loading

{  ضوابطِ جرح و تعدیل۔ توثیقات عامہ }

اصحاب اجماع
تحریر: سید محمد حسن رضوی
11/07/2022

علم جرح و تعدیل میں اہل رجال نے ذکر کیا ہے کہ کسی راوی کے بارے میں اگر توثیق خاص میسر نہ آئے اور اماراتِ وثاقت میں سے کوئی معتبر امارہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں توثیقات عامہ کی طرف رجوع کیا جائے گا جس میں ایک کلی اور جامع عنوان کے ضمن میں مطلوب راوی کی وثاقت کو ثابت کیا جا تا ہے۔ توثیقات عامہ میں سے ایک اہم ضابطہ ’’اصحابِ اجماع‘‘ ہے۔ اصحاب اجماع کی بحث کو ہم درج ذیل عناوین میں زیر بحث قرار دے سکتے ہیں:

۱۔ اصحاب اجماع کا منبع:

اصحابِ اجماع کی اصطلاح متأخر دور میں علم رجال کی زینت بنی جس کا مأخذ رجالِ کشی ہے۔ معروف عالم رجالی جناب کشیؒ نے رجالِ کشی میں تین مجموعوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے اصحاب کی جماعت کا اجماع ہے کہ اس مجموعہ میں موجود راویوں سے  آنے والی احادیث صحیح ہیں۔ آگے سطور میں ہم   تصحيح ما يصح عنه  کے ضمن میں اس موضوع سے تفصیلی بحث کریں گے۔  اس اعتبار سے اصحابِ اجماع کے عنوان کا واحد منبع رجال کشی ہے جس کا اصلی نسخہ شیخ طوسیؒ کے پاس موجود تھا اور انہوں نے س کی تہذیب کی اور اس مہذب شدہ  نسخہ کا نام ’’اختیار معرفۃ الرجال‘‘ رکھا جو ہم تک پہنچا ہے۔ جناب کشی کے بعد جتنی کتب میں اصحاب اجماع کا عنوان پایا جاتا ہے ان سب نے شیخ طوسی کی مہذب شدہ نسخہ سے اس کو لیا ہے ۔ لہٰذا تمام کتابوں میں اصحابِ اجماع کی بحث رجالِ کشی پر منتہی ہوتی ہے جس کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس اجماع کا اصلی منبع ایک کتاب ہے اور ووہ رجال کشی ہے۔

۲۔ اصحاب اجماع کا دعوی:

جناب کشیؒ نے اپنی رجال میں تحریر کیا ہے کہ ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ اس مجموعہ کے راوی سے آنےوالی احادیث صحیح سمجھی جائیں گی۔ یہاں سے علماءِ رجال نے اس کو اصحابِ اجماع کا نام دے کر اصطلاح کی شکل دے دی۔ اصحاب اجماع کے عنوان ہمارے قدماء کے اتفاق و اجماع کا سب سے پہلے دعوی خود محمد بن عمر کشیؒ نے کیا ہے۔ جنابِ کشیؒ سے پہلے کسی نے اس اجماع کا دعوی نہیں کیا اور ان کے بعد جس نے بھی ان روایوں کی احادیث پر ہمارے اصحاب کے اجماع کا دعوی ذکر کیا ہے اس نے حقیقت جناب کشیؒ کے دعوی کو نقل کیا ہے۔ اس بناء پر یہ اجماعِ منقول کہلائے گا جس کا اختتام خود جناب کشیؒ کے بیان پر ہوتا ہے۔

۳۔ اصحابِ اجماع سے مراد:

جناب کشیؒ نے اپنی کتاب میں تین مختلف جگہوں میں اصحاب اجماع کا تذکرہ کیا ہےجوکہ طبقاتِ راوی کی اساس پر ہے۔ طبقات میں جس کا طبقہ پہلے آتا ہے اس کو کشیؒ نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ذیل میں ہم جناب کشیؒ کی عینِ عبارت کو ملاحظہ کرتے ہیں اور اس کے بعد اس سے نتیجہ لیں گے:

طبقہ اوّل ۔ امام باقرؑ و صادقؑ کے اصحاب:

جناب کشیؒ نے اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں: { اجْتَمَعَتِ الْعِصَابَةُ عَلَى تَصْدِيقِ هَؤُلَاءِ الْأَوَّلِينَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي جَعْفَرٍ (×) وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (×) وَانْقَادُوا لَهُمْ بِالْفِقْهِ، فَقَالُوا أَفْقَهُ الْأَوَّلِينَ سِتَّةٌ: زُرَارَةُ وَمَعْرُوفُ بْنُ خَرَّبُوذَ وَبُرَيْدٌ وَ أَبُو بَصِيرٍ الْأَسَدِيُّ وَالْفُضَيْلُ بْنُ يَسَارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ، قَالُوا وَأَفْقَهُ السِّتَّةِ زُرَارَةُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ كَانَ أَبِي بَصِيرٍ الْأَسَدِيِّ أَبُو بَصِيرٍ الْمُرَادِيُّ وَهُوَ لَيْثُ بْنُ الْبَخْتَرِيُّ }. [1]طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ص ۲۳۸، رقم: ۴۳۱۔اس عبارت میں کشی ؒنے تصریح کی ہے کہ ہمارے قدماء فقہاء و محدثین کی جماعت  کا امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے اول درجے کے چھ اصحاب کے اہل علم و فقہ ہونے کی تصدیق پر اتفاق ہے۔ اس عبارت میں ’’تصدیق ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے مراد ’’تصحیح‘‘ یعنی صحیح قرار دینا ہے جیساکہ دیگر ان دو مجموعوں کو ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہےجن کا ذکر درج ذیل میں سطور میں کیا جائے گا۔ جناب کشیؒ نے اجتماع اور اجماع کا جو دعوی کیا ہے وہ درج ذیل چھ افراد سے مربوط ہے:
۱۔ زُرارۃ
۲۔ معروف بن خرّبوذ
۳۔ بُرَید
۴۔ ابو بصیر اسدی
۵۔ فضیل بن یسار
۶۔ محمد بن مسلم طائفی

طبقہ دوم۔ امام صادقؑ کے اصحاب:

جناب کشیؒ اپنی رجال میں دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: : { أَجْمَعَتِ الْعِصَابَةُ عَلَى تَصْحِيحِ مَا يَصِحُّ مِنْ هَؤُلَاءِ وَ تَصْدِيقِهِمْ لِمَا يَقُولُونَ، وَ أَقَرُّوا لَهُمْ بِالْفِقْهِ، مِنْ دُونِ أُولَئِكَ السِّتَّةِ الَّذِينَ عَدَدْنَاهُمْ وَ سَمَّيْنَاهُمْ، سِتَّةُ نَفَرٍ: جَمِيلُ بْنُ دَرَّاجٍ، وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْكَانَ، وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُكَيْرٍ، وَ حَمَّادُ بْنُ عِيسَى، وَ حَمَّادُ بْنُ عُثْمَانَ، وَ أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالُوا وَ زَعَمَ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ يَعْنِي ثَعْلَبَةَ بْنَ مَيْمُونٍ: أَنَّ أَفْقَهَ هَؤُلَاءِ جَمِيلُ بْنُ دَرَّاجٍ وَ هُمْ أَحْدَاثُ أَصْحَابِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع }. [2]طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ص ۳۷۵، رقم: ۷۰۵۔اس عبارت میں اصحاب کے اجماع کا تذکرہ ہے جوکہ درج ذیل راویوں سے مربوط ہے:
۱۔ جمیل بن درّاج
۲۔ عبد اللہ بن مُسکان
۳۔ عبد اللہ بن بکیر
۴ ۔ حماد بن عیسی
۵۔ حماد بن عثمان
۶۔ ابان بن عثمان

طبقہ سوم۔ امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے اصحاب:

جناب کشیؒ نے اپنی کتابِ رجال میں تیسری جگہ امام موسی کاظمؑ اور امام رضاؑ کے اصحاب کے بارے میں اجماع کا دعوی ان الفاظ میں کیا ہے:{ أَجْمَعَ أَصْحَابُنَا عَلَى تَصْحِيحِ مَا يَصِحُّ عَنْ هَؤُلَاءِ وَ تَصْدِيقِهِمْ، وَ أَقَرُّوا لَهُمْ بِالْفِقْهِ وَ الْعِلْمِ: وَ هُمْ سِتَّةُ نَفَرٍ آخر دون الستة نفر الذين ذكرناهم في أصحاب أبي عبد الله (×)، منهم يونس بن عبد الرحمن، و صفوان بن يحيى بياع السابري، و محمد بن أبي عمير، و عبد الله بن المغيرة، و الحسن بن محبوب، و أحمد بن محمد بن أبي نصر، وقال بعضهم: مكان الحسن بن محبوب:الحسن بن علي بن فضال و فضالة بن أيوب، وقال بعضهم: مكان ابن فضال‌: عثمان بن عيسى، وأفقه هؤلاء يونس بن عبد الرحمن وصفوان بن يحيى }. [3]طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ص ۵۵۶، رقم: ۱۰۵۰۔ اس عبارت میں کشیؒ نے امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے درج ذیل اصحاب کے بارے میں اجماع کا دعوی کیا ہے:
۱۔ یونس بن عبد الرحمن
۲۔ صفوان بن یحیی بیّاع سابُری
۳۔ محمد بن ابی عمیر
۴۔ عبد اللہ بن مغیرہ
۵۔ حسن بن محبوب
۶۔ احمد بن محمد بن ابی نصر
ان افراد کے نام ذکر کرنے کے بعد کشیؒ نے تصریح کی ہے کہ بعض اصحاب نے حسن بن محبوب کی جگہ پر حسن بن علی بن فضال کو رکھا ہے۔ اس کے بعد کشیؒ نے واؤ عاطفہ کے ذریعے فضالہ بن ایوب کا تذکرہ کیا ہے۔ ظاہراً یہ عطف احمد بن محمد بن ابی نصر پر ہے ۔ اس صورت میں فضالہ بن ایوب ساتویں راوی شمار ہوں گے۔

۴۔اصحاب اجماع کی تعداد:

اصحاب اجماع کی تعداد میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ معروف قول کے مطابق اصحاب اجماع کی تعداد اٹھارہ (۱۸) ہے ۔ چھ امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں، چھ امام صادقؑ کے اصحاب میں اور چھ امام کاظمؑ و رضاؑ کے اصحاب میں سے ہیں جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ علامہ تقی مجلسیؒ قائل تھے کہ ’’وقال بعضهم: مكان ابن فضال‌: عثمان بن عيسى‘‘ میں ابن فضال کی جگہ فضالۃ ہے ۔ [4]مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین، ج ۱۴، ص ۱۰۹۔ محدث نوری نے علامہ تقی مجلسی کے کلام کو صحیح قرار دیتے ہوئے خاتمۃ المستدرک میں اسی عبارت کو تحریر کیا ہے۔ [5]محدث نوری، حسین بن محمد، خاتمۃ المستدرک، ج ۷، ص ۹۔محدث نوری کے مطابق اصحاب اجماع کی تعداد ۲۲ ہے۔ ۱۸ کا عدد معروف ہے جیساکہ کشیؒ کے کلام سے عیاں ہے۔ فضالۃ بن ایوب کے عطف کو ملاحظہ کریں تو وہ احمد بن محمد بن ابی نصر پر ہے جبکہ بقول محدث نوری علامہ تقی مجلسیؒ نے یہ گمان کیا  کہ فضالہ بن ایوب کا عطف ابن ابی نصر پر نہیں ہے کیونکہ خود کشیؒ نے تصریح کی ہے کہ یہ چھ افراد ہیں۔ [6]محدث نوری، حسین بن محمد ، خاتمہ المستدرک ، ج ۷، ص ۱۰۔

۵۔ تصحیح ما یصح عن ھؤلاء سے مراد:

جناب کشیؒ نے جس اجماع کا دعوی کیا ہے اور اس کو تین موارد میں درج کیا ہے اس میں آخری دو مورد میں’’  تصحيح و ما يصح عن هؤلاء ‘‘کے کلمات وارد ہوئے ہیں۔اس عبارت میں ’’یصح عن هؤلاء‘‘ سے مقصود میں اختلاف پایا جاتا ہےاور علماء رجال و محدثین نے متعدد احتمالات دئیے ہیں۔ ان میں سے اہم چند احتمالات ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں:

احتمال اول: صحیح کا تعلق متن حدیث سے:

یہاں صحیح کا تعلق متنِ حدیث سے ہے۔ جناب کشیؒ نے اصحابِ اجماع کے عنوان سے جتنے افراد ذکر کیے ہیں اگر یہ خود کوئی روایت امام معصومؑ سے نقل کریں تو ہمارے اصحاب و قدماء کا اجماع ہے کہ اس حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ فرق نہیں پڑتا کہ اصحابِ اجماع براہ راست خود معصومؑ سے حدیث نقل کریں یا کسی واسطے کے ذریعے سے حدیث نقل کریں۔ نیز اصحابِ اجماع جن راویوں کے توسط سے حدیث کو معصومؑ سے نقل کر رہے ہیں تو ضروری نہیں وہ مروی عنہ (جس سے روایت نقل کی جا رہی ہے) وہ ثقہ ہو یا ضعیف و کذاب و وضّاع وغیرہ کیونکہ قدماء و اصحاب کے پاس ایسے معتبر قرائن تھے جن کی مدد سے انہیں حدیث کا امام معصومؑ سے صادر ہونے کا علم ہو جاتا اور وہ ایسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتے۔ اس مورد میں صحیح کا تعلق متن حدیث اور اس کا امام معصومؑ سے صادر ہونے کے اطمینان سے ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اصحاب اجماع جس حدیث کو نقل کریں اس کو ہمارے بزرگ اصحاب و فقہاء نے اصحابِ اجماع کی صحیح حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس احتمال کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر اصحاب اجماع پر حدیث کی سند کا سلسلہ منتہی ہوتا ہے تو ہم اصحاب اجماع کے بعد والے راویوں کی تحقیق نہیں کریں گے اور حدیث کو قبول کر لیں گے۔ یہ ضابطہ اس وقت ہمارے لیے مفید ہے جب محدث سے اصحابِ اجماع تک سند میں کوئی ایسا راوی نہ ہو جس کی وجہ سے حدیث غیر قابل قبول کہلائے۔ بالفاظِ دیگر محدث سے اصحاب اجماع تک سند تام اور متصل ہونی چاہیے اور اصحاب اجماع کے بعد سند کو ملاحظہ نہیں کیا جائے گا بلکہ فقط متنِ حدیث پر اعتماد کریں گے۔

احتمال دوم: فقط اصحاب اجماع کی توثیق:

دوسرا احتمال یہ ہے کہ ’’يصح عن هؤلاء‘‘سے مراد خود اصحابِ اجماع کی توثیق ہے۔ اصحاب اجماع کی تعداد ۱۸ یا ۲۲ مانی جائے تو ان سب کی وثاقت پر ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ یہ ثقہ ہیں۔ آیت اللہ خوئی اسی نظر کے قائل ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصحاب اجماع کے بعد اگر کوئی راوی ہے جس سے اصحاب اجماع روایت نقل کر رہے ہیں تو اس کا جائزہ قواعدِ جرح و تعدیل کے مطابق لیا جائے گا ۔ اگر وہ راوی ثقہ ہو تو حدیث صحیح ورنہ ضعیف کہلائے گی۔ اسی طرح اگر اصحابِ اجماع اگر مرسل حدیث بیان کریں تو وہ حدیث بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔

احتمال سوم: اصحاب اجماع کے بعد والے راویوں کی توثیق:

۔

Views: 12

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رجال کشی کی مختار کے بارے پہلی حدیث
اگلا مقالہ: تعادل و تراجیح