loading
{کفایۃ الاصول: مقصد چہارم}
 عام اور خاص کے مخصوص صیغے
تحریر: سید محمد حسن رضوی
12/27/2021

         اس فصل میں اخوند خراسانیؒ نے عام و خاص کے صیغوں سے بحث کی ہے۔ بعض صیغے عام کے ساتھ مختص ہیں جیسے کُلّ، جمیع، سائر، جمع محلى بلام مثلا : العلماء، جمع مضاف مثلا: علماء البلد۔ اسی طرح بعض کلمات خاص کے ساتھ مختص ہیں جیسے اعلام شخصیہ زید ، عمرو وغیرہ۔بعض صیغے اور کلمات ایسے ہیں جن سے عموم کا معنی اخوند خراسانی کے مطابق دلالتِ عقلی کی بناء پر لیا جاتا ہے، مثلاً نکرہ کا نفی یا نہی کے سیاق میں آنا۔ اس سے بعض اوقات عموم کا استفادہ کیا جاتا ہے،مثلا   مَا جَاءَنِي رَجُلٌ، یہاں نکرہ ’’سیاقِ نفی‘‘ میں  آیا ہے جوکہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے اور تمام مردوں کے نہ آنے کو بیان کر رہا ہے۔

سوال مقدر اور جواب

صاحبِ کفایہ یہاں ایک سوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر كُلّ جیسے الفاظ عموم کے ساتھ مختص ہیں تو کیا وجہ ہے کہ یہی کلمات بعض اوقات خصوص کے لیے استعمال ہوتے دکھائی دیتے ہیں، مثلا آپ کہتے ہیں:  زَيدٌ كُلّ النّاسِ کہ ’’زید‘‘ کل کے کل لوگ ہے؟مصنف اس کا جواب دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ان کلمات کا خصوص کے لیے استعمال ہونا کسی قسم کا منافات نہیں رکھتا کہ یہ کلمات عموم کے لیے استعمال ہوں۔  ایسا ممکن ہے کہ لفظِ  کُلّ خصوص میں مجازًا استعمال ہو اور عموم میں حقیقۃً۔ البتہ مجاز کے لیے جب بھی لفظ استعمال ہوتا ہے اس کو قرینہ صارفہ کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ لفظ کا حقیقی معنی میں استعمال کسی قرینے کا محتاج نہیں ہوتا۔سکاکی اور مشہور کے درمیان مجاز کی اقسام میں اختلافِ نظر موجود ہے جس کا اجمالی جائزہ پیشِ خدمت ہے:

۱۔ مجاز مشہور کی نظر میں

مجاز کے باب میں مشہور کا نظریہ ہے کہ ایک لفظ قرینہ صارفہ اور علاقہ معتبر کی موجودگی میں غیر موضوع لہ میں استعمال ہوتا ہے۔ اہل ادب نے ذکر کیا ہے کہ مجاز کی تین اقسام ہیں:
۱۔ مجاز در حذف: اس سے مراد کلام میں محذوف کا ہونا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:{ وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا }،[1]فجر: ۲۲۔  یعنی وَجَاءَ أمرُ  رَبِّك.:اسی طرح ایک اور مثال ہے:{وَ سْئَلِ الْقَرْيَة}،[2]یوسف:۸۲۔ یعنی وَاسْأَلِ أهلَ الْقَرْيَةَ.
۲۔ مجاز در کلمہ: اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کلمہ اپنے معنی حقیقی کی بجائے غیر حقیقی معنی میں استعمال ہو، جیسے رَأَيتُ أسَدًا، اسد یعنی رجل شجاع۔
۳۔ مجاز در اسناد: اس سے مراد یہ ہے کہ غیر ما ھو لہ کی طرف اسناد کرنا، جیسے جرَى المِيزَابُ، حقیقت میں پانی بہتا ہے لیکن حال اور محل کے سبب سے مجازًا بہنے کی نسبت پرنالے کی طرف دی گئی ہے۔

۲۔ مجاز سکاکی کی نظر میں

علماء بلاغت نے ذکر کیا ہے کہ مجاز میں حقیقی معنی اور غیر حقیقی معنی میں تعلق کا ہونا ضروری ہے جوکہ دو طرح کا ہوتا ہے:
• اگر حقیقی معنی اور غیر حقیقی معنی کے درمیان تعلق غیر مشابہت کا ہو تو اس کا مجاز مرسل کہتے ہیں، ثلا سبب اور مسبب ، کل اور جزء وغیرہ تو اس کو مجاز مرسل کہتے ہیں۔
• اگر حقیقی اور غیر حقیقی معنی کے درمیان مشابہت کا تعلق ہو تو مجاز کو استعارہ کہتے ہیں۔
یوسف بن ابی بکر سکاکی خوارزمی متوفی ۶۲۶ ھ نے مجاز مرسل میں مشہور سے موافقت کی ہے۔ لیکن استعارات کے باب میں مشہور سے اختلاف کرتے ہوئے ایک جداگانہ نظریہ پیش کیا ہے۔سکاکی کی نظر میں مجاز در کلمہ وجود نہیں رکھتا ۔ وہ قائل ہیں کہ کلمہ ہمیشہ اپنے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ کلمہ اور اس کے معنی میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اس لیے معنی تبدیل نہیں ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ ہم امرِ عقلی میں تصرف کریں گے جوکہ معنی ادّعائی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ لفظ اپنے غیر حقیقی معنی میں استعمال ہوا ۔ لفظ اپنے اصلی اور حقیقی معنی میں ہی استعمال ہوا ہے ، فرق یہ ہے کہ ایک مرتبہ لفظ کا فرد حقیقی پیش نظر ہے اور مرتبہ فردِ ادّعائی۔ سکاکی کی نظر میں کلمہ کے معنی کے دو قسم کے فرد ہوتے ہیں:
• فردِ حقیقی، جیسے رأيتُ أسَدًا میں اسد سے مراد وحشی جانور ہے۔
• فردِ ادعائی، جیسے رأيتُ أسَدًا میں اسد سے مراد رجل شجاع ہے۔
ہر دو صورتوں میں اسد کا معنی ایک ہے لیکن ایک مرتبہ اس کا فرد حیوان مفترس مراد ہوتا ہے اور ایک مرتبہ فردِ ادّعائی رجل شجاع مراد ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر درند صفت شیر دو فرد رکھتا ہے: ۱۔ شیر بیابانی جوکہ حیوان مفترس ہے، ۲۔ شیر خیابانی جوکہ رجل شجاع ہے۔

بحث کا نتیجہ

اس بحث کا نتیجہ عام و خاص کے الفاظ میں اس طرح سے نکلتا ہے کہ مصنف کے مطابق كُلّ کا شمار ان صیغوں میں ہوتا ہے جو عام کے ساتھ مختص ہیں اور اس کا استعمال فقط عموم میں حقیقت رکھتا ہے جبکہ خصوص میں اس کا استعمال مجاز ہے۔ البتہ سکاکی کی نظر میں كُلّ ہر دو صورتوں میں اپنے حقیقی معنی میں ہی استعمال ہوا ہے کیونکہ سکاکی کے مطابق لفظِ كُلّ کے دو افراد ہیں:
۱۔ كُلّ  کا حقیقی فردجوکہ یہی عموم ہے۔
 ۲۔     کُلّ کا ادّعائی فرد جوکہ خصوص ہے۔
پس مشہور کے مطابق كُلّ کا خصوص کے معنی میں استعمال ہونا مجاز ہے اور اس میں علاقہِ عموم و خصوص پایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ لفظ عموم کے لیے وضع کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ مختص ہے جبکہ سکاکی کی نظر میں لفظِ كُلّ کا استعمال عموم اور خصوص ہر دو میں حقیقت رکھتا ہے اور کسی قسم کا مجاز نہیں ہے۔اس تمام بحث سے یہ مطلب ہمارے سامنے آیا کہ عموم کے لیے مختص الفاظ اور کلمات ہیں جن کی وضعی دلالت عموم کے معنی پر ہوتی ہے، جیسے: كُلّ، جَمِيْع، جَمع محلّى باللام …

کلماتِ عموم کی خصوص پر حقیقی دلالت

بعض علماء معتقد ہیں کہ وہ الفاظ جو عموم کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کا حقیقی معنی بھی خصوص ہی ہے۔ اس نظریہ پر انہوں نے دو دلیلیں دی ہیں جنہیں مصنف مرحوم نے ذکر کرنے کے بعد ردّ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ عموم کے لیے ایسے الفاظ ہیں جو عموم کے ساتھ مختص ہیں اور ان کا حقیقی معنی عموم ہی ہے۔ ذیل میں ان دو دلیلوں کو ذکر کیا ہے اور مصنف نے جو ردّ کیا ہے اس کو ذکر کیا جاتا ہے:

معترضین کی دلیل اول:

’’خصوص ‘‘متیقن الارادہ ہے۔ اس مراد یہ ہے کہ عموم یقینی طور پر خصوص کو شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ خصوص عموم کے ضمن میں حتمی طور پر مراد ہوتا ہے۔ اس بناء پر کہا جاتا ہے کہ خصوص متیقن الإرادۃ ہے جبکہ عموم   مشكوك الإرادة  ہے۔ پس خصوص کا یقینی ارادہ ہے جبکہ عموم کے ارادہ کے اطراف مشکوک ہیں۔ لہٰذا جو الفاظ عموم کے لیے استعمال کیے گئے ہیں وہ خصوص میں حقیقت رکھتے ہیں اور خصوص ہی کے لیے وضع کیے گئے ہیں، کیونکہ لفظ کا متیقن میں حقیقت ہونا مشکوک میں حقیقت ہونے سے زیادہ سازگار ہے۔

دلیلِ اول کا ردّ

اخوند خراسانی بیان کرتے ہیں کہ یہ دلیل نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ کیونکہ پیش کی گئی دلیل کا مورد وہ مقام ہے جہاں یہ شک ہو کہ عموم کے لیے وضع کیے گئے الفاظ استعمال کر کے خاص ارادہ مراد لیا گیا ہے یا عام؟ یا یہ شک ہو کہ یہ الفاظ آیا عموم کے لیے وضع کیے گئے ہیں یا خصوص کے لیے۔ لیکن اگر علم ہو کہ یہ الفاظ عموم کے لیے وضع کیے گئے ہیں جیسے كُلّ، جَمِيْع وغیرہ تو اس طرح کے ادعاء کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ نیز خصوص کا متیقن الارادہ ہونا الفاظ کا خاص کے لیے وضع ہونے اور اس کے ساتھ مختص ہونے کا باعث نہیں بنتا۔

معترضین کی دلیل دوم:

تخصیص شہرت رکھتی ہے، اس لیے معروف جملہ ہے کہ ’’ما من عام الا وقد خُصَّ‘‘ کوئی ایسا عموم نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا مخصص ہے اور اس کو تخصیص دی گئی ہے۔ جبکہ عموم کے لیے ایسی شہرت اور شیوع موجود نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خصوص میں الفاظ حقیقت ہیں کیونکہ لفظ کا رائج اور مشہور میں حقیقت رکھنا شاذ و نادر میں حقیقت رکھنے سے زیادہ اولویت اور برتری رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر ان الفاظ کو عموم میں حقیقت مان لیں تو اس سے کثرتِ مجاز کا ہونا لازم آئے گا جبکہ خصوص میں حقیقت رکھنا مجاز کے نادر ہونے کا باعث ہے۔

دلیل دوم کا ردّ:

مصنف نے دلیل دوم کے رد میں درج ذیل چار نکات بیان کیے ہیں:
۱۔ یہ دلیل نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے جس کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ الفاظ ’’كُلّ، جميع …‘‘ عموم کے لیے نص شمار ہوتے ہیں۔
۲۔ کثیر موارد میں عموم کا استعمال وارد ہوا ہے اس لیے یہ بات کہ خصوص زیادہ اور عموم کم ہے درست نہیں ہے۔
۳۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ خاص زیادہ اور عموم کم ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ تخصیص کی شہرت کی وجہ سے’’مجاز‘‘  حقیقی معنی کی بجائے اپنے  مجازی معنی میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔  کیونکہ تخصیص اور مجازیت میں تلازم نہیں پایا جاتا کہ کہا جائے کہ کہا جائے کہ جہاں تخصیص ہے وہاں مجاز ہے اور جہاں مجازیت ہے وہاں تخصیص۔  بالفاظ دیگر ایسا نہیں ہے کہ عام کا کم ہونا اور خاص کا زیادہ ہونا اور غالبٍاًٍ عام کو خاص سے تخصیص حاصل ہونے کی بناء پر مجاز کا کثیر ہونا لازم آئے۔ کیونکہ عام اپنے معنیِ عموم میں حقیقت ہے اور جب اس عموم کو تخصیص دی جاتی ہے تو حجیت کے دائرہ میں محدودیت اور تنگی وجود میں جاتی ہے اور خاص کے افراد کے علاوہ بقیہ تمام میں عام کی حجیت باقی رہتی ہے۔
۴۔ اگر ہم تخصیص اور مجازیت میں تلازم مان لیں تو بھی مجازیت اور اس کے کثیر استعمال ہونے میں کوئی عیب اور حرج نہیں ہے کیونکہ قرینہ کے ہمراہ مجاز افہام و تفہیم اور اظہارِ معنی میں کوئی خلل ایجاد نہیں کرتا۔ کیونکہ جو حجت ہے وہ ظہور رکھتا ہے جس کی بناء پر فرق نہیں پڑتا جو ظاہر ہے وہ مجاز ہے یا حقیقت۔ پس اگر قرینہ کے توسط سے مجاز ظہور رکھتا ہے تو وہ حقیقت پر مقدم ہو گا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ [3]اخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، ص ۲۱۶۔ [4]فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج ۳، ص ۳۶۰۔ [5]شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول (حلقہ ثالثہ) ، ص ۲۹۵۔

Views: 62

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عام کی تین اقسام
اگلا مقالہ: تعادل و تراجیح