ البتہ اسد کی دختر امجد ’’جناب فاطمہ بنت اسدؑ‘‘ کا ازدواج اپنے چچازادجناب ابو طالب ؑ سے ہوا اور حضرت ابو طالبؑ کی تمام اولاد جناب فاطمہ بنت اسدؑ سے ہوئی۔ یہی وجہ بنی کہ جناب ہاشم کی نسل حضرت عبد المطلبؑ کے ذریعے سے چلی۔ 

حضرت عبد المطلبؑ کی اولاد

حضرت عبد المطلبؑ کا نام شیبہ اور کنیت ابو حارث تھی۔ آپ  کی کثیر اولاد تھی لیکن صرف چار بیٹوں سے جناب عبد المطلبؑ کی نسل چلی جوکہ ہاشمی نسل کہلاتے ہیں: ۱۔ جناب عبد اللہؑ ، ۲۔ جناب ابو طالبؑ ، ۳۔ جناب عباس، ۴۔ ابو لہب، جبکہ بقیہ کسی بھی بیٹے سے نسل نہیں چلی۔[2]ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۱۵۔ حضرت عبد المطلب کے گیارہ بیٹے تھے: ۱۔ حضرت عبد اللہؑ ، ۲۔ حضرت ابو طالبؑ ، ۳۔ حضرت حمزہؑ ، ۴۔ حضرت عباس، ۵۔ حضرت حارث، ۶۔ زبیر، ۷۔ ضرار، ۸۔ مقوم، ۹۔ غیداق، ۱۰۔ قثم، ۱۱۔ ابو لہب جس کا نام عبد العزی اور کنیت ابو عتبہ تھی اور یہ دشمنِ رسول ﷺ میں سے تھا اور قرآن کریم میں اس پر نفرین نازل ہوئی۔ابو لہب کی شادی عبد شمس کے پوتے حرب کی بیٹی ام جمیل بن حرب بن امیہ بن عبد شمس سے ہوئی جوکہ رسول اللہ ﷺ کی دشمن تھی۔

جناب عبد المطلبؑ کی متعدد بیٹیاں تھیں جن کے نام یہ ہیں: ۱۔ بیضاء: ان کی کنیت ام حکیم ہےجوکہ جناب عبد اللہؑ کی جڑواں بہن تھیں  اور آپ کا نکاح کُریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس سے ہواجس کے نتیجے میں آپ کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ’’اروی بنت کُریز‘‘ ہے جوکہ خلیفہ سوم کی والدہ تھیں۔  ۲۔ عاتکہ بنت عبد المطلب: ان کا نکاح ابو امیہ بنت مغیرہ مخزومی سے ہوا ۔ ابو امیہ کی دو بیویوں کا نام عاتکہ تھا:پہلی ’’عاتکہ بنت عبد المطلب‘‘ ہیں جن سے زہیر بن ابی امیہ، عبد اللہ بن ابی امیہ اور ایک بیٹی قریبۃ الکبری پیدا ہوئے جبکہ دوسری بیوی عاتکہ بنت عامر ہیں جو بنی کنانہ سے تعلق رکھتی تھی اور ان سے ابو امیہ کی اولاد جناب ام سلمہؓ ہوئیں ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عاتکہ بنت عبد المطلب جناب ام سلمہؓ کی سوتیلی ماں تھیں۔۳۔ برہ بنت عبد المطلب،۴۔ امیمہ بنت عبد المطلب، ۵۔ اروی بنت عبد المطلب، ان سب بیٹیوں کی ماں ’’فاطمہ بنت عمرو بن عائذ تھیں، [3]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۸۸۔۶۔ صفیہ بنت عبد المطلب۔

اولادِ  عبد شمس :

جناب ہاشم کے مقابلے میں عبد شمس تھا جس کے بارے میں ماہرینِ انساب نے درج کیا ہے کہ وہ ہاشم کا جڑواں بھائی تھا۔ عبد شمس کے گیارہ بیٹے بیٹیاں تھیں جن میں بیٹوں کے نام یہ ہیں: ۱۔ حبیب، ۲۔  امیہ اکبر، اس سے بنو امیہ کا سلسلہ نسب چلا، ۳۔ امیہ اصغر، ۴۔ نوفل، ۵۔ عبد امیہ، ۶۔ عبد العزی، ۷ ۔ شیبہ، ۸۔ عبد اللہ اعرج بن عبد شمس ، ۹۔ ربیعہ بن عبد شمس ۔ ان میں عبد اللہ اَعرج کے علاوہ سب صاحبِ اولاد تھے۔ [4]ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۴۔ عبد شمس بن مناف کی بیٹیوں کے نام یہ ہیں: ۱۰۔ رقیہ بنت عبد شمس، ۱۱۔ سبیعہ بنت عبد شمس، ۱۲۔ امیمہ بنت عبد شمس،۱۳۔ امۃ بنت عبد شمس ۔[5]زبیری، مصعب بن عبد اللہ، نسب قریش،ص ۹۷۔  ’’امیہ اکبر‘‘ اور ربیعہ کی اولاد میں اسلام دشمن شخصیات پیدا ہوئیں جن میں سے بعض جنگ بدر میں واصلِ جہنم ہوئے اور بعض اپنی طبعی موت سے ہمکنار ہوئے۔ ربیعہ بن عبد شمس کے دو بیٹے تھے: ۱۔ عُتبہ ، ۲۔ شیبہ، ہر دو غزوہ بدر میں امام علیؑ کی تلوار سے قتل ہوئے۔ہم پہلے عُتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس کی اولاد پر مختصر تبصرہ کرتے ہیں اور اس کے بعد امیہ بن عبد شمس کا جائزہ لیں گے۔

عُتبہ بن ربیعہ  کی اولاد( ولید بن عتبہ، ابو حذیفہ اور ہند بنت عتبہ):

عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس کی متعدد بيٹیوں میں معروف بیٹی ’’ہندبنت عتبہ‘‘ تھی جوکہ معاویہ بن ابی سفیان کی ماں تھی اور اسی نے جناب حمزہؑ کی شہادت پر انہیں مُثلہ کیا اور خوشی منائی۔ اس اعتبار سے عتبہ ’’معاویہ بن ابی سفیان‘‘ کا نانا اور اس کی اولاد معاویہ کی ماموں لگتی تھی۔ عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس کے متعدد بیٹے تھےجن میں سے دو کا تذکرہ اہم ہے:

۱۔ ولید بن عتبہ جوکہ جنگ بدر میں امام علیؑ کی تلوار سے واصل جہنم ہوا۔ یہ  معاویہ بن ابی سفیان کا رشتہ میں ماموں لگتا تھا۔  ولیدبن عتبہ کی بیٹی فاطمہ سے سالم مولی ابی حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ نے نکاح کیا۔ سالم کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو خلیفہ دوم کے خصوصی ساتھیوں میں سے تھے اور سب سے پہلے خلیفہ اول کی بیعت کرنے والوں میں سے تھے۔ 

۲۔ مہشم : ان کا نام ’’هُشَيْم‘‘ بھی وارد ہوا ہے اور آپ مکہ میں اسلام قبول کیا اور ۱۲ ہجری میں جنگ یمامہ میں قتل کر دئیے گئے۔ آپ کی شہرت آپ کی کنیت ’’ ابو حذیفہ بن عُتبَہ‘‘ سے ہے۔جنگ بدر میں آپ کا سامنا اپنے باپ عُتبہ سے ہو گیا جس پر آپ کی بہن مادرِ معاویہ ہند نے آپ پر لعن طعن کی ۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے گزارش کی کہ مجھے اپنے باپ کے مقابلے میں نہ بھیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کی خواہش کو قبول کیا اور آپ کو عُتبہ کے مقابلے میں نہیں بھیجا۔ البتہ جب عُتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس واصل جہنم ہو گیا تو ابو حذیفہ رونے لگے اور وجہ بتائی کہ میں اس کے جہنم میں جانے پر رو رہا ہوں۔ [6]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۹، ص ۳۶۸۔  ابو حذیفہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی جہاں آپ کا فرزند  ’’محمد بن ابی حذیفہ‘‘ متولد ہوئے۔ خلیفہ اول کے دور میں لڑی جانے والی جنگ یمامہ میں ابو حذیفہ قتل ہوئے  ۔ اس وقت محمد بن ابی حذیفہ کی عمر گیارہ سال تھی۔ ابو حذیفہ کے مارے جانے کے بعد خلیفہ سوم نے ان کے بیٹے محمد بن ابی حذیفہ کو گود لے لیا اور بہترین طریقے سے پرورش کی۔محمد بن ابی حذیفہؓ کے دل میں امام علیؑ کی شدید محبت تھی جس کی بناء پر محمد بن ابی حذیفہؓ امام علیؑ کے جانثار اصحاب میں شمار ہوتے ہیں اور اسی جرم میں معاویہ بن ابی سفیان نے آپؓ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔[7]کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال(رجال کشی)، ج ۱، ص ۷۰۔ اگر ان رشتوں کی رعایت کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ معاویہ نے اپنے ماموں کے بیٹےیعنی  کزن کو امام علیؑ کی حمایت اور محبت کی بناء پر بھیانک طریقے سے قتل کیا جبکہ ابو حذیفہ اور محمد بن ابی حذیفہ ہر دو کو صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔[8]ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۷۔

عبد العُزّی بن عبد شمس کی اولاد:

عبد العزّی بن عبد شمس کے دو بیٹے تھے، ایک کا نام ’’ربیع‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ربیعہ‘‘ تھا۔ ربیع بن عبد العزّی سے قاسم نامی بیٹا ہوا جوکہ ’’ابو العاص‘‘ کی کنیت سے معروف تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب بیٹی جناب زینبؓ کا ازدواج انہی سے ہوا۔ ابو العاص ربیع  بعد میں ہی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ جناب زینب ؓکا ابو العاص سے ایک بیٹا علی تھا جو آغاز جوانی میں وفات پا گیا اور ایک بیٹی اَمامہ بنت ابی العاص تھیں جن سے امام علیؑ نے جناب فاطمہؑ کے بعد ازدواج کیا۔ پس امامہ بنت ابی العاص جناب زینبؓ کی دختر تھیں۔[9]ابن حزم، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۷۔

امیہ (اکبر) بن عبد شمس کی اولاد:

امیہ اکبر وہ فرد ہے جس نے جناب ہاشم سے اختلاف کیا اور اس طرح ان دو نسلوں میں باہمی کشمکش اور اختلاف کی پہلی بنیاد پڑی۔ اس کی اولاد کو ’’بنو امیہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔امیہ کی متعدد اولاد تھی جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱۔ الاَعیاص، ۲۔ العَنَابِس:

اولادِ امیہ میں اعیاص

الاَعیاص سے مراد امیہ بن عبد شمس کی وہ اولاد ہے جن کے نام میں ’’عاص‘‘ یا اس کے مشتقات آتے ہیں۔ ان سب کی ماں آمنہ بنت ابان بن کلیب تھی۔ یہ کل پانچ افراد ہیں:۱۔ العاص،۲۔ ابو العاص، ۳۔ عِیص، ۴۔ ابو العِیص، ۵۔ ابو عمرو۔ [10]ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۸۔ امیہ کی اولاد میں سے ابو العاص کے حالات جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ خلیفہ سوم کا تعلق ’’ابو العاص‘‘ کے نسب سے بنتا ہے۔البتہ ابو عمرو بن امیہ بن عبد شمس کا بیٹا ’’معیط‘‘ تھا جس کا ایک بیٹا’’عقبہ‘‘ تھاجوکہ رسول اللہ ﷺ کا شدید دشمن تھا۔ بالفاظِ دیگر ابو عمرو بن امیہ کا پوتا ’’عقبہ بن ابی معیط‘‘ رسول اللہ ﷺ کا شدید دشمن تھا اور یہ حضرت عثمان کا سوتیلا باپ تھا کیونکہ آپ کی والدہ ’’اروی بنت کُریز‘‘ نے عفان کے قتل ہو جانے کے بعد عقبہ بن ابی معیط سے ازدواج کیا جن سے ولیدبن عقبہ، خالد، عمارۃ اور ام کلثوم متولد ہوئے۔ [11]زبیری، مصعب بن عبد اللہ ، نسب قریش، ص ۱۰۱، دار المعارف، قاہرہ، طبعہ سوم۔عقبہ بن ابی معیط جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ امام علیؑ نے حکم تکمیل کرتے ہوئے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کر دیا۔ [12]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۹، ص ۳۴۲۔

عاص بن امیہ

عاص بن امیہ کے متعدد بیٹے تھے جن میں سے ایک سعید بن عاص تھاجس کی کنیت ابو اُحَیحَہ تھی۔ سعید بن عاص بن امیہ غزوہ بدر سے پہلے کافر مرا۔ سعید بن عاص کے دو بیٹے تھے : ۱۔ عاصی بن سعید بن عاص بن امیہ، ۲۔ عبیدۃ بن سعید بن عاص بن امیہ، ہر دو جنگ بدر میں کفر کی حالت میں واصل جہنم ہوئے۔ [13]ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۸۰۔

ابو العاص بن امیہ  اور اس کی اولاد:

بلاذُری نے نقل کیا ہے کہ ابو العاص بن امیہ کے کئی بیٹے تھے: ۱۔ عَفَّان، ۲۔ عفیف، ۳۔ عوف درج،۴۔ صفیہ(زوجہ ابو سفیان بن حرب)، ان چاروں کی ماں ’’آمنہ بنت عبد العزیز بن حارث‘‘ تھی جس کا تعلق بنی عدی سے تھا، ۵۔ حَکم، ۶۔مغیرۃ، ۷۔ ریحانہ، ان تینوں کی ماں ’’رقیہ بنت حارث ‘‘ تھی جس کا تعلق بنی مخزوم سے تھا، ۸۔ سعید، ۹۔ خالدہ، ان دونوں کی ماں ’’لبابہ‘‘ تھی جوکہ ربیعہ بن عبد شمس کی بیٹی تھی، ۱۰۔ ام حبیب بنت ابی العاص۔حضرت عثمان بن عفان کا چچا اور پھوپھی یہی افراد بنتے ہیں۔ ان میں سے عفان،  مغیرہ اور حَکم کے حالات کو مختصر طور پر جاننا ضروری ہے کیونکہ انہی کی نسل سے ایسے افراد آئے جنہوں نے اسلام اور مسلمین کے لیے فتنے و فساد برپا کیے۔[14]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۷۹۔

۱۔ عفَاَّن: بنو امیہ میں سے عَفّان وہ شخصیت ہے خلیفہ سوم جس کے بیٹے تھے۔ عَفّان کی غمیصاء کے مقام پر یا شام میں قتل ہوا۔ اس کی متعدد اولاد تھی: ۱۔ عثمان، ۲۔ آمنہ ، ۳۔ اَرنب، ان تینوں کی ماں ’’اَروَی بنت کُرِیز‘‘ تھی جس کا تعلق عبد شمس کے بیٹے حبیب کی نسل سے ربیعہ سے تھا ۔ اس اعتبار سے اروی بنت کریز کا دادا’’  ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس‘‘ تھا اور ماں جناب عبد المطلبؑ کی بیٹی ’’بیضاء ام حکیم‘‘ تھیں۔ جناب عبد المطلبؑ کی تمام اولاد حضرت عثمان کی ماں کی جانب سے ماموں لگتی ہے کیونکہ عبد المطلب کی بیٹی کی اولاد ان کے بیٹوں کے ماموں بنیں گے۔ حضرت عثمان اپنے والد اور والدہ کے سسرال کی جانب سے عبد شمس سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ نانکوں کی طرف سے جناب عبد المطلب اور جناب ہاشم سے تعلق جڑتا ہے۔  اروی بنت کُریز کی نے پہلی شادی عَفّان سے کی جس سے ان کی اولاد عثمان، آمنہ اور ارنب ہے ۔ عفّان کی قتل ہو جانے کے بعد اروی نے دوسرا نکاح عقبہ بن ابی معیط سے کیا جس سے ان کے تین بیٹے ’’ ولید بن عقبہ، خالد بن عقبہ اور عُمارۃ بن عقبہ‘‘ اور ایک بیٹی ام کلثوم بنت عقبہ ہوئے۔ یہ تینوں حضرت عثمان کے ماں کی جانب سے سوتیلے بھائی لگتے ہیں ۔ [15]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۸۰۔ ان میں ولید بن عقبہ وہ شخص ہے کہ حضرت عثمان نے کوفہ کی ولایت سے سعد بن ابی وقاص کو ہٹا کر اپنے سوتیلے بھائی ولید بن عقبہ کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جس نے شراب پی کر نمازیں پڑھائیں اور پھر اس پر حد جاری ہوئی۔ [16]بلاذُری ، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۵۱۶۔ بلاذُری نے نقل کیا ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ خلیفہ سوم کی سوتیلی بہن لگتی تھیں کیونکہ ام کلثوم کی ماں اروی اور نانی بیضاء بنت عبد المطلب تھیں۔ حضرت عثمان کی سوتیلی بہن ام کلثوم کے متعدد نکاح ہوئے ۔ ام کلثوم بن عقبہ کا پہلا نکاح زید بن حارثہ سے ہوا ۔ زید نے انہیں طلاق دے دی تو ان کا دوسرا نکاح عبد الرحمن بن عوف سے ہوا اور اس کے بعد زبیر بن عوام سے اور اس کے بعد عمر و بن عاص سے ازدواج ہوا۔ [17]بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشرف، ج ۱، ص ۴۷۱۔ اس اعتبار سے عبد الرحمن بن عوف حضرت عثمان کا بہنوئی لگتا ہے کیونکہ ان کی شادی ام کلثوم بن عقبہ بن ابی معیط سے ہوئی۔ اسی رشتہ داری کی بناء پر شوری کے موقع پر خلیفہ کے انتخاب کے وقت عبد الرحمن بن عوف کا رجحان حضرت عثمان کی طرف تھا۔البتہ بلاذُری نے آخرِ کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ کا پہلا نکاح زید بن حارثہ سے ہوا جوکہ غلام تھے۔ عثمان بن عفان اس نکاح پر راضی نہیں تھے اور انہوں نے اپنی سوتیلی بہن کا نکاح غلام سے کرنے سے انکار کر دیا جس کی خبر ام کلثوم کو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ مجھے کسی موٹے ہونٹ اور کھلے دانتوں والے زنجی غلام سے شادی کرنے کا حکم دیں تو میں اس سے شادی کروں گی ، چنانچہ ام کلثوم بن عقبہ نے زید بن حارثہ سے نکاح کیا۔ جب زید بن حارثہ شہید ہو گئے تو اس کے بعد عبد الرحمن بن عوف سے نکاح اور جب ابن عوف کی وفات ہو گئی تو اس کے بعد زبیر بن عوام سے نکاح اور زبیر نے انہیں طلاق دی اور بھر عمرو بن عاص سے نکاح کیا اور ان کے نکاح کے چند مہینوں بعد ام کلثوم کی وفات ہو گی۔ [18]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۹، ص ۳۴۳۔ظاہرا یہ بیان درست دکھائی دیتا ہے اور بلاذری نے آغاز کتاب میں زبیر کی جگہ زید لکھ دیا۔

۲۔ مغیرہ بن ابی العاص: اس کا ایک بیٹا ’’معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص‘‘ تھا جس نے جناب حمزہؑ کا مُثلہ کیا اور راہ بھٹک جانے کی وجہ سے مدینہ آنا پڑا ۔ معاویہ بن مغیرہ سیدھا اپنے چچازاد کزن’’حضرت عثمان بن عفان‘‘ کے پاس آیا اور حضرت عثمان نے اس کو پناہ دے دی۔ بالآخر معاویہ بن مغیرہ قتل کر دیا گیا۔معاویہ بن مغیرہ کی ایک بیٹی عائشہ تھی جس سے مروان نے ازدواج کیا اور عبد الملک بن مروان اسی عائشہ بنت معاویہ سے پیدا ہوا۔ [19]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۷۹۔

۳۔ حکم بن ابی العاص: ۔

 

اولادِ امیہ میں عَنَابس

امیہ بن عبد شمس کی اولاد میں عَنابِس سے مراد وہ بیٹے ہیں جن كی ماں اَمۃ بنت ابی ہمہمہ تھی۔عنابس ’’عنبسہ‘‘ کی جمع ہے جس کا مطلب  شیر ہے۔  ان کو عنابس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جنگ پر صبر کیا جس کی وجہ سے عنابس کہا جانے لگا۔ عَنابس سے مراد امیہ بن عبد شمس کے پانچ بیٹے ہیں[20]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۳۔

۱۔ حرب:حرب بن امیہ کی کنیت ابو عمرو تھی۔ حرب کی کئی اولاد تھی جن میں نامور ’’صخر بن حرب بن امیہ‘‘ ہے جوکہ ابو سفیان کی کنیت سے معروف ہے اور معاویہ اسی کی اولاد سے ہے۔ ابو سفیان کی ماں کا نام صفیہ بنت حزن بن بحیر ہلالی تھا۔ حرب کی اولاد میں ایک اور اہم نام ’’ام جمیل بنت حرب‘‘ ہے جوکہ رسول اللہ ﷺ  کی سخت دشمن اور ابو لہب کی زوجہ تھی۔ حرب کی متعدد زوجات تھیں جن سے اس کی کثیر اولاد ہوئی۔ حرب کی اولاد رسول اللہ ﷺ اور اہل بیتؑ سے سخت دشمنی کرنے والے یہی دو افراد سرفہرست ہیں: ۱۔ ابو سفیان (صخر بن امیہ بن عبد شمس) ، ۲۔ ام جمیل زوجہِ ابو لہب۔[21]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۔

۲۔ ابو حرب:

۳۔ سفیان:

۴۔ ابو سفیان:اس کا نام عَنبَسہ تھا۔ امیہ کےبیٹے ’’ابو سفیان‘‘ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ یہ ابو سفیان اس ابو سفیان سے جدا ہے جومعاویہ کا باپ کہلاتا ہے۔[22]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۲۔

۵۔ عمرو بن امیہ: ۔

امام علیؑ کا دوسروں کی نسبت حقدارِ خلافت ہونا

جب لوگوں نے حضرت عثمان کی بیعت کرنا شروع کی تو اس وقت امام علیؑ نے فرمایا:

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي وَوَاللَّهِ لَأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ وَلَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً الْتِمَاساً لِأَجْرِ ذَلِكَ وَفَضْلِهِ وَزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوهُ مِنْ زُخْرُفِهِ وَزِبْرِجِه‏‏. [23]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۰۲، کلام: ۷۴۔

ترجمہ:  تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے، خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے اُمور کا نظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا، تاکہ اس صبر پر اللہ سے اجر و  ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت اور آرائش ٹھکرا دوں جس پر تم مر مٹے ہو۔

لوگوں کی شکایات اور امام علیؑ کا حضرت عثمان کو سمجھانا

لوگ امام علیؑ کے پاس جمع ہوئے اور حضرت عثمان سے متعلق مختلف قسم کی شکایتیں ذکر کیں تاکہ امامؑ لوگوں کی جانب سے حضرت عثمان سے گزارش کریں اور لوگوں کو رضامند کرنے کا ان سے مطالبہ کریں۔ لوگوں کے اصرار پر امامؑ تشریف لے گئے اور حضرت عثمان سے اس طرح مخاطب ہوئے:

إِنَّ النَّاسَ وَرَائِي وَقَدِ اسْتَسْفَرُونِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُمْ، وَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ! مَا أَعْرِفُ شَيْئاً تَجْهَلُهُ وَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْرٍ لَا تَعْرِفُهُ، إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ، مَا سَبَقْنَاكَ إِلَى شَيْ‏ءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْهُ وَلَا خَلَوْنَا بِشَيْ‏ءٍ فَنُبَلِّغَكَهُ، وَقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا وَسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا، وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ كَمَا صَحِبْنَا، وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ [الْخَيْرِ] الْحَقِّ مِنْكَ وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى أَبِي رَسُولِ اللَّهِ وَشِيجَةَ رَحِمٍ مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالا، فَاللَّهَ اللَّهَ فِي نَفْسِكَ فَإِنَّكَ وَاللَّهِ مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًى وَلَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ وَإِنَّ الطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ وَإِنَّ أَعْلَامَ الدِّينِ لَقَائِمَةٌ، فَاعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ إِمَامٌ عَادِلٌ‏ هُدِيَ وَهَدَى فَأَقَامَ سُنَّةً مَعْلُومَةً وَأَمَاتَ بِدْعَةً مَجْهُولَةً، وَإِنَّ السُّنَنَ لَنَيِّرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ وَإِنَّ الْبِدَعَ لَظَاهِرَةٌ لَهَا أَعْلَامٌ وَإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ إِمَامٌ جَائِرٌ ضَلَّ وَضُلَّ بِهِ، فَأَمَاتَ سُنَّةً مَأْخُوذَةً وَأَحْيَا بِدْعَةً مَتْرُوكَةً وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالْإِمَامِ الْجَائِرِ وَلَيْسَ مَعَهُ نَصِيرٌ وَلَا عَاذِرٌ، فَيُلْقَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيَدُورُ فِيهَا كَمَا تَدُورُ الرَّحَى ثُمَّ يَرْتَبِطُ فِي قَعْرِهَا وَإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّهَ [أَنْ‏] أَلَّا تَكُونَ إِمَامَ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمَقْتُولَ، فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ يُقْتَلُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ إِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَا الْقَتْلَ وَالْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَلْبِسُ أُمُورَهَا عَلَيْهَا وَيَبُثُّ الْفِتَنَ فِيهَا فَلَا يُبْصِرُونَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ يَمُوجُونَ فِيهَا مَوْجاً وَيَمْرُجُونَ فِيهَا مَرْجاً فَلَا تَكُونَنَّ لِمَرْوَانَ سَيِّقَةً يَسُوقُكَ حَيْثُ شَاءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ وَ تَقَضِّي الْعُمُرِ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَلِّمِ النَّاسَ فِي أَنْ يُؤَجِّلُونِي حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ مِنْ مَظَالِمِهِمْ فَقَالَ ع: مَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَلَا أَجَلَ فِيهِ وَمَا غَابَ فَأَجَلُهُ وُصُولُ أَمْرِكَ إِلَيْه‏. [24]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۳۵، کلام: ۱۶۴۔

ترجمہ: لوگ میرے پیچھے منتظر ہیں اور مجھے اس مقصد سے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہارے اور ان کے مسائل کو نپٹاؤں ، خدا کی قسم ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم سے میں کیا کہوں، جبکہ میں اس سلسلہ میں ایسی کوئی بات نہیں جانتا کہ جس نے تم بے خبر ہو اور نہ کوئی ایسی چیز بتلانے والا ہوں کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو جو تم جانتے ہو اور وہ ہم جانتے ہیں، نہ تم سے پہلے ہمیں کس چیز کی خبر تھی کہ تمہیں بتائیں اور نہ علیحدگی میں کچھ سنا ہے کہ تم تک پہنچائیں ، جیسے ہم نے دیکھا ہے ویسے تم نے بھی دیکھا ہے اور جیسے ہم نے سنا ہے ویسے تم نے بھی سنا ہے، جس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں اسی طرح تم بھی رہے ہو اور حق پر عمل پیرا ہونے کی ذمہ داری ابن ابی قحافہ اور بن خطاب پر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی تم پر ہونی چاہیے، اور تم رسول اللہ ﷺ سے خاندانی قرابت کی بناء پر ان دونوں سے قریب تر بھی ہو اور ان کی ایک طرح کی دامادی بھی تمہیں حاصل ہے جوکہ ابن ابی قحافہ اور ابن خطاب کو حاصل نہیں تھی۔ کچھ اپنے دل میں اللہ کا خوف کھاؤ، اللہ کی قسم! اس لیے تمہیں سمجھایا نہیں جا رہا کہ تمہیں کچھ نظر نہیں آ سکتا اور اس لیے یہ چیزیں تمہیں بتائی جا رہی ہیں کہ تمہیں علم نہ ہو، حالانکہ شریعت کی راہیں واضح اور دین کے نشانات قائم ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ کے نزدیک سب بندوں سے بہتر وہ انصاف پرور حاکم ہے جو خود بھی ہدایت پائے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرے اور جانی پہچانی ہوئی سنت کو مستحکم کرے اور انجانی بدعتوں کو فنا کرے۔ سنتوں کے نشانات جگمگا رہے ہیں اور بدعتوں کی علامتیں بھی واضح ہیں اور اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے بدتر وہ ظالم حکمران ہیں جو گمراہی میں پڑیں ہیں اور جنہوں نے رسول ﷺ سے حاصل ہوئی سنتوں کو تباہ کر دیا ہے اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کر کرنے والے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن ظالم کو اس طرح لایا جائے گا کہ نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی عذر خواہ اور اسے سیدھا جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس میں اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی گھومتی ہے اور پھر اسے جہنم کے گہراؤ میں جکڑ دیا جائے گا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم اس امت کے وہ سربراہ نہ بنو کہ جسے قتل ہی ہونا ہے۔ کیونکہ کہا گیا ہے کہ اس امت میں ایک ایسا حاکم مارا جائے گا جو قیامت تک اس کے لیے قتل و خون ریزی کا دروازہ کھول دے گا اور اس کے تمام امور کو اشتباہ میں ڈال دےگا اور اس میں فتنوں کو پھیلائے گا کہ وہ لوگ حق کو باطل سے الگ کر کے نہ دیکھ سکیں گے اور وہ فتنوں میں موجوں کی طرح الٹ پلٹ کیے جائیں گے اور انہی میں تہہ و بالا ہوتے رہیں گے ۔ تم مروان کی سواری نہ بنو کہ وہ تمہیں جہاں چاہے کھینچتا پھرے ، جبکہ تم سن رسیدہ بھی ہو چکے ہو اور تمہاری عمر بھی بیت چکی ہے۔  اس پر عثمان نے کہا کہ آپؑ ان لوگوں سے بات کریں کہ وہ مجھے کچھ عرصہ کے لیے مہلت دے دیں کہ میں ان کی حق تلفیوں سے عہدہ برآں ہو سکوں۔ امام علیؑ نے فرمایا: جن چیزوں کا تعلق مدینہ سے ہے ان میں تو کسی قسم کی مہلت کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ جو جگہیں نگاہوں سے اوجھل ہیں ان کے لیے اتنی مہلت مل سکتی ہے کہ تمہارا فرمان وہاں تک پہنچ جائے۔

جب امام علیؑ کی بیعت ہو گئی تو اس وقت صحابہ کرام کی ایک حماعت نے آپ ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ آپؑ ان لوگوں کو جنہوں نے عثمان بن عفان پر لشکر کشی کی ہے سزا دیں ۔ امام علیؑ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:

يَا إِخْوَتَاهْ إِنِّي لَسْتُ أَجْهَلُ مَا تَعْلَمُونَ وَلَكِنْ كَيْفَ لِي بِقُوَّةٍ وَالْقَوْمُ الْمُجْلِبُونَ عَلَى حَدِّ شَوْكَتِهِمْ يَمْلِكُونَنَا وَلَا نَمْلِكُهُمْ وَهَا هُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ ثَارَتْ مَعَهُمْ عِبْدَانُكُمْ وَالْتَفَّتْ إِلَيْهِمْ أَعْرَابُكُمْ وَهُمْ خِلَالَكُمْ يَسُومُونَكُمْ مَا شَاءُوا وَهَلْ تَرَوْنَ مَوْضِعاً لِقُدْرَةٍ عَلَى شَيْ‏ءٍ تُرِيدُونَهُ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرُ جَاهِلِيَّةٍ وَإِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ مَادَّةً إِنَّ النَّاسَ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ إِذَا حُرِّكَ عَلَى أُمُورٍ فِرْقَةٌ تَرَى مَا تَرَوْنَ وَفِرْقَةٌ تَرَى مَا لَا تَرَوْنَ وَفِرْقَةٌ لَا تَرَى هَذَا وَلَا [هَذَا] ذَاكَ فَاصْبِرُوا حَتَّى يَهْدَأَ النَّاسُ وَتَقَعَ الْقُلُوبُ مَوَاقِعَهَا وَتُؤْخَذَ الْحُقُوقُ مُسْمَحَةً فَاهْدَءُوا عَنِّي وَانْظُرُوا مَا ذَا يَأْتِيكُمْ بِهِ أَمْرِي وَلَا تَفْعَلُوا فَعْلَةً تُضَعْضِعُ قُوَّةً وَتُسْقِطُ مُنَّةً  وَتُورِثُ وَهْناً وَذِلَّةً وَسَأُمْسِكُ الْأَمْرَ مَا اسْتَمْسَكَ وَإِذَا لَمْ أَجِدْ بُدّاً فَآخِرُ الدَّوَاءِ الْكَي‏. [25]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۴۳، خطبہ: ۱۶۸۔

ترجمہ: اے بھائیو! جو تم جانتے ہو میں اس سے بے خبر نہیں ہوں، لیکن میرے پاس اس کی قوت و طاقت کہاں ہے !! جبکہ لشکر کشی کرنے والے اپنے زوروں پر ہیں۔ وہ اس وقت ہم پر مسلط ہیں اور ہم ان پر مسلط نہیں ہیں اور عالم یہ ہے کہ تمہارے غلام بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور صحرائی عرب بھی ان سے مل گئے ہیں جو اس وقت بھی تمہارے درمیان اسی حالت میں ہیں اور جیسا وہ چاہیں تمہیں گزند و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تمارے خیال میں کیا تم (ایسی طاقت رکھتے ہو کہ ) تم جیسا کرنا چاہو ویسے تم انہیں قابو کر لو ؟! بلا شبہ یہ جہالت و نادانی کا مطالبہ ہے جس کا فائدہ انہی لوگوں کی پشت پر مدد کا ایک ذخیرہ مہیا کرنے کی صورت میں ہے۔ جب یہ قصہ چھڑے گا تو اس معاملہ میں لوگوں کے مختلف خیالات ہوں گے۔ کچھ لوگوں کی رائے تو وہی ہو گی جو تمہاری ہے اور کچھ لوگوں کی رائے تمہاری رائے کے خلاف ہو گی اور کچھ لوگوں کی رائے نہ ادھر کی ہو گی اور نہ اُدھر کی۔ اتنا صبر کرو کہ لوگ سکون سے بیٹھ جائیں اور دل اپنی جگہ پر ٹھہر جائیں اور آسانی سے حقوق حاصل کیے جا  سکیں۔ تم میری طرف سے مطمئن رہو اور دیکھتے رہو کہ میرا فرمان تم تک کیا آتا ہے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کرو جوطاقت کو متزلزل اور قوت کو پامال کر دے اور کمزوری و ذلت کا باعث بن جائے۔ میں اس جنگ کو جہاں تک روک سکا روکوں گا اور جب کوئی چارہ نہ پاؤں گا تو پھر آخری علاج تو ’’داغنہ‘‘ ہی  ہے۔

حضرت عثمان کے قتل کی بنیادی وجہ 

حضرت عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد جب لوگوں نے آپؑ کے ہاتھوں بیعت کرنا چاہی تو اس وقت آپؑ نے فرمایا:

دَعُونِي وَالْتَمِسُوا غَيْرِي فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَ أَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَلَا تَثْبُتُ عَلَيْهِ الْعُقُولُ وَإِنَّ الْآفَاقَ قَدْ أَغَامَتْ وَالْمَحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ. وَاعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ وَلَمْ أُصْغِ إِلَى قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ وَإِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ وَلَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وَأَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ وَأَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيرا. [26]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۳۶، کلام: ۹۲۔

ترجمہ: مجھے چھوڑ دو، اس خلافت کے لیے میرے علاوہ کسی اور کو تلاش کرو، ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کوئی رنگ ہیں جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اُسے مان سکتی ہیں، دیکھوں اُفقِ عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور رستہ پہچاننے کو نہیں آتا، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس پر راستے پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے ہو ویسا میں ہوں اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دنیاوی مفاد کی خاطر) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے۔

امام علیؑ کی بیعت کی کیفیت ایسی تھی کہ لوگ امام علیؑ پر ٹوٹ پڑے اور امامؑ کو خلافت کے لیے مجبور کیا یہاں تک امامؑ نے اتمامِ حجت کی وجہ سے خلافت کو قبول کر لیا۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کی کیفیت اس طرح سے ذکر کی ہے: 

وَكَتَبَ إِلَيَّ السَّرِيُّ عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ سَيْفٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَطَلْحَةَ، قَالا: فَقَالُوا لَهُمْ: دُونَكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَقَدْ أَجَّلْنَاكُمْ يومين، فوالله لَئِنْ لَمْ تَفْرُغُوا لَنَقْتُلَنَّ غَدًا عَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَأُنَاسًا كَثِيرًا فَغَشَى النَّاسُ عَلِيًّا فَقَالُوا: نُبَايِعُكَ فَقَدْ تَرَى مَا نَزَلَ بِالإِسْلامِ، وَمَا ابْتُلِينَا بِهِ مِنْ ذَوِي الْقُرْبَى، فَقَالَ عَلِيٌّ: دَعُونِي وَالْتَمِسُوا غَيْرِي فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْرًا لَهُ وُجُوهٌ وَلَهُ أَلْوَانٌ، لا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ، ولا تَثْبُتُ عَلَيْهِ الْعُقُولُ فَقَالُوا: نَنْشُدُكَ اللَّهَ أَلا تَرَى مَا نَرَى! أَلا تَرَى الإِسْلامَ! أَلا تَرَى الْفِتْنَةَ! أَلا تَخَافُ اللَّهَ! فَقَالَ: قَدْ أَجَبْتُكُمْ لِمَا أَرَى، وَاعْلَمُوا إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ، وَإِنْ تَرَكْتُمُونِي فَإِنَّمَا أَنَا كَأَحَدِكُمْ، إِلا أَنِّي أَسْمَعُكُمْ وَأَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ، ثُمَّ افْتَرَقُوا عَلَى ذَلِكَ وَاتَّعَدُوا الْغَدَ. [27]طبری،محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۴۵۶۔

امت اسلامیہ نے امام علیؑ کے ہاتھوں پر بیعت کر لی لیکن بعض افراد نے مجبوری کے عالم میں بیعت کی جیسے طلحہ نے نہ چاہتے ہوئے بیعت اور متعددافراد ایسے تھے جنہوں نے بیعت سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے جن کے نام طبری نے درج ذکر کیے ہیں:

وَحَدَّثَنِي الْحَارِثُ، قَالَ: حدثنا ابن سعد، قال: أخبرنا مُحَمَّد بن عمر، قال: حدثني أبو بكر بن إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وقاص، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ طَلْحَةُ: بَايَعْتُ وَالسَّيْفُ فَوْقَ رَأْسِي- فَقَالَ سَعْدٌ: لا أَدْرِي وَالسَّيْفُ عَلَى رَأْسِهِ أَمْ لا، إِلا أَنِّي أَعْلَمُ أَنَّهُ بَايَعَ كَارِهًا- قَالَ: وَبَايَعَ النَّاسُ عَلِيًّا بِالْمَدِينَةِ، وَتَرَبَّصَ سَبْعَةُ نَفَرٍ فَلَمْ يُبَايِعُوهُ، مِنْهُمْ:
سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَمِنْهُمُ ابْنُ عُمَرَ، وَصُهَيْبٌ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَمُحَمَّدُ ابن مَسْلَمَةَ، وَسَلَمَةُ بْنُ وَقْشٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَلَمْ يَتَخَلَّفْ أَحَدٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِلا بَايَعَ فِيمَا نَعْلَمُ. [28]طبری،محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص۴۵۳۔
ترجمہ: طلحہ کہتے ہیں : میں نے اس حالت میں بیعت کی کہ میرے سر کے اوپر تلوار تھی، سعد نے کہا: مجھے نہیں معلوم اس کے سر پر تلوار تھی یا نہیں، البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس نے ناگواری کی حالت میں بیعت کی ۔اس نے مزید کہا: مدینہ میں لوگوں نے امام علیؑ کے ہاتھوں میں بیعت کر لی اور (مہاجرین میں سے) سات افراد رہ گئے جنہوں نے ان کی بیعت نہیں کی جن میں سعد بن ابی وقاص ایک ہیں اور انہی میں سے ابن عمر، صہیب، زید بن ثابت، محمد بن مسلمہ، سلمہ بن وقش اور اسامہ بن زید ہیں ، جہاں تک ہمیں معلوم ہے انصار میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے امام علیؑ کے ہاتھوں بیعت نہ کی ہو۔

امام علیؑ کی حضرت عثمان کے ساتھ کچھ بحث ہو گئی ۔ وہاں مغیرہ بن اخنس موجود تھا ، اس نے عثمان سے کہا کہ میں آپ کی طرف سے ان سے نپٹ لیتا ہوں ، امام علیؑ نے ابن اخنس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: 

يَا ابْنَ اللَّعِينِ الْأَبْتَرِ وَالشَّجَرَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا وَلَا فَرْعَ أَنْتَ تَكْفِينِي فَوَ اللَّهِ مَا أَعَزَّ اللَّهُ مَنْ أَنْتَ نَاصِرُهُ وَلَا قَامَ مَنْ أَنْتَ مُنْهِضُهُ اخْرُجْ عَنَّا أَبْعَدَ اللَّهُ نَوَاكَ، ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَكَ فَلَا أَبْقَى اللَّهُ عَلَيْكَ إِنْ أَبْقَيْت‏. [29]سید رضی، نہج البلاغہ، ص  ۱۹۳، کلام: ۱۳۵۔

ترجمہ: اے بے اولاد لعین کے بیٹے اور ایسے درخت کے پھل جس کی نہ کوئی جڑ ہے نہ شاخ، تو بھلا مجھ سے کیا نپٹے گا ! خدا کی قسم ! جس کا تجھ جیسا مددگار ہو اللہ اُسے غلبہ و سرفرازی نہیں دیتا اور جس کا تجھ جیسا ابھارنے والا ہو وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا، ہم سے دُور رہو، اللہ تیری منزل کو دور ہی رکھے اور اس کے بعد جو بَن پڑے کرنا اور اگر تھوڑا سا بھی مجھ پر ترس کھاؤ تو اللہ تم پر رحم نہ کرے۔

مغیرہ بن اخنس ثقفی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اور حضرت عثمان کا دفاع کرتے ہوئے ان کے گھر میں ان کے ساتھ قتل ہوا۔ اس نے رجز پڑھنے کے بعد لوگوں کے اوپر حملہ کیا ، انہی میں سے ایک نے اس کی پنڈلیوں پر وار کیا اور انہیں کاٹ ڈالایہاں تک وہ قتل ہو گیا۔ [30]قرطبی، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۴۴۴، رقم: ۲۴۷۹۔

حضرت عثمان کی عطا کردہ جائیداد کو پلٹا دینا

امام علیؑ نے جب حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں مسلمانوں کو پلٹا دیں تو فرمایا : 

وَاللَّهِ لَوْ وَجَدْتُهُ قَدْ تُزُوِّجَ بِهِ النِّسَاءُ وَمُلِكَ بِهِ الْإِمَاءُ لَرَدَدْتُهُ فَإنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً وَمَنْ ضَاقَ عَلَيْهِ الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْهِ أَضْيَق‏. [31]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۷، کلام: ۱۵۔

ترجمہ:  خدا کی قسم! اگر مجھے ایسا مال نظر آیا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صَرف کیا جا چکا ہو تو میں اُسے بھی پلٹا دوں گا، کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو تو اُسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہو گی۔

بنو امیہ کا امام علیؑ پر قتلِ عثمان کی تہمت لگانا

اسی طرح ایک اور جگہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا کہ جب امام علیؑ کو معلوم ہوا کہ بنی امیہ آپؑ پر الزام تراشی کر رہے ہیں کہ آپؑ بھی قتلِ عثمان میں شریک تھے تو اس وقت  امام علیؑ نے فرمایا:

أَ وَلَمْ یَنْهَ بَنِی أُمَیَّهَ عِلْمُهَا بِی عَنْ قَرْفِی أَ وَمَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِی عَنْ تُهَمَتِی وَلَمَا وَعَظَهُمُ اللَّهُ بِهِ أَبْلَغُ مِنْ لِسَانِی أَنَا حَجِیجُ الْمَارِقِینَ وَخَصِیمُ اَلنَّاکِثِینَ الْمُرْتَابِینَ وَعَلَی کِتَابِ اللَّهِ تُعْرَضُ الْأَمْثَالُ وَبِمَا فِی الصُّدُورِ تُجَازَی الْعِبَادُ! [32]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۰۳، کلام: ۷۵۔

ترجمہ:  میرے متعلق سب کچھ جاننے بوجھنے نے بنی امیہ کو مجھ پر افتراء پردازیوں سے باز نہیں رکھا اور نہ ہی میری سبقتِ ایمانی اور دیرینہ اسلامی خدمات نے ان جاہلوں کو اتہام لگانے سے روکا  اور جو اللہ نے کذب و افتراء پردازی کے متعلق انہیں نصیحت کی ہے وہ میرے بیان سے کہیں بلیغ ہے۔ میں ان بے دینوں پر حجت لانے والا ہوں اور دین میں شک و شبہ کا شکار ہونے والے فریق کے مخالف ہوں  اور تمام مشتبہ باتوں کو قرآن پر پیش کیا جانا چاہیے اور بندوں کی  جیسی نیت ہو گی ویسا ہی انہیں پھل ملے گا۔

قتل عثمان کے حقیقی قاتل 

حضرت عثمان کے قتل کو بہانہ بنا کر امام علیؑ کے خلاف علم بغاوت کھڑا کر دیا گیا اور پے درپے فتنوں کی آگ بھڑکائی گئی۔ امیر المؤمنین ؑ نے فتنوں کی آگ کو بجھانے اور حکومت پر حریص نفوس کو سمجھانے کی ہر سعی و کوششش کی لیکن حالات بگڑتے چلے گئے ۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:

أَلاَ وَإِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ ذَمَّرَ حِزْبَهُ، وَاسْتَجْلَبَ جَلَبَهُ لِیَعُودَ الْجَوْرُ إِلَی أَوْطَانِهِ، وَیَرْجِعَ الْبَاطِلُ إِلَی نِصَابِهِ، وَاللَّهِ مَا أَنْکَرُوا عَلَیَّ مُنْکَراً وَلاَ جَعَلُوا بَیْنِی وَبَیْنَهُمْ نَصِفاً. وَإِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً هُمْ تَرَكُوهُ وَدَماً هُمْ سَفَكُوهُ، [فَإِنْ‏] فَلَئِنْ كُنْتُ شَرِيكَهُمْ فِيهِ فَإِنَّ لَهُمْ لَنَصِيبَهُمْ مِنْهُ، وَ[إِنْ‏] لَئِنْ كَانُوا وَلُوهُ دُونِي فَمَا التَّبِعَةُ إِلَّا عِنْدَهُمْ، وَإِنَّ أَعْظَمَ حُجَّتِهِمْ لَعَلَى أَنْفُسِهِمْ يَرْتَضِعُونَ، أُمّاً قَدْ فَطَمَتْ وَيُحْيُونَ بِدْعَةً قَدْ أُمِيتَتْ، يَا خَيْبَةَ الدَّاعِي مَنْ دَعَا وَإِلَامَ أُجِيبَ وَإِنِّي لَرَاضٍ بِحُجَّةِ اللَّهِ عَلَيْهِمْ وَعِلْمِهِ فِيهِم‏. [33]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۶۳، کلام: ۲۲۔

ترجمہ:  معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کر دیا ہے اور اپنی فوجیں فراہم کر لی ہیں تاکہ ظلم اپنی انتہا کی حد تک اور باطل اپنے مقام پر پلٹ آئے۔ اللہ کی قسم انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایااور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا ہے۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے خود انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے خود انہوں نے بہایا ہے۔ اب اگر (بالفرض) میں اس میں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں میں نہیں تو پھر اس کی سزا بھی صرف انہی کو بھگتنا چاہیے۔ وہ جو سب سے بڑی دلیل میرے خلاف پیش کریں گے وہ انہی کے خلاف جاتی ہے۔ وہ اس ماں کا دودھ پینا چاہتے جس کا دودھ منقطع ہو چکا ہے  اور وہ مری ہوئی بدعت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اُف ! کتنا نامراد ہے یہ جنگ کے لیے پکارنے والا ۔ یہ ہے کون جو للکارنے والا ہے  اور کس مقصد کے لیے اس کی بات کو سُنا جا رہا ہے۔ میں تو اس میں خوش ہوں کہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہو چکی ہے اور ہر چیز اس کے علم میں ہے۔ اگر ان لوگوں نے اطاعت سے انکار کیا تو میں ’’تلوار کی باڑ‘‘ ان کے سامنے رکھ دوں گا جو باطل سے شفاء دینے اور حق کی نصرت کے لیے کافی ہے۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں نیزہ زنی کے لیے میدان میں اُتر آؤں اور تلواروں کی جنگ کے لیے جمنے پر تیار رہوں!! رونے والیاں ان کے غم میں روئیں،میں تو ہمیشہ ایسا رہا ہوں کہ جنگ سے مجھے دھمکایا نہیں جا سکا اور شمشیر زنی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے یقین کے درجہ پرفائز ہوں اور اپنے دین کی حفاظت میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔

قتل عثمان پر امام علیؑ کا منصفانہ موقف

امام علیؑ نے حضرت عثمان کے قتل کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا:

لَوْ أَمَرْتُ بِهِ لَكُنْتُ قَاتِلًا أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ لَكُنْتُ نَاصِراً، غَيْرَ أَنَّ مَنْ نَصَرَهُ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ خَذَلَهُ مَنْ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ وَمَنْ خَذَلَهُ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ نَصَرَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، وَأَنَا جَامِعٌ لَكُمْ أَمْرَهُ اسْتَأْثَرَ فَأَسَاءَ الْأَثَرَةَ وَجَزِعْتُمْ فَأَسَأْتُمُ الْجَزَعَ وَلِلَّهِ حُكْمٌ وَاقِعٌ فِي الْمُسْتَأْثِرِ وَالْجَازِع‏. [34]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۶۳، کلام: ۳۰۔

ترجمہ:  اگر میں ان کے قتل کا حکم دیا تھا تو میں ان کا قاتل ٹھہرتا اور اگر میں ان کے قتل سے دوسروں کو روکتا تو میں (حضرت عثمان) کا معاون و مددگار ہوتا، لیکن میں مکمل غیر جانبدار رہا ، البتہ حالات ایسے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی نصرت و امداد کی وہ یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ ہم ان کی نصرت نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں اور جن لوگوں نے ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا وہ یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے ہم سے بہتر و بدتر ہیں۔ میں تم کو اس امر کی حقیقت بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عزیزوں کی طرفداری کی تو بُرے طریقے سے طرفداری کی اور تم جب گھبرا گئے تو بُرے طریقے سے گھبرا گئے اور ان دونوں فریقوں کی بے جا طرفداری کرنے والے اور گھبرا کر اٹھنے والوں کے درمیان اصل فیصلہ اللہ کرنے والا ہے۔

قتل عثمان میں طلحہ کا کردار 

طلحہ ابن عبید اللہ طویل عرصہ سے خلافت کے خواب دیکھ رہے تھے اور مختلف حربے استعمال کر کے زمامِ حکومت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے تھے۔ جب حضرت عثمان کے خلاف غوغاء برپا ہو گیا تو طلحہ لوگوں کو مزید ابھارنے اور فتنے کی آگ کو تیز کرنے والوں میں سے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد طلحہ نے ام المؤمنین کو اپنے ساتھ ملایا اور لشکر لے امام علیؑ کے مقابلے میں آیا گیا۔ نیز اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اگر حالات سازگار ہو جاتے اور حضرت عثمان کو کے قاتلوں کو عدالتی ضابطوں کے تحت سزا دی جاتی تو قانون کی گرفت میں طلحہ کا نام بھی آ جاتا۔ پس ایک طرف طلحہ حکومت کے عہدوں اور منصبوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور دوسری طرف قاتلانِ عثمان کی فہرست میں نام آنے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے طلحہ کی خواہش تھی کہ ایسا موقع فراہم نہ ہو سکے۔ امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں اس امر کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:

قَدْ كُنْتُ وَمَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ وَلَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ وَأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ وَاللَّهِ مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِهِ لِأَنَّهُ مَظِنَّتُهُ وَلَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْهِ مِنْهُ فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيهِ لِيَلْتَبِسَ الْأَمْرُ وَيَقَعَ الشَّكُّ. وَوَاللَّهِ مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيهِ وَأَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيهِ. وَلَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ عَنْهُ وَالْمُعَذِّرِينَ فِيهِ وَلَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَعْتَزِلَهُ وَيَرْكُدَ جَانِباً وَيَدَعَ النَّاسَ مَعَهُ فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ وَجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُهُ وَلَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه‏. [35]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۴۹، کلام:۱۷۴۔

ترجمہ:  مجھے تو کبھی بھی حرب و ضرب سے دھمکایا اور ڈرایا نہیں جا سکا ہے ۔ میں اپنے پروردگار کے کیے ہوئے وعدہِ نصرت پر مطمئن ہوں۔ اللہ کی قسم! وہ (طلحہ) خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے لیے کھنچی ہوئی تلوار کی طرح اس لیے اٹھ کھڑے ہوا ہے کیونکہ اسے یہ ڈر ہے کہ کہیں اسی سے ان کے خون کا مطالبہ نہ لینے شروع کر دیا جائے!! کیونکہ لوگوں کا اس کے متعلق ظنِ غالب یہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قتل کرنے والی جماعت میں اس سے بڑھ کر ان کے خون کا پیاسا ایک بھی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے خون کا عوض لینے کے سلسلہ میں جو فوجیں فراہم کی ہیں اس سے یہ چاہا ہے کہ لوگوں کو مغالطہ دے تاکہ حقیقت ان پر مشتبہ ہو جائے اور لوگ اس میں شک میں پڑ جائیں۔ اللہ کی قسم! اس (طلحہ) نے عثمان کے معاملہ میں ان تین باتوں میں سے ایک بات پر بھی عمل نہیں کیا۔ اگر ابن عفان جیساکہ اس کا خیال تھا کہ ظالم تھے تو اس صورت میں اسے چاہیے تھا کہ ان کے قاتلوں کی مدد کرتا اور ان کے مددگاروں سے علیحدگی اختیار کرتا ۔ اگر وہ مظلوم تھے تو اس صورت میں اس کے لیے مناسب تھا کہ ان کے قتل سے روکنے والوں اور ان کی طرف عذر معذرت کرنے والوں میں ہوتا اور اگر ان دونوں باتوں میں اسے شبہ تھا تو اس صورت میں اسے یہ چاہیے تھا کہ ان سے کنارہ کش ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا (کہ وہ جانیں اور ان کا کام)۔ لیکن اس نے ان باتوں میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا اور ایک ایسی بات کو لے کر سامنے آ گیا ہے کہ جس کی صحیح  ہونے کی کوئی صورت ہے ہی نہیں اور نہ اس کا کوئی عذر قابل قبول ہے۔ 

امام علیؑ نے اس خطبہ میں مانع الخلو کی صورت میں واضح بیان کہ طلحہ کا معاملہ تین صورتوں سے خالی نہیں ہے: ۱۔ یا تو طلحہ حضرت عثمان کو ظالم سمجھتا ہے اس صورت میں اس کو قاتلین کا ساتھ دینا چاہیے تھا اور حضرت عثمان کے مددگاروں سے رابطہ منقطع کرنا چاہیے اور یہ کام انہوں نے نہیں کیا، ۲۔ یا طلحہ حضرت عثمان مظلوم سمجھتا ہے، اس صورت میں اس کو حضرت عثمان کا ساتھ دینا چاہیے اور یہ کام انہوں نے نہیں ، ۳۔ یا طلحہ کو شک و شبہ ہے کہ حضرت عثمان ظالم ہیں یا مظلوم؟! اس صورت میں اس کو بغیر کسی کی حمایت یا مخالفت کے خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ جانا چاہیے اور یہ کام بھی انہوں نے نہیں کیا!!

 زمام خلافت سنبھالنے کے بعد خطبہِ امام علیؑ  

فتنہ گر اور سازشی عناصر نے جب حضرت عثمان کو قتل کر دیا اور امام علیؑ کے ہاتھوں میں بیعت ہو چکی تو اس وقت بھی امام علیؑ نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ تم لوگوں نے نامناسب اور غلط جذبات کا مظاہرہ کیا جوکہ قابل تعریف نہیں ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے معافی مانگو اور سعادت مند زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو۔ امام علیؑ کا یہ پہلا خطبہ تھا جو آپؑ نے خلافت کے بعد دیا جس کا ایک حصہ یہ ہے:

 لَا يَشْغَلُهُ شَأْنٌ وَلَا يُغَيِّرُهُ زَمَانٌ وَلَا يَحْوِيهِ مَكَانٌ وَلَا يَصِفُهُ لِسَانٌ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ عَدَدُ قَطْرِ الْمَاءِ وَلَا نُجُومِ السَّمَاءِ وَلَا سَوَافِي الرِّيحِ فِي الْهَوَاءِ وَلَا دَبِيبُ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا وَلَا مَقِيلُ الذَّرِّ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ يَعْلَمُ مَسَاقِطَ الْأَوْرَاقِ وَخَفِيَّ طَرْفِ‏ الْأَحْدَاقِ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ غَيْرَ مَعْدُولٍ بِهِ وَلَا مَشْكُوكٍ فِيهِ وَلَا مَكْفُورٍ دِينُهُ وَلَا مَجْحُودٍ تَكْوِينُهُ شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِيَّتُهُ وَصَفَتْ دِخْلَتُهُ وَخَلَصَ يَقِينُهُ وَثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ الَمْجُتْبَىَ مِنْ خَلَائِقِهِ وَالْمُعْتَامُ لِشَرْحِ حَقَائِقِهِ وَالْمُخْتَصُّ بِعَقَائِلِ كَرَامَاتِهِ وَالْمُصْطَفَى لِكَرَائِمِ رِسَالاتِهِ وَالْمُوَضَّحَةُ بِهِ أَشْرَاطُ الْهُدَى وَالْمَجْلُوُّ بِهِ غِرْبِيبُ الْعَمَى، أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الدُّنْيَا تَغُرُّ الْمُؤَمِّلَ لَهَا وَ الْمُخْلِدَ إِلَيْهَا وَلَا تَنْفَسُ بِمَنْ نَافَسَ فِيهَا وَتَغْلِبُ مَنْ غَلَبَ عَلَيْهَا وَايْمُ اللَّهِ مَا كَانَ قَوْمٌ قَطُّ فِي غَضِّ نِعْمَةٍ مِنْ عَيْشٍ فَزَالَ عَنْهُمْ إِلَّا بِذُنُوبٍ اجْتَرَحُوهَا لِـ { أَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ } وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ حِينَ تَنْزِلُ بِهِمُ النِّقَمُ وَتَزُولُ عَنْهُمُ النِّعَمُ فَزِعُوا إِلَى رَبِّهِمْ بِصِدْقٍ مِنْ نِيَّاتِهِمْ وَوَلَهٍ مِنْ قُلُوبِهِمْ لَرَدَّ عَلَيْهِمْ كُلَّ شَارِدٍ وَأَصْلَحَ لَهُمْ كُلَّ فَاسِدٍ وَإِنِّي لَأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تَكُونُوا فِي فَتْرَةٍ وَقَدْ كَانَتْ أُمُورٌ مَضَتْ مِلْتُمْ فِيهَا مَيْلَةً كُنْتُمْ فِيهَا عِنْدِي غَيْرَ مَحْمُودِينَ وَلَئِنْ رُدَّ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ إِنَّكُمْ لَسُعَدَاءُ وَمَا عَلَيَّ إِلَّا الْجُهْدُ وَلَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُولَ لَقُلْتُ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَف‏‏. [36]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۵۷، خطبہ:۱۷۸۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو ایک حالت دوسری حالت سے سدّ ِراہ نہیں ہو سکتی ، نہ زمانہ اس میں تبدیلی پیدا کرتا ہے اور نہ کوئی جگہ اس کو گھیرتی ہے اور نہ زبان اس کا وصف کر سکتی ہے، اس سے پانی کے قطروں، اور آسمان کے ستاروں، اور ہوا کے جھکڑوں کا شمار، چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز اور اندھیری رات میں چھوٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ (غرض) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھوں کے چوری چھپے اشاروں کو جانتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، نہ اس کا کوئی ہمسر ہے اور نہ اس کی ہستی میں کوئی شبہ ، نہ اس کے دین سے سرتابی ہو سکتی ہے اور نہ اس کی آفرینش سے انکار، اس شخص کی گواہی جس کی نیت سچی ، باطن پاکیزہ ، یقین شبہوں سے پاک اور اس کے نیک اعمال کا پلہ بھاری ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں اور مخلوقات میں منتخب ، بیانِ شریعت کے لیے برگزیدہ ، گراں بہا بزرگیوں سے مخصوص اور عمدہ پیغاموں کے پہنچانے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ آپ کے ذریعہ سے ہدایت کے نشانات روشن کیے گئے اور گمراہی کی تیرگیوں کو چھانٹا گیا۔ اے لوگو ! جو شخص دنیا کی آرزوئیں کرتا ہے اور اس کی جانب کھینچتا چلا جاتا ہے وہ اس کا انجام کار دھوکہ و فریب قرار دیتی ہے اور جو اس کا خواہش مند ہوتا ہے وہ اس سے بخل نہیں کرتی اور جو اس پر چھا جاتا ہے وہ اس پر قابو پا  لتی ہے۔ اللہ کی قسم! جن لوگوں کے پاس زندگی کی تروتازہ و شاداب نعمتیں تھیں اور پھر وہ ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں تو وہ  ان کے گناہوں کے مرتکب ہونےکی پاداش ہے کیونکہ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ اگر لوگ اس وقت کہ جب ان پر مصیبتیں ٹوٹ رہی ہوں اور نعمتیں ان سے زائل ہو رہی ہوں صدقِ نیت و رجوعِ قلب سے اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوں تو  اللہ برگشتہ ہو جانےوالی نعمتوں کو پھر ان کی طرف پلٹا دیتا ہے اور ہر خرابی کی اصلاح کر دیتا ہے۔ مجھے تم سے یہ اندیشہ ہے کہ کہیں تم جہالت و نادانی میں نہ پڑ جاؤ۔ کچھ واقعات ایسے ہو گزرے ہیں کہ جن میں تم نے نامناسب جذبات سے کام لیا۔ میرے نزدیک تم ان میں سراہنے کے قابل نہیں ہو۔ اگر تمہیں پہلی روش پر پھر لگا دیا جائے تو تم یقیناً نیک بخت و سعادت مند بن جاؤ گے۔ میرا کام تو صرف کوشش کرنا ہے۔ اگر میں کچھ کہنا چاہوں تو البتہ یہی کہوں گا کہ اللہ تمہاری گذشتہ لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ 

حضرت عثمان کے امام علیؑ سے بے بنیاد تقاضے  

حضرت عثمان نے حالتِ محاصرہ میں امام علیؑ کو ایک خط لکھا جسے ابن عباس کے ہاتھوں امامؑ تک پہنچوایا۔ اس مکتوب میں امام علیؑ سے تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ مدینہ ترک کر کے ینبع کے مقام پر منتقل ہو جائیں۔ عبد اللہ ابن عباس جب وہ مکتوب لے کر آئے تو امامؑ نے ناراحتی کا اظہار فرمایا اور یہ کلمات ارشاد فرمائے:

يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا يُرِيدُ عُثْمَانُ إِلَّا أَنْ يَجْعَلَنِي جَمَلًا نَاضِحاً بِالْغَرْبِ أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ ثُمَّ بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَقْدُمَ ثُمَّ هُوَ الْآنَ يَبْعَثُ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ وَاللَّهِ لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْهُ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ أَكُونَ آثِما. [37]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۵۸، خطبہ:۲۴۰۔

ترجمہ: اے ابن عباس! عثمان تو بس یہ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے اپنا شُتر آب کش بنا لیں کہ جو ڈول کے ساتھ کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹتا ہے۔ انہوں نے پہلے بھی یہی پیغام بھیجا تھأ کہ میں مدینہ سے باہر نکل جاؤں اور اس کے بعد یہ کہلوا بھیجا کہ میں پلٹ آؤں۔ اب بھر وہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں یہاں سے چلا جاؤں !! جہاں تک مناسب تھا میں نے ان کو بچایا، اب تو مجھے ڈر ہے کہ میں ان کی مدد کرنے سے کہیں گنہگار نہ ہو جاؤں!

فتنہِ جنگ پر مخالفینِ عثمان کو عیاں کرنا

امام علیؑ کے خلاف بصرہ میں جب محاذ آمادہ کر دیا گیا اور صلح صفائی کی تمام راہوں کو مخالفین نے بند کر دیا تو امام علیؑ نے مدینہ سے بصرہ کی طرف کوچ کیا اور روانہ ہوتے ہوئے اصل حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے ایک مکتوب تحریر کیا اور اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا۔ اس مکتوب کے الفاظ درج ذیل یہ تھے:

مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ جَبْهَةِ الْأَنْصَارِ وَسَنَامِ الْعَرَبِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَمْرِ عُثْمَانَ حَتَّى يَكُونَ سَمْعُهُ كَعِيَانِهِ إِنَّ النَّاسَ طَعَنُوا عَلَيْهِ فَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أُكْثِرُ اسْتِعْتَابَهُ وَأُقِلُّ عِتَابَهُ وَكَانَ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ أَهْوَنُ سَيْرِهِمَا فِيهِ الْوَجِيفُ وَأَرْفَقُ حِدَائِهِمَا الْعَنِيفُ-* وَكَانَ مِنْ عَائِشَةَ فِيهِ فَلْتَةُ غَضَبٍ فَأُتِيحَ لَهُ قَوْمٌ [قَتَلُوهُ‏] فَقَتَلُوهُ وَبَايَعَنِي النَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ وَلَا مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِينَ وَاعْلَمُوا أَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ قَدْ قَلَعَتْ بِأَهْلِهَا وَقَلَعُوا بِهَا وَجَاشَتْ جَيْشَ الْمِرْجَلِ وَقَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَى الْقُطْبِ فَأَسْرِعُوا إِلَى أَمِيرِكُمْ وَ بَادِرُوا جِهَادَ عَدُوِّكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَل‏. [38]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶۳، مکتوب: ۱۔

ترجمہ: اللہ کے بندے علی امیر المؤمنینؑ کی طرف سے ، اہل کوفہ کے نام  جوکہ مددگاروں میں سرفہرست اور قومِ عرب میں بلند نام ہیں۔ میں عثمان کے معاملہ سے تمہیں آگاہ کر دیتا ہوں کہ سننے اور دیکھنے میں کوئی فرق نہ رہے۔ لوگوں نے ان پر اعتراضات کیے تو مہاجرین میں سے ایک میں تھا جو زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور شکوہ شکایت بہت کم کرتا تھا۔ البتہ ان کے بارے میں طلحہ و زبیر کی ہلکی سے ہلکی رفتار و رویہ بھی تند و تیز تھا اور نرم سے نرم آواز بھی سختی و درشتی لیے ہوئے تھی اور ان پر عائشہ کو بھی بے تحاشہ غصہ تھا۔ چنانچہ ایک گروہ آمادہ ہو گیا اور اس نے انہیں قتل کر دیا اور لوگوں نے میری بیعت کر لی ۔ اس طرح کہ ان پر کوئی زبردستی تھی اور نہ انہیں مجبور کیا گیا تھا۔ بلکہ لوگوں نے رغبت و اختیار سے ایسا کیا تھا۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دارِ ہجرت (مدینہ) اپنے رہنے والوں سے خالی ہو گیا ہے اور اس کے باشندوں کے قدم وہاں سے اُکھڑ  چکے ہیں اور وہ دیگ کی طرح اُبل رہا ہے اور فتنہ کی چَکی چلنے والی ہے ۔ لہٰذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے بڑھو اور اپنے دشمنوں سے جہاد کرنے کے لیے جلدی سے نکل کھڑے ہو۔

معاویہ کا قتل عثمان کو بہانہ بنانا

معاویہ نے جب امام علیؑ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور خونِ عثمان کے بدلے کو بہانہ بنا کر فتنہ برپا کرنا چاہا تو امام علیؑ نے مختلف طریقوں سے سمجھانےکی کوشش کی اور اپنے موقف کو واضح کیا ۔ انہی کوششوں میں سے ایک مکتوب امام علیؑ کا درج ذیل ہے: 

إِنَّهُ بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ‏ عَلَيْهِ فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ وَلَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ وَإِنَّمَا الشُّورَى لِلْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَسَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا، فَإِنْ خَرَجَ عَنْ أَمْرِهِمْ خَارِجٌ بِطَعْنٍ أَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوهُ إِلَى مَا خَرَجَ مِنْهُ، فَإِنْ أَبَى قَاتَلُوهُ عَلَى اتِّبَاعِهِ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ، وَوَلَّاهُ اللَّهُ مَا تَوَلَّى وَلَعَمْرِي يَا مُعَاوِيَةُ لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِكَ دُونَ هَوَاكَ لَتَجِدَنِّي أَبْرَأَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ وَلَتَعْلَمَنَّ أَنِّي كُنْتُ فِي عُزْلَةٍ عَنْهُ إِلَّا أَنْ تَتَجَنَّى فَتَجَنَّ مَا بَدَا لَكَ وَالسَّلَام‏‏. [39]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶۷، مکتوب: ۶۔

ترجمہ: جن لوگوں نے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے اور اس کی بناء پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے ردّ کرنے کا اختیار نہیں اور شوری کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے ۔ وہ اگر کسی پر ایکا کریں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائے گی ۔ اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہو جائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں کیونکہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے اور جدھر وہ پھر گیا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے اُدھر ہی پھیر دے گا۔ اے معاویہ! میری جان کی قسم اگر تم اپنی نفسانی خواہشوں سے دور رہو کر عقل سے دیکھو تو سب لوگوں سے زیادہ مجھے عثمان کے خون سے بَری پاؤ گے۔ مگر یہ کہ تم بہتان باندھ کر کھلی ہوئی چیزوں پر پردہ ڈالنے لگو، والسلام۔

معاویہ کو سخت الفاظ میں تنبیہ

معاویہ کو سمجھانے اور فتنوں کی آگ کو بجھانے کے لیے امام علیؑ نے ایک مکتوب معاویہ کے نام تحریر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: 

فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِيِّنَا وَاجْتِيَاحَ أَصْلِنَا وَهَمُّوا بِنَا الْهُمُومَ وَفَعَلُوا بِنَا الْأَفَاعِيلَ وَمَنَعُونَا الْعَذْبَ وَأَحْلَسُونَا الْخَوْفَ وَاضْطَرُّونَا إِلَى جَبَلٍ وَعْرٍ وَأَوْقَدُوا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ فَعَزَمَ اللَّهُ لَنَا عَلَى الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِهِ وَالرَّمْيِ مِنْ وَرَاءِ [حَوْمَتِهِ‏] حُرْمَتِهِ مُؤْمِنُنَا يَبْغِي بِذَلِكَ الْأَجْرَ وَكَافِرُنَا يُحَامِي عَنِ الْأَصْلِ وَمَنْ أَسْلَمَ مِنْ قُرَيْشٍ خِلْوٌ مِمَّا نَحْنُ فِيهِ بِحِلْفٍ يَمْنَعُهُ أَوْ عَشِيرَةٍ تَقُومُ دُونَهُ فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَكَانِ أَمْنٍ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ- وَأَحْجَمَ النَّاسُ قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِهِ فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَهُ حَرَّ السُّيُوفِ وَالْأَسِنَّةِ فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ وَقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ وَقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ وَأَرَادَ مَنْ لَوْ شِئْتُ ذَكَرْتُ اسْمَهُ مِثْلَ الَّذِي أَرَادُوا مِنَ الشَّهَادَةِ وَ لَكِنَّ آجَالَهُمْ عُجِّلَتْ وَ مَنِيَّتَهُ [أُخِّرَتْ‏] أُجِّلَتْ فَيَا عَجَباً لِلدَّهْرِ إِذْ صِرْتُ يُقْرَنُ بِي مَنْ لَمْ يَسْعَ بِقَدَمِي  وَلَمْ تَكُنْ لَهُ كَسَابِقَتِي الَّتِي لَا يُدْلِي أَحَدٌ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَدَّعِيَ مُدَّعٍ مَا لَا أَعْرِفُهُ وَلَا أَظُنُّ اللَّهَ يَعْرِفُهُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَأَمَّا مَا سَأَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ إِلَيْكَ فَإِنِّي نَظَرْتُ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلَمْ أَرَهُ يَسَعُنِي دَفْعُهُمْ إِلَيْكَ وَلَا إِلَى غَيْرِكَ وَلَعَمْرِي لَئِنْ لَمْ تَنْزِعْ عَنْ غَيِّكَ وَشِقَاقِكَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِيلٍ يَطْلُبُونَكَ لَا يُكَلِّفُونَكَ طَلَبَهُمْ فِي بَرٍّ وَلَا بَحْرٍ وَلَا جَبَلٍ وَلَا سَهْلٍ إِلَّا أَنَّهُ طَلَبٌ يَسُوءُكَ وِجْدَانُهُ وَزَوْرٌ لَا يَسُرُّكَ لُقْيَانُهُ وَالسَّلَامُ لِأَهْلِه‏‏‏. [40]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶۹، مکتوب: ۹۔

ترجمہ: ہماری قوم (قریش) نے ہمارے نبی ﷺ کو قتل کرنے اور ہماری جڑ اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا اور ہمارے لیے غم و اندوہ کے سروسامان کیے اور بُرے سے بُرے برتاؤ ہمارے ساتھ روا رکھے۔ ہمیں آرام و راحت سے روک دیا اور مستقل طور پر خوف و دہشت سے دوچار کر دیا اور ایک سنگلاخ و ناہموار پہاڑ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور ہمارے لیے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ مگر اللہ نے ہماری ہمت باندیھی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے دین کی حفاظت کریں اور ان کے دامنِ حرمت پر آنچ نہ آنے دیں۔ ہمارے مومن ان سختیوں کی وجہ سے ثواب کے امیداور تھے اور ہمارے کافر قرابت کی بناء پر حمایت ضروری سمجھتے تھے۔ قریش میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے وہ ہم پر آنے والی مصیبتوں سے کوسوں دُور تھے ، اس عہدو پیمان کی وجہ سے کہ جو ان کی حفاظت کرتا تھا یا اس قبیلے کی وجہ سے کہ جو ان کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا تھا ۔ لہٰذا وہ قتل سے محفوظ تھے اور رسالت مآب ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑکتے تھے اور لوگوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگتے تھے تو آنحضرت ﷺ اپنے اہل بیتؑ کو آگے بڑھا دیتے تھے اور یوں انہیں سینہ سپر بنا کر اصحاب کو تیزہ و شمشیر کی مار سے بچا لے جاتے تھے۔ چنانچہ عبیدہ بن حارث ؓ بدر میں ، حمزہؑ احد میں اور جعفرؑ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے۔ ایک اور شخص نے بھی کہ اگر میں چاہوں تو اس کا نام لے سکتا ہوں انہیں لوگوں کی طرح شہید ہونا چاہا لیکن ان کی عمریں جلد پوری ہو گئیں اور اس کی موت پیچھے جا پڑی ۔ اس زمانہِ کج رفتار پر حیرت ہتی ہے کہ میرے ساتھ ایسوں کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے میدانِ سعی میں میری سے تیز گامی کبھی نہیں دکھائی اور نہ ان کے لیے میرے ایسے دیرینہ اسلامی خدمات ہیں۔ ایسے جذبات کہ جن کی مانند کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ کوئی مدعی ایسی چیز کا دعویٰ کر بیٹھے کہ جسے میں نہیں جانتا ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ اللہ اسے جانتا ہو گا (کیونکہ وہ وجود ہی نہیں رکھتا) بہرحال اللہ تعالی کا شکر ہے۔ اے معاویہ! تمہارا یہ مطالبہ جو ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کر دوں تو میں اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ انہیں تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی اور کے حوالے کرنا میرے اختیار سے باہر ہے ۔ میری جان کی قسم! اگر تم اپنی گمراہی اور انتشار پسندی سے باز نہ آئے تو بہت جلد ہی انہیں پہچان لو گے، وہ خود تمہیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے اور تمہیں جنگلوں ، دریاؤں ، پہاڑوں اور میدانوں میں ان کے ڈھونڈنے کی زحمت نہ دیں گے۔ مگر یہ ایک ایسا مطلوب ہو گا جس کا حصول تمہارے لیے ناگواری کا باعث ہو گا اور وہ آنے والے ایسے ہوں گے جن کی ملاقات تمہیں خوش نہ کر سکے گی۔سلام اس پر جو اس کا اہل ہے۔

معاویہ کو نصیحت اور تنبیہ

امام علیؑ نے معاویہ کو ایک خط میں تحریر فرمایا:

وَكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ إِذَا تَكَشَّفَتْ عَنْكَ جَلَابِيبُ مَا أَنْتَ فِيهِ مِنْ دُنْيَا قَدْ تَبَهَّجَتْ بِزِينَتِهَا وَخَدَعَتْ بِلَذَّتِهَا دَعَتْكَ فَأَجَبْتَهَا وَقَادَتْكَ فَاتَّبَعْتَهَا وَأَمَرَتْكَ فَأَطَعْتَهَا وَإِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ يَقِفَكَ وَاقِفٌ عَلَى مَا* لَا يُنْجِيكَ مِنْهُ [مُنْجٍ‏] مِجَنٌّ فَاقْعَسْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ وَخُذْ أُهْبَةَ الْحِسَابِ وَشَمِّرْ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ وَلَا تُمَكِّنِ الْغُوَاةَ مِنْ سَمْعِكَ وَإِلَّا تَفْعَلْ أُعْلِمْكَ مَا أَغْفَلْتَ مِنْ نَفْسِكَ فَإِنَّكَ مُتْرَفٌ قَدْ أَخَذَ الشَّيْطَانُ مِنْكَ مَأْخَذَهُ وَبَلَغَ فِيكَ أَمَلَهُ وَجَرَى مِنْكَ مَجْرَى الرُّوحِ وَالدَّمِ وَمَتَى كُنْتُمْ يَا مُعَاوِيَةُ سَاسَةَ الرَّعِيَّةِ وَوُلَاةَ أَمْرِ الْأُمَّةِ بِغَيْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ وَلَا شَرَفٍ بَاسِقٍ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ لُزُومِ سَوَابِقِ الشَّقَاءِ وَأُحَذِّرُكَ أَنْ تَكُونَ مُتَمَادِياً فِي غِرَّةِ الْأُمْنِيِّةِ مُخْتَلِفَ الْعَلَانِيَةِ وَالسَّرِيرَةِ وَقَدْ دَعَوْتَ إِلَى الْحَرْبِ فَدَعِ النَّاسَ جَانِباً وَاخْرُجْ إِلَيَّ وَأَعْفِ الْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْقِتَالِ لِتَعْلَمَ أَيُّنَا الْمَرِينُ عَلَى قَلْبِهِ وَالْمُغَطَّى عَلَى بَصَرِهِ فَأَنَا أَبُو حَسَنٍ قَاتِلُ جَدِّكَ وَأَخِيكَ وَخَالِكَ شَدْخاً يَوْمَ بَدْرٍ وَذَلِكَ السَّيْفُ مَعِي وَبِذَلِكَ الْقَلْبِ أَلْقَى عَدُوِّي مَا اسْتَبْدَلْتُ دِيناً وَلَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِيّاً وَإِنِّي لَعَلَى الْمِنْهَاجِ الَّذِي تَرَكْتُمُوهُ طَائِعِينَ وَدَخَلْتُمْ فِيهِ مُكْرَهِينَ وَزَعَمْتَ أَنَّكَ جِئْتَ ثَائِراً بِدَمِ عُثْمَانَ وَلَقَدْ عَلِمْتَ حَيْثُ‏ وَقَعَ دَمُ عُثْمَانَ فَاطْلُبْهُ مِنْ هُنَاكَ إِنْ كُنْتَ طَالِباً فَكَأَنِّي قَدْ رَأَيْتُكَ تَضِجُّ مِنَ الْحَرْبِ إِذَا عَضَّتْكَ ضَجِيجَ الْجِمَالِ بِالْأَثْقَالِ وَكَأَنِّي بِجَمَاعَتِكَ تَدْعُونِي جَزَعاً مِنَ الضَّرْبِ الْمُتَتَابِعِ وَالْقَضَاءِ الْوَاقِعِ وَمَصَارِعَ بَعْدَ مَصَارِعَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَهِيَ كَافِرَةٌ جَاحِدَةٌ أَوْ مُبَايِعَةٌ حَائِدَة. ((سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۷۱،  مکتوب:۱۰۔))

ترجمہ: تم اس وقت کیا کرو گے جب دنیا کے یہ لباس جن میں لپٹے ہووہ تم سے اتر جائیں گے ، یہ دنیا اپنی سج دھج کی جھلک دکھاتی ہےاور اپنے خط و کیف سے ورغلاتی ہے، اس نے تمہیں پکارا تو تم نے لیبک کہی۔ اس نے تمہیں کھینچا تو تم اس کے پیچھے ہو لیے اور اس نے تمہیں حکم دیا تو تم نے اس کی پیروی کی۔ وہ وقت دور نہیں ہے کہ بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے گا کہ جن سے کوئی سپر تمہیں بچا نہ سکے گی۔ لہٰذا اس دعوی سے باز آ جاؤ۔ حساب و کتاب کا سرو سامان کرو اور آنے والی موت کے لیے دامن گردان تیار ہو جاؤ، اور گمراہوں کی باتوں پر کان مت دھرو ۔ اگر تم  نے ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہاری عقلوں پر تمہیں جھنجھوڑ کر متنبہ کروں گا ۔ تم عیش و عشرت میں پڑے ہو ، شیطان نے تم میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے ، وہ تمہارے بارے میں اپنی آرزوئیں پوری کر چکا ہے اور تہمارے اندر روح کی طرح سرایت کر گیا ہے اور خون کی طرح رَگ و پے میں گردش کر رہا ہے۔ اے معاویہ ! بھلا تم لوگ (اولادِ امیہ) کب رعیت پر حکمرانی کی صلاحیت رکھتے تھے اور کب امت کے امور کے ولی و سرپرست تھے؟!! بغیر کسی پیش قدمی اور بغیر کسی بلند عزت و منزلت کے ہم دیرینہ بدبختیوں کے گھر کر لینے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ میں اس چیز پرتمہیں متنبہ کیے دیتا ہوں کہ تم ہمیشہ آرزوؤں کے فریب پر فریب کھاتے ہو اور تمہارا ظاہر باطن سے جدا رہتا ہے۔ تم نے مجھے جنگ کے لیے للکارہے تو ایسا کرو کہ لوگوں کو ایک طرف کر دو اور خود میرے مقابلے میں باہر نکل آؤ۔ دونوں فریق کو کشت و خون سے معاف کرو تاکہ پتہ چل جائے کہ کس کے دل پر زنگ کی تہیں چڑھی ہوئی ہیں اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ میں کوئی اور نہیں وہی ابو الحسنؑ ہوں کہ جس نے تمہارے نانا (عتبہ) تمہارے ماموں (ولید بن عتبہ) اور تمہارے بھائی کے برجچے اڑا کر بدر کے دن قتل کیا تھا ، وہی تلوار اب بھی میرے پاس ہے اور اسی دل گردے کے ساتھ اب بھی دشمن سے مقابلہ کرتا ہوں، نہ میں نے کوئی دین بدلا ہے اور نہ کوئی نیا نبی کھڑا کیا ہے۔ بلا شبہ میں اُسی شاہراہ پر ہوں جسے تم نے اپنے اختیار سے چھوڑ رکھا تھا اور پھر مجبوری میں تم اس میں داخل ہو گئے ۔ تم ایسا ظاہر کرتے ہو کہ تم خونِ عثمان کا بدلہ لینے کو اٹھے ہو ، حالانکہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا خون کس کے سر پر ہے !! اگر واقعی بدلہ ہی لینا منظور ہے تو انہی  سے لو۔ اب تو وہ آنے والا منظر میری آنکھوں میں پھر رہا ہے کہ جب جنگ تمہیں دانتوں سے کاٹ رہی ہو گی اور تم اس طرح بلبلاتے ہو گے جس طرح بھاری بوجھل اونٹ بلبلاتے ہیں۔ تمہاری جماعت تلواروں کی تابڑ توڑ مار، سر منڈلانے والی قضاء اور کشتوں کے پُشتوں سے لگ جانے کی وجہ سے گھبرا کر مجھے کتابِ الہٰی کی طرف دعوت دے رہی ہو گی۔حالانکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو کافر اور حق کے منکر ہیں یا بیعت کے بعد اسے توڑ دینے والے ہیں۔

حضرت عثمان اور معاویہ کی چال  

امام علیؑ نے معاویہ کو ایک خط میں تحریر فرمایا:

وَلَعَمْرُ اللَّهِ لَقَدْ أَرَدْتَ أَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ وَأَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ وَمَا عَلَى الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِي أَنْ يَكُونَ مَظْلُوماً مَا لَمْ يَكُنْ شَاكّاً فِي دِينِهِ وَلَا مُرْتَاباً بِيَقِينِهِ وَهَذِهِ حُجَّتِي إِلَى غَيْرِكَ قَصْدُهَا وَلَكِنِّي أَطْلَقْتُ لَكَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِكْرِهَا ثُمَّ ذَكَرْتَ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِي وَأَمْرِ عُثْمَانَ فَلَكَ أَنْ تُجَابَ عَنْ هَذِهِ لِرَحِمِكَ مِنْهُ فَأَيُّنَا كَانَ أَعْدَى لَهُ وَأَهْدَى إِلَى مَقَاتِلِهِ أَ مَنْ بَذَلَ لَهُ نُصْرَتَهُ فَاسْتَقْعَدَهُ وَاسْتَكَفَّهُ- [أَمَّنِ‏] أَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَهُ فَتَرَاخَى عَنْهُ وَبَثَّ الْمَنُونَ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَى قَدَرُهُ عَلَيْهِ كَلَّا وَاللَّهِ لَـ { قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ وَالْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا وَلا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا} وَمَا كُنْتُ لِأَعْتَذِرَ مِنْ أَنِّي كُنْتُ أَنْقِمُ عَلَيْهِ أَحْدَاثاً فَإِنْ كَانَ الذَّنْبُ إِلَيْهِ إِرْشَادِي وَ هِدَايَتِي لَهُ فَرُبَّ مَلُومٍ لَا ذَنْبَ لَهُ- وَقَدْ يَسْتَفِيدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّح‏ وَمَا أَرَدْتُ إِلَّا الْإِصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ وَذَكَرْتَ أَنَّهُ لَيْسَ لِي وَلِأَصْحَابِي عِنْدَكَ إِلَّا السَّيْفُ فَلَقَدْ أَضْحَكْت‏ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ مَتَى أَلْفَيْتَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الْأَعْدَاءِ نَاكِلِينَ وَبِالسَّيْفِ مُخَوَّفِين‏ فَلَبِّثْ قَلِيلًا يَلْحَقِ الْهَيْجَا حَمَل‏ فَسَيَطْلُبُكَ مَنْ تَطْلُبُ وَيَقْرُبُ مِنْكَ مَا تَسْتَبْعِدُ وَأَنَا مُرْقِلٌ نَحْوَكَ فِي جَحْفَلٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ شَدِيدٍ زِحَامُهُمْ سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ مُتَسَرْبِلِينَ سَرَابِيلَ الْمَوْتِ أَحَبُّ اللِّقَاءِ إِلَيْهِمْ لِقَاءُ رَبِّهِمْ وَقَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّيَّةٌ بَدْرِيَّةٌ وَسُيُوفٌ هَاشِمِيَّةٌ قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا فِي أَخِيكَ وَخَالِكَ وَجَدِّكَ وَأَهْلِكَ- وَما هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيد. [41]سید رضی، نہج البلاغہ، ص۳۸۸،  مکتوب:۲۸۔

ترجمہ: تم چاہا تو یہ تھا کہ تم مجھے رسوا کرو لیکن خود ہی رسوا ہو گئے، بھلا مسلمان آدمی کے لیے اس میں کون سی عیب کی بات ہے کہ وہ مظلوم ہو جبکہ وہ نہ اپنے دین میں شک کرتا ہو، نہ اس کا یقین متزلزل ہو۔ میری دلیل کا تعلق اگرچے دوسروں سے ہے مگر جتنا بیان یہاں مناسب تھا تم سے کر دیا۔ پھر تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے تو ہاں ! اس میں تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے کیونکہ تمہاری ان قرابت داری بنتی ہے۔ اچھا تو پھر سچ سچ بتاؤ کہ ہم دونوں میں ان کے ساتھ زیادہ دشمنی کرنے والا اور ان کے قتل کا سرو سامان کرنے والا کون تھا ؟! وہ شخص کہ جس نے اپنی امداد کی پیش کس کی اور انہوں نے اسے بٹھا دیا اور روک دیا یا وہ شخص کہ جس سے انہوں نے مدد چاہی اور وہ ٹال گیا؟! پھر ان کے مقدر کی موت سے انہیں آ گھیرا، ہر گز نہیں ، اللہ کی قسم! اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو جنگ سے دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہنے والے ہیں کہ آؤ ہماری طرف آؤ اور خود بھی جنگ کے موقع پر برائے نام ٹھہرتے ہیں، بے شک میں اس چیز کے لیے معذرت کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ میں ان کی بعض بدعتوں کو ناپسند کرتا تھا ۔ اگر میری خطا یہی ہے کہ میں انہیں صحیح راہ دکھاتا تھا اور ہدایت کرتا تھا تو اکثر ناکردہ گناہ ملامتوں کا نشانہ بن جایا کرتے ہیں اور کبھی نصیحت کرنے والے بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے۔ میں نے تو جہاں تک بَن پڑا یہی چاہا کہ اصلاحِ حال ہو جائے مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق حاصل ہو سکتی ہے ، اسی پر میرا بھروسا ہے اور اسی سے لو لگاتا ہوں۔ تم مجھے لکھا ہے کہ میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے تمہارے پاس بس تلوار ہے !! یہ کہہ کر تو تم روتوں کو بھی ہنسانے لگے ہو، بھلا یہ تو بتاؤ کہ تم نے اولادِ عبد المطلب کو کب دشمن سے پیٹھ پھیراتے ہوئے پایا ہےاور کب تلواروں سے خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے؟! اگر یہی ارادہ ہے تو بقول شاعر: تھوڑی دیر دَم لے لو کہ حمل میدانِ جنگ میں پہنچ لے۔ جسے تم طلب کر رہے ہو وہ عنقریب خود تمہاری تلاش میں نکل کھڑا ہو گااور جسے دور سمجھ رہے ہو وہ قریب پہنچے گا۔ میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار اور اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین کا لشکرِ جرار لے کر عنقریب اڑتا آ رہا ہوں۔ ایسا لشکر کہ جس میں بے پناہ ہجوم اور پھیلا ہوا گردو غبار ہو گا۔ وہ موت کے کفن پہنے ہوئے ہوں گے، ہر ملاقات سے زیادہ انہیں بقائے پروردگار محبوب ہو گی۔ ان کے ساتھ شہداء بدر کی اولاد اور ہاشمی تلواریں ہوں گی کہ جن کی تیز دھار کی کاٹ تم اپنے ماموں ، بھائی ، نانا اور کنبہ والوں میں دیکھ چکے ہو۔ ’’وہ ظالموں سے اب بھی دُور نہیں ہے‘‘۔

وقت پڑنے پر معاویہ کا عثمان کو تنہا کرنا 

ایک مکتوب میں امام علیؑ معاویہ کو تحریر کرتے ہیں:

فَسُبْحَانَ اللَّهِ مَا أَشَدَّ لُزُومَكَ لِلْأَهْوَاءَ الْمُبْتَدَعَةِ وَالْحَيْرَةِ الْمُتَّبَعَةِ مَعَ تَضْيِيعِ الْحَقَائِقِ وَاطِّرَاحِ الْوَثَائِقِ الَّتِي هِيَ لِلَّهِ [تَعَالَى‏] طِلْبَةٌ وَعَلَى عِبَادِهِ حُجَّةٌ فَأَمَّا إِكْثَارُكَ الْحِجَاجَ عَلَى عُثْمَانَ وَقَتَلَتِهِ فَإِنَّكَ إِنَّمَا نَصَرْتَ عُثْمَانَ حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَكَ وَخَذَلْتَهُ حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَهُ وَالسَّلَام‏. [42]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۱۰،  مکتوب:۳۷۔

ترجمہ: سبحان اللہ! تم نفسانی خواہشوں اور زحمت و تعب میں ڈالنے میں حیرت و سرگشتگی سے کس بُری طرح چمٹے ہوئے اور اور ساتھ انہی حقائق کو برباد کر دیا اور ان دلائل کو ٹھکرا دیا ہے جو اللہ کو مطلوب اور بندوں پر حجت ہیں۔ تمہارا عثمان اور ان کے قاتلوں کے بارے میں جھگڑا بڑھانا کیا معنی رکھتا ہے!! جبکہ تم نے عثمان کی اس وقت مدد کی جب وہ مدد تمہاری ذات کے لیے تھی اور اس وقت انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جب ان کے حق میں تمہاری مدد مفید ہو سکتی تھی، والسلام۔

قتل عثمان کے فتنہ سے عوام کو باشعور کرنا

جنگ صفین کے ماوراء جو مقاصد اور سازش تھی اس کو آشکار کرتے ہوئے اور اپنی کاوشوں اور تدابیر سے عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے امام علیؑ نے مختلف علاقوں کی طرف درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا:

وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا [بِالْقَوْمِ‏] وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَ الظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ وَدَعْوَتَنَا فِي الْإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ وَلَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ وَلَا يَسْتَزِيدُونَنَا- [وَ] الْأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ فَقُلْنَا تَعَالَوْا [نُدَاوِي‏] نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وَتَسْكِينِ الْعَامَّةِ حَتَّى يَشْتَدَّ الْأَمْرُ وَيَسْتَجْمِعَ فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ [فِي مَوَاضِعِهِ‏] مَوَاضِعَهُ فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيهِ بِالْمُكَابَرَةِ فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ وَرَكَدَتْ وَوَقَدَتْ نِيرَانُهَا وَحَمِشَتْ فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وَإِيَّاهُمْ وَوَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وَفِيهِمْ أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْهِ فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وَسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ وَ انْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنَ الْهَلَكَةِ وَمَنْ لَجَّ وَتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ الَّذِي رَانَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ وَصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه‏‏. [43]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۴۹،  مکتوب:۵۸۔

ترجمہ: ابتدائی صورتحال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے ۔ اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک ، نبیﷺ ایک اور دعوتِ اسلام ایک تھی۔ نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے۔ کاملاً اتحاد تھا سوائے اس اختلاف کے جو ہم میں خونِ عثمان کے بارے میں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے بَری الذمہ تھے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آؤ فتنہ کی آگ بجھا کر اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا کر کے اس مرض کا وقتی مداوی کریں ۔ اس کا پورا استیصال ابھی نہیں ہو سکتا ، یہاں تک کہ صورتحال استوار و ہموار ہو جائےاور سکون حاصل ہو جائے۔ اس وقت ہمیں اس کی قوت حاصل ہو گی کہ ہم حق کو اس کی جگہ پر رکھ سکیں ۔ لیکن ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا علاج جنگ و جدل سے کریں گے اور جب انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا تو جنگ نے اپنے پیر پھیلا دئیے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے اور شدت بڑھ گئی۔ اب جب اس نے ہمیں اور انہیں دانتوں سے کاٹا اور اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تو وہ اس بات پر اتر آئے جس کی طرف ہم خود انہیں بلا چکے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان کی پیشکش کو مان لیا اور ان کی خواہش کو جلدی سے قبول کر لیا۔  اس طرح کہ اس پر حجت پورے طور سے واضح ہو گئی اور ان کے لیے کسی قسم کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اب ان میں سے جو اپنے عہد پر جما رہے گا وہ وہ ہو گا جسے اللہ نے ہلاکت سے بچایا ہے اور جو ہٹ دھرمی کرتے ہوئے گمراہی میں دھنستا جائے تو وہ عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر منڈلاتے رہیں گے۔

قاتلین عثمان کو عدالت کے کٹہرے میں لانا

معاویہ نے قاتلانِ عثمان سے قصاص کا شعار بلند کر کے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے میں رہنے والے اہل اسلام کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ امام علیؑ کا ہر گز یہ موقف نہیں تھا کہ قاتلانِ عثمان کو راہ کر دیا جائے اور انہیں کچھ نہ کہا جائے بلکہ امامؑ کا موقف یہ تھأ کہ قاتلان کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور عدالتی کاروائی کرکے جو سزا بنتی ہے وہ قاتلان کو دی جائے۔ لیکن معاویہ نے امام علیؑ کے اسلامی اور انسانی تقاضے کو جنگ برپا کر کے روند کے رکھ دیا اور تاقیامت آنے والے فتنوں کی زمین ہموار کی۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا قاتلانِ عثمان کے بارے میں موقف مکتوب ۶۴ میں اس طرح سے درج ہے:

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّا كُنَّا نَحْنُ وَأَنْتُمْ عَلَى مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْأُلْفَةِ وَالْجَمَاعَةِ فَفَرَّقَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَمْسِ أَنَّا آمَنَّا وَكَفَرْتُمْ وَالْيَوْمَ أَنَّا اسْتَقَمْنَا وَفُتِنْتُمْ وَمَا أَسْلَمَ مُسْلِمُكُمْ إِلَّا كَرْهاً وَبَعْدَ أَنْ كَانَ أَنْفُ الْإِسْلَامِ كُلُّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ ص [حَرْباً] حِزْباً وَذَكَرْتَ أَنِّي قَتَلْتُ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَشَرَّدْتُ بِعَائِشَةَ وَنَزَلْتُ بَيْنَ الْمِصْرَيْنِ وَذَلِكَ أَمْرٌ غِبْتَ عَنْهُ فَلَا عَلَيْكَ وَلَا الْعُذْرُ فِيهِ إِلَيْكَ وَذَكَرْتَ أَنَّكَ زَائِرِي فِي [جَمْعِ‏] الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَقَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ يَوْمَ أُسِرَ أَخُوكَ فَإِنْ كَانَ [فِيكَ‏] فِيهِ عَجَلٌ فَاسْتَرْفِهْ فَإِنِّي إِنْ أَزُرْكَ فَذَلِكَ جَدِيرٌ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ إِنَّمَا بَعَثَنِي إِلَيْكَ لِلنِّقْمَةِ مِنْكَ وَإِنْ تَزُرْنِي فَكَمَا قَالَ أَخُو بَنِي أَسَدٍ: مُسْتَقْبِلِينَ رِيَاحَ الصَّيْفِ تَضْرِبُهُمْ بِحَاصِبٍ  بَيْنَ أَغْوَارٍ وَجُلْمُودِ ، وَعِنْدِي السَّيْفُ الَّذِي أَعْضَضْتُهُ بِجَدِّكَ وَخَالِكَ وَأَخِيكَ فِي‏ مَقَامٍ وَاحِدٍ- [فَإِنَّكَ‏] وَإِنَّكَ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ الْأَغْلَفُ الْقَلْبِ الْمُقَارِبُ الْعَقْلِ وَالْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ لَكَ إِنَّكَ رَقِيتَ سُلَّماً أَطْلَعَكَ مَطْلَعَ سُوءٍ عَلَيْكَ لَا لَكَ لِأَنَّكَ نَشَدْتَ غَيْرَ ضَالَّتِكَ وَرَعَيْتَ غَيْرَ سَائِمَتِكَ وَطَلَبْتَ أَمْراً لَسْتَ مِنْ أَهْلِهِ وَلَا فِي مَعْدِنِهِ فَمَا أَبْعَدَ قَوْلَكَ مِنْ فِعْلِكَ- وَقَرِيبٌ مَا أَشْبَهْتَ مِنْ أَعْمَامٍ وَأَخْوَالٍ حَمَلَتْهُمُ الشَّقَاوَةُ وَتَمَنِّي الْبَاطِلِ عَلَى الْجُحُودِ بِمُحَمَّدٍ ص فَصُرِعُوا مَصَارِعَهُمْ حَيْثُ عَلِمْتَ لَمْ يَدْفَعُوا عَظِيماً وَلَمْ يَمْنَعُوا حَرِيماً بِوَقْعِ سُيُوفٍ مَا خَلَا مِنْهَا الْوَغَى وَلَمْ تُمَاشِهَا الْهُوَيْنَى وَقَدْ أَكْثَرْتَ فِي قَتَلَةِ عُثْمَانَ فَادْخُلْ فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ ثُمَّ حَاكِمِ الْقَوْمَ إِلَيَّ أَحْمِلْكَ وَإِيَّاهُمْ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَأَمَّا تِلْكَ الَّتِي تُرِيدُ فَإِنَّهَا خُدْعَةُ الصَّبِيِّ عَنِ اللَّبَنِ فِي أَوَّلِ الْفِصَالِ وَالسَّلَامُ لِأَهْلِه‏. [44]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۵۴،  مکتوب:۶۴۔

ترجمہ: جیساکہ تم نے لکھا ہے (اسلام سے پہلے) ہمارے اور تمہارے درمیان اتفاق اور اتحاد تھا لیکن کل ہم اور تم تفرقہ پڑا کہ ہم ایمان لائے اور تم نے کفر اختیار کیا اور آج یہ ہے کہ ہم حق پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور تم فتنوں میں پڑ گئےہو اور تم میں سے جو بھی اسلام لایا تھا وہ مجبوری سے اور وہ بھی اس وقت جب تمام (اشرافِ عرب) اسلام لا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو چکے تھے۔ تم نے (اپنے خط میں) ذکر کیا ہے کہ میں نے طلحہ و زبیر کو قتل کیا اور عائشہ کو گھر سے نکالا اور (مدینہ چھوڑ کر ) کوفہ و بصرہ میں قیام کیا۔ مگر یہ وہ باتیں ہیں جن کا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، نہ تم پر کوئی زیادتی ہے اور نہ تم سے عذر خواہی کی اس میں ضرورت ہے۔ تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تم مہاجرین و انصار کے جتھے کے ساتھ مجھ سے مقابلے کے لیے نکلے ہو!! لیکن ہجرت کا دروازہ تو اُسی دن بند ہو گیا تھا جس دن تمہارا بھائی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اگر جنگ کی تمہیں اتنی ہی جلدی ہے تو ذرا دَم لے لو ، ہو سکتا ہے کہ میں خود سے تم سے ملنے آ جاؤں اور یہ ٹھیک ہو گا اور اگر تم مجھ سے ملنے کو آئے تو وہ ہو گا جو بنی اسد کے شاعر نے کہاہے: وہ موسم گرما کی ایسی ہواؤں کا سامنا کر رہے ہیں جو نشیبوں اور چٹانوں میں اُن پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں۔ (معلوم ہونا چاہیے) میرے ہاتھ میں وہی تلوار ہے جس کی گزند سے تمہارے نانا ، تمہارے ماموں اور تمہارے بھائی کو ایک ہی جگہ پہنچا چکا ہوں۔ اللہ کی قسم ! تم جیساکہ میں جانتا ہوں ایسے ہو جس کے دل پر تہیں چڑھی ہوئی ہیں اور جس کی عقل بہت محدود ہے ۔ تمہارے بارے میں یہی کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تم ایک سیڑھی پر چڑھ گئے ہو جہاں پر تمہارے لیے بُرا منظر پیش نظر ہو سکتا ہے، جس میں تمہارا بُرا ہی ہو گا، بھلا نہیں ہو گا۔ کیونکہ تم غیر کی کھوئی ہوئی چیز کی جستجو میں ہواور دوسروں کے چوپائے چرانے لگے ہو اور ایسی چیز کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہو، جس کے نہ تم اہل ہو اور تمہارا اس سے کوئی بنیادی لگاؤ ہے۔ تمہارے قول و فعل میں کتنا فرق ہے اور تمہاری اپنے ان چچاؤں اور ماموؤں سے کتنی قریبی شباہت ہےجنہیں بدبختی و آرزوئے باطل نے محمد ﷺ کے انکار پر ابھارا تھا جس کے انجام میں وہ قتل ہو ہو کر گرے۔ جیساتم کو معلوم ہے نہ کسی بلا کو وہ ٹال سکے اور نہ ان تلواروں سے اپنے مخصوص احاطہ کی حفاظت کر سکےجن سے میدانِ جنگ خالی نہیں ہوتااور جن میں سستی کا گزر نہیں ہوتا۔ تم نے عثمان کے قاتلوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے تو پہلے میری بیعت میں داخل ہو جاؤ جس میں سب داخل ہو چکے ہیں ، پھر میری عدالت میں ان لوگوں پر مقدمہ دائر کرنا ۔ پھر میں کتابِ الہٰی کی رو سے تمہارا اور ان کا فیصلہ کروں گا ۔ لیکن یہ جو تم چاہ رہے ہو تو یہ وہ دھوکا ہے جو بچہ کو دودھ سے روکنے کے لیے دیا جاتا ہے ، سلام اس پر جو اس کا اہل ہے۔

جناب ابو ذر غفاری کو ربذہ کی طرف شہر بدر کرنا 

جب جناب ابو ذر غفاری کو ربذہ کی طرف شہر بدر کیا گیا تو اس وقت امام علیؑ نے ارشاد فرمایا:

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ غَضِبْتَ لِلَّهِ فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهُ إِنَّ الْقَوْمَ خَافُوكَ عَلَى دُنْيَاهُمْ وَ خِفْتَهُمْ عَلَى دِينِكَ فَاتْرُكْ فِي أَيْدِيهِمْ مَا خَافُوكَ عَلَيْهِ وَ اهْرُبْ مِنْهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَيْهِ فَمَا أَحْوَجَهُمْ إِلَى مَا مَنَعْتَهُمْ وَ مَا أَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوكَ وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَداً وَ الْأَكْثَرُ [حَسَداً] حُسَّداً وَلَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِينَ كَانَتَا عَلَى عَبْدٍ رَتْقاً ثُمَّ اتَّقَى اللَّهَ لَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْهُمَا مَخْرَجاً لَا يُؤْنِسَنَّكَ إِلَّا الْحَقُّ وَلَا يُوحِشَنَّكَ إِلَّا الْبَاطِلُ فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْيَاهُمْ لَأَحَبُّوكَ وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَأَمَّنُوك‏‏. [45]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۸۸،  خطبہ: ۱۳۰ ،ترجمہ :مفتی جعفر حسین کے مطابق خطبہ ۱۲۸۔

ترجمہ: اے ابو ذرؓ ! تم اللہ کے لیے غضب ناک ہوئے توپھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید رکھو۔ ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان لوگوں سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کے لیے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہی کے ہاتھ میں چھوڑ دو اور جس شیء کے لیے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلو۔ جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو کاش کہ وہ سمجھتے کہ وہ اس کے کتنے حاجت مند ہیں اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور تم جلد ہی جان لو گے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد کرنے والے زیادہ ہیں ۔ اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کے لیے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا۔ تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہیے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہیے۔ اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لیے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے۔

منابع:

منابع:
1 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۶۱۔
2 ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۱۵۔
3 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۸۸۔
4 ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۴۔
5 زبیری، مصعب بن عبد اللہ، نسب قریش،ص ۹۷۔
6 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۹، ص ۳۶۸۔
7 کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال(رجال کشی)، ج ۱، ص ۷۰۔
8 ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۷۔
9 ابن حزم، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۷۔
10 ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۷۸۔
11 زبیری، مصعب بن عبد اللہ ، نسب قریش، ص ۱۰۱، دار المعارف، قاہرہ، طبعہ سوم۔
12 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۹، ص ۳۴۲۔
13 ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمھرۃ انساب العرب، ص ۸۰۔
14 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۷۹۔
15 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۸۰۔
16 بلاذُری ، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۵۱۶۔
17 بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشرف، ج ۱، ص ۴۷۱۔
18 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۹، ص ۳۴۳۔
19 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۷۹۔
20 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۳۔
21 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۴۔
22 بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۲۔
23 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۰۲، کلام: ۷۴۔
24 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۳۵، کلام: ۱۶۴۔
25 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۴۳، خطبہ: ۱۶۸۔
26 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۳۶، کلام: ۹۲۔
27 طبری،محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۴۵۶۔
28 طبری،محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص۴۵۳۔
29 سید رضی، نہج البلاغہ، ص  ۱۹۳، کلام: ۱۳۵۔
30 قرطبی، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص ۱۴۴۴، رقم: ۲۴۷۹۔
31 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۷، کلام: ۱۵۔
32 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۰۳، کلام: ۷۵۔
33 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۶۳، کلام: ۲۲۔
34 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۶۳، کلام: ۳۰۔
35 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۴۹، کلام:۱۷۴۔
36 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۵۷، خطبہ:۱۷۸۔
37 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۵۸، خطبہ:۲۴۰۔
38 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶۳، مکتوب: ۱۔
39 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶۷، مکتوب: ۶۔
40 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶۹، مکتوب: ۹۔
41 سید رضی، نہج البلاغہ، ص۳۸۸،  مکتوب:۲۸۔
42 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۱۰،  مکتوب:۳۷۔
43 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۴۹،  مکتوب:۵۸۔
44 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۵۴،  مکتوب:۶۴۔
45 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۸۸،  خطبہ: ۱۳۰ ،ترجمہ :مفتی جعفر حسین کے مطابق خطبہ ۱۲۸۔
Views: 32

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: امام علی کے ہاتھ پر بیعت