loading

شرح چہل حدیث ۔ امام خمینی ؒ   }

تہذیب نفس سے متعلق چالیس احادیث

كتاب : چہل حدیث ، امام خمینی
شارح : آيت الله حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوى 

امام خمینیؒ نے اس کتاب میں چالیس احادیث کا انتخاب کیا ہے اور اس کی شرح بیان کی ہے۔

حدیث نمبر ۱ کی شرح:

سالک دو طرح کے ہیں : ۱۔ مجذوبینِ سالک ، ۲۔ سالکینِ مجذوب۔ اکثر دوسری قبیل سے ہیں جو قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ جو قدم بہ قدم چلتے ہیں ان میں سلیقے مختلف ہیں۔  امام خمینی نے پہلا قدم تفکر قرار دیا ہے۔

۱۔ مجذوب سالک:

یہ وہ ہیں جنہیں توفیق الہٰی نصیب ہوتی ہے اور وہ اچانک تبدیلی کا سفر طے کر لیتے ہیں۔ ایک جگہ میں وارد ہوا ہے: وإن جذبة من جذبات الحق توازى عمل الثقلين.[1]ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، ج ۱، ص ۳۷۴۔ اللہ تعالیٰ رحمت بھی رکھتا ہے اور غضب بھی۔ اللہ تعالی ارحم الراحمین ہے تو اشد المعقاقبین بھی ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت اس کے غضب پر غلبہ رکھتی ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ تم ایک قدم آگے آؤ گے میں کئی قدم آگے آوں گا۔ قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی نیکی انجام دے تو دس نیکیاں لکھی جائیں گے اور اگر ایک سیئہ اور برائی انجام دے تو وہ ایک برائی لکھی جائے گی۔ اسی طرح اگر خیر کی نیت کرتا ہے تو فرشتوں کو حکم ہے لکھ دو اور اگر برائی کی نیت کی ہے تو اس پر فرشتوں کو لکھنے منع کر دیاگیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت اس کے غضب پر غالب اور مقدم ہے۔ انسان کو اپنے اعمال سے ڈرنا چاہیے نہ کہ ذات ربوبیت خوفزدہ ہونے والی ہستی ہے۔ انسان کو اپنے آپ سے ڈرنا چاہیے ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے ہیں: الهی همه از مردن می ترسند و حسن از زيستن که اين کاشتن است؛ الہٰی ! تمام لوگ مرنے سے ڈرتے ہیں اور حسن زندگی سے گھبراتا ہے کہ جو اس نے کاشت کیا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ میں نے آقای الہی قمشہ ای کے پاس گیارہ سال زانوئے تلمذ طے کیا ہے۔ چھ سال آمل میں پڑھنے کے بعد تہران چلا گیا لیکن وہاں کوئی قابل استاد نہیں ملا۔ آقای تقی آملیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہمارے آمل میں ان اساتیذ سے قابل استاد ہیں ۔ آپ ہمیں کسی استاد کی طرف رہنمائی فرمائیں۔ علامہ تقی آملیؒ نے بیان کیا کہ اپنا وقت یہاں ضائع نہ کرو ۔ اگر پڑھنا چاہتے ہو تو جن کے بارے میں کہہ رہا ہوں ان کی شاگردگی اختیار کرو۔ انہوں نے چار پانچ اساتیذ کے نام بتائے ان میں سے ایک علامہ الہٰی قمشہ ای تھے ۔ سب اساتیذ نے مجھے بطور شاگرد قبول کر لیا لیکن آقای الہٰی قمشہ ای قبول نہیں کرتے تھے۔ میں نے بھی انہیں نہیں چھوڑا ہر چند روز بعد میں ان کے پاس پہنچ جاتا ۔ میں جس مدرسے کے حجرے میں تھا ایک دن آقای الہٰی قمشہ ای وہاں آئے اور مختلف طلبہ سے پوچھا کہ حسن کیسا ہے درس میں؟ سب نے کہا کہ شب و روز درس کے علاوہ کوئی اس کا روگ نہیں ہے ۔ یہ سن کر انہو ں نے قرآن کھولا اور پھر بند کر لیا اور مجھے اپنی شاگردی میں لے لیا اور کہا کہ تمہارے ساتھ کوئی نہ آئے اور مغرب و عشاء کے بعد میرے گھر میں درس ہو گا۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے فورا استخارہ کیا اور یہ آیت نکلی: { يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُم‏ }. [2]بقرہ: ۲۵۴۔

۲۔  سالکِ مجذوب:

اگر اخروٹ کی مثال لیں تو اخروٹ کا ایک سخت چھلکا ہوتا ہے اور اس کے اندر اخروٹ پر جھلی ہوتی ہے اور اس جھلی کے اندر اصل مغز ہوتا ہے ۔اخروٹ کا شریعت پوست اور چھلکے کی مانند ہے اور مغز کے اوپر جھلی طریقت اور خود مغز حقیقت ہے۔امام خمینیؒ کے مطابق شریعت کے بغیر طریقت اور طریقت کے بغیر حقیقت تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب تک اس دنیا میں ہم ہیں شریعت سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ وہ نام نہاد صوفیہ جو اس دنیا میں اپنے آپ کو شریعت سے نعوذ باللہ بے نیاز سمجھتے ہیں گمراہ اور منحرف ہیں۔ انہی نام نہاد فاسقین نے عرفان و تصوف کو بدنام کیا ہے ورنہ عرفان کے مطابق شریعت سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا کیونکہ اس کی راہ سے ہی طریقت و حقیقت تک رسائی حاصل ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ ، امام علیؑ اور امام حسنؑ و حسینؑ اور تمام آئمہ اطہارؑ کیا یقین اور حقیقت تک نہیں پہنچے تھے؟! یہ ہستیاں بلند ترین مقامات پر فائز ہونے کے باوجود شریعت کو اپنے ضروری قرار دیتے تھے۔ پس کوئی شخص رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ سے بالاتر نہیں ہو سکتا اور جب یہ با عصمت ہستیاں شریعت سے بے نیاز نہیں ہو سکتی تو کیسے ممکن ہے کوئی غیر معصوم اپنے آپ کو شریعت سے بے نیاز خیال کرنے لگے۔ بعض لوگ جو اپنے آپ کو شریعت سے بے نیاز سمجھتے ہیں قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: { وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقين‏ ؛ اور آپ اپنے ربّ کی عبادت کریں یہاں تک کہ یقین تک پہنچ جائیں}. [3]حجر: ۹۹۔منحرف طبقہ کہتا ہے کہ ہم یقین تک پہنچ گئے ہیں اس لیے عبادت سے نعوذ باللہ بے نیاز ہو گئے ہیں !! معلوم ہونا چاہیے اس آیت کریمہ میں یقین سے مراد موت ہے۔[4]قمی مشہدی، محمد بن محمد رضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، ج ۷، ص ۱۷۱۔ ثانیاً ہم ذرا غور کریں جب رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ شریعت سے بے نیاز نہیں ہیں تو پھر کون کس مقام کا دعوی کر کے شریعت سے بے نیازی کا دعوی کر سکتا ہے !! امام خمینی ؒ عبادت اور شریعت کے اس قدر پابند تھے جب زندگی کے آخری لمحوں میں تھے تو ان کے فرزند آقای احمد خمینی کہتے ہیں حضرت امامؒ کے آثار دیکھ کر معلوم ہو گیا کہ وہ نماز شب پڑھنا چاہ رہے ہیں اس لیے ہم نے ان کے لیے اہتمام کیا ۔ سب اہتمام ہو گیا تو دیکھا ان کی نگاہیں کچھ تلاش کر رہے ہیں اور کچھ اضطراب کی کیفیت ہے ، ہم سمجھ گئے کچھ تلاش اور انتظار میں ہے ۔ دیکھا وہ گنگھی کرنا چاہ رہے تھے جوکہ مستحب عمل ہے ۔ وہ کنگھی کیے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ امام خمینیؒ اس قدر شریعت کے پابند تھے کہ واجبات کے علاوہ مستحبات کا بھی شدت سے اہتمام کرتے تھے۔ پس شریعت کی مثال سمندر میں کشتی کی سی ہے اور طریقت کی مثال سمندر کی سی ہے جبکہ سمندر کی کی گہرائی حقیقت ہے۔ پس انسان تا موت کسی صورت شریعت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔

اکثر اہل سنت قاصر ہیں نہ کہ مقصِّر ، کیونکہ ہم بھی والدین اور گھرانے کی وجہ سے شیعہ ہیں نہ کہ خود تحقیق کر کے شیعہ ہوئے ہیں۔ اسی طرح جو اہل سنت گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے  اہل سنت مکتب کو قبول کیا۔ گویا کہ اگر ہم بھی شیعہ گھرانے میں پیدا نہ ہوئے ہوتے تو ہم بھی وہ مذہب اختیار کرتے جو ہمارے والدین اور آباء و اجداد کا دین تھا۔ معاشروں میں زیادہ تر لوگ دین اپنے گھرانے اور اپنے والدین سے لیتے ہیں نہ کہ تحقیق سے۔ پس اکثر لوگ چاہے شیعہ ہو یا سنی ہر دو تقلیدی دین کے پیرو ہیں نہ کہ تحقیقی دین کے پیرو ہیں ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے ہیں کہ میں دین سے خود باہر نکلا تاکہ تحقیق کروں اور پھر تحقیق کر کے دین اسلام اور اس کے بعد تحقیق کے بعد مختلف اور گوناگوں اسلامی فرقہ جات میں سے مکتب تشیع کو قبول کیا کیونکہ ادیان میں دین اسلام حق ہے اور دین اسلام کی تفسیر کرنے والے مختلف مکاتب میں شیعہ اثناعشری حق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ علامہ حسن زادہ آملیؒ دین کو ترک کر بیٹھے ! !نہیں بلکہ وہ تقلیدی دین سے باہر آئے اور دوسرا تحقیق کا حق تب ادا ہوتا ہے جب تمام نظریات اور اعتقادات سے اپنے آپ کو برطرف قرار دیتے ہوئے مطالعہ اور غور و فکر کریں۔

سالک کے لیے دستور عمل کی اہمیت:

اگر آپ تزکیہ نفس اور تہذیب کے عمل میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اپنا ایک برنامہ اور شیڈول رکھیں۔انسان کے لیے مشارطہ ، محاسبہ اور مراقبہ ضروری ہے۔ مشارطہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے ساتھ شرط باندھے رکھے۔ اسی طرح انسان سونے سے پہلے محاسبہ کرے۔ ان میں سے اہم مراقبہ ہے۔  اگر نفس کی سرکشی دیکھیں تو اس کے لیے خود کوئی سزا یا جریمہ قرار دیں ، مثلاً اگر اب میں نے فلاں پر غصہ کیا تو میں ایک سال روزے رکھوں گا۔ اسی طرح رات کو سونے سے پہلے محاسبہ کر کے سوئے۔
انسانی بدن مزاج رکھتا ہے ، اسی طرح یہ جہان بھی مزاج رکھتا ہے۔ جس طرح انسانی مزاج اپنے مزاج سے ہٹ کر چیز کو قبول نہیں کرتا ، مثلاً فاسد خوراک کھائیں تو انسانی بدن الٹی کر کے اسے باہر نکال دے گا۔ کب انسانی جسم الٹی کر کے نکالے گا؟ یہ فساد کی شدت او ضعف پر مشتمل ہے۔ ممکن ہے ایک خوراک فاسد ہو لیکن اتنی زیادہ نہیں ہے کہ فورا انسانی بدن اس فاسد خوراک کو باہر نہیں نکالے گی بلکہ اس کے کچھ دیر بعد بدن اسے باہر نکال دے گا۔ اسی طرح یہ جہان بھی مزاج رکھتا ہے جس میں فساد برپا کریں تو یہ اپنے باہر انسان کو کر دے گا۔ لیکن کب؟ یہ فساد کی شدت اور کم شدت پر موقوف ہے۔ اگر بہت زیادہ فساد برپا کرے گا تو اسی وقت اس کےلیے مشکل کھڑی ہو جائے گی اور اگر کم فساد ہے تو یہ بھی اثر کرے گا اور یہ بدی و فساد کچھ مدت بعد سامنے آ جائے گی۔ پس ایک مرحلہ فساد کا ہے جس میں کچھ مدت مہلت ہے جس میں اس کا ازالہ کر لے ۔ تاریخ بشریت اس سے بھری پڑی ہے کہ انسان جو فساد اور بدی انجام دیتا ہے جہان اس کو اس کے سامنے لے آتی ہے۔ یہ جہان معصیت و خلاف ورزی کو انسان کے اوپر لا ڈالتا ہے کیونکہ یہ مزاجِ جہان سے سازگار نہیں ہے۔ پس بدن کی طرح یہ جہان بھی مزاج رکھتا ہے جوفساد کو قبول نہیں کرتا اور اس فساد کو اسی شخص اور معاشرے کی طرف پلٹا دیتا ہے اور اس فساد کے نتیجہ کا سامنا انسان کرتا ہے۔ کربلا کے واقعات اس کا بہترین نمونہ ہیں۔ جناب مسلم بن عقیلؑ کے فرزندوں کو جس نے شہید کیا تھا وہ جب دو بچوں کے سروں کو ابن زیاد لعین کے پاس کاٹ کر لے کر گیا تو ابن زیاد نے کہا کہ تم کس قدر سنگ دل ہو کہ انہیں زندہ نہیں لائے !! اسی وقت جلاد کو بلایا اور قاتل کا سر قلم کر دیا: { خَسِرَ الدُّنْيا وَ الْآخِرَةَ ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبين‏ }. [5]حج: ۱۱۔ اسی طرح امام حسینؑ کا سر مبارک جب یزید لعین کے پاس لایا گیا تو اس نے کہا:
امْلَأْ رِكَابِي فِضَّةً أَوْ ذَهَبا
إِنِّي قَتَلْتُ الْمَلِكَ الْمُحَجَّبَا 
قَتَلْتُ خَيْرَ النَّاسِ أُمّاً وَ أَبا
ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ حَتَّى انْقَلَبَا.[6]قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج والجرائح، ج ۲، ص ۵۸۰۔
پس مراقبہ انسان کے لیے ضروری ہے۔ علامہ طباطبائی کا آخری کلام جو ان کی وفات سے پہلے ہسپتال میں سنا گیا وہ یہ الفاظ تھے: مراقبہ ، مراقبہ ، مراقبہ۔ پس انسان مشارطہ پر اکتفا نہ کرے بلکہ مراقبہ پر توجہ رکھے اور سونے سے پہلے محاسبہ کریں۔ دنیا میں جو بچہ آتا ہے اس پر تمام اطراف سے ہر چیز اثر کرتی ہے ، حتی آواز کا اثر بھی ہوتا ہے۔ آواز کا حیوان اور نبات پر اثر ہوتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان کے بچے پر اس کا اثر نہ ہو۔ سعدی بیان کیا ہے:
نبينی شتر بر نوای عرب
که چونش به رقص اندر آرد طرب؟
شتر را چو شور طرب در سر است
اگر آدمی را نباشد خر است.  [7]سعدی، بوستان، باب سوم، بخش ۲۲۔
پس سالک کو جاننا چاہیے کہ اس پر نگاہ، آواز بلکہ اطراف کی چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے آذان ، اقامت، تلاوتِ قرآن  سب کا اثر ہے۔ ضروری ہے کہ دینِ اسلام کا ہمارے نفس کے ساتھ ربط ’’ ملکہ‘‘ کے درجہ پر ہونا چاہیے۔ جو چیز نفس میں راسخ ہو جائے وہ نفس سے زائل نہیں ہوتی۔ ہماری عبادات و اطاعت اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع نہیں دیتی اور ہماری معصیت و گناہ و مخالفت و سرکشی اللہ سبحانہ کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچاتی ۔ نہ ہماری عبادت و اطاعت سے اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں اضافہ نہیں ہوتا اور مخالفت سے اس کی ملکیت میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔سورہ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: { وَقالَ مُوسى إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيْعاً فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ }.[8]ابراہیم: ۸۔ مالکیت کی خاصیت لطف، محبت اور عنایت ہے خصوصاً اگر مالک حقیقی ہو تو اس میں مزید شدت ہوتی ہے، مثلاً اگر ایک گھر آپ کا ہے اور آپ کا گھرکی چھت پر برف پڑتی ہے جس سے چھت خراب ہو رہی ہے تو آپ اس کا فورا اہتمام کرنے کی کوشش کریں گے۔  لیکن اگر مستاجر یعنی کرایہ دار ہو اور چھت خراب ہو رہی ہو تو وہ کہے گا کہ ہمارا کونسا گھر ہے ہم نے اس سال گھر خالی کر دینا ہے۔ فرق دونوں میں کیا ہے ؟ پہلا گھر اس کا اپنا ہے اور دوسرا اس کا اپنا گھر نہیں ہے۔ اسی طرح بچے کے ساتھ ہمارا سلوک ہوتا ہے ۔ اپنے بچے سے جدا سلوک ہے اور دوسرے کے بچے کے ساتھ جدا سلوک ہے۔ اس طرح کی جتنی مثالیں لے آئیں ان میں ہم مالکِ حقیقی نہیں ہیں کیونکہ مالکِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ ہے ۔ انبیاء و رسلؑ کی بعثت اور انزالِ شریعت کا فلسفہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقی مالک ہے اور مالک کی خاصیت دلسوزی ، لطف، محبت اور عنایت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندگان سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری اطاعت و عبادت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی محبت و لطف ہے جس کی وجہ سے اس نے ہمیں ان عنایات و نعمات سے بہرہ مند کیا ہے ۔ لہٰذا ان سب عبادات اور نعمات کا فائدہ ہمیں ہی ہے  ۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی عبادات سے غنی و بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ مالک ہے اس لیے ارحم الراحمین ہے جبکہ بقیہ خصوصا رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے کیونکہ اللہ سبحانہ مالکِ حقیقی ہے۔ اگر وہ ارحم الرحمین ہے تو ہماری عاقبت باخیر ہے بشرطیکہ اس کی ہدایت اور رہنمائی کی اطاعت کی ۔

ہم بیرونی نعمات و عذاب کا انکار نہیں کرتے لیکن زیادہ سخت اور مشکل مرحلہ اندرونی ہے جس کی نعمت بھی عظیم ہے اور عذاب بھی شدید اور سخت۔ جنت اور جہنم ابھی سے ہے لیکن اس کا ظہور اور بروز ہمارے لیے آخرت اور قیامت میں ہے۔ بعض روایات میں یہ معنی وارد ہوا ہے کہ انسان کے تین دوست ہیں جن میں سے دو کی دوستی ہمیشگی اور پائیداری نہیں رکھتی جبکہ تیسری دوستی ہمیشہ کا ساتھ رکھتی ہے: ۱۔ انسان کا مال: یہ انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور آسانی و مشکل میں کام آتا ہے لیکن موت کے وقت ساتھ چھوڑ جاتا ہے، ۲۔ انسان کی آل اولاد : انسان کی دنیا کی رونق اور زینت انہی سے ہے اور انہی کے ہمراہ زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ موت کے بعد قبر تک ساتھ ہیں، ۳۔ انسان کا عمل: یہ واحد انسان کا دوست اور ساتھی ہے جو انسان کے ہمراہ جائے گا اور قبر کے بعد قیامت میں بھی ساتھ ساتھ رہے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات ہیں جو اس معنی کو بتاتی ہیں کہ انسان جو عمل انجام دیتا ہے باطن میں اسی کا سامنا کرے گا اور وہ عمل ایسی صورت یا شیء بن جائے گی جس کا سامنا انسان کرے گا، مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحيم }. [9]حجرات: ۱۲۔ جو لوگ غیبت کرتے ہیں وہ اپنے بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں۔ غیبت کی معنوی تاثیر یہی ہے کہ انسان باطن میں اپنے بھائی کا گوشت نوچ رہا ہو گا۔ اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى ثُمَّ يُجْزاهُ الْجَزاءَ الْأَوْفى }. [10]نجم: ۳۹-۴۱۔ قیامت میں ہم اپنے ملاکات کے ہمراہ محشور ہوں گے۔ اگر ملاکات بد ہوں گے تو صورتِ حیوانی میں محشور ہوں گے۔ کونسے حیوان کی صورت میں؟ اس حیوان کی صورت میں جس کا ملکہ زیادہ شدید اور محکم ہے۔ حیوانی صورت میں حشر کا ہونا وابستہ ہے کہ کونسا ملکہ کس درجہ کا انسان میں ہے۔بعض لوگوں نے یہ شبہ ایجاد کیا ہے کہ  دنیا میں موجود خنزیر و کتے و بھڑیئے انسان کے لیے اذیت کا باعث ہے تو کیا روز قیامت اگر یہ شکلیں ہمارے ساتھ ہوں تو اس میں کیا حرج ہے؟!اس کے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ اس دنیا میں یہ حیوانات حیوانی درجہ میں ہیں اور انسان سے جدا ہیں اور ہم یہ احساس کرتے ہیں کہ ہم جدا ہیں اور یہ حیوانات و حشرات جدا ہیں۔ جبکہ آخرت میں خود انسان ہے جو حیوانی خصلت میں محشور ہو گا جبکہ انسان جانتا ہے کہ وہ انسان ہے لیکن صورت اور خصلت حیوانی ہے ۔ بعض احادیث میں یہی مطلب اس طرح ذکر ہوا ہے: يُحْشَرُ بَعْضُ النَّاسِ عَلَى صُوَرٍ يَحْسَنُ عِنْدَهَا الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيْرُ. [11]خوئی، حبیب اللہ ، منہاج البراعۃ، ج ۱۹، ص ۳۰۳، خاتمہ۔ایک روایت جامع الاخبار میں جناب معاذ سے وارد ہوئی ہے جس میں قرآن کریم سورہ نبأ آیت ۱۸ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ سے دریافت کی تو آنحضرتﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا کہ بہت عظیم امور کے بارے میں اے معاذ تم نے سوال کیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا:{ يُحْشَرُ عَشَرَةُ أَصْنَافٍ مِنْ أُمَّتِي بَعْضُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقِرَدَةِ وَبَعْضُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْخِنْزِيرِ وَبَعْضُهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ مُنَكَّسُونَ أَرْجُلُهُمْ فَوْقَ رُءُوسِهِمْ يُسْحَبُونَ عَلَيْهَا وَبَعْضُهُمْ عُمْياً [عُمْيٌ] وَبَعْضُهُمْ صُمّاً [صُمٌ] وَبُكْماً [بُكْمٌ] وَبَعْضُهُمْ يَمْضَغُونَ أَلْسِنَتَهُمْ فَهِيَ مدلات [مُدْلَاةٌ] عَلَى صُدُورِهِمْ يَسِيلُ الْقَيْحُ يَتَقَذَّرُهُمْ أَهْلُ الْجَمْعِ وَبَعْضُهُمْ مُصَلَّبُونَ عَلَى جُذُوعٍ مِنَ النَّارِ وَبَعْضُهُمْ أَشَدُّ نَتْناً مِنَ الْجِيفَةِ وَبَعْضُهُمْ مُلْبَسُونَ جِبَاباً سَائِغَةً مِنْ قَطِرَانٍ لَازِقَةٍ بِجُلُودِهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ عَلَى صُورَةِ الْقِرَدَةِ فَالْقَتَّابُ مِنَ النَّاسِ وَأَمَّا الَّذِينَ عَلَى صُورَةِ الْخَنَازِيرِ فَأَهْلُ السُّحْتِ وَ أَمَّا الْمُنَكَّسُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ فَآكِلَةُ الرِّبَا وَأَمَّا الْعُمْيُ فَالَّذِينَ يَجُورُونَ فِي الْحُكْمِ وَأَمَّا الصُّمُّ وَالْبُكْمُ فَالْمُعْجَبُونَ بِأَعْمَالِهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ قُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ فَهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ الْجِيرَانَ وَأَمَّا الْمُصَلَّبُونَ عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَارٍ فَالسُّعَاةُ بِالنَّاسِ لِسُلْطَانٍ وَأَمَّا الَّذِينَ أَشَدُّ نَتْناً مِنَ الْجِيَفِ فَالَّذِينَ يَتَّبِعُون الشَّهَوَاتِ وَاللَّذَّاتِ وَمَنَعُوا حَقَّ اللَّهِ فِي أَمْوَالِهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ يُلْبَسُونَ الْجِبَابَ أَهْلُ الْكِبْرِ وَالْفُجُورِ وَالْبُخَلَاء }. [12]شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۱۷۶۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دس گروہ ذکر کیے ہیں جو مختلف قسم کی شکلوں اور صورتوں میں محشور ہوں گے جس کی وجہ ان کے وہ برے اعمال ہیں جو وہ اپنی زندگی میں انجام دیا کرتے تھے۔

انسان کے اعمال مجسم ہوں گے۔ عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ میں نے دنیا میں ۶۰ سال گناہ کیے تو اس کی عقوبت اور مجازات بھی تو اتنے ہی سال ہونے چاہیے تھے لیکن روز قیامت ہزاروں سال اس کا عذاب ہے۔ اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ مجازات و عقوبت تین طرح کی ہیں:
۱۔ جرم قرار دادی ہو۔
۲۔ جُرم قردادی نہ ہو بلکہ علت ہو اور علت کی صورت میں معلول وجود رکھتا ہو۔
۳۔ مجازاتِ اخروی نہ قراردادی ہیں اور نہ ہی سبب و مسبب کے قبیل سے ہے بلکہ مجازاتِ اخروی عین اعمال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال اس دنیا میں ظاہر بھی ہیں اور باطن بھی، مثلاً ایک شخص یتیم کا مال کھاتا ہے، اب ظاہر مالِ یتیم کھانا ہے جبکہ باطن آگ کھانا ہے۔ اسی طرح غیبت کرنا ظاہر ہے جس کا باطن اپنے بھائی کا گوشت کھانا ہے۔
دین اسلام نے اس دنیا میں بھی جرائم کی سزا رکھی ہے جو دنیا کی زندگی کو منظم کرنے اور معاشرے کے نظم کو برقرار کرنے کے لیے ہے۔ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر اتنی ہی سختی تھی تو پھر اے اللہ ہمیں کیوں خلق کیا!! مثنوی میں حضرت موسیؑ کا ایک مکالمہ اسی طرح نقل ہوا ہے جوکہ درج ذیل ہے:
گفت موسی ای خداوند حساب
نقش کردی باز چون کردی خراب
نر و ماده نقش کردی جان‌ فزا
وانگهان ويران کنی اين را چرا
گفت حق دانم که اين پرسش ترا
نيست از انکار و غفلت وز هوا
ورنه تاديب و عتابت کردمی
بهر اين پرسش ترا آزردمی
ليک می‌ خواهی که در افعال ما
باز جويی حکمت و سر بقا
تا از آن واقف کنی مر عام را
پخته گردانی بدين هر خام را
قاصدا سايل شدی در کاشف
بر عوام ار چه که تو زان واقفی
زآنک نيم علم آمد اين سؤال
هر برونی را نباشد آن مجال
هم سؤال از علم خيزد هم جواب
هم‌چنانک خار و گل از خاک و آب
هم ضلال از علم خيزد هم هدی
هم‌ چنانک تلخ و شيرين از ندا
ز آشنايی خيزد اين بغض و ولا
وز غذای خويش بود سقم و قوی
مستفيد اعجمی شد آن کليم
تا عجميان را کند زين سر عليم
ما هم از وی اعجمی سازيم خويش
پاسخش آريم چون بيگانه پيش
خرفروشان خصم يکدیگر شدند
تا کليد قفل آن عقد آمدند
پس بفرمودش خدا ای ذولباب
چون بپرسیدی بیا بشنو جواب
موسيا تخمی بکار اندر زمين
تا تو خود هم وا دهی انصاف اين
چونک موسی کشت و شد کشتش تمام
خوشه‌هااش یافت خوبی و نظام
داس بگرفت و مر آن را می‌بريد
پس ندا از غيب در گوشش رسيد
که چرا کشتی کنی و پروری
چون کمالی يافت آن را می‌ بری
گفت يا رب زان کنم ويران و پست
که درينجا دانه هست و کاه هست
دانه لايق نيست درانبار کاه
کاه در انبار گندم هم تباه
نيست حکمت اين دو را آميختن
فرق واجب می‌کند در بيختن
گفت اين دانش تو از کی يافتی
که به دانش بيدری بر ساختی
گفت تمييزم تو دادی ای خدا
گفت پس تمييز چون نبود مرا
در خلايق روحهای پاک هست
روحهای تيرهٔ گلناک هست
اين صدفها نيست در يک مرتبه
در يکی درست و در ديگر شبه
واجبست اظهار اين نيک و تباه
هم‌چنانک اظهار گندمها ز کاه
بهر اظهارست اين خلق جهان
تا نماند گنج حکمتها نهان
کنت کنزا کنت مخفيا شنو
جوهر خود گم مکن اظهار شو. [13]مثنوی معنوی، دفتر چہارم، بخش ۱۱۵۔

حضرت امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ ہماری اہم مشکل خیال ہے کہ جس طرح پرندہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اچھلتا رہتا ہے اسی طرح ہمارا خیال کبھی ایک چیز سے وابستہ ہوتا ہے پھر فورا دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے اور پرندے کی طرح ہماری گرفت میں نہیں آتا۔ خیال کو قابو کرنے کی ضرورت ہے خصوصاًگناہ کی فکر سے خیال کو آزاد کرنا ضروری ہے۔ قوتِ خیال کو قابو کرنے کے لیے احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے اساتذہ بیان کرتے ہیں کہ ہر روز ۷۰ مرتبہ سورہ اعراف ۵۴، ۵۵ اور ۵۶ آیات کو پوری توجہ کے ساتھ پڑھے: { إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذي خَلَقَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ في سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهارَ يَطْلُبُهُ حَثيثاً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّراتٍ بِأَمْرِهِ أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمين، ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَ خُفْيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدين، وَ لا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِها وَ ادْعُوهُ خَوْفاً وَ طَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَريبٌ مِنَ الْمُحْسِنين }. [14]اعراف: ۵۴-۵۶۔ان آیات کو پڑھنے کا بہترین وقت نماز صبح کے بعد سورج نکلنے سے پہلے ہے کہ اگر کوئی شخص استمرار کے ساتھ اس کو پڑھتا رہے اور توجہ اللہ سبحانہ کی طرف رکھےتو وہ خیال پر قابو پا لے گا۔ اس مسئلہ میں آقای صمدی کی کتاب سیر مطالعاتی اس باب میں مفید ہے۔

بعض آیات ایسی ہیں جن پر ہمیں زیادہ دقت کرنے کی ضرورت ہے، جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ ما قَدَّمَتْ يَداهُ وَ يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَني كُنْتُ تُرابا؛ وہ دن جب ہر شخص اسے دیکھے جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا اور کافر کہے گا اے کاش میں مٹی ہوتا۔}. [15]نبأ: ۴۰۔سورہ حج میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: { يا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ، إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ، يَوْمَ تَرَوْنَها تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذاتِ حَمْلٍ حَمْلَها وَتَرَى النَّاسَ سُكارى وَ ما هُمْ بِسُكارى وَلكِنَّ عَذابَ اللَّهِ شَدِيد؛اے لوگوں اپنے ربّ کا تقوی اختیار کرو، بے شک زلزلہِ قیامت انتہائی بلند چیز ہے ، اس دن ہر دودھ پلانے والی جسے دودھ پلا رہی ہے اس سے غافل ہو جائے گی اور ہر حاملہ ذات اپنے جنین کو گرا دے گی اور آپ دیکھیں گے لوگ مدہوشی کے عالم میں ہیں جبکہ وہ مدہوش نہیں ہیں لیکن اللہ کا عذاب شدید ہے }. [16]حج: ۱-۲۔یہاں حاملہ خاتون کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ہر مخلوق جو اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ہے وہ اس جنین کو سقط کر دے گی۔

شہید مطہریؒ فرماتے تھے کہ تقوی محدودیت نہیں بلکہ مسئولیت ہے جیساکہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ تقوی لباس ہے۔ لباس پہننا اپنے آپ کو محدود کرنا نہیں ہے بلکہ ہماری ذمہ داری ہے۔ لباس پہننا ہماری ذمہ داری ہے۔ تقوی ہمارا لباس ہے جس کو اختیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ تقوی کا ثمرہ انتہائی شیرین اور نتیجہ بہترین ہے جسے روایات کے مطابق نہ آنکھوں نے دیکھا ، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ تقوی کے آثار میں سے ایک روح کا بدن سے جدائی کے بعد دور سے اسی بدن کو حفظ کرنا ہے جیساکہ علامہ طباطبائی ؒ بیان کرتے تھے کہ شیخ صدوقؒ کی میت جب زمین سے باہر آ گئی تو دیکھا کہ ۹ سو سال گزرنے کے باوجود ان کی میت کاملاً سالم ہے۔ با تقوی اور با عظمت لوگوں کے بدنوں کا قائم رہنا ان کے روح کے اثرات کی وجہ سے جو کے اگرچے ان کے بدن سے جدا ہو گئی ہے لیکن روح اتنی قوی ہے کہ دور سے اپنے ساتھ مربوط رہنے والے بدن پر اثرات مرتب کر سکتی ہے کیونکہ روح کا بدن سے ربط رہے تو وہ بوسیدہ ہو کر مٹی مٹی نہیں ہوتا۔یقینا یہ ایک اہم بات ہے کہ ایک ہی زمین اور ایک ہی قطعہ میں دو بدن دفنائے جاتے ہیں جن میں ان سے پہلے والے مٹی مٹی ہو گئے اور اطراف والے بھی مٹی مٹی ہو گئے لیکن وہ بدن قائم رہے۔ یقینا اگر زمین کے اثرات اور کیمیکلز کی وجہ سے یہ اثر ہوتا تو بقیہ ابدان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ۔ یقینا کیمیکلز کے اثرات سے بدن کو باقی رکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں کیمکلز کا اثر نہیں ہے بلکہ قوی روح کا اثر ہےجوکہ تقوی کا نتیجہ ہے۔

اخلاقی رذائل سے کنارہ کش ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ مصمم ارداہ کریں کہ اس بد اخلاقی کے برخلاف عمل انجام دوں گا۔ اچانک ایک عمل کو ترک نہیں کیا جا سکتا بلکہ آہستہ آہستہ اس برے ملکہ یا عادت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر انسان بخیل ہے تو آہستہ آہستہ ہر روز کچھ پیسے خرچ کرتا رہے، بعض حاسد ہیں اور دوسروں کے پاس مال و کمال دیکھ نہیں سکتا تو حسادت کی ضد کو اختیار کرے آہستہ آہستہ یہ بیماری اس کے نفس سے جدا ہو جائے گی۔ اس کو روایات میں جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ نفس سے جنگ اور نفس کی تہذیب و تزکیہ جہاں مشکل ترین کام ہے وہاں بزرگ ترین جہاد اور عظیم ترین عمل ہے۔ عمل میں مداومت اور تسلسل ہونا ضروری ہے۔ احادیث میں اس کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ الکافی میں معتبر حدیث میں امام باقر ؑ فرماتے ہیں:{ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ: أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ وَإِنْ قَلَّ }. [17]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۲۱۲، باب ۴۱۔ مستحبات کو قلیل کر لیں لیکن کاملاً ترک نہ کریں اور مسلسل عمل کو انجام دینے کی طرف آئیں۔ اگر زیارت جامعہ کبیرہ نہیں پڑھ سکتے تو زیارت امین اللہ کسی صورت ترک نہ کریں۔

حدیث نمبر ۲: ریاء

ریاء آفت ہے۔ امام علیؑ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے نماز میں انگوٹھی سائل کو دی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام علیؑ نے جو انگوٹھی دی وہ دنیاوی طور پر کتنی مالیت کی حامل ہو گی؟ یقیناً سونے اور ہیرے کی نہیں ہے کیونکہ یہ مرد پر حرام ہے۔ بہت ہو تو چاندی کی تھی۔ لیکن اس صدقہ پر قرآن کریم کی آیت نازل ہو گئی جس کی وجہ امام علیؑ کا اخلاص تھا نہ کہ انگوٹھی کی مالیت تھی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُون }. [18]مائدہ: ۵۵۔ اسی طرح اہل بیتؑ خمسہ نے سائل، مسکین اور مسافر نادار کو اپنے حصے کی روٹیاں دے دیں۔ دنیاوی ان روٹیوں کی کتنی قیمت ہو گی؟! لیکن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اخلاص کی اوج پر انہوں نے یہ عمل انجام دیا جس کی وجہ سے قرآں کریم میں آیت کریمہ نازل ہو گی:{ إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا }. [19]انسان: ۹۔امام علیؑ نے عمرو بن عبدود کے سینے پر سوار ہو کر گردن تن سے جدا کرنے لگے تو اس نے امام علیؑ کے چہرے مبارک پر تھوک دیا۔ اس عمل پر امام علیؑ اس کے سینے سے اتر آئے اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ اس کے سینے پر سوار ہو کر تن سے اس کی گردن جدا کر دی۔ پوچھا گیا کہ پہلی مرتبہ آپؑ نے کیوں اسے واصلِ جہنم نہیں کیا تو امام علیؑ نے فرمایا کہ اس وقت اس کے قتل میں اللہ کی رضایت کے ہمراہ میرا انتقام و غضب بھی شامل ہو گیا۔ لہٰذا امام علیؑ فقط اللہ سبحانہ کے لیے خالص طور پر جنگ کرتے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یہ حدیث صادر ہوئی : { لَضَرْبَةُ عَلِيٍّ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَيْن }. [20]ابن طاووس، سید علی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۲۶۷۔بعض جگہوں میں وارد ہوا ہے کہ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا کہ میں بھی ثقلین میں سے ہوں۔ پس علیؑ کی ضربت غزوہ خندق میں اس قدر خالصانہ تھی کہ آئمہ ؑ کے اعمال سے بھی افضل یہ ضربت تھی۔

 رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے:{ الريا أخفى من دبيب النملة السوداء في الليلة الظلماء على المسح الأسود }.[21]حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، ج ۵، ص ۶۷۸۔ ریا کاری سے بچنے کے لیے ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل کو بچائے اور عمل کے بارے میں کسی کو خبر نہ ہونے دےجتنا اس کے لیے ممکن ہو۔ایک اہم کتاب ہے جسے پڑھیں جس آیت اللہ العظمی سید محمد حسین طباطبائی بروجردی ہے جسے آیت اللہ بروجردی کے داماد نے لکھا ہے ۔ یہ کتاب بہت مفید ہے۔ ریا ضعیف ہے لیکن بہت باریکی کے ساتھ انسانی نفس میں داخل ہو جاتا ہے۔ پس ہم عمل کو زحمت و محنت سے انجام دیں تو کوشش کریں کہ اسے خراب نہ ہونے دیں ۔ عمل کی آفت ریا ہے۔اگر بندہ حقیر گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم مخلصین میں سے نہیں ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمانِهِمْ وَعَنْ شَمائِلِهِمْ وَ لا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شاكِرِين }. [22]ص: ۸۳۔ قرآن کریم کے مطابق ’’مخلَٰص اور مخلِص‘‘ میں فرق ہے۔ مخلَص وہ ہے جو اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ وہ فقط اللہ تعالیٰ کے لیے کام انجام دے بلکہ مطلق طور پر خودی کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں فراموش کر دیتا ہے جبکہ مخلِص وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے کام انجام دیتا ہے اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو مدنظر رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ مخلِص بھی نہیں ہے کیونکہ گناہ کا مطلب ہے کہ انسان کو شیطان نے اغواء کر لیا ہے۔ شیطان کا اغواء شدہ مخلص نہیں ہو سکتا ۔بنی اسرائیل کا ایک واقعہ ہے کہ ان میں سے ایک زمانے میں ایک قوم درخت کی پرستش کرتی تھی جیساکہ بعض جگہوں میں آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ درختوں کو مقدس سمجھتے ہوئے اس پر کپڑے باندھتے ہیں ، خصوصا ہم خواتین کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کی جلد شکار ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک قوم درخت کی پرستش کرتی تھی۔ اس قوم میں ایک عابد زاہد مومن زندگی بسر کرتا تھا اور اہل علاقہ کو توحید کی طرف بلاتا تھا اور درخت کی پرستش سے روکتا تھا۔ علاقے والوں نے اس کی باتوں پر کان نہ دھرے یہاں تک کہ وہ عابد مومن تھک گیا اور ارادہ کیا کہ وہ آدھی رات کو اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا تاکہ ریشہِ فساد ختم ہو جائے اور نہ درخت باقی رہے اور نہ درخت کی پرستش ۔ اس عزم اور ارادہ کے ساتھ آدھی رات کو کلہاڑا لے کر درخت کی جانب گیا اور درخت کو کاٹنے لگے ۔ اتنے میں شیطان مجسم ہو کر آ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کیا کر رہے ہو!! مومنِ عابد کہنے لگا کہ میں فساد کی جڑ کو کاٹ کر پھینک دینا چاہتا ہوں تاکہ یہ آبادی درخت کی پرستش سے رک جائیں۔ شیطان نے کہا کہ اتنے آرام سے تم یہ کام کرنا چاہتے ہو، میں ابلیس ہوں، میں نے سالہاسال اس درخت کو پروان چڑھا کر لوگوں کے اذہان کو گمراہ کیا ہے اور انہیں اس پر لگایا ہے اور تم چاہتے ہیں چند منٹوں میں سب محنت پر پانی پھیر دو!! مومنِ عابد نے کہا کہ میں ایسا نہیں کرنے دوں گا ، دونوں میں خوب لڑائی اور کشتی ہونے لگی۔ یہاں تک کہ مومن نے شیطان کو گرا دیا اور اس کے سینے پر سوار ہو گیا۔شیطان نے دیکھا کہ یہ شکست دے کر میرا خاتمہ کرنا چاہتا ہے تو اس نے کہا کہ تم مجھ سے جیساسلوک کرنا چاہتے کر لو لیکن صرف ایک بات مجھے کرنے دو۔ عابدِ مومن سخت کسمپرسی اورغربت میں زندگی بسر کرتا تھا ، اسے شیطان نے کہا کہ اگر تم آج کی رات اس کو چھوڑ دو تو میں تمہیں ایک دینار دوں گا جوکہ تمہارے بستر کے نیچے تمہیں نظر آئے گا۔ مومن سوچنے لگا اور سوچتے ہوئے اسے ترک کر دیا کہ میں اس رات دینار حاصل کر لوں اور کل ان شاء اللہ کل اس کا خاتمہ کر لوں گا۔ یہ سوچ کر اس کے سینے سے اتر گیا اور گھر گیا تو دینار اپنے بستر کے نیچے پایا جسے لے کر وہ خوش ہو گیا۔

حدیث نمبر ۳ : عُجب

عجب یعنی خود بینی اور خود پسندی ۔ انسان جب اندر کسی کمال کو دیکھتا اور اس کی نسبت اپنی طرف دیتا ہے تو اس مرض کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہوئے انسان کو اپنے اچھے اعمال کو اللہ تعالیٰ پر جتلانا بھی عجب میں سے ہے۔

موت ہمارے ساتھ کیا کرے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موت ہمیں اپنے غیر سے جدا کرتی ہے۔ میں جب مر جاؤں گا تو میں اپنے والدین سے جدا ہو جاؤں گا، اپنے فرزند، اپنی زوجہ ، مال ، گھر وغیرہ سب میرا غیر ہیں میں ان سب سے جدا ہو جاؤں گا۔ موت مجھے اپنے ساتھ باقی رکھ دے گی۔ اس کو وحشت کہتے ہیں۔ اسی تنہائی کے پیش نظر نمازِ وحشت قبر پڑھی جاتی ہے۔ انسان وحشت سے گھبراتا اور لرزتا ہے ۔ اس لیے نماز وحشت اس میت کی ہمراہی کرتی ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی تنہائی اور اپنے آپ کے علاوہ کی ضرورت ہے۔ انسان کے اعمال حسنہ تمثل اختیار کر جائیں گے اور اس کی تنہائی دور کریں گے۔ جبکہ اعمال سیئہ اس کے لیے مزید خوف و خطر اور وحشت ناک منظر ایجاد کریں گے۔ ان میں سب سے زیادہ وحشت مرضِ عجب پیدا کرتا ہے۔ الکافی میں روایت وارد ہوئی ہے کہ حضرت موسیؑ نے شیطان سے دریافت کیا کہ تم ہمارے اوپر کب مسلط ہو جاتے ہو؟ شیطان نے جواب دیا : جب فرزند آدمؑ عجب کا شکار ہوتا ہے اور اپنے اعمال کو کثیر اور اپنے اعمال بد کو چھوٹا سمجھتا ہے۔ روایت کے الفاظ اس طرح سے ہیں:{ عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : بَيْنَمَا مُوسَى × جَالِساً ؛ إِذْ أَقْبَلَ إِبْلِيسُ وَعَلَيْهِ بُرْنُسٌ ذُو أَلْوَانٍ ، فَلَمَّا دَنَا مِنْ مُوسَى × خَلَعَ الْبُرْنُسَ وَقَامَ إِلَى مُوسَى × فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى ×: مَنْ أَنْتَ ؟ فَقَالَ: أَنَا إِبْلِيسُ ، قَالَ: أَنْتَ فَلَا قَرَّبَ اللَّهُ دَارَكَ! قَالَ: إِنِّي إِنَّمَا جِئْتُ لِأُسَلِّمَ عَلَيْكَ لِمَكَانِكَ مِنَ اللَّهِ ، قَالَ فَقَالَ لَهُ مُوسَى ×: فَمَا هَذَا الْبُرْنُسُ ؟ قَالَ:  بِهِ أَخْتَطِفُ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ ، فَقَالَ مُوسَى × : فَأَخْبِرْنِي بِالذَّنْبِ الَّذِي إِذَا أَذْنَبَهُ ابْنُ آدَمَ اسْتَحْوَذْتَ عَلَيْهِ ؟ قَالَ : إِذَا أَعْجَبَتْهُ نَفْسُهُ وَاسْتَكْثَرَ عَمَلَهُ وَ صَغُرَ فِي عَيْنِهِ ذَنْبُهُ ، وَقَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِدَاوُدَ ×:  يَا دَاوُدُ بَشِّرِ الْمُذْنِبِينَ وَ أَنْذِرِ الصِّدِّيقِينَ، قَالَ: كَيْفَ أُبَشِّرُ الْمُذْنِبِينَ وَأُنْذِرُ الصِّدِّيقِينَ ؟ قَالَ: يَا دَاوُدُ بَشِّرِ الْمُذْنِبِينَ أَنِّي أَقْبَلُ التَّوْبَةَ وَأَعْفُو عَنِ الذَّنْبِ وَأَنْذِرِ الصِّدِّيقِينَ أَلَّا يُعْجَبُوا بِأَعْمَالِهِمْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ عَبْدٌ أَنْصِبُهُ لِلْحِسَابِ إِلَّا هَلَكَ؛ }. [23]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۷۶۵، باب العجب، حدیث ۸۔

انسان جب عجب کا شکار ہوتا ہے تو شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ہم اپنے بڑے بڑے سے عمل خیر کو چھوٹا شمار کریں اور چھوٹے چھوٹے سے شر اور گناہ کو بڑا شمار کریں۔ شیطان کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے یہ طریقہ بہترین ہے۔ اس کے علاوہ سجدہ کر کے شیطان کے تسلط سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ روایات اہل بیتؑ میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:{ أَطِيلُوا السُّجُودَ فَمَا مِنْ عَمَلٍ أَشَدَّ عَلَى إِبْلِيسَ مِنْ أَنْ يَرَى ابْنَ آدَمَ سَاجِداً لِأَنَّهُ أُمِرَ بِالسُّجُودِ فَعَصَى وَ هَذَا أُمِرَ بِالسُّجُودِ فَأَطَاعَ فِيمَا أُمِر؛ طولانی سجدہ کروں ، ابلیس پر سب سے بھاری اور شدید عمل فرزندِ آدمؑ کو حالتِ سجدہ میں دیکھنا ہے کیونکہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے معصیت و نافرمانی کی اور اس فرزندِ آدمؑ کو سجدہ کا حکم دیا جا رہا ہے تو وہ حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اللہ کی اطاعت کر رہا ہے }. [24]صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۲، ص ۳۴۰، باب ۳۹۔ دن میں ایک مرتبہ ضرور طولانی سجدہ کریں۔ بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں دعا صباح کی آخری سطور پڑھیں۔ مفاتیج الجنان میں دعا کمیل سے پہلے دعا صباح ہے ۔ اگر پوری نہیں پڑھتے اس کے آخری جملات حفظ کریں اور سجدے کی حالت میں یہ پڑھیں جیساکہ اس دعا کے اختتام پر لکھا ہوا ہے، خصوصا نماز صبح کے بعد اس کو حالت سجدہ میں پڑھیں اور اس کے معانی پر توجہ ہو، وہ کلمات یہ ہیں:{ إِلَهِي قَلْبِي مَحْجُوبٌ ، وَنَفْسِي مَعْيُوبٌ ، وَعَقْلِي مَغْلُوبٌ ، وَهَوَائِي غَالِبٌ ، وَطَاعَتِي قَلِيلَةٌ ، وَمَعْصِيَتِي كَثِيرَةٌ ، وَلِسَانِي مُقِرٌّ بِالذُّنُوبِ ، فَكَيْفَ حِيلَتِي ، يَا سَتَّارَ الْعُيُوبِ ، وَيَا عَلَّامَ الْغُيُوبِ ، وَيَا كَاشِفَ الْكُرُوبِ ، اغْفِرْ ذُنُوبِي كُلَّهَا بِحُرْمَةِ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، يَا غَفَّارُ يَا غَفَّارُ يَا غَفَّارُ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ؛}. [25]مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۴، ص ۳۴۱، باب ۱۳۔

رجب کا مہینہ شروع ہو چکا ہے ، اس مناسبت سے چند عرائض پیش کیے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں نماز شب اور روزے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ سردویوں کے ایام ہیں جن میں دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہیں۔ نماز شب ابھی آرام اور بغیر زحمت کے پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ نہ سوچیں کہ میں کل یا آئندہ سال یا کچھ عمر کا حصہ گزرنے کے بعد روزے رکھنا شروع کر دوں گا یا نماز شب پڑھنا شروع کر دوں گا۔ عارف ابن الوقت ہوتا ہے جو کل کے اوپر نہیں چھوڑتا۔ کل پر چھوڑنا راہ و طریق کی رفاقت سے دور کر دیتا ہے۔ ماہِ رجب و شعبان میں شبِ قدر کو پانے کی آمادگی پیدا کرنی چاہیے۔ ہماری اصل مشکل آمادگی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے نہیں دیتا لیکن اس فلاں کو اس قدر مقام و منزلت دی ہے ؟! کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعوذ باللہ بخل ہے؟! یقیناً نہیں ، ہم میں ظرفیت ، قابلیت اور استعداد کی کمی ہے۔ ان مبارک مہینوں میں انسان استعداد پیدا کر سکتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ تکراراً بیان فرماتے تھے کہ عطا کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ کی کمی نہیں ہے سب کچھ مسئلہ قبول کرنے والے کی طرف ہے۔ اس لیے ایامِ رجب کا اہتمام کر کے اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی عنایات کے حصول کی قابلیت اور صلاحیت پیدا کریں۔

سید ابن طاووس نے اقبال الاعمال میں روایت نقل کی ہے جسے شیخ جواد ملکی تبریزی نے کتاب المراقبات میں درج کیا ہے:فعَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَصَبَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ مَلَكاً يُقَالُ لَهُ الدَّاعِي فَإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَجَبٍ يُنَادِي ذَلِكَ الْمَلَكُ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْهُ إِلَى الصَّبَاحِ طُوبَى لِلذَّاكِرِينَ طُوبَى لِلطَّائِعِينَ وَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا جَلِيسُ مَنْ جَالَسَنِي وَ مُطِيعُ مَنْ أَطَاعَنِي وَ غَافِرُ مَنِ اسْتَغْفَرَنِي الشَّهْرُ شَهْرِي وَ الْعَبْدُ عَبْدِي وَ الرَّحْمَةُ رَحْمَتِي فَمَنْ دَعَانِي فِي هَذَا الشَّهْرِ أَجَبْتُهُ وَ مَنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ وَ مَنِ اسْتَهْدَانِي هَدَيْتُهُ وَ جَعَلْتُ هَذَا الشَّهْرَ حَبْلًا بَيْنِي وَ بَيْنَ عِبَادِي فَمَنِ اعْتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إِلَي؛ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے: اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جسے ’’داعی‘‘ کہا جاتا ہے، جب ماہِ رجب داخل ہوتا ہے تو وہ فرشتہ ہر رات نداء دیتا ہے رہتا ہے صبح تک: طوبی ہے ذکر کرنے والوں کے لیے، طوبی ہے اطاعت گزاروں کے لیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں اس کا جلیس ہوں جو میرے ساتھ بیٹھتا ہے، جو میری اطاعت کرتا ہے میں اس کی ہر بات قبول کرتا ہوں، جو مجھ سے استغفار کرتا ہے میں اس کی مغفرت کرنے والا ہوں، یہ مہینہ میرا مہینہ ہے، اور یہ عبد میرا عبد ہے، رحمت میری رحمت ہے، اس مہینے میں جس نے مجھ سے دعا کی میں اس کی دعا مستجاب کروں گا، جس نے مجھ سےکچھ مانگا میں اسے عطا کروں گا ، جس نے میں ہدیہ کا مطالبہ کیا میں اسے ہدیہ دوں گا، میں نے اس مہینے کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان رسی قرار دیا ہے ، جس نے اس رسی کو تھام لیا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔ [26]ابن طاووس، سید علی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۲۸۔

ہم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے فقیر ہیں کہ اگر ایک لحظہ کے لیے اللہ سبحانہ اپنا فیض ہم سے سلب کرے تو اصلا ہمارا وجود باقی نہیں رہے گا۔ ہم وجود اور بقاء ہر دو لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے محتاج و فقیر ہیں۔ ہم معتزلہ کے اس نظریہِ تفویض کے قائل نہیں ہیں جس کے مطابق وجود میں تو ہم اللہ سبحانہ کے محتاج ہیں لیکن بقاء میں محتاج نہیں ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے ایک عمارت اپنے وجود اور ساخت میں مزدور و انجینئر کے محتاج ہیں لیکن بقاء میں ان کی محتاج نہیں ہے!! علامہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے ہیں کہ معتزلہ باب امامت و ولایت سے دوری کی وجہ سے اس باطل نظریہ کے قائل ہوئے۔ علامہؒ بیان کرتے ہیں کہ ہماری خالق سے نسبت مزدور و عہارت کی سی نہیں ہے بلکہ اگر ہماری کوئی مثال دی جا سکتی ہے تو جو نسبت شعاع کو سورج سے ہے وہی نسبت مخلوق کی خالق سے ہے کہ اگر شعاع سورج سے ایجاد ہو رہی ہے اور اس کے وجود کا استمرار بھی سورج کی اساس پر ہے۔لہٰذا عجب اور خود بینی سے اجتناب کرنا ضروری ہے کیونکہ ہم ہر دو لحاظ سے اللہ سبحانہ کے محتاج ہیں ، وجود میں بھی اور بقاء میں بھی۔ کیا ہم کوئی عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے جتلائیں یا اس کو اپنے طور پر بہت بڑا خیال کریں؟! کیا ہمارے اعمال فقط اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کے لیے ہیں؟! بندہِ حقیر تو اپنے آپ کو ایسا نہیں پاتا ۔ جب ہمارے اعمال اس قدر خالص اور فقط اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ہیں تو پھر اس پر اترانا کیسا؟!! ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین لیکن حقیقت میں ہوائے نفس کے پیرو ہوتے ہیں ، کبھی مالی فائدہ پیش نظر ہوتا ہے ، کبھی شہرت یا شہوت مدنظر ہوتی ہے !! امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان نقائص اعمال کے باوجود ہمیں بہشت عنایت فرمائے تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہے نہ کہ اس کے عدل کی بناء پر ۔ کیونکہ جو خلوص اللہ سبحانہ کے لیے ہونا چاہیے اس خلوص سے ہمارے اعمالِ خیر خالی ہیں۔

حدیث ۴۔ تکبر:

سب بدترین تکبر اللہ سبحانہ کے مقابلے میں تکبر ہے جوکہ تکبر کی پہلی اور سب سے خطرناک قسم ہے۔ تکبر کی دوسری قسم حجتِ الہٰی بالخصوص پیامبران و انبیاءؑ کے مقابلے میں تکبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر کی مثال فرعون ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں دعویِ ربوبیت کیا ۔ تعجب کی بات ہے اسی فرعون جس نے الوہیت کا دعوی کیا جب غرق ہونے لگا تو ایمان و اسلام کا دعوی کیا۔ اس پر قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی کہ اب ایمان لاتے ہو جبکہ تم مفسدین میں سے تھے، پھر اللہ سبحانہ نے اس کو عبرت کے لیے اپنی آیت قرار دیا۔ [27]یونس: ۹۰-۹۳۔ فرعون کی لاش آج بھی محفوظ ہےاور عبرت کا نمونہ ہے۔ انبیاءؑ کے مقابلے میں تکبر کی مثال ابو جہل ہے ۔ جنگ بدر میں قریش کے ۷۰ بدمعاش اور سرداران ِ مشرکین قتل ہوئے جن میں سے ایک ابو جہل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود نے اسے واصل جہنم کیا، جب اس کو ضربیں لگیں اور زمین پر گر گیا تو خون بہنے کی وجہ سے طاقت جواب دے گئی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود اس کے سینے پر سوار ہوئے کہ اس کی گردن اتار دیں تو اس نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور انگلی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ابھی اس محمد ﷺ پر ایمان نہیں لایا۔ حضرت حسن زادہ آملیؒ کہتے ہیں کہ فرعون سے بدتر یہ ابو جہل تھا کہ جو موت کو دیکھ کر بھی اپنی استکبار اور تکبر پر قائم رہا ۔ اللہ تعالیٰ اور حق کے مقابلے میں تکبر اور اکڑ دکھانا سب سے بدترین تکبر ہے۔ وحشی جو جناب حمزہ ؑ کا قاتل اور ہندہ کا غلام تھا۔ جناب حمزہؑ کے قتل جیسے سنگین جرم کے بعد فتح مکہ کے موقع پر اس نے توبہ کی اور سول اللہ ﷺ نے سخت ناگواری کے باوجود رحمت للعالمین ہونے کی بناء پر اس کی توبہ قبول کی اور اس سے منہ پھیر لیا۔ اسی وحشی نے مسیلمہ کذّاب کو قتل کیا۔ وحشی کا کہنا تھا کہ میں نے بدترین کام بھی کیا اور بہترین کام بھی انجام دیا۔ بدترین کام جناب حمزہؑ کا قتل ہے اور بہترین کام جھوٹے دعویدارِ نبوت کو واصل جہنم کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تاریخ میں مختلف نمونے عبرت کے لیے رکھے ہیں۔

تکبر کی ایک قسم احکامِ الہٰی کے مقابلے میں تکبر کرنا ہے، مثلاً کسی نیک کام کو چھوٹا قرار دیتے ہوئے کسی کو اس کام کے کرنے کا دستور جاری کرنا اور خود اس کام سے پہلو تہی کرنا ہے، جیسے مسجد میں کوئی عالم دین جائے اور دیکھے کہ مسجد میں ایک بچہ یا ایک شخص موجودہے اور آذان دینے کا وقت آ گیا ہے۔ اب آذان کے عمل کو وہ چھوٹا سمجھے اور دوسرے شخص کو کہے کہ آذان دو۔ یہ احکامِ الہٰیہ سے تکبر کرنا ہے۔ اگر آپ مکہ مدینہ اور دیگر اسلامی ممالک میں اہل سنت کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ جماعت سے نماز کو ترک نہیں کرتے حتی صبح سویرے نماز فجر کے لیے پورے خانوادہ کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں جبکہ ہماری مساجد علماء کے درمیان بھی خالی ہوتی ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نمازِ جماعت کو ہمارے ہاں چھوٹا عمل بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک نوعِ تکبر ہے ۔ احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے کہ جنت میں جانے والے اکثر افراد بُلہ ہے جوکہ اَبلہ سے ہے۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کوئی کسی ایک عمل خیر سے انکار کرے یا نماز جماعت کسی وجہ سے برپا نہ ہو تو اس کو تکبر کہہ دیں !! ایسا نہیں ہے اس لیے اس بارے میں دقت سے کام لینا ضروری ہے۔ فارسی میں ابلہ سے مراد نادان و احمق ہے جبکہ عربی میں بُلہ سے مراد یہ نہیں ہے۔ خواجہ طوسیؒ نے شرح اشارات میں بیان کیاہ ے کہ ابلہ سے مراد سادہ اور شفاف انسان ہے۔ جنت میں ممکن ہے علماء و مجتہدین کم دکھائی دیں لیکن جنت میں زیادہ تر افراد سادہ طبیعت اور سادی زندگی بسر کرنے والے ہیں جن کے قلب آئینہ اور شفاف نفس کے مالک ہیں۔

تکبر کی چوتھی قسم دوسروں لوگوں کو کسی وجہ سے کمتر اور اپنے آپ کو بالاتر سمجھنا ہے۔تکبر کی چوتھی قسم دوسروں لوگوں کو کسی وجہ سے کمتر اور اپنے آپ کو بالاتر سمجھنا ہے۔الکافی میں اس بارے میں روایت وارد ہوئی ہے:مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَنْ أَخِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ الْمُتَكَبِّرِينَ يُجْعَلُونَ فِي صُوَرِ الذَّرِّ يَتَوَطَّأُهُمُ النَّاسُ حَتَّى يَفْرُغَ اللَّهُ مِنَ الْحِسَابِ.[28]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی: ج ۳، ص ۳۵۶۔ ذرّ سے مراد چیونٹی ہے۔ روزِ قیامت متکبر چیونٹی کی محشور ہوگا اور لوگ اپنے پاؤں سے انہیں روندیں گے یہاں تک اللہ حساب سے فارغ ہو جائے گ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں ایک نوع ’’انسانیت‘‘ ہے جس کے افراد اس دنیا میں ہے۔ لیکن روزِ قیامت انسان جنس ہے جس کے ماتحت متعدد انواع ہیں جن کے کئی افراد ہیں۔نبی اکرم ﷺ سے وارد ہوا ہے کہ جہنم میں متکبرین کے لیے ایک وادی ہے جس کانام سعیر ہے ، وہ اللہ سے شدتِ حرارت کی شکایت کرے گی اور سانس لینے کا تقاضا کرے گی ، اللہ اسے اجازت دےگا، وہ جب سانس لے گی تو جہنم جل اٹھے گی۔ [29]دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب إلی الصواب، ج ۱،ص  ۱۷۸۔

حدیث ۔ توکل:

لغوی طور پر توکل اعتماد اور بھروسہ کرنے کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک موضوع توکل ہے۔ توکل سے مراد دنیا کے اسباب کا ارادہ الہٰی پر موقوف قرار دیتے ہوئے عمل انجام دینا ہے۔سورہ واقعہ میں اصل سببِ جہان کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ واقعہ کو پڑھنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟! اگر پڑھتے رہیں تو پانچ منٹ میں یہ سورہ پڑھی جاتی ہے۔ وارد ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعوداور خلیفہ سوم کے درمیان شدید اختلافات تھے جس کی بنیادی وجہ خلیفہ سوم کے مختلف امورِ حکومتی پر اعتراضات تھے۔ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود کا وقت موت آن پہنچا تو خلیفہ سوم کو خبر دی گئی اور وہ ان کی عیادت کے لیے چلے گئے ، دیکھا کہ ابن مسعود حالت احتضار میں ہیں۔ خلیفہ سوم نے عیادت کی اور کہا کہ مجھ سے کچھ چاہتے ہو تو بتاؤ میرے اختیار میں تمام امورِ حکومتی ہیں۔ ابن مسعود نے کہا کہ جب میں سالم و تندرست تھا اس وقت تو مجھے خاطر میں نہیں لائے اور اب جب حالت احتضار طاری ہے تو مال دنیا سے کچھ لینے کا کہہ رہے ہو!! خلیفہ سوم نے کہا کہ اپنی بیٹیوں کا ہی خیال کرو ان کے بارے میں مجھے وصیت کر جاؤ میں ان تک وہ شیء پہنچا دوں۔ ابن مسعود نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے انہیں ہر رات سورہ واقعہ پڑھنےکا حکم دیا ہے۔ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے :{ مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْوَاقِعَةِ كُلَّ لَيْلَةٍ لَمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ أَبَدا ؛جو شخص ہر رات سورہ واقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی فاقہ کا شکار نہیں ہو گا }[30]محدث نوری، حسین بن محمد ، مستدرک الوسائل ، ج ۴، ص ۲۰۴۔سورہ واقعہ میں چار ’’ أَ فَرَأَيْتُمْ‘‘ وارد ہوئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر سبب کے پیچھے ارادہ اور اجراء مشیت کرنے والا ہے:
۱۔پہلا رأیتم بتاتا ہے کہ انسان زوجہ سے قربت اختیار کر کے مادہِ منویہ کو منتقل کرنے والا ہے جبکہ اس سے اولاد کو خلق کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
۲۔دوسرا ’’رأیتم ‘‘بتاتا ہے کہ  کسان زارع نہیں ہے بلکہ حارث ہے ۔ حارث وہ ہوتا ہے جو بیج کو زمین کے اندر بوئے ۔ زارع وہ ہوتا ہے جو دانے کو اگائے۔ اس لیے سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف زارع ہونے کی نسبت دی گئی ہے۔
۳۔ تیسرا’’ رأیتم‘‘ بتاتا ہے کہ جس پانی سے ہم استفادہ کرتے ہیں اور اپنی پیاس بجھاتے ہیں اس کو نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
۴۔ ۔چوتھا ’’رأیتم‘‘ بتاتا ہے کہ جس آگ سے استفادہ کرتے ہیں اور اس سے نفع اٹھاتے ہیں اس کو خلق کرنے والا اور اس میں جلانے کی خاصیت پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے

سورہ واقعہ ’’رأیتم‘‘ کے ذریعے ان سب اسباب کی بازگشت اللہ سبحانہ کی طرف پلٹاتا ہے اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کو قرار دیتا ہے۔ متوکل  دنیاکے اسباب کا انکار کرنا نہیں کرتا کیونکہ دنیا میں اسباب کے نظام کو اللہ تعالیٰ نے برقرار کیا ہے ۔ اس لیے اسباب کا انکار کرنا توکل نہیں ہے بلکہ اسباب کے نظام کو قبول کرتے ہوئے اصل سبب اور تأثیر گزار اللہ سبحانہ کو قرار دینا ہے۔ کائنات میں کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے ارادہ ، اذن اور مشیت سے خارج نہیں ہے۔ توکل ایک منزل اور مقام ہے جس پر سالک زحمت و محنت سے فائز ہوتا ہے۔ مقامِ توکل سے بالاتر مقامِ رضا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے سامنے سر تسلیم خم ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام اختیارات کا مالک ہے اور ان اختیارات کو دیگر خلقت کو عطا کرتا ہے۔ متوکل توکل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی نعمات و عنایات سے زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے جبکہ مقام رضا میں اللہ تعالیٰ کی عنایات سے بہرہ مندی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ارادہ الہٰی اور پسند الہٰی پر راضی رہتا ہے۔ رضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دے تو لینے کو بہتر سمجھے اور اس پر راضی ہو جائے اور اگر نہ دے تو نہ لینے کو بہتر سمجھے اور اس پر راضی رہے۔ پسند وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے چاہے وہ عنایت ہو یا زحمت و مصیبت ہو۔ الله تعالی کی قضاء و قدر پر راضی رہنا مقامِ رضا ہے۔ شخصِ راضی لذت و تلخی ہر دو کو چکھتا اور دونوں کو پسند کرتا ہے۔ مقامِ تسلیم بالاتر ہے مقامِ رضا سے۔ مقامِ رضا میں شخص اپنے آپ کو بھی مدنظر رکھتا ہے لیکن اپنی پسند نہیں رکھتا بلکہ پسند میں تابع الہٰی ہوتا ہے۔ مقامِ تسلیم شخص اپنے آپ کو بھی مدنظر نہیں رکھتا۔ پس توکل ، رضا اور تسلیم میں فرق ہے۔ ثقہ ان تینوں سے بالاتر ہے کیونکہ ثقہ میں سالک ان تینوں مقامات کو حاصل کیے ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ پر حسن ظن:

الکافی میں شیخ کلینیؒ نے معتبر حدیث میں نقل کیا ہے:مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:… فَلَا يَتَّكِلِ الْعَامِلُونَ عَلَى‏ أَعْمَالِهِمُ‏ الَّتِي‏ يَعْمَلُونَهَا لِثَوَابِي فَإِنَّهُمْ لَوِ اجْتَهَدُوا وَأَتْعَبُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَفْنَوْا أَعْمَارَهُمْ فِي عِبَادَتِي كَانُوا مُقَصِّرِينَ غَيْرَ بَالِغِينَ فِي عِبَادَتِهِمْ كُنْهَ عِبَادَتِي فِيمَا يَطْلُبُونَ عِنْدِي مِنْ كَرَامَتِي وَالنَّعِيمِ فِي جَنَّاتِي وَرَفِيعِ دَرَجَاتِيَ الْعُلَى فِي جِوَارِي وَلَكِنْ فَبِرَحْمَتِي فَلْيَثِقُوا وَبِفَضْلِي فَلْيَفْرَحُوا وَإِلَى حُسْنِ الظَّنِّ بِي فَلْيَطْمَئِنُّوا، فَإِنَّ رَحْمَتِي عِنْدَ ذَلِكَ تَدَارَكُهُمْ وَمَنِّي يُبَلِّغُهُمْ رِضْوَانِي وَمَغْفِرَتِي تُلْبِسُهُمْ عَفْوِي ، فَإِنِّي أَنَا اللَّهُ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ وَبِذَلِكَ تَسَمَّيْتُ؛ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: اعمال انجام دینے والوں کو اپنے ان اعمال پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے جنہیں انہوں نے میرے ثواب کے حصول کے لیے انجام دیا ہے ، کیونکہ اگر وہ بھر پور کوشش کریں اور اپنی جانوں کو خوب تھکائیں اور میری عبادت میں اپنی عمروں کو فناء کر ڈالیں تو بھی وہ اپنی عبادتوں میں میری کُنہِ عبادت تک پہنچنے میں تقصیر کا شکار رہیں گے، ان عبادتوں میں جو انہوں نے اس لیے انجام دیں تاکہ میرے پاس میری کرامت کو حاصل کریں اور میری جنّتوں میں نعمات حاصل کریں اور میرے جوار میں میرے بلند و عالی درجات کی رفعتوں کو حاصل کریں، بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ فقط میری رحمت پر اعتماد کریں اور انہیں چاہیے میرے فضل پر خوش ہو جائیں اور میرے پر حُسن ظن رکھتے ہوئے انہیں مطمئن ہوجانا چاہیے ، بے شک اس صورت میں میری رحمت ان کے تدارک کر دے گی اور میری عنایات انہیں میری رضایت و رضوان تک پہنچا دے گی اور  میری مغفرت انہیں میرے عفو کا لباس پہنا دیں گے ، میں  میں اللہ رحمن رحیم ہو اور اسی کے ذریعے مجھے پکارنا چاہیے۔[31]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص ۱۸۲۔

فلسفہ امتحان:

دعاؤں میں یہ دعا نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کوئی امتحان نہ لے ، یہ خلافِ سنتِ الہٰی ہے بلکہ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ امتحان میں ہمیں کامیابی عنایت فرمائے اور ہم اس امتحان میں عہدہ برآں ہوں۔ امتحان تین انگیزوں سے انجام لیا جاتا ہے:
۱۔ امتحان لینے والا اس شخص کے بارے میں باخبر ہونا جاتا ہے کہ جس سے امتحان لیا جا رہا ہے، مثلاً کالج و یونیورسٹیز میں آگاہی کی خاطر اسٹوڈنٹس سے امتحان لیا جاتا ہے۔ اگر اسٹوڈنٹ نے اچھے نمبر لیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ آگے تعلیم کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ امتحان نہیں لیتا کیونکہ اللہ سبحانہ اول و آخر سے با خبر ہے اور ہر شیء کی کلی و جزئی زندگی سے باخبر ہے۔ اگر دنیا دارِ امتحان و ابتلاء ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ باخبر ہونے کےلیے امتحان لے رہا ہے !! بلکہ اللہ تعالیٰ ہر شیء سے باخبر ہے۔
۲۔ امتحان کا مقصد اتمامِ حجت کرنا ہے، مثلاً ایک معلم آٹھ نو مہینے تدریس کرتا رہا ہے۔ اب معلم جانتا ہے کہ یہ طالب علم کوتاہی کرنے والا اور سستی برتنے والا ہے ۔ اس اعتبار سے معلم کو معلوم ہے کہ یہ طالب علم مزید علم حاصل نہیں کرے گااور فیل ہو جائے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں طالب علم کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے اور والدین کے اعتراضات سے بچنے کے لیے امتحان رکھتا ہے تاکہ والدین کو معلوم ہو جائے کہ اگر اس کو اگلی کلاس میں ہم نہ لے کر جائیں تو یہ طالب علم کی کوتاہی کی وجہ سے ہے نہ کہ تعلیم ادارہ نے ناحق سلوک کیا ہے اور غیر عادلانہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس معنی میں بھی اللہ تعالیٰ کا امتحان لینا صادق نہیں آتا  کیونکہ اللہ سبحانہ عزیز و قہار ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے غیر عادلانہ سلوک ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بندوں سے اس باب سے امتحان نہیں لیتا۔
۳۔ امتحان اس لیے لیا جائے تاکہ امتحان لینےوالا امتحان دینے والے کو ایسے امتحان میں مبتلا کرے کہ امتحان دینے والا بالقوۃ سے فعلیت تک رسائی حاصل کر لے، مثلاً پرندے کا بچہ بالقوۃ اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن فعلاً و عملاً اڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس بچے کو اڑانے کے لیے پرندہ بچے کو فضاؤں کی بلندیوں پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ تیزی سے پَر ہلاتا رہتا ہے، کئی مرتبہ اس امتحان سے جب بچہ گزرتا ہے تو وہ اڑنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے اس باب سے امتحان لینا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون‏؛اور الله نے  جب تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے نکالا تو تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دلوں کو قرار دیا تاکہ تم شکرادا کرو }[32]نحل: ۷۸۔ یہ آیت بیان کرتی ہے کہ انسان اس دنیا میں آیا فعلاً کچھ نہیں جانتا تھا لیکن بالقوۃ علم کی صلاحیت رکھتا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے سماعت و بصارت و دل عنایت کیا۔ اللہ تعالیٰ امتحان میں اس لیے مبتلا کرتا ہے تاکہ انسان بالقوۃ سے بالفعل مرحلہ طے کرے اور قوت کو فعلیت عنایت کرے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو علم اور عمل ہر دو لحاظ سے فعلیت میں لاتا ہے۔ کیونکہ علم کے حاصل کرنے کی بھی قوت رکھتا ہے اور علم کی اساس پر عمل کی بھی صلاحیت کا مالک ہے لیکن فعلیت میں ہر دو کو لانے کے لیے اسے امتحان کے قالب میں ڈھلنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم نے مختلف امتحانات کا تذکرہ کیا ہے جن میں غالباً اس نوعیت کے امتحان سے دوچار کیا جاتا ہے جیساکہ آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:{ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَراتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرين؛ اور ہم ضرور تمہیں خوف و بھوک اور اموال و جان کی کم اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صابرین کو بشارت دیجیے   } [33]بقرہ: ۱۵۵۔

صبر اور استقامت:

استقامت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ کو استقامت سے قائم کریں تو ایک ربط و تعلق قائم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں سورہ ہود کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ اس کی وجہ سورہ ہود میں ایک آیت کریمہ کا وارد ہونا ہے: { فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَك‏َ‏؛ پس آپ استقامت دکھائیں جیساکہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ جنہوں نے آپ کے ہمراہ توبہ کی ہے}.[34]ہود: ۱۱۲۔روایت کے الفاظ اس طرح سے نقل ہوئے ہیں:رُوِيَ عَنْ بَعْضِ الصَّالِحِينَ‏ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فِي مَنَامِهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يُرْوَى لَنَا أَنَّكَ قُلْتُ: «شَيَّبَتْنِي‏ سُورَةُ هُودٍ وَ أَخَوَاتُهَا فَمَا الَّذِي شَيَّبَكَ مِنْهَا؟ فَقَالَ: قَوْلُهُ: فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ‏؛بعض صالحین نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے خواب میں نبی ﷺ کو دیکھا تو تقاضا کیا: اے رسول اللہ ﷺ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا اور اس اخواتِ سورہ ہود نے، تو ان میں کیا ایسی چیز ہے جس نے آپﷺ کو بوڑھا کر دیا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اس فرمان الہٰی نے: جیساکہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر استقامت سے ڈٹے رہیں ». [35]راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ۲ ۵۱۰، مادۃ: ضل۔بعض جگہوں میں آیا ہے کہ اس سے آیت کریمہ کا اگلا حصہ اصل مقصود ہے کیونکہ یہ آیت کریمہ سورہ شوری آیت ۱۵ میں تکرار ہے ۔ اس لیے یہاں سورہ ہود آیت ۱۱۲ میں اگلا حصہ مقصود ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے اور وہ بھی استقامت سے ڈٹے رہیں جو آپ کے ہمراہ تائب ہوئے ہیں۔

ہماری اصل مشکل عدم استقامت ہے۔ استقامت سے ایک ربط قائم ہوتا ہے اور استقامت سے ایک شیء نشوونما پاتی ہے۔ مختلف تلخیوں، ناگواریوں ، متعدد سخت مراحل میں انسان کو استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔صبر مقامِ بالا ہے جس کا خصوصی حکم قرآن کریم اور آئمہ اطہارؑ نے دیا ہے۔

معیتِ الہٰی اور مقام صبر:

اللہ تعالیٰ کی وجودی معیت تو ہر شیء کے ساتھ ہے ۔ قرآن کریم میں ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی معیت کے بارے میں بیان وارد ہوا ہے اور ایک مرتبہ صابرین کی معیت کا تذکرہ ہے۔ قرآن کریم میں معیتِ وجودی کے بارے میں وارد ہوتا ہے: وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ.[36]حدید: ۴۔ صابرین کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرين‏.[37]انفال: ۴۶۔ اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ کی معیت سے مراد مدد اور تائید ہے۔ اللہ تعالیٰ صابرین کے ساتھ وجودی معیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صابرین کے ساتھ مدد اور معاونت کی معیت بھی رکھتا ہے۔ صابرین کے لیے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کثرت سے تاکید اور فضائل وارد ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِساب‏.[38]زمر: ۱۰۔اسی طرح احادیث میں صابرین کا بلند مقام اور صبر کی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ امام جعفر صادقؑ سے صحیح السند روایت میں وارد ہوا ہے: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّبْرُ رَأْسُ‏ الْإِيمَانِ‏.[39]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۲۲۶۔ جس طرح سر کے بغیر سالم و صحت بدن کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسی طرح صبر کے بغیر ایمان قیمت نہیں رکھتا۔

صبر کے درجات:

احادیث مبارکہ میں صبر کے درجات وارد ہوئے ہیں۔ الکافی میں رسول اللہ ﷺ سے روایت منقول ہے جس میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شِمْرٍ الْيَمَانِيُّ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى عَلِيٍّ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ : الصَّبْرُ ثَلَاثَةٌ صَبْرٌ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ وَ صَبْرٌ عَلَى‏ الطَّاعَةِ وَ صَبْرٌ عَنِ الْمَعْصِيَةِ، فَمَنْ صَبَرَ عَلَى الْمُصِيبَةِ حَتَّى يَرُدَّهَا بِحُسْنِ عَزَائِهَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ ثَلَاثَمِائَةِ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَةِ إِلَى الدَّرَجَةِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَمَنْ صَبَرَ عَلَى‏ الطَّاعَةِ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ سِتَّمِائَةِ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَةِ إِلَى الدَّرَجَةِ كَمَا بَيْنَ تُخُومِ الْأَرْضِ إِلَى الْعَرْشِ، وَمَنْ صَبَرَ عَنِ الْمَعْصِيَةِ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ تِسْعَمِائَةِ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ الدَّرَجَةِ إِلَى الدَّرَجَةِ كَمَا بَيْنَ تُخُومِ الْأَرْضِ إِلَى مُنْتَهَى الْعَرْشِ؛ صبر تین طرح کا ہے: ۱۔ مصیبت کے وقت صبر، ۲۔ اطاعت پر صبر، ۳۔ معصیت و گناہ پر صبر، پس جس نے مصیبت پر صبر کیا یہاں تک کہ اس نے مصیبت کو بہترین انداز سے جھیل لیا تو اللہ اسے تین سو درجہ عنایت کرتا ہے اور ہر درجہ کے درمیان زمین سے آسمان جتنا فاصلہ ہے، اور جس نے اطاعت پر صبر کیا اللہ اسے چھ سو درجات عطا کرتا ہے ، ہر درجہ کے درمیان زمین کے نیچلے ترین مقام سے عرش تک فاصلہ ہے، اور جس نے معصیت اور نافرمانی پر صبر کیا اللہ اس کے لیے نو سو درجات عنایت کرتا ہے اور ہر درجہ کے درمیان زمین کے سب سے نیچلے مقام سے عرش کی انتہاء و اختتام کے درمیان فاصلہ ہے.[40]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۲۳۶۔اطاعت پر صبر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے جو ناگواری یا تلخی یا سختی جھیلنا پڑے اس پر صبر کرنا چاہیے۔ سردیوں کو مومن کی بہار کہا گیا ہے کیونکہ فجر کی نماز تاخیر سے ہوتی ہے اور راتیں لمبی ہونے کی وجہ سے نماز شب پڑھنا آسان ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے روزے رکھنا آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس نوعیت کی اطاعت کو حتماً انجام دینا چاہیے۔ اسی طرح معصیت پر صبر کرنا چاہیے، مثلاً جوانی میں شہوانی جنسی غریزوں کی شدت پر صبر کرے اور اپنے آپ کو گناہوں سے روک کر رکھے۔ اسی طرح مصیبت کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ ان تینوں درجات کے صبر کا اجر و ثواب یکساں نہیں بلکہ متفاوت ہے۔ سب سے سخت ترین صبر گناہ اور معصیت و نافرمانی پر صبر کرنا ہے۔ نفسِ انسانی معصیت پر ابھارتا ہے اور اس کے لذت و ٹھنڈک کا احساس دلاتا ہے جس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس جگہ جو صبر کر جائے یہ سب سے اوپر صبر ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ کے پاس متعدد افراد آتے اور دستورِ عمل کا تقاضا کرتے ۔ علامہؒ فرماتے تھے تین کام انجام دو:
۱۔ واجبات کو انجام دو۔
۲۔ حرام امور سے اجتناب کرو اور تمام محرمات کو ترک کرو۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔
۳۔ لقمہِ حرام سے اجتناب کرو۔
سب سے سخت معصیت پر صبر ہے۔ مصیبت پر صبر کریں تو تین سو درجات ، اطاعت پر صبر پر ۶ سو درجات اور معصیت پر صبر پر ۹۰۰ سو درجات کا تفاوت واضح کرتا ہے کہ معصیت پر صبر سخت اور دشوار ہے ۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ سب سے بہترین عبادت وہ ہے جس کی انجام دہی میں سب سے زیادہ تلخی اٹھانا پڑتی ہے۔

توبہ کی شرائط :

سورہ تحریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: { یا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسى‏ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ وَ يُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهار؛ اے ایمان لانے والو! اللہ کی جانب توبہ کرو توبہِ نصوح، قریب ہے کہ تمہارا رب ّتمہاری برائیاں مٹا دے اور تمہیں ان جنّتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں }.[41]تحریم: ۸۔ توبہِ نصوح سے مراد توبہِ خالص اور توبہِ واقعی ہے۔ ایک معنی توبہِ نصوح کا یہ ہے کہ توبہ کرنے والے کو ایسی نصیحت عنایت ہو کہ وہ دوبارہ گناہ نہ کرے۔ ایک معنی توبہِ نصوح کا یہ کیا گیا ہے کہ فقط اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے توبہ کی جائے۔ ایک معنی توبہِ نصوح کا یہ کیا گیا ہے کہ نصوح کا معنی سینا اور پیوند لگانا ہے ۔ گناہ کے ذریعے سے اللہ سے عبد دور ہو گیا ہے اور جدائی کا شکار ہو گیا ۔ توبہ نصوح وہ توبہ کہلاتی ہے جس میں عبد دوبارہ اللہ سبحانہ کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ان میں مشہور معنی خالص توبہ ہے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ نے توبہ کے ارکان کو بیان فرمایا ہے :> لِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ وَ هُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى وَ الثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْهِ أَبَداً وَ الثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ حَتَّى تَلْقَى اللَّهَ [عَزَّ وَ جَلَ‏] أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ وَ الرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا وَ الْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْم‏ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ فَتُذِيبَهُ بِالْأَحْزَانِ حَتَّى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ وَ يَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ وَالسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ كَمَا أَذَقْتَهُ حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّه‏؛ <۔ [42]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۴۹، حکمت قصار ۴۱۷۔ اس روایت میں امام علیؑ نے توبہ کے چھ معانی ذکر کیے ہیں جن میں سے پہلے دو توبہ کے ارکان ہیں جن سے توبہ تشکیل پاتی ہے اور دو توبہ کی شرائط  ہیں جو ہوں تو توبہ قبول ہوتی ہے اور دو توبہ کے کمال کی شرائط ذکر کی ہیں۔یہ چھ معانی و شرائط درج ذیل بنتے ہیں:
توبہ کے ارکان:
دو مقوِّم توبہ  جن سے اصل توبہ تشکیل و تحقق پاتی ہےدرج ذیل ہیں:
۱۔ ماضی پر ندامت
۲۔ آئندہ اس گناہ کو انجام دینے کا عزم و ارادہ
توبہ کی قبولیت کی شرائط:
توبہ کی قبولیت کی شرائط دوہیں :
۱۔ اگر ایسا گناہ ہے جو حقوق الناس سے تعلق رکھتا ہے تو جہاں تک ممکن ہے اس حق کو ادا کرے۔
۲۔ اگر حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والا گناہ تھا تو کوشش کرے کہ اس حق کو انجام دے۔
کمالِ توبہ کی شرائط:
۱۔ بعض ایسے گناہ ہوتے ہیں جن سے انسان کا جسم و بدن یا گھر بار یا استعمال کی چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ یہاں کمالِ تو بہ یہ ہے کہ اس قدر ان چیزوں سے اجتناب کرے کہ جو گناہ سے تشکیل پایا تھا اس کا جبران ہو جائے یا وہ گناہ کا اثر زائل ہو جائے۔
۲۔ اللہ کی اس قدر اطاعت کی جائے کہ اطاعت کی تلخی کا ذائقہ احساس ہو جیساکہ معصیت کی حلاوت کا ذائقہ چکھا تھا۔ اس وقت انسان حق رکھتا ہے کہ استغفر اللہ کہے۔

غیبت :

غیبت کا تعلق کسی کی بدی کو اس کے پیچھے زبا ن سے یا اشارہ سے ظاہر کرنا تاکہ اس کی اہانت یا شخصیت کو پست کیا جا سکے۔ اگر کوئی رحم دلی یا ہمدردی کی وجہ سے اس کا نقص بیان کرے تو یہ غیبت نہیں ہے۔ غیبت حقوق الناس میں سے ہے جو فقط استغفار سے معاف نہیں ہوتا ۔ غیبت فقہی طور پر بالاجماع حرام ہے جیساکہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ اس برائی سے منع فرمایا ہے:{ وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحيم‏ }. [43]حجرات: ۱۲۔ اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ نے اس گناہ کے اثرِ تکوینی کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ جو شخص غیبت کرتا ہے وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہوتا ہے جس سے ہر شخص نفرت کرتا ہے۔ قبر اور قیامت میں جنت یا جہنم کا ایک حصہ ہمارے اعمال کے تمثلات ہیں۔غیبت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا یا منبر سے کوئی خطاب کرنا یا تنہائی میں باتیں کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہاتھ سے اشارہ کرنے سے بھی غیبت ہو جاتی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں :دَخَلَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ فَلَمَّا وَلَّتْ أَوْمَأْتُ بِيَدِي أَنَّهَا قَصِيرَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ص: قَدِ اغْتَبْتِهَا وَنَهَانِي عَنْ مِثْلِ ذَلِك‏؛ ایک خاتون نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، وہ جب چلی گئی تومیں نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ یہ کس قدر چھوٹے قد کی تھی۔ آنحضرتؐ نے  فرمایا : تم نے اس کی غیبت کی ہے اور آنحضرتؐ نے ایسی اعمال سے مجھے منع فرما دیا۔ [44]ورام بن فراس، مسعود بن عیسی، ص ۱۱۸، باب الغیبۃ۔غیبت کے موضوع پر کثیر احادیث ہیں جن میں سے ایک روایت میں جناب ابو ذرؓ کو خطاب کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:يَا أَبَا ذَرٍّ، إِيَّاكَ وَالْغِيبَةَ، فَإِنَّ الْغِيبَةَ أَشَدُّ مِنَ‏ الزِّنَا. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَالَ: لِأَنَّ الرَّجُلَ يَزْنِي فَيَتُوبُ إِلَى اللَّهِ فَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَ الْغِيبَةُ لَا تُغْفَرُ حَتَّى يَغْفِرَهَا صَاحِبُهَا؛اےابو ذر ! غیبت سے بچو،کیونکہ غیبت زنا سے بدتر ہے، میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! میرے والدین آپ پر فدا ہوں وہ کیسے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ایک شخص زنا کرتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے لیکن غیبت اس سے اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی جب تک جس کی غیبت کی ہے وہ معاف نہ کر دے.[45]طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص ۵۳۸، مجلس ۱۹۔روایات میں نبی اکرم ﷺ سے منقول ہےکہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:  يُؤْتَى بِأَحَدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَيُدْفَعُ إِلَيْهِ كِتَابُهُ فَلَا يَرَى‏ حَسَنَاتِهِ‏، فَيَقُولُ: إِلَهِي لَيْسَ هَذَا كِتَابِي، فَإِنِّي لَا أَرَى فِيهَا طَاعَتِي، فَيُقَالُ لَهُ: إِنَّ رَبَّكَ لَا يَضِلُّ وَلَا يَنْسَى ذَهَبَ عَمَلُكَ بِاغْتِيَابِ النَّاسِ، ثُمَّ يُؤْتَى بِآخَرَ وَيُدْفَعُ إِلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَرَى فِيهَا طَاعَاتٍ كَثِيرَةً، فَيَقُولُ: إِلَهِي مَا هَذَا كِتَابِي، فَإِنِّي مَا عَمِلْتُ هَذِهِ الطَّاعَاتِ، فَيُقَالُ: لِأَنَّ فُلَاناً اغْتَابَكَ فَدُفِعَتْ حَسَنَاتُهُ إِلَيْكَ ؛ روزِ قیامت ایک شخص کو لایا جائے اور اللہ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا اور اس کانامہِ اعمال کی کتاب اس کو تھما دی جائے گی، اسے اس میں اپنی کوئی نیکی نظر نہیں آئے گی، وہ کہے گا: میرے الہٰ ! یہ میری کتاب نہیں ہے، اس میں مجھے اپنی اطاعت نظر نہیں آ رہی، اس کو کہا جائے گا: تمہارے ربّ نہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ بھولتا ہے  ، تمہارے اعمال لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے چلے گئے ہیں ، پھر دوسرے شخص کو لایا جائے گا اور اسے اس کا نامہِ اعمال دیا جائے گا ، اسے اس میں کثیر اطاعات نظر آئیں گی، وہ کہے گا: الہٰی ! یہ نامہِ اعمال تو میرا نہیں ہے ،میں نے یہ سب اعمال انجام نہیں دیئے !! اسے کہا جائے گا: فلاں شخص نے چونکہ تمہاری غیبت کی تھی اس لیے اس کی نیکیاں تمہیں دے دی گئی ہیں.[46]علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۷۲، ص ۲۵۹، باب ۶۶۔

اخلاص:

اخلاص سے مراد ہے کہ انسان اپنے لیے کام انجام نہ دے۔ ہمارا وظیفہ بندگی ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں کہ آخر ہم کیوں بہشت کے پیچھے ہیں ،کیوں بہشت بنانے کے بس چکروں میں ہیں !! اگر ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہر عمل انجام دیں اور اپنی منزل اللہ سبحانہ قرار دیں تو بقیہ سب چیزیں حتماً عنایت ہو گی۔ بہشت بھی ملے گی اور جہنم سے نجات بھی ہے اگر اللہ تعالیٰ کے قرب کے پیچھے رہیں ، اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متخلق رہنے کی کوشش کریں ۔ نہ جنّت چاہیے نہ حور ، مجھے اپنا محبوب یعنی اللہ سبحانہ چاہیے۔ میں عالی ہمت ہو میں دیدار چاہتا ہوں۔ محمود غزنوی کے دربار میں مختلف غلام تھے جن میں سے ایک ایاز تھا ۔ محمود غزنوی کا اس غلام جوکہ چوپان کا بیٹا تھا سے عجیب تعلق اور محبت تھی جس کی وجہ سے سب درباری ایاز سے حسادت برتتے تھے۔ ایک سفر میں غزنوی کے ساتھ سب غلام تھے جن میں ایاز بھی تھا ۔ ایک پہاڑی علاقہ میں غزنوی کا سونا چاندی سے بھرا ہوا صندوق پتھر سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔ سلطان غزنوی نے سفر جاری رکھا اور اس جگہ کو عبور کرنے کے لیے چلتا رہا ۔ سب غلام سونا چاندی سمیٹنے میں لگ گئے لیکن ایاز سلطان کے ساتھ چلتا رہا۔ آگے جا کر سلطان غزنوی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب سونا چاندی سمیٹنے میں لگے رہے لیکن ایاز خدمتِ سلطان میں ہمراہ رہا ۔ اس وجہ سے سلطان غزنوی کو ایاز سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ اللہ تعالیٰ کو ترک کر کے درہم و دینار کے پیچھے لگ جائیں تو اصل ہستی کو ترک کر دیا ۔ اگرچے نماز و روزہ کا اہتمام کرتے ہیں ، مختلف دعائیں ، مناجات پڑھتے ہیں ، سحر و تہجد کا اہتمام کرتے ہیں ، ان سب اعمال میں فقط اللہ تعالیٰ مقصود ہونا چاہیے ورنہ ہم نے ضرر کیا ہے۔ چیزوں کی طمع کے لیے کام نہ کریں بلکہ اللہ سبحانہ کے لیے اعمال انجام دیں۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ اعمال انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کی حفاظت بھی کریں کیونکہ بعض اوقات انسان اللہ سبحانہ کے لیے اعمال انجام دینے میں کسی حد تک کامیابی حاصل  کر لیتا ہے لیکن پھر اپنی اس حالت کی حفاظت نہیں کر پاتا ، مثلاً ایک ثروت مند مالدار انسان نے آپ کی دعوت دی اور آپ نے خوب دسترخوان سے استفادہ کیا ۔ کچھ عرصہ بعد ایک دوست ملے اور وہ کہے کہ تم نے اس دن خوب پیٹ بھر کر کھایا ، آگے سے جواب ملے نہیں میں کچھ خاص نہیں کھا سکا۔ یہ بات وہ دوسرا جا کر میزبان کو بتاتا ہے جس سن کر وہ میزبان کہتا ہے : لا الہ الا اللہ ، اب یہ ایک ذکر ہے لیکن حقیقت میں غیبت ہے۔ 

دنیا آخرت کی کھیتی ہے جس میں تین مراحل ہیں:
۱۔ بونا
۲۔ کاشت کرنا
۳۔ فصل کاٹنا
انسان آخرت میں وہی کاٹے گا جو دنیا کی زندگی میں اس نے عمل کے ذریعے بویا اور اگایا تھا۔ آخرت میں جو کھیتی اور نتیجہ دیکھے گا اسی خود انسان نے ہی بویا اور اگایا تھا۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان فرماتے ہیں کہ دنیا موت سے ڈرتی ہے اور حسن اپنے آپ سے ڈرتا ہے۔ امام سجادؑ دعا مکارم اخلاق میں بیان فرماتے ہیں:{
وعَمِّرْنِي مَا كَانَ عُمُرِي بِذْلَةً فِي‏ طَاعَتِك‏، فَإِذَا كَانَ عُمُرِي مَرْتَعاً لِلشَّيْطَانِ فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ قَبْلَ أَنْ يَسْبِقَ مَقْتُكَ إِلَي‏؛ بارِ الہٰا !مجھے اس وقت تک عمر عنایت فرما جب تک میری عمر تیری اطاعت میں خرچ ہو ، لیکن جب میری عمر شیطان کے گرد گردش کرنے لگے تو قبل اس کے کہ تیری غضب و غصہ میری طرف بڑھے میری روح قبض فرما   }. [47]امام سجادؑ ، صحیفہ کاملہ، ص ۹۴، دعاء ۲۰۔ بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ جیسے طولانی عمر مؤمن کے لیے سعادت ہے اسی طرح کافر کے لیے بھی طولانی عمر نفع میں ہے کیونکہ اگر کافر جلد مر جائے تو کم عذاب و جہنم لے کر جائے گا لیکن جب طولانی عمر گزارے گا تو اتنی جہنم اپنے لیے آمادہ کرے گا۔ جناب زینبؑ نے دربارِ یزید میں یزید لعین کو عذاب استدراج ہی کے بارے میں انذار فرمایا۔

مناجاتی اور خراباتی :

اسماء الہٰی دو طرح کے ہیں: ۱۔ اسماءِ جمالی، ۲۔ اسماءِ جلالی۔ اسماءِ جلالی جاذبہ رکھتا ہے جیسے رحیم ، اسماء جلالی دافعہ رکھتا ہے، جیسے منتقم ، مُضِل۔ اولیاءِ الہٰی بلا شک و شبہ موت سے نہیں ڈرتے لیکن بعض پر اسماء جلالی جاکم ہوتا ہے اس لیے وہ موت سے دہشت و وحشت کا احساس کرتے ہیں۔ اولیاء الہٰی  جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اسماءِ الہٰی ان میں متجلی ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اولیاءِ الہٰی میں اسماءِ جمالی تجلی کرے تو وہ سرور و خوش اور اطمینان میں ہوتے ہیں لیکن اگر اولیاءِ الہٰی میں اسماءِ جلالی متجلی ہو تو ان میں اسماءِ جلالی کی وجہ سے ایک نوع اضطراب اور پریشانی پائی جاتی ہے۔ جناب یحییؑ اور جنابِ عیسیؑ ایک زمانے کے ہیں۔ جناب یحییؑ پر اسماءِ جلالی حاکم تھے جبکہ حضرت عیسیؑ پر اسماءِ جمالی حاکم ہے۔ جناب یحییؑ خاموش اور کرخت رہتے تھے جبکہ جناب عیسیؑ مسرور اور خوش رہتے تھے۔ جناب یحییؑ نے حضرت عیسیؑ سے فرمایا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں ! حضرت عیسیؑ نے فرمایا کیا آپؑ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہیں !! اگرچے ہر دو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور قریب تھے۔ بعض لوگ مناجاتی ہوتے ہیں کیونکہ ان پر اسماءِ جلالی حاکم ہوتے ہیں جبکہ بعض لوگ خراباتی ہیں اور خوش اور رحمت الہٰی کی وجہ سے پُر سکون نظر آتے ہیں کیونکہ ان پر اسماء جمالی حاکم ہیں۔ پس دیکھنا ہو گا کہ کس پر کونسے اسماء حاکم ہیں۔ خراباتی وہ ہیں جن پر جذبہِ الہٰی و جاذبہ غالب ہے اور حالتِ بسط میں ہوتے ہیں جبکہ مناجاتی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس مرحلہِ جذبہ  وجاذبہ تک پہنچ سکیں اور وہ حالتِ قبض میں رہتے ہیں۔

ارادہ الہٰی:

اللہ کا ارادہ حاکم ہے۔ نہ معتزلہ کی بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ خلقت کے امور میں مداخلت نہیں کر سکتا اور نہ اشاعرہ کی بات درست ہے کہ تمام خلقت ہر لحاظ سے مجبور ہےاور اسباب کا کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہے۔ حق جیساکہ آئمہ اطہارؑ نے بیان کیا ہے بل الامر بین الامرین ۔ امرین سے مراد یہ نہیں ہے کہ ۵۰ فیصد اللہ کو اور ہمیں ۵۰ فیصد اختیار حاصل ہے !! ایسا نہیں ہے بلکہ اصل حاکمیت اللہ سبحانہ کے ارادہ کی ہے اور اس کے طول میں اللہ تعالیٰ نے اختیار اور ارادہ کی قدرت دی ہے جس کی وجہ سے عبد ارادہ اور اختیار کرتا ہے۔ مکتب اہل بیتؑ کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر سبب معدّ اور زمینہ فراہم کرنے کا باعث ہے جبکہ اصل اثر اور حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ پس اسباب کی تاثیر کا انکار نہیں ہے بلکہ اسباب کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے زیر اثر ہے۔ علم بما ھو علم کسی مسلک یا کسی فرقے کے افراد کے ساتھ مختص نہیں ہے جسے جو حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ کے ارادہ و اذن سے حاصل ہو جائے گا۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ امام علیؑ کو جنہوں نے خلافت و امامت سے کنارہ کش کیا انہوں نے امام علیؑ سے نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں شہرِ علم ہوں اور امام علیؑ اس شہر کا دروازہ ہیں۔ اس دروازہ کو ان لوگوں نے بند کر دیا جنہوں نے امام علیؑ کو برسر اقتدار نہیں آنے دیا اور اس کے نتیجہ میں رسول اللہ ﷺ کے علم تک عمومی رسائی ختم ہو گئی۔

 

منابع:

منابع:
1 ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، ج ۱، ص ۳۷۴۔
2 بقرہ: ۲۵۴۔
3 حجر: ۹۹۔
4 قمی مشہدی، محمد بن محمد رضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، ج ۷، ص ۱۷۱۔
5 حج: ۱۱۔
6 قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج والجرائح، ج ۲، ص ۵۸۰۔
7 سعدی، بوستان، باب سوم، بخش ۲۲۔
8 ابراہیم: ۸۔
9 حجرات: ۱۲۔
10 نجم: ۳۹-۴۱۔
11 خوئی، حبیب اللہ ، منہاج البراعۃ، ج ۱۹، ص ۳۰۳، خاتمہ۔
12 شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۱۷۶۔
13 مثنوی معنوی، دفتر چہارم، بخش ۱۱۵۔
14 اعراف: ۵۴-۵۶۔
15 نبأ: ۴۰۔
16 حج: ۱-۲۔
17 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۲۱۲، باب ۴۱۔
18 مائدہ: ۵۵۔
19 انسان: ۹۔
20 ابن طاووس، سید علی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۲۶۷۔
21 حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، ج ۵، ص ۶۷۸۔
22 ص: ۸۳۔
23 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۷۶۵، باب العجب، حدیث ۸۔
24 صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۲، ص ۳۴۰، باب ۳۹۔
25 مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۴، ص ۳۴۱، باب ۱۳۔
26 ابن طاووس، سید علی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۲۸۔
27 یونس: ۹۰-۹۳۔
28 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی: ج ۳، ص ۳۵۶۔
29 دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب إلی الصواب، ج ۱،ص  ۱۷۸۔
30 محدث نوری، حسین بن محمد ، مستدرک الوسائل ، ج ۴، ص ۲۰۴۔
31 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص ۱۸۲۔
32 نحل: ۷۸۔
33 بقرہ: ۱۵۵۔
34 ہود: ۱۱۲۔
35 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ۲ ۵۱۰، مادۃ: ضل۔
36 حدید: ۴۔
37 انفال: ۴۶۔
38 زمر: ۱۰۔
39 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۲۲۶۔
40 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۲۳۶۔
41 تحریم: ۸۔
42 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۴۹، حکمت قصار ۴۱۷۔
43 حجرات: ۱۲۔
44 ورام بن فراس، مسعود بن عیسی، ص ۱۱۸، باب الغیبۃ۔
45 طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص ۵۳۸، مجلس ۱۹۔
46 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۷۲، ص ۲۵۹، باب ۶۶۔
47 امام سجادؑ ، صحیفہ کاملہ، ص ۹۴، دعاء ۲۰۔
Views: 120

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شرح مناجات خمس عشر
اگلا مقالہ: معرفت نفس میں علم و عمل کا کردار