loading

{جنگ جمل کا پہلا شہید}

نوخیز جوان کا امام علیؑ پر فدا ہو جانا

تحریر: سید محمد حسن رضوی
05/26/2022

امام علیؑ پر فدا کاری کی تاریخ رقم کرنے والے عظیم شہداء میں ایک بڑا نام ’’ مسلم بن عبد اللہ جہنی‘‘ ہے۔ جنگ جمل میں دونوں طرف لشکر آمادہِ جنگ ہو گئے اور صفیں بچھ گئیں تو امام علیؑ نے آخری حجت تمام کرنے کے لیے اپنے لشکر والوں کے سامنے پیشکش کی جس پرسولہ سترہ سالہ  ایک تازہ نوخیر جوان نے لبیک کہی اور امام علیؑ کے فرمان کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی اور اپنے خون سے غسل کر کے شہادت کی سعادت کو حاصل کیا۔ مکتب تشیع کی میراث حقیقت میں یہی فداکاری اور جانثاری ہے جس کے نمونے آج بھی حیدری جوانوں کے خون کو گرم رکھتے ہیں اور وہ اپنے دین اسلام اور اپنے امام وقتؑ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ آئیےچھوٹی عمر کے اس جوان کی داستان اہل سنت کے معروف محدثین و علماء رجال جیسے ذہبی، بلاذُری، طبری و ابن اثیر اور مکتب تشیع کی عظیم شخصیت شیخ مفید کی کتب کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

مُسلم بن عبد الله الجُهَنيّ:

جہنی قبلیہ سے تعلق رکھنے والے اس جوان کا نام ’’مسلم بن عبد اللہ الجہنی‘‘ ہے۔ مسلم پندرہ سولہ سالہ وہ  نوخیز جوان ہے جس نے خود آگے بڑھ کر لشکر حضرت عائشہ کے سامنے قرآن کریم کو کھولا اور قرآن کی طرف دعوت دی جس کے نتیجہ میں جوانی کی تازہ بہاریں دیکھنے والا یہ خوبصورت جوان بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔  [1]ذہبی، محمد بن احمد ، تاریخ الاسلام، ج ۳، ص ۵۳۵۔ جنگ جمل کا پہلا شہید یہی نوخیر جوان مسلم الجہنی تھا۔ [2]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۵۲۱۔ اس واقعہ کو بزرگ مؤرخین اور علماء رجال جیسے طبری، ابن اثیر، بلاذُری وغیرہ نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

واقعہ کی تفصیل:

تاریخ طبری اور شیخ مفید کی کتاب الجمل میں ذکر ہوا ہے کہ جنگ جمل کے آغاز میں امام علیؑ نے اپنے ہاتھ میں قرآن کریم اٹھایا اور تمام لشکر میں چکر لگاتے ہوئے فرمایا : کون ہے جو مخالفین میں اس قرآن کو لے کر جائے گا اور انہیں قرآن قبول کرنے کی دعوت دےگا ۔ جو بھی یہ کرے گا وہ شہید کر دیا جائے گا اور شیخ مفید نے اس جملہ کا اضافہ کیا ہے کہ امام علیؑ نے فرمایا کہ میں اس کی جنّت کا ضامن ہوں۔ امام علیؑ نے جب یہ جملات فرمائے تو ایک نوخیز جوان جس نے سفید قبا اوڑھی ہوئی تھی اور اس کی ماں بھی اس موقع پر موجود تھی ، اس نے کہا کہ میں اس کام کو انجام دوں گا۔ شیخ مفید نے نقل کیا ہے کہ امام علیؑ نے اس کی تازہ جوانی پر رشک کرتے ہوئے  اس سے رخِ انور پھیر لیا اور دوبارہ اعلان کیا لیکن اس مرتبہ بھی یہی جوان اٹھ کھڑا ہوا۔  امام علیؑ نے دوبارہ اپنا چہرہ مبارک اس سے پھیر لیا اور اس کی جوانی پر ترس کھایاجبکہ اس کی ماں بھی موجود تھی۔ تیسری مرتبہ امام علیؑ نے دوبارہ یہی کلمات دہرائے لیکن لشکر میں سے اس جوان کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا۔

تیسری مرتبہ اس جوان نے اپنے آپ کو پیش کیا تو  امام علیؑ نے اس وظیفہ کی انجام دہی اس کے سپرد کر دی اور اس کے حوالے قرآن کریم کیا اور مخالفین کی طرف روانہ کیا۔ یہ جوان پُر عزم قدم اٹھاتے ہوئے حضرت عائشہ کے لشکر کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بلند آواز میں بولا کہ یہ اللہ عزوجل کی کتاب ہے اور جو کچھ اس کتابِ الہٰی میں ہے امیر المؤمنین ؑ تمہیں اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عائشہ نے غضب میں حکم دیا کہ نیزوں سے اسے اکھاڑ پھینکو، اللہ اس کا برا کرے۔ حضرت عائشہ کے کہنے پر نیزے بردار اور تلوار لیے کئی افراد اس پر حملہ آور ہو گئے اور اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ ڈالا ۔ اس نے قرآن کریم بائیں ہاتھ سے پکڑ لیا ۔ لشکرِ مخالفین نے اس مومن جوان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ ڈالا تو اس نے قرآن کریم کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور بالآخر خون میں نہا کر اس عظیم جوان جس کا نام مسلم جہنی تھا نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ امام علیؑ نے جب اس جوان کو شہید دیکھا تو فرمایا : اب جنگ ہم پر حلال ہو گئی ہے۔

فدا کار جوان کی ماں کا نوحہ:

اسی موقع پر مسلم جہنی کی ماں  جب اپنے لخت جگر کو کٹے جسم اور بکھرے اعضاء کی صورت میں دیکھا تو جیخ و پکار کرتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑی  اور اپنے آپ کو اپنے فرزند کے اوپر گرا دیا اور میدان سے گھسیٹ کر لانے کی کوشش کی ۔ امام علیؑ کی فوج سے ایک گروہ نکلا اور وہ اس مومن جوان کو امام علیؑ کے لشکر میں لے آیا۔مسلم جہنی کی ماں نے گریہ و آہ و زاری کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے : [3]شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، ج ۱ ، ص ۳۳۹۔[4]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۵۲۲۔

لا هُمَّ إِنَّ مُسْلِمًا دَعَاهُمْ                  يَتْلُو كِتَابَ اللَّهِ لا يَخْشَاهُمْ
کیا کوئی پریشان کن بات نہیں !! کہ ایک مسلمان نے انہیں دعوت دی         وہ مسلمان  اللہ کی کتاب کی تلاوت کررہا ہے اسے ان لوگوں کا کوئی ڈر نہیں 
وأمهم قائمة تراهم                    تأمرهم بالقتل لا تنهاهم
اور ان کی ماں (عائشہ) کھڑی انہیں دیکھ رہی ہے        وہ انہیں قتل کا حکم دے رہی ہے، حیرت ہے وہ  انہیں روکتی نہیں
قَدْ خُضِبَتْ مِنْ عَلَقٍ لِحَاهُمْ.
ان کی داڑھیاں خون کے لوتھڑوں سے رنگین ہو گئیں ہیں۔  [5]ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۲۶۲۔[6]بلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۴۱۔

راہ الہٰی اور اطاعتِ امیر المؤمنینؑ پر قربان ہونے والے اس نوخیز جوان پر لاکھوں سلام

Views: 377

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: امام باقرؑ اور معتزلہ فرقے کا امام