loading

{سیاست امام علیؑ از نہج البلاغہ}

امام علیؑ کا حکمرانوں  کی تقرری کرنا

تحریر: سيد محمد حسن رضوی

۳۵ ھ کو جب امام علیؑ کے ہاتھوں میں زمامِ حکومت آئی تو آپؑ نے متعدد سابقہ حکمران برطرف کر دئیے اور ان کی جگہ عدالت کے معیار کے تحت نئے والی و حاکم مقرر کیے۔ البتہ بعض ایسے حاکم تھے جنہیں آپؑ نے اپنی جگہ پر برقرار رکھا۔ امام علیؑ کے دورِ حکومت میں اسلامی ریاست درج ذیل بڑے بڑے علاقوں میں تقسیم ہوتی تھی:

۱۔ مکہ اور طائف                    ۲۔ مدینہ                   ۳۔بحرین

۴۔ یمن                         ۵۔ الجند                   ۶۔کوفہ

۷۔ بصرہ                       ۸۔ الجزیرۃ                   ۹۔ مصر

۱۰۔ شام                       ۱۱۔ مدائن                     ۱۲۔ اصطخر

۱۳۔ فارس                      ۱۴۔ اہواز                     ۱۵۔ کرمان

۱۶۔ سند                         ۱۷۔ خراسان                 ۱۸۔ سجستان

۱۹۔ آذربائیجان                   ۲۰ ۔ اصفہان                    ۲۱۔ ری

۲۲۔ ہمدان                                                   ۲۳۔ ارمینیہ

         ان علاقوں کے  اطراف کے چھوٹے چھوٹے علاقے انہی کے ماتحت شمار ہوتے تھے۔ امام علیؑ کے دور کی اسلامی ریاست صوبوں میں تقسیم نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ بڑے شہروں کے ذیل میں اطراف کے علاقے اور شہر یا دیہات آ جاتے اور جو اس بڑے شہر کا والی یا حکمران ہوتا اس کے ماتحت اس سے ملحق اطراف علاقے کر دیئے جاتے۔ البتہ ان چھوٹے چھوٹے علاقوں پر والی اور حکمران مقرر کیے جاتے اور امام علیؑ ان سے کاملا رابطہ میں ہوتے، مثلا ہمیں ان بڑے شہروں کے  ذیل میں پائے جانے والے مختلف علاقہ جات میں سے بعض کا تذکرہ نہج البلاغہ کے کلام میں ملتا ہےجیسے ایران کا علاقہ اردشیرخُرۃ    ، عراق کا شہر  ہیت۔

۱۔مصر:

جب خلیفہ سوم قتل ہوئے تو مصر کا حاکم عبد اللہ بن ابی سرح تھا جس کو برطرف کر کے حضرت محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کے حالات اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ چنانچہ جب امام علیؑ نے اقتدار سنبھالا تو آپؑ نے مصر کا حکمران معروف صحابی جناب قیس بن سعد بن عبادہ کو مقرر کیا جن کے خلاف معاویہ اور عمر و بن عاص کی سازش کامیاب ہوئی اور بالآخر انہیں مصر کو تر ک کرنا پڑا۔ آپ کے بعد امام علیؑ نے مصر کا والی محمد بن ابی بکر کو بنایا جن کی شہادت کے بعد جناب مالک اشتر کو مقرر کیا گیا۔ [1]کندی، محمد بن یوسف، کتاب الولاۃ  وکتاب القضاۃ، ص ۲۲-۱۹۔

۲۔  مکہ:

امام علیؑ نے مکہ کا والی ابتداء میں صحابی رسول ﷺ حضرت ابو قتادہ انصاری کو بنایا جن کا نام حارث بن ربعی ہے ۔ لیکن کچھ مدت امام علیؑ نے ابو قتادہ کو معزول کر کے حضرت قُثم بن عباس کو مکہ کا حکمران بنا دیا۔ابو قتادہ کی وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ایک قول کے مطابق آپ امام علیؑ کی خلافت کے دور میں فوت ہوئے اور امامؑ نے ہی آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ محققین کی نظر میں یہ قول درست اور صحیح ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ ابو قتادہ کا انتقال ۵۴ ہجری میں ہوا۔ [2]کلاباذی، احمد بن محمد، رجال صحیح البخاری الہدایۃ والارشاد فی معرفۃ اہل الثقۃ و السداد ، ج ۱، ص ۱۸۸۔[3]ذہبی ، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۲، ص ۴۵۲۔[4]قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار، ج ۷، ص ۲۲۵۔قُثَم بن عباس کو امام علیؑ نے مکہ کے ساتھ ساتھ طائف کا بھی حاکم بنایا اور امامؑ کی شہادت تک وہ اسی مقام پر فائز رہے۔ جب بُسر بن ارطاۃ نے مکہ پر حملہ کیا تو قثم مکہ ترک کے چلے گئے اور جب بُسر مکہ سے نکل گیا تو واپس لوٹ گئے۔کتب احادیث میں وارد ہوا ہے کہ قُثم کی پیدائش کے بعد ان کی والدہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ہلالیہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ ﷺ کے اعضاء میں سے ایک عضو میرے گھر یا میری گود میں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: فاطمہؑ سے ایک بچہ ہو گا ان شاء اللہ اس کی کفالت تمہارے سپرد ہو گی۔ جب امام حسن مجتبیؑ کی ولادت ہوئی تو آنحضرتﷺ نے امام حسنؑ کو ام الفضل کے سپرد کیا اور انہوں نے قثم کے حصے سے دودھ پلایا۔ اس بناء پر امام حسنؑ کے رضاعی بھائی قثم بن عباس بنتے ہیں۔ ام الفضل مزید بیان کرتی ہیں کہ میں ایک دن قثم کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئی، جب آپ ﷺ نے قُثَم کو اٹھایا تو اس نے آپﷺ کے سینے مبارک پر پیشاب کر دیا ، اس پر ام الفضل نے قثم کی پشت پر ہلکا سے مارا ، آنحضرتﷺ نے فورا منع فرماتے ہوئے کہا: چھوڑ دو، اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے اپنے بچے کو تکلیف دی ۔ ام الفضل نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! آپ اپنا لباس دیں میں پاک کر کے لے آتی ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نہیں، اس پر پانی بہاؤ ، بچے کے پیشاب پر پانی بہایا جائے گااور بچی کے پیشاب کی صورت میں لباس کو دھویا جائے گا۔ [5]طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج ۳، ص ۲۳، حدیث: ۲۵۴۱۔ امام علیؑ کی شہادت کےوقت قُثم مسجد میں موجود تھے اور آپ ہی نے ابن ملجم لعین کو پکڑا تھا۔ معاویہ کے دور میں قثم سمرقند چلے گئے اور وہی ان کی شہادت ہوئی اور سمرقند میں دفن کیے گئے۔ [6]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۴۲۔

۳۔ مدینہ منورہ:

امام علیؑ نے مدینہ میں سب سے پہلے ابو امامہ سہل بن حُنَیف کو والی مقرر کیا ۔ سہل بن حُنَیف عثمان بن حُنَیف کے بھائی ہیں اور امام علیؑ کے بزرگ ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ سہل بن حُنَیف غزوہ بدر کے علاوہ بقیہ غزوات میں بھی شرکت کی ہے۔ ۳۸ ھ کو سہل بن حنیف کی وفات ہوئی اور ان کی نماز جنازہ امام علیؑ نے ادا کی۔ سہل بن حنیف کو امام علیؑ نے سب سے پہلے شام روانہ کیا ۔ سہل ابھی تبوک پہنچے تھے کہ انہیں چند گھوڑ سواروں نے روک لیا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ سہل نے جواب دیا کہ میں والی و امیر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کہاں کے امیر ہو؟ سہل نے جواب دیا کہ میں شام کا امیر ہوں۔ گھوڑ سواروں نے کہا کہ اگر تمہیں عثمان بن عفان نے بھیجا ہے تو خوش آمدید اور اگر ان کے علاوہ کسی اور نے بھیجا تو یہی سے واپس چلے جاؤ۔ سہل نے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ کیا حادثہ رونما ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے۔ سہل سمجھ گئے کہ یہ باغی گروہ ہے اس لیے خاموشی سے واپسی کی راہ لی۔سہل نے امامؑ کے ساتھ جنگ جمل میں شرکت کی۔ [7]ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التأریخ، ج ۳، ص ۲۰۲۔

امام علیؑ نے جب عراق کا رخ کیا تو سہل بن حنیف کو اپنے ہمراہ لیا اور ان کی جگہ پر مدینہ منورہ کا حاکم تمام بن عباس کو بنا دیا۔ امام علیؑ نے اپنی بیٹی میمونہ کا ازدواج تمام بن عباس سے ہی کیا تھا۔ اس طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تمام بن عباس امام علیؑ کے داماد بھی لگتے ہیں۔ کچھ مدت بھی امام علیؑ نے تمام بن عباس کو برطرف کر دیا اور ان کی جگہ ابو ایوب انصاری کو حاکمِ مدینہ بنا دیا جو امام علیؑ کی شہادت تک اس منصب پر فائز رہے۔[8]ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۱، ص ۱۹۶۔[9]ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التأریخ، ج ۳، ص ۲۲۲۔

۴۔ بحرین وعمان:

امام علیؑ نے بحرین و عمان پر پہلے ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے فرزند عمر بن ابی سلمہ کو حاکم بنایا۔ عمر بن ابی سلمہ کی پرورش رسول اللہ ﷺ کے گھرانے میں ان کے ماتحت ہوئی تھی اس لیے آپ امام علیؑ کے انتہائی مخلص ساتھیوں میں سےتھے۔ جب امام علیؑ نے جنگ جمل کی غرض سے عراق کا سفر کیا تو انہیں اپنا قریبی اور معتمد ساتھی قرار دیتے ہوئے اپنے ہمراہ لے لیا اور جنگ جمل میں اپنے لشکر کے بائیں حصے کا اوپر امیر مقرر کیا۔ ابن ابی سلمہ کی جگہ امام علیؑ نے قدامہ بن عجلان انصاری کو والی مقرر کیا۔ قدامہ کے بعد اسی جگہ کی حاکمیت امام علیؑ نے نعمان بن عجلان زرقی کو دی ۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں بحرین کو یمن سے ملحق کرتے ہوئے امام علیؑ نے عبید اللہ بن عباس کے ماتحت بحرین کو کر دیا۔[10]ابن خیاط، خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص ۱۵۱۔[11]عمری، اکرم، عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص ۱۴۴۔

۵۔ یمن:

یمن میں امام علیؑ نے عبید اللہ بن عباس کو مقرر کیااور امام علیؑ کی شہادت تک عبید اللہ یہاں کا حاکم رہا۔جب بُسر بن ارطاۃ نے یمن پر حملہ کیا تو عبید اللہ یمن سے فرار کر گئے ۔ امام علیؑ نے بُسر کی تباہ کاری کو روکنے کے لیے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا جن کے آنے پر بُسر یمن سے فرار کر گیا اور اس کے بعد عبید اللہ بن عباس واپس لوٹ آئے ۔[12]ابن خیاط، خلیفہ، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص ۱۵۱۔[13]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۱۰۲۔

۶۔ الجزیرۃ:

الجزیرۃ عراق کا ایک بڑا اہم اور شام کی سرحد کے ساتھ وسیع علاقہ شمار ہوتا ہے۔ اس علاقہ کی حساسیت اور شام کی شورشیں روکنے کے لیے امام علیؑ نے ابتداء میں جناب مالک اشتر کو یہاں کا حاکم بنایا۔ ۔

Views: 50

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: طلحہ اور زبیر کا بیعت توڑنا
اگلا مقالہ: رسول اللہ کا امام علی کو جنگوں کی خبر دینا