loading
{علم حدیث}

حدیثِ مرسل

تحریر: عون نقوی 

حدیث مرسل خبر واحد کی اقسام میں سے ہے۔ ایسی حدیث جس کے سلسلہ سند میں ایک یا  ایک سے زائد راوی مذکور نہ ہوں اسے مرسل کہتے ہیں۔ علی القاعدہ حدیث مرسل ضعیف حدیث شمار ہوتی ہے۔

حدیث مرسل کی تعریف

معروف عالم رجالی علامہ مامقانی نے حدیث مرسل کی دو صورتیں بیان کی ہیں:
مرسل بمعنی اعم: ایسی حدیث جس کے سلسلہ سند میں تمام یا چند ایک راوی حذف کر دئیے گئے ہوں، اگر چہ محذوف رواۃ کا مبہم کلمات مثلا بعض، بعض اصحابنا کے ساتھ ذکر ہو تب بھی حدیث مرسل کہلاۓ گی۔[1] مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۴۔
مرسل بمعنی اخص: ایسی حدیث ہے جس میں تابعی بغیر(صحابی کے) واسطے کے رسول اللہﷺ سے روایت نقل کرے۔[2] مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۵۔

حدیث مرسل کی بعض اقسام

۱۔ مرفوع حدیث: ایسی حدیث جس کے وسط یا آخر سلسلہ سند میں کسی ایک راوی کا ذکر نہ کیا گیا ہو اور صراحت کے ساتھ کلمہ ’’رفع ‘‘وارد ہوا ہو۔
۲۔ موقوف حدیث: ایسی حدیث جس کا سلسلہ سند صحابی پیغمبرﷺ یا امام کے ساتھی پر جا کر رک جاۓ۔ اکثر اہلسنت کے نزدیک صحابہ کے مقام و اعتبار کی بنا پر موقوف حدیث کو حجت قرار دیا جاتا ہے لیکن اہل تشیع اس وقت تک موقوف حدیث کو حجت نہیں مانتے جب تک ثابت نہ ہو جاۓ کہ یہ کلام امام سے صادر ہوا ہے۔
۳۔ مدلس حدیث: ایسی حدیث جس میں راوی نے جس سے روایت سنی ہے اس کا نام چھپا دیتا ہے۔ یا کسی ایسے شخص کا نام بیان کر دیتا ہے جس سے اس نے درحقیقت روایت نہیں لی۔

حدیث مرسل کی حجیت کا حکم

فقہاء کرام کی اصطلاح میں جب حدیث مرسل کا کلمہ بولا جاتا ہے تو اس سے مرسل بمعنی عام مراد ہوتا ہے۔ اس کی حجیت پر دو اقوال ہیں۔
۱۔ مطلق طور پر حدیث مرسَل قبول ہے۔ چاہے صحابی کو سلسلہ سند سے گرایا گیا ہے یا تابعی کو، گرنے والا راوی جلیل القدر ہو یا عام راوی، ایک راوی کو سند سے گرایا گیا ہے یا چند ایک کو گرایا گیاہو۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرسِل ثقہ ہو۔ مکتب تشیع میں احمد بن خالد برقیؒ، اور ان کے والد اس قول کے قبول کرتے تھے۔ اہلسنت علماء میں آمدی، مالک، ابوہاشم، اور بعض معتزلہ اس کے قائل ہیں۔[3] مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۶۔
۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حدیث مرسل حجیت نہیں رکھتی۔ اکثریت علماء اس کے قائل ہیں۔ جن میں شیخ طوسیؒ، محقق حلیؒ، علامہ حلیؒ، شہید اولؒ، شہید ثانیؒ، اور اکثر متاخر علماء تشیع و تسنن شامل ہیں۔

مراسیل مقبولہ

حدیث مرسل ہم پر حجت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے بعض علماء رجال نے کچھ اصحاب کی مرسل حدیثوں کو معتبر قرار دیا ہے۔ جن میں تین بڑے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ محمد بن ابی عمیر
۲۔ صفوان بن یحیحی
۳۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی[4] سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرواۃ فی کلیات علم الرجال، ص۱۹۶۔
یہاں پر بحث فقط محمد بن ابی عمیر کی مراسیل پر ہے۔ کیونکہ باقی دو اصحاب کی اتنی کثیر مراسیل وارد ہی نہیں ہوئیں۔ محمد بن ابی عمیر ایسی شخصیت ہیں جن سے مراسیل کا ایک مجموعہ ہم تک پہنچا ہے اگر ان کو حجت قرار دے دیا جاۓ تو روایات کا ایک ذخیرہ ہمارے لیے قابل استفادہ قرار پا سکتا ہے۔ ورنہ وہ سب روایات ضعیف ہو جائیں گی۔
اس کے علاوہ سات نام اور بھی ہیں جن کی مراسیل کو بعض علماء نے حجت قرار دیا ہے۔
۱۔ ابو عباس نجاشی
۲۔ احمد بن غالب ضراری
۳۔ احمد بن محمد عیسی اشعری
۴۔ جعفر بن بشیر
۵۔ علی بن حسن عطائی
۶۔ محمد بن ابی بکر حمام اسکافی
۷۔ محمد بن اسمعیل زعفرانی۔[5] حوالہ    درکار  ہے۔

محمد بن ابی عمیر کی مراسیل

محمد بن ابی عمیر امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ امام کاظمؑ کا دور شیعہ کے لیے سخت ترین دور تھا۔  امامؑ چند سال ہارون رشید کے زندان میں قید رہے۔ ان کے اصحاب کو بھی زدو کوب کیا جاتا اور زندانوں میں ڈالا جاتا۔ محمد بن ابی عمیر کو بھی حکومتی اہلکار گرفتار کرنے آۓ تو ان کو پہلے سے اطلاع مل گئی۔ جلدی میں سب کتابوں کو انہوں نے گھر میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ حکومتی اہلکاروں نے گھر کی خوب تفتیش کی لیکن ان کو کچھ نہ ملا، محمد بن ابی عمیر کو گرفتار کر کے لیے گئے، ایک عرصے کے بعد جب ان کو رہائی ملی اور انہوں نے گھر آ کر کتابوں کی خبر لی تو آدھے سے زیادہ کتابیں تلف ہو چکی تھیں۔ ان کے ذہن میں متن حدیث تو موجود تھا لیکن کونسی روایت کس سے لی، سند حدیث یاد نہ رکھ سکے۔ اس لیے روایت تو نقل کرتے لیکن اس کی سند بیان نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر بعض علماء رجال نے ان کی مراسیل کو حجت قرار دیا ہے۔[6] نجاشی‌، احمد، الرجال‌ النجاشی، ج۲، ص۲۰۶۔ [7] شیخ مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، ج۱، ص۸۶۔
آیت اللہ خوئی ؒنے اس قول کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ دوسروں کی مراسیل اور محمد بن ابی عمیر کی مراسیل میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ محمد بن ابی عمیر بھی ضعیف راویوں سے نقل کرتے ہیں۔ اور ہمیں علم نہیں ہے کہ جو مرسلہ روایات محمد بن ابی عمیر نے بیان کی ہیں وہ ثقہ راویوں سے لی گئی ہیں یا ضعیف سے۔[8] حوالہ درکار ہے۔ تاہم اس کا جواب دیا گیا ہے کہ حساب احتمال کے نظریہ کے تحت محمد بن ابی عمیر نے جن ضعیف راویوں سے روایات لی ہیں وہ بہت قلیل ہیں۔ ایک یا دو فیصد روایات کا مجموعہ ایسا ہے جو محمد بن ابی عمیر نے ضعیف راویوں سے لیا ہے۔ اس بنا پر آپ محمد بن ابی عمیر کی تمام مراسیل کو ضعیف قرار نہیں دے سکتے۔کیونکہ کثیراحتمال یہ ہے انہوں نے وہ مراسیل ثقہ راویوں سے نقل کی ہیں۔ 

Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نوخیز جوان کا امام علیؑ پر فدا ہو جانا
اگلا مقالہ: محمد بن سنان