loading

{شیعہ کتب رجال کا تعارف}

رجال کشی

تحریر: سید محمد حسن رضوی
03/06/2022

علم رجال جسے علم جرح و تعدیل بھی کہا جاتا ہے اسلامی علوم میں ایک اہم علم شمار کیا جاتا ہے۔ آئمہ اہل بیتؑ کے دور سے ہی اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئیں جو بعد میں آنے والے علماءِ رجال کی توثیق و تضعیف کا بنیادی منبع و مأخذ بنیں، جیسے عبید اللہ بن ابی رافع صحابیِ امام علیؑ کی معروف کتاب ’’تسميةُ مَنْ شَهِدَ مع أمير المؤمنين × الجملَ والصفين والنهروان من الصحابة‘‘، عبد اللہ بن جبلّہ کنّانی متوفی ۲۱۹ ھ کی کتاب رجال، حسن بن علی بن فضّال متوفی ۲۲۴ ھ کی کتاب جوکہ نجاشی کے دور تک معروف تھی، حسن بن محبوب متوفی ۲۲۴ ھ کی کتاب ’’معرفةُ رواةِ الأخبار‘‘ وغیرہ معروف کتابیں ہیں۔ان میں سے ہم تک رجال برقی کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پہنچی۔ پہلی کتاب جس تک آج کے علماء کی دسترس ہے وہ رجال کشی ہے ۔ ہم پہلے ان کے ’’کشی ‘‘کے حالات کو ملاحظہ کرتے ہیں پھر کتاب کا تعارف زیر بحث لایا جائے گا۔

محمد بن عمر کشی:

آپ کا نام محمد بن عمر بن عبد العزیز ، کنیت ابو عمرو اور نسبت ’’کَشّی‘‘ ہے۔آپ کا شمار تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے بزرگ علماء رجال میں ہوتا ہے۔ آپ کی ولادت کے تذکرہ سے کتب خالی ہیں جس کی وجہ سے دقیق طور پر ولادت کی تاریخ کو نہیں جانا جا سکتا۔ کشی کا تعلق حوزہ سمرقند و بخارا سے ہے جوکہ تیسری چوتھی صدی ہجری میں علم و دانش  کا گہوارہ تھا اورعالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیات اس سرسبز و شاداب خطے سے ظاہر ہوئیں۔ افسوس کہ ہمارے پاس سمرقند میں علمی رشد اور مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے بزرگ علماء جیسے محمد بن مسعود عیاشی سمرقندی، محمد بن عمر کشی وغیرہ کی تفصیلات اور حالات زندگی میسر نہیں آ سکے حتی کہ ایک کتاب بھی اس درخشاں تاریخ پر موجود نہیں ہے۔ کشی سے متعلق قدیمی ترین معلومات وہ ہیں جو علماء رجال بالخصوص نجاشی اور طوسی نے ذکر کی ہیں۔ ذیل میں ہم نجاشی اور طوسی کے بیانات ان کی کتبِ رجال سے ملاحظہ کرتے ہیں اور اس کے ضمن میں بقیہ تجزیہ تحلیل پیش خدمت کیا جائے گا۔ نجاشی نے آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں اپنی رجال میں ذکر کیا ہے:

محمد بن عمر بن عبد العزيز الكشي أبو عمرو، كان ثقة، عينا، وروى‏ عن‏ الضعفاء كثيرا وصحب العياشي وأخذ عنه وتخرج عليه وفي داره التي كانت مرتعا للشيعة وأهل العلم. له كتاب الرجال، كثير العلم، وفيه أغلاط كثيرة. أخبرنا أحمد بن علي بن نوح و غيره، عن جعفر بن محمد، عنه بكتابه‏. [1]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۷۲، رقم: ۱۰۱۸۔

ترجمہ:محمد بن عمر بن عبد العزیز کشی، ابو عمرو، آپ ثقہ، عین تھے، ضعفاء سے کثیر روایات نقل کی ہیں، عیاشی کے مصاحب  رہے ہیں اور ان سے کسبِ علم کیا ہے اور انہی کے پاس  علم کے لیے آتے جاتے رہے ہیں، عیاشی کا گھر شیعہ اور اہل علم کے لیے بہترین اور پُررونق جگہ تھی۔ کشی کی کتاب الرجال ہے جو کثیر علم کی حامل ہے لیکن اس میں بہت سے اغلاط پائی جاتی ہیں۔ ہم کو خبردی  احمد بن علی بن نوح اور ان کے علاوہ دیگر نے  ، انہوں نے نقل کیا ہے جعفر بن محمدسے، انہوں نے کشی سے ان کی کتاب کو نقل کیا ہے۔

شیخ طوسی نے اپنی فہرست میں شیخ کشی کی تفصیل اس طرح سے ذکر کی ہے:

محمّد [بن عمر]: محمّد بن عمر بن عبد العزيز الكشّي‏، يكنّى أبا عمرو، ثقة، بصير بالأخبار و بالرجال، حسن الإعتقاد. له كتاب الرجال. أخبرنا جماعة، عن أبي محمّد هارون بن موسى، عن محمّد بن عمر بن عبد العزيز أبي عمرو الكشّي. [2]طوسی، محمد بن حسن، فہرست شیخ طوسی، ص ۲۱۷، رقم: ۶۱۴۔

ترجمہ: محمد بن عمر : محمد بن عمر بن عبد العزیز کشّی ، کنیت ابو عمرو ہے، آپ ثقہ ، احادیث و رجال پر گہری نگاہ رکھنے والے ، بہرین عقیدہ کے مالک تھے، ان کی ’’کتاب الرجال‘‘ ہے جس کے بارے میں ہمیں خبر دی ہے ایک جماعت نے، انہوں نے نقل کیا ہے ابو محمد ہارون بن موسی سے، انہوں نے محمد بن عمر بن عبد العزیز ابو عمرو کشّی سے۔

سمرقند کا شہرِ کشّ:

نجاشی اور طوسی کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ کشّی ثقہ، عین یعنی بڑی شخصیت ، احادیث و رجال پر گہری نگاہ اور بصیرت کے حامل اور مستقیم و صحیح المذہب تھے۔ ’’کشّ‘‘ سمرقند کا ایک سرسبز و شاداب شہر ہے۔ سمرقند کی سرزمین جہاں علم و فضل کا عظیم گہوارہ تھی وہاں سرسبز زرخیر زمین، نہری و دریائی پانی کی بہتات اور کھیتی باڑی و کاشتکاری و باغات کے لیے موزوں ترین جگہ ہونے کی وجہ سے معروف تھی۔ ماضی میں یہ خطہ باغات کی کثرت اور زمین کی ہریالی کی بناء پر خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ دنیا کے نقشے کی موجودہ تقسیم کے مطابق سمرقند و بخارا اور اس کے مضافات کے علاقے ازبکستان کے ملک میں شمار ہوتے ہیں۔ ازبکستان کو اگر نقشے میں دیکھا جائے تو ازبکستان کے افغانستان کے اوپر واقع ایک ملک ہے جس کے ایک طرف تاجکستان ، قرغستان اور قزاقستان ہیں جبکہ دوسری طرف تاجسکتان ہے۔ اسلامی شخصیات کی وجہ سے سمرقند اور اس کے اطراف جو علاقے زیادہ معروف ہوئے وہ بخارا، عیاش، سرخس، ترمذ، ماترید اور کش کے علاقے ہیں۔ معروف اہل سنت محدث محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ ھ کا تعلق بخارا سے جبکہ سنن ترمذی کے مصنف ابو عیسی محمد ترمذی متوفی ۲۷۹ ھ کا تعلق ترمذ سے تھا۔ اسی طرح پانچویں صدی ہجری کے معروف اہل سنت اصولی فقیہ محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی متوفی ۴۹۰ ھ کا تعلق سرخس سے ہے جوکہ آج کے دور میں ازبکستان میں شمار ہوتا ہے۔ یہ خطہ مکتب تشیع کی عظیم شخصیات کی رونق سےبھی آراستہ ہے۔ محمد بن مسعود عیاشی متوفی ۳۲۰ ھ کا تعلق سمرقند سے تھا۔ اسی طرح محمد بن عمر بن عبد العزیز کشی کا تعلق کشّ کے علاقہ سے تھا جس کی وجہ سے آپ کشّی کے عنوان سے معروف ہو گئے۔ کشی کے متعدد شیوخ کا تعلق سمرقند اور کشّ سے ہے جیساکہ ان کے اساتیذ کی فہرست معلوم ہوتا ہے۔

کتاب رجال کشی:

نجاشی اور طوسی نے واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ کشی کی رجال کے موضوع پر کتاب ہے۔ البتہ اس کے نام میں اختلاف وارد ہوا ہے ۔ بعض قائل ہیں کہ اس کا ’’معرفۃ الرجال‘‘ تھا ، جبکہ بعض قائل ہیں اس کا نام ’’معرفۃ الناقلین عن الأئمۃ الصادقین ؑ‘‘ تھا۔ یہ قول بھی وارد ہوا ہے کہ اس کا نام فقط ’’ معرفۃ الناقلین‘‘ تھا۔[3]سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرُّواۃ فی کلیات علم الرجال، ص ۲۹۔ رجال کشی کا اصل نسخہ ہم تک نہیں پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ طوسی کے پاس اصل نسخہ پہنچا تھا جس میں کافی اغلاط تھیں جیساکہ نجاشی اور طوسی ہر دو نے اپنی رجال میں تصریح کی ہے کہ کشی کی رجال میں اغلاط بڑے پیمانے پر پائی جاتی تھیں۔ یہاں اغلاط سے مراد دو امر ہیں: ۱۔ زوائد اور اضافہ جات، ۲۔ نسخہ برداری کرنے والے کی طرف سے خطائیں۔ اگر ہم کثیر اغلاط کو تسلیم کریں تو اس کا مطلب ہے کہ شیخ طوسی تک بھی اصل صحیح اور مرتب نسخہ نہیں پہنچا بلکہ اغلاط سے پُر نسخہ تھا جس کی تہذیب و تصحیح شیخ طوسی نے کی اور مہذب و مصحح شدہ نسخہ کا عنوان ’’ اختیار معرفۃ الرجال‘‘ یا ’’ معرفۃ الرجال‘‘ رکھا اور یہی نسخہ آج کے زمانے میں موجود ہے جسے رجال کشی کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔

شیخ طوسی اور اختیار معرفۃ الرجال:

رجال کشی کا اصل نسخہ ہم تک نہیں پہنچا بلکہ ہم تک شیخ طوسی کا مہذب کردہ نسخہ پہنچا ہے کیونکہ شیخ طوسی کی رسائی اغلاط سے پُر نسخہ تک ہوئی جس میں سے انہوں نےاغلاط کو برطرف کیا اور اضافہ جات کو حذف کر کے استفادہ کے قابل بنایا اور اس مہذب شدہ نسخہ کا نام ’’اختیار معرفۃ الرجال یا معرفۃ الرجال ‘‘ رکھا ۔بعض محققین کا کہنا ہے کہ اگر شیخ طوسی ان اغلاط اور زوائد کو حذف نہ کرتے تو ہمارے پاس تحقیق کی فرصت مہیا ہوتی اور بہت سے ایسے قرائن ہمیں دستیاب ہو جاتے جو شیخ طوسی کی تصحیح کی بناء پر ہماری دسترس سے نکل گئے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ طوسی کی ولادت ۳۸۵ ھ اور وفات ۴۶۰ ھ ہے ، انہوں نے رجال کشی پر کس وقت کام کیا؟ آیا اوائل عمر میں یا انتہائی عمر میں؟ ظن قوی یہ ہے کہ شیخ طوسی نے اپنی رجال اور فہرست کو مرتب کرنے کے بعد اس پر کام کیا کیونکہ شیخ طوسی کو یہ احساس ہوا کہ انہوں نے رجال طوسی اور فہرستِ شیعہ میں راوی کی کتب اور وثاقت و ضعف کی طرف مختصر اشارہ کیا ہے جبکہ احادیث سے اس مورد میں استفادہ نہیں کیا۔ علم رجال میں توثیقات و تضیعفات کے باب میں احادیث سے استفادہ کی غرض سے شیخ طوسی نے رجال کشی کی طرف رجوع کیا اور اس میں سے جس حصہ یا جن معلومات کو اختیار کیا اس استخراج کرنے کے بعد کتابی صورت میں ڈھالا ۔ شیخ طوسی نے اصل کتاب سے جو استخراج کیا اس میں سے فقط احادیث اور روایات جو راوی سے مربوط ہیں کو نقل کیا ہے۔ بعض احادیث کو شیخ طوسی نے ناقص طور پر نقل کیا ہے اور مطلوب مورد ذکر کرنے کے بعد تبصرہ لکھا کہ یہ حدیث طویل ہے جس کا مطلب ہے کہ بقیہ حصہ شیخ طوسی نے ترک کر دیا۔ یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ شیخ طوسی نے رجال اور فہرست لکھنے کے بعد تکملہ کے طورپر کشی کی رجال کو استخراج کیا اور مرتب کر کے لکھا جس سے مقصود راویوں کی وثاقت و تضعیف اور فہرستِ کتب کے تذکرہ کی تکمیل کرتے ہوئے احادیث کا بیان تھااور اس مقصد کے لیے انہوں نے فقط اغلاط کو برطرف کیا اور رجال کشی کو مہذب کر کے اپنی کتاب کی تکمیل کی۔ اسی لیے شیخ طوسی کی فہرست میں اختیار معرفۃ الرجال نام سے کسی کتاب کا تذکرہ نہیں ہے۔ البتہ یہ دعویٰ بدونِ دلیل اور حدس پر مشتمل ہے۔ [4]شبیری، سید جواد، درس رجال، جلسہ ۵۔

رجال کشی اور تحریفات و تصحیفات:

محمد بن عمر کشّی نے جو کتاب تحریر کی اس کی تاریخی صورتحال پیچیدہ رہی ہے۔ شیخ طوسی تک یہ کتاب اغلاط سے پُر پہنچی ۔ نیز جمال الدین سید احمد بن طاووس متوفی ۶۷۳ ھ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس رجال کشی کا نسخہ پہنچا جوکہ اغلاط سے پُر تھا اور انہوں نے بقیہ رجال کی کتابوں کو جمع کر کے جو کتاب ’’اصولِ خمسہ‘‘ کے موضوع پر لکھی اس میں کشی کی اس رجال کو شامل کر لیا اور پانچ رجال کی کتابوں کے اس علمی مجموعہ کا نام ’’ حل الإشکال فی معرفۃ علم الرجال‘‘ رکھا۔ اس طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں دو بزرگان کے پاس کشی کا نسخہ پہنچا۔

Views: 331

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: وثوق نوعی
اگلا مقالہ: نوخیز جوان کا امام علیؑ پر فدا ہو جانا