loading

{سیاست امام علیؑ از نہج البلاغہ}

طلحہ و زبیر کا بیعت توڑنا

تحریر: سيد محمد حسن رضوی

۳۵ ھ کو امام علیؑ کی عمومی بیعت کر لی گئی اور مہاجرین و انصار اور بقیہ امت اسلامیہ نے امام علیؑ منصبِ حکومت پر فائز ہونے کا موقع دیا اور بالآخر لوگوں کے شدید اصرار اور حجت کے تمام ہونے کی بناء پر امام علیؑ کو بارِ خلافت اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد امام علیؑ پہلے خلیفہ ہیں جن کوعوام کی اکثریت کے دوش پر خلافت ملی۔ امام علیؑ سے پہلے جتنے خلفاء گزرے تھے ان کا چناؤ اور انتخاب اقلیت کے اندر ہوا اور اس کے بعد اکثریت سے بیعت لی گئی لیکن امام علیؑ کو اقلیت نے نہیں چنا اور نہ ہی امام علیؑ نے کسی خاص گروہ سے اپنی بیعت کرا کر عوام کو بیعت پر ابھارا۔فریقین کے دفاترِ تاریخ اور کتبِ احادیث شاہد ہیں کہ خلیفہ اول ’’سقیفہ بنی ساعدہ‘‘ میں مختصر سے گروہ کے اندر خلیفہ بنائے گئے، خلیفہ دوم کو وصیت کے ذریعے سے خلیفہ نامزد کیا گیا اور خلیفہ سوم کی خلافت کی راہ ’’چھ رکنی شوریٰ‘‘ کے انعقاد سے ہموار کی گئی اور بعد میں عمومی بیعت کے لیے عوام الناس کو ابھارا گیا۔ امام علیؑ کی خلافت میں اس کے برعکس عوام الناس کا شدید دباؤ اور صحابہ کرام و تابعین کا اصرار دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ امام علیؑ ان ابتر حالات میں خلافت کو قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے ۔

نہج البلاغہ کی تعبیرات کے مطابق لوگوں کے ٹھاٹھے مارتے ہجوم نے اس طرح سے امام علیؑ کو گھیر لیا اور خلافت پر مجبور کیا کہ آپؑ کو اپنی جان خطرے میں دکھائی دینے لگی اور امام حسن ؑ و حسینؑ کے کچلے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں کی اکثریت کی بناء پر جب امامؑ پر حجت تمام ہو گی تو آپؑ نے قرآن، سیرت ِ رسول ﷺ اور اپنے علم کے مطابق عدالت کے ساتھ حکومت چلانے کی شرط پر خلافت کو قبول کیا۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ خطبہ نمبر ۵۴ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’لوگ مجھ پر اس طرح بے تحاشا ٹوٹ پڑے جس طرح پانی پینے کے دن وہ اونٹ ایک دوسرے پر ٹوٹتے ہیں جنہیں ان کے ساربان نے پیروں کے بندھن کھول کر کھلا چھوڑ دیا ہو‘‘۔ [1]سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۵۴، ص ۹۹۔ خلافت کے مستقر ہونے کے بعد مختلف فتنے امام علیؑ کے مقابلے میں برپا کیے گئے ہیں جن میں سے سب سے پہلے جنگ جمل کا فتنہ تھا جس نے امت اسلامیہ کو پارہ پارہ کیا۔ جنگ جمل کے ابتدائی مراحل حضرت طلحہ و زبیر کی بیعت توڑنے سےتکمیل کو پہنچے۔ ذیل میں ہم نہج البلاغہ کے تناظر میں طلحہ و زبیر کی شخصیت اور ان کے بیعت توڑنے کے واقعہ کو ملاحظہ کرتے ہیں۔

امام علیؑ کا حکام  کا تقرری کرنا:

۳۵ ھ کو جب امام علیؑ کے ہاتھوں میں زمامِ حکومت آئی تو آپؑ نے متعدد سابقہ حکمران برطرف کر دئیے اور ان کی جگہ عدالت کے معیار کے تحت نئے والی و حاکم مقرر کیے۔ البتہ بعض ایسے حاکم تھے جنہیں آپؑ نے اپنی جگہ پر برقرار رکھا۔ امام علیؑ کے دورِ حکومت میں اسلامی ریاست درج ذیل بڑے بڑے علاقوں میں تقسیم ہوتی تھی:

۱۔ مکہ اور طائف                      ۲۔ مدینہ                                                             ۳۔بحرین

۴۔ یمن                          ۵۔ الجند                   ۶۔کوفہ

۷۔ بصرہ                         ۸۔ الجزیرۃ                    ۹۔ مصر

۱۰۔ شام                            ۱۱۔ مدائن                     ۱۲۔ اصطخر

۱۳۔ فارس                         ۱۴۔ اہواز                     ۱۵۔ کرمان

۱۶۔ سند                          ۱۷۔ خراسان                     ۱۸۔ سجستان

۱۹۔ آذربائیجان                    ۲۰ ۔ اصفہان                       ۲۱۔ ری

۲۲۔ ہمدان                        ۲۳۔ شام                       ۲۴۔ ارمینیہ

         ان علاقوں کے  اطراف کے چھوٹے چھوٹے علاقے انہی کے ماتحت شمار ہوتے تھے۔ امام علیؑ کے دور کی اسلامی ریاست صوبوں میں تقسیم نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ بڑے شہروں کے ذیل میں اطراف کے علاقے اور شہر یا دیہات آ جاتے اور جو اس بڑے شہر کا والی یا حکمران ہوتا اس کے ماتحت اس سے ملحق اطراف علاقے کر دیئے جاتے۔ البتہ ان چھوٹے چھوٹے علاقوں پر والی اور حکمران مقرر کیے جاتے اور امام علیؑ ان سے کاملا رابطہ میں ہوتے، مثلا ہمیں ان بڑے شہروں کے  ذیل میں پائے جانے والے مختلف علاقہ جات میں سے بعض کا تذکرہ نہج البلاغہ کے کلام میں ملتا ہےجیسے ایران کا علاقہ اردشیرخُرۃ    ، عراق کا شہر  ہیت۔

بصرہ والوں کی مذمت:

عراق کے جنوب میں سمندر کے قریب تاریخی شہر بصرہ واقع ہے جہاں امام علیؑ کے خلاف پہلی جنگ کی زمین ہموار کی گئی ہے۔ خلیفہ سوم کے قتل کے بعد جب امام علیؑ کی بیعت لے لی گئی تو اسی اثناء میں حضرت عائشہ مکہ سے واپسی کے مدینہ کی طرف نکل چکی تھیں۔حضرت عائشہ جب ’’سَرِف‘‘ کے مقام پر پہنچیں اور ظاہرا وہاں انہوں نے پڑاؤ کیا تو بنی لیث سے تعلق رکھنے والے ان کے ننہالی رشتہ دار عبید بن ابی سلمہ خبر لے کر پہنچے کہ عثمان قتل کر دیئے گئے اور علیؑ کی بیعت کر لی گئی ہے۔ یہ سننا تھا کہ بے تاب ہوکر ام المؤمنین نے کہا: اگر تمہارے صاحب کے لیے امر حکومت حاصل ہو چکا ہے تو مجھے واپس پلٹا دو ، مجھے واپس پلٹا دو ، یہ کہہ کر وہ واپس مکہ چل دی اور یہ جملے تکرار کر رہی تھیں :

قُتِلَ وَاللَّهِ عُثْمَانُ مَظْلُومًا، وَاللَّهِ لَأَطْلُبَنَّ بِدَمِهِ! فَقَالَ لَهَا: وَلِمَ؟ وَاللَّهِ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ أَمَالَ حَرْفَهُ لَأَنْتِ، وَلَقَدْ كُنْتِ تَقُولِينَ: اقْتُلُوا نَعْثَلًا فَقَدْ كَفَرَ. قَالَتْ: إِنَّهُمُ اسْتَتَابُوهُ ثُمَّ قَتَلُوهُ.[2]طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج ۴، ص ۴۵۹۔

قسم بخدا! عثمان مظلوم قتل کر دئیے گئے، قسم بخدا! میں ضرور اس کے خون کا انتقام لوں گی، اس پر عبید بن ابی سلمہ نے حضرت عائشہ سے کہا: وہ کیوں؟! اللہ کی قسم ! پہلی شخصیت جس نے اپنے آپ کو اس سے کنارہ کش کیا تھا وہ آپ تھیں!! اور آپ ہی کہا کرتی تھیں: اس نعثل (یہودی) کو قتل کر دو یہ کافر ہو گیا ہے !! حضرت عائشہ نے کہا: انہوں نے عثمان کو توبہ کرنے کو کہا تھا پھر اس کو قتل کیا تھا…   پھر عبید نے کچھ شعر پڑھے اور حضرت عائشہ مکہ واپس لوٹ آئیں اور مسجد الحرام اتریں اور حجر اسود کا رخ کیا ۔ لوگ ان کی طرف جمع ہو گئے تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اے لوگو! عثمان مظلوم قتل کر دیئے گئے ہیں اور میں قسم بخدا ان کے خون کا مطالبہ کروں گی۔

ہشام، واقدی اور ابن میثم بحرانی نے تحریر کیا ہے کہ جب جنگ جمل ختم ہو گئی تو اس کے تیسرے دن امامؑ نے بصرہ کی مسجدِ جامع میں صبح کی نماز ادا کی اور نماز سے فارغ ہو کر مصلیٰ کی دائیں جانب دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور اہل بصرہ کی مذمت کرتے ہوئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْأَةِ وَأَتْبَاعَ الْبَهِيمَةِ رَغَا فَأَجَبْتُمْ وَعُقِرَ فَهَرَبْتُمْ أَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ‏ وَعَهْدُكُمْ شِقَاقٌ وَدِينُكُمْ نِفَاقٌ وَمَاؤُكُمْ زُعَاقٌ‏ وَالْمُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌ‏ بِذَنْبِهِ وَالشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌ بِرَحْمَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَأَنِّي بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ قَدْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا وَمِنْ تَحْتِهَا وَ غَرِقَ مَنْ فِي ضِمْنِهَا وَ فِي رِوَايَةٍ وَ ايْمُ اللَّهِ لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُكُمْ حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَسْجِدِهَا كَجُؤْجُؤِ سَفِينَةٍ أَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ وَفِي رِوَايَةٍ كَجُؤْجُؤِ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْرٍ وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى بِلَادُكُمْ أَنْتَنُ‏ بِلَادِ اللَّهِ تُرْبَةً أَقْرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وَأَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَاءِ وَبِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ الْمُحْتَبَسُ فِيهَا بِذَنْبِهِ وَالْخَارِجُ بِعَفْوِ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَرْيَتِكُمْ هَذِهِ قَدْ طَبَّقَهَا الْمَاءُ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهَا إِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ كَأَنَّهُ جُؤْجُؤُ طَيْرٍ فِي لُجَّةِ بَحْر. [3]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۱، ص ۴۰، خطبہ ۱۳۔[4]ابن قتیبہ، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص ۱۵۲۔
ترجمہ: تم ایک عورت کی سپاہ اور ایک چوپائے کے تابع تھے ، وہ بلبلایا تو تم لبیک کہتے ہوئے بڑھے اور وہ زخمی ہوا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے ۔ تم پست اخلاق و عہد شکن ہو، تمہارے دین کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ۔ تمہاری سرزمین کا پانی تک شور ہے ، تم میں اقامت کرنے والا گناہوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور تم میں سے نکل جانے والا اپنے پروردگار کی رحمت کو پا لینے والا ہے۔ وہ آنے والا منظر میری آنکھوں میں پِھر رہا ہے جبکہ تمہاری مسجد یوں نمایاں ہو گی جس طرح کشتی کا سینہ ۔ حالانکہ اللہ نے تمہارے شہر میں اس کے اوپر اور اس کے نیچے سے عذاب بھیج دیا ہو گا اور وہ اپنے رہنے والوں سمیت ڈوب چکا ہو گا۔(ایک اور روایت میں ہے کہ) خدا کی قسم ! تمہارا شہر غرق ہو کر رہے گا ، اس حد تک کہ اس کی مسجد کشتی کے اگلے حصے یا سینے کے بھل بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی طرح گویا مجھے نظر آ رہی ہے ۔ ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ جیسے پانی کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔ ایک اور روایت میں اس طرح آیا ہے کہ تمہارا شہر اللہ کے سب شہروں میں مٹی کے لحاظ سے گندا اور بدبو دار ہے۔ یہ سمندر کے پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے۔ برائی کے دس حصوں میں سے نو (۹) حصے اس میں پائے جاتے ہیں۔ جو اس میں آ پہنچا وہ اپنے گناہوں میں اسیر ہے اور جو اس سے چل دیا عفوِ الہٰی اس کے شریکِ حال رہا۔ گویا میں اپنی آنکھوں سے اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ سیلاب نے اسے اس حد تک ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنکروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے سمندر کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔

زبیر سے رشتہ داری:

مَا زَالَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ حَتَّى نَشَأَ ابْنُهُ الْمَشْئُومُ عَبْدُ اللَّه‏. [5]سید رضی ، نہج البلاغہ، ج ۳ ، ص ۲۶۰، حکمت قصار: ۴۵۳۔

ترجمہ: زبیر ہمیشہ ہمارے گھر کا آدمی رہا ہے یہاں تک کہ اس کا بدبخت بیٹا عبد اللہ نمودار ہوا۔

۔

طلحہ و زبیر کا امام علیؑ پر الزام تراشی کرنا

طلحہ و زبیر نے امام علیؑ کے خلاف جنگی زمین ہموار کرنے کے لیے مختلف قسم کے شبہات ایجاد کرنا شروع کر دیئے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان کے حلقہ میں داخل ہو سکیں۔ اس موقع پر امام علیؑ فرماتے ہیں:

وَاللَّهِ مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً وَ لَا جَعَلُوا بَيْنِي وَ بَيْنَهُمْ نِصْفاً وَإِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً هُمْ تَرَكُوهُ وَ دَماً هُمْ سَفَكُوهُ فَإِنْ كُنْتُ شَرِيكَهُمْ فِيهِ فَإِنَّ لَهُمْ نَصِيبَهُمْ مِنْهُ وَ إِنْ كَانُوا وَلُوهُ دُونِي فَمَا الطَّلِبَةُ إِلَّا قِبَلَهُمْ وَ إِنَّ أَوَّلَ عَدْلِهِمْ لَلْحُكْمُ عَلَى أَنْفُسِهِمْ إِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَسْتُ وَ لَا لُبِسَ عَلَيَّ وَ إِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ فِيهَا الْحَمَأُ وَ الْحُمَّةُ وَالشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ وَإِنَّ الْأَمْرَ لَوَاضِحٌ وَقَدْ زَاحَ‏ الْبَاطِلُ عَن‏ نِصَابِهِ وَانْقَطَعَ لِسَانُهُ عَنْ شَغْبِهِ‏ وَايْمُ اللَّهِ لَأُفْرِطَنَ‏ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُهُ‏ لَا يَصْدُرُونَ عَنْهُ بِرِيٍّ وَلَا يَعُبُّونَ‏ بَعْدَهُ فِي حَسْي‏ فَأَقْبَلْتُمْ إِلَيَّ إِقْبَالَ الْعُوذِ الْمَطَافِيلِ‏ عَلَى أَوْلَادِهَا تَقُولُونَ الْبَيْعَةَ الْبَيْعَةَ قَبَضْتُ كَفِّي فَبَسَطْتُمُوهَا وَنَازَعَتْكُمْ يَدِي فَجَاذَبْتُمُوهَا اللَّهُمَّ إِنَّهُمَا قَطَعَانِي وَظَلَمَانِي وَنَكَثَا بَيْعَتِي وَأَلَّبَا النَّاسَ عَلَيَّ فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا وَلَا تُحْكِمْ لَهُمَا مَا أَبْرَمَا وَ أَرِهِمَا الْمَسَاءَةَ فِيمَا أَمَّلَا وَعَمِلَا وَلَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ وَاسْتَأْنَيْتُ بِهِمَا أَمَامَ الْوِقَاعِ‏ فَغَمَطَا النِّعْمَةَ وَرَدَّا الْعَافِيَة.

ترجمہ: اللہ کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا ۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔ اب اگر اس میں میں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں میں نہیں تو پھر اس کا مطالبہ صرف انہی سے ہونا چاہیے اور ان کے عدل و انصاف کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خلاف حکم لگائیں اور میرے ساتھ میری بصیرت کی جلوہ گری ہے، نہ میں نے خود جان بوجھ کر کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا اور بلا شبہ یہی وہ باغی گروہ ہے جس میں ایک ہمارا سگا (زبیر) اور ایک بچھو کا ڈنگ (ام المؤمنین حمیرا) ہے اور حق پر سیاہ پردے ڈالنے والے شبہے ہیں۔ اب تو حقیقت حال کھل کر سامنے آ چکی ہے اور باطل اپنی بنیادوں سے ہل چکا ہے۔ اللہ کی قسم! میں ان کے لیے ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں کہ جس سے سیراب ہو کر پلٹنا ان کے امکان میں نہ ہو گا اور نہ اس کے بعد کوئی گڑھا کھود کر پانی پی سکیں گے۔ تم اس طرح شوق و رغبت سے بیعت بیعت پکارتے ہوئے میری طرف بڑے جس طرح نئی بیاہی ہوئی بچوں والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف، میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹا ۔ تو تم نے انہیں اپنی جانب پھیلایا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو تم سے چھیننا چاہا مگر تم نے انہیں کھینچا ۔ خدایا! ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور مجھ پر ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت کو توڑ دیا ہے اور میری خلاف لوگوں کو اکسایا ہے۔ لہٰذا جو انہوں نے گرہیں لگائی ہیں انہیں کھول دے اور جو انہوں نے باہمی طور پر تقسیم کیا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا بُرا نتیجہ دکھا۔ میں نے جنگ کے چھڑنے سے پہلے انہیں باز رکھنا چاہا اور لڑائی سے قبل انہیں ڈھیل دیتا رہا لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔ [6]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۶، خطبہ ۱۳۳۔

۔

واپس بیعت میں آنے کا مطالبہ

جنگ جمل کی تیاریاں جب شروع ہوئیں اور لوگوں کو امام علیؑ کے خلاف بھڑکانے کی سازشیں تیز کر دیں گئیں تو لوگوں نے جناب زبیر سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے امام علیؑ کے ہاتھوں پر بیعت کر لی تھی!! انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ہاتھ سے بیعت کی تھی دل سے نہیں۔ امام علیؑ نے ان بہانوں کو جب سُنا تو فرمایا:

يَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ بَايَعَ بِيَدِهِ وَلَمْ يُبَايِعْ بِقَلْبِهِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَيْعَةِ وَادَّعَى الْوَلِيجَةَ فَلْيَأْتِ عَلَيْهَا بِأَمْرٍ يُعْرَفُ وَإِلَّا فَلْيَدْخُلْ فِيمَا خَرَجَ مِنْه‏.

ترجمہ: وہ (زبیر)ایسا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے بیعت ہاتھ سے کر لی تھی مگر دل سے نہیں کی تھی۔ بہر حال اس نے بیعت کا تو اقرار ک لیا لیکن اس کا یہ ادعاکہ اس کے دل میں کھوٹ تھا تو اسے چاہیے کہ اس دعویٰ کے لیے کوئی واضح دلیل پیش کرے ورنہ جس بیعت سے منصرف ہوا ہے اس میں واپس آئے۔ [7]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۸، خطبہ ۸۔

طلحہ و زبیرسے سخت جنگ کا ارادہ:

امام علیؑ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیں تو اسی میں بہتری ہے۔ یہ مشورہ سننے پر امام علیؑ نے کچھ اوصاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

وَاللَّهِ لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ : تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ‏ حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا وَيَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا، وَلَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ ، وَبِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ‏ أَبَداً حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي، فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا.
ترجمہ: اللہ کی قسم! میں اس بجو کی طرح نہ ہوں گا جو لگاتار کھٹکھٹائے جانے سے سوتا ہوا بن جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا طلبگار (شکاری) اس تک پہنچ جاتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنے والا اس پر اچانک قابو پا لیتا ہے۔ بلکہ میں تو حق کی طرف بڑھنے والوں اور سننے والے اطاعت شعاروں کو لے کر ان معصیت کار شک و شبہ میں مبتلا ہونے والوں پر اپنی تلوار چلاتا رہوں گا یہاں تک کہ میر موت کا دن آ جائے۔ خدا کی قسم! جب سے اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو دنیا سے اٹھایا ہے مسلسل دوسروں کو مجھ پر مقدم کیا گیا ہے اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ [8]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶، خطبہ ۶۔

نہج البلاغہ میں ایک اور مقام پر امام علیؑ طلحہ و زبیر کے بیعت توڑنے اور ان سے جنگ کرنے کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:

أَلَا وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَهُ وَاسْتَجْلَبَ خَيْلَهُ وَرَجِلَهُ‏ ، وَإِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي‏ وَلَا لُبِّسَ عَلَيَّ ، وَايْمُ اللَّهِ لَأُفْرِطَنَ‏ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُهُ‏ لَا يَصْدُرُونَ عَنْهُ‏ وَلَا يَعُودُونَ إِلَيْه‏.

ترجمہ: شیطان نے اپنے گروہ کو جمع کر لیا ہے اور اپنے سوار پیادے سمیٹ لیا ہے۔ میرے ساتھ یقیناً میری بصیرت ہے نہ میں نے خود (جان بوجھ کر) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا۔ اللہ کی قسم! میں ان کے لیے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں۔ انہیں ہمیشہ کے لیے نکلنے یا (نکل کر) پھر واپس آنے کا کاوئی امکان ہی نہ ہو گا۔ [9]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۸، خطبہ ۱۰۔

جناب طلحہ و زبیر کے قتل کے بعد امام علیؑ کا خطبہ

امام علیؑ فرماتے ہیں:

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِي الظَّلْمَاءِ وَتَسَنَّمْتُمْ‏ ذُرْوَةَ الْعَلْيَاءِ وَبِنَا أَفْجَرْتُمْ‏عَنِ السِّرَارِوُقِرَسَمْعٌ لَمْ يَفْقَهِ الْوَاعِيَةَوَكَيْفَ يُرَاعِي النَّبْأَةَمَنْ أَصَمَّتْهُ الصَّيْحَةُ رُبِطَ جَنَانٌ‏ لَمْ يُفَارِقْهُ الْخَفَقَانُ مَا زِلْتُ أَنْتَظِرُ بِكُمْ عَوَاقِبَ الْغَدْرِ وَأَتَوَسَّمُكُمْ‏بِحِلْيَةِ الْمُغْتَرِّينَ‏حَتَّى سَتَرَنِي عَنْكُمْ جِلْبَابُ الدِّينِ‏وَبَصَّرَنِيكُمْ صِدْقُ النِّيَّةِ أَقَمْتُ لَكُمْ عَلَى سَنَنِ الْحَقِّ فِي جَوَادِّ الْمَضَلَّةِحَيْثُ تَلْتَقُونَ وَلَا دَلِيلَ وَتَحْتَفِرُونَ وَلَا تُمِيهُونَ‏الْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَذَاتَ الْبَيَانِ عَزَبَ‏رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ لَمْ يُوجِسْ مُوسَى ع خِيفَةًعَلَى نَفْسِهِ بَلْ أَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ وَدُوَلِ الضَّلَالِ الْيَوْمَ تَوَاقَفْنَاعَلَى سَبِيلِ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ مَنْ وَثِقَ بِمَاءٍ لَمْ يَظْمَأ. [10]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۳، خطبہ: ۴۔

ترجمہ: ہماری وجہ سے تم نے (گمراہی) کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پرقدم رکھا، اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کو اندھیاریوں سے صبح (ہدایت) کے اجالوں میں آ گئے، وہ کان بہرے ہو جائیں جو چلانے والے کی چیخ و پکار نہ سنیں، بھلا وہ کیونکر میری کمزور اور دھیمی آواز کو سن پائیں گے جو اللہ اور رسول ﷺ کی بلند بانگ صداؤں کے سننے سے بھی بہرے رہ چکے ہوں، ان دلوں کو سکون و قرار نصیب ہو جن سے خوفِ الہٰی کی ڈھڑکنیں الگ نہیں ہوتیں، میں تم سے ہمیشہ عذر و بےوفائی ہی کے نتائج کا منتظر رہا ہوں اور فریب خوردہ لوگوں کے رنگ ڈھنگ کے ساتھ تمہیں بھانپ لیا تھا۔ اگر دین کی نقاب نے مجھ کو تم سے چھپائے رکھا لیکن میری نیت کے صدق و صفانے تمہاری صورتیں مجھے دکھا دی تھیں۔ میں بھٹکانے والی راہوں میں تمہارے لیے جادہِ حق پر کھڑا تھا جہاں تم ملتے ملاتے تھے مگر کوئی راہ دکھانے والا نہ تھا۔ تم کنواں کھودتے تھے مگر پانی نہیں نکال سکتے تھے۔ آج میں نے اپنی اس خاموش زبان کو جس میں بڑی بان کی قوت ہے گویا کیا ہے اس شخص کی رائے کے لیے دوری ہو جس نے مجھ سے کنارہ کشی کی جب مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے کبھی اس میں شک و شبہ نہیں کیا ۔ حضرت موسیؑ نے اپنی جان کے لیے خوف کالحاظ کبھی نہیں کیا، بلکہ جاہلوں کے غلبہ اور گمراہی کے تسلط کا ڈر تھا ( اسی طرح میری اب تک کی خاموشی کو سمجھنا چاہیے) آج ہم اور تم حق و باطل کے دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں جسے پانی کا اطمینان ہے وہ پیاس نہیں محسوس کرتا۔ اسی طرح میری موجودگی میں تمہیں میری قدر نہیں۔

امام علیؑ کا ابن عباس کو طلحہ کے پاس بھیجنا:

جنگ جمل میں لشکر آمنے سامنے ہونے کی تیاری کرنے لگے اور امام علیؑ کی امن و صلح کی تمام کاوشوں کو مخالفین نے پس پشت ڈال دیا تو امام علیؑ جناب عبد اللہ بن عباس کو زبیر بن عوام کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں کہ خلیفہِ وقت کی اطاعت میں آجائیں ۔ اس موقع امام علیؑ نے ابن عباس کو منع کیا کہ طلحہ بن عبید اللہ سے ملاقات نہ کرنا کیونکہ وہ سخت طبیعت ہیں جبکہ ان کی نسبت زبیر بن عوام نرم طبیعت ہیں اس لیے انہیں سمجھانے کی کاوش کرنا۔ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

لَا تَلْقَيَنَ‏ طَلْحَةَ فَإِنَّكَ إِنْ تَلْقَهُ تَجِدْهُ كَالثَّوْرِ عَاقِصاً قَرْنَهُ‏ يَرْكَبُ الصَّعْبَ‏ وَيَقُولُ هُوَ الذَّلُولُ وَ لَكِنِ الْقَ الزُّبَيْرَ فَإِنَّهُ أَلْيَنُ عَرِيكَةً فَقُلْ لَهُ يَقُولُ لَكَ ابْنُ خَالِكَ عَرَفْتَنِي بِالْحِجَازِ وَأَنْكَرْتَنِي بِالْعِرَاقِ فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا.

ترجمہ: طلحہ سے ملاقات نہ کرنا، اگر تم اس سے ملے تو تم اس کو ایک ایسا سرکش بیل پاؤ گے جس کے سینگ کانوں کی طرف مڑے ہوئے ہوں۔ وہ منہ زور سواری ہے۔ لہٰذا تم زبیر سے ملنا کیونکہ وہ نرم طبیعت ہے اور اس سے یہ کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں تو مجھ سے جان پہچان رکھتے تھے اور یہاں عراق میں آ کر بالکل اجنبی بن گئے۔ آخر اس تبدیلی کا کیا سبب ہے۔ [11]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۷۲، خطبہ ۳۱۔

۔

طلحہ و زبیر ہر دو کا خلافت کا طلبگار ہونا:

۔

كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَرْجُو الْأَمْرَ لَهُ وَيَعْطِفُهُ‏ عَلَيْهِ‏ دُونَ صَاحِبِهِ لَا يَمُتَّانِ‏ إِلَى اللَّهِ بِحَبْلٍ وَلَا يَمُدَّانِ إِلَيْهِ بِسَبَبٍ‏ ، كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَامِلُ ضَبٍ‏ لِصَاحِبِهِ وَعَمَّا قَلِيلٍ يُكْشَفُ قِنَاعُهُ بِهِ ، وَاللَّهِ لَئِنْ أَصَابُوا الَّذِي يُرِيدُونَ لَيَنْتَزِعَنَّ هَذَا نَفْسَ هَذَا وَلَيَأْتِيَنَّ هَذَا عَلَى هَذَا قَدْ قَامَتِ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ ، فَأَيْنَ الْمُحْتَسِبُونَ‏  فَقَدْ سُنَّتْ لَهُمُ السُّنَنُ وَقُدِّمَ لَهُمُ الْخَبَرُ وَلِكُلِّ ضَلَّةٍ عِلَّةٌ وَلِكُلِّ نَاكِثٍ شُبْهَةٌ وَاللَّهِ لَا أَكُونُ كَمُسْتَمِعِ اللَّدْمِ‏ يَسْمَعُ النَّاعِيَ وَيَحْضُرُ الْبَاكِيَ ثُمَّ لَا يَعْتَبِر.[12]سید رضی ، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۴۴، خطبہ ۱۴۴۔

۔

زوجہ رسول ﷺ کو جنگ پر ابھارنا

۔

فَخَرَجُوا يَجُرُّونَ حُرْمَةَ رَسُولِ اللَّهِ ص كَمَا تُجَرُّ الْأَمَةُ عِنْدَ شِرَائِهَا مُتَوَجِّهِينَ بِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ فَحَبَسَا نِسَاءَهُمَا فِي بُيُوتِهِمَا وَأَبْرَزَا حَبِيسَ‏ رَسُولِ اللَّهِ ص لَهُمَا وَلِغَيْرِهِمَا فِي جَيْشٍ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ أَعْطَانِي الطَّاعَةَ وَسَمَحَ‏ لِي‏ بِالْبَيْعَةِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَهٍ فَقَدِمُوا عَلَى عَامِلِي بِهَا وَخُزَّانِ‏ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِهَا فَقَتَلُوا طَائِفَةً صَبْراً وَطَائِفَةً غَدْراً فَوَ اللَّهِ لَوْ لَمْ يُصِيبُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا رَجُلًا وَاحِداً مُعْتَمِدِينَ‏ لِقَتْلِهِ بِلَا جُرْمٍ جَرَّهُ لَحَلَّ لِي قَتْلُ ذَلِكَ الْجَيْشِ كُلِّهِ إِذْ حَضَرُوهُ فَلَمْ يُنْكِرُوا وَلَمْ يَدْفَعُوا عَنْهُ بِلِسَانٍ وَلَا بِيَدٍ دَعْ مَا [إِنَّهُمْ‏] أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوا مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِي دَخَلُوا بِهَا عَلَيْهِم‏. [13]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۱۰۳، خطبہ ۱۶۷۔
۔

قَدْ كُنْتُ وَمَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ وَ لَا أُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ وَأَنَا عَلَى مَا قَدْ وَعَدَنِي رَبِّي مِنَ النَّصْرِ وَاللَّهِ مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّداً لِلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ إِلَّا خَوْفاً مِنْ أَنْ يُطَالَبَ بِدَمِهِ لِأَنَّهُ مَظِنَّتُهُ وَلَمْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحْرَصُ عَلَيْهِ مِنْهُ فَأَرَادَ أَنْ يُغَالِطَ بِمَا أَجْلَبَ فِيهِ لِيَلْتَبِسَ الْأَمْرُ وَيَقَعَ الشَّكُّ. وَوَاللَّهِ مَا صَنَعَ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِماً كَمَا كَانَ يَزْعُمُ لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُوَازِرَ قَاتِلِيهِ وَ أَنْ يُنَابِذَ نَاصِرِيهِ. وَلَئِنْ كَانَ مَظْلُوماً لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُنَهْنِهِينَ‏ عَنْهُ وَالْمُعَذِّرِينَ فِيهِ‏  وَلَئِنْ كَانَ فِي شَكٍّ مِنَ الْخَصْلَتَيْنِ لَقَدْ كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَعْتَزِلَهُ وَيَرْكُدَ جَانِباً وَيَدَعَ النَّاسَ مَعَهُ فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِنَ الثَّلَاثِ وَجَاءَ بِأَمْرٍ لَمْ يُعْرَفْ بَابُهُ وَلَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِيرُه‏.  [14]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۱۰۷، خطبہ: ۱۶۹۔

۔

طلحہ و زبیر کی شکایت

۔

لَقَدْ نَقَمْتُمَا يَسِيراً وَأَرْجَأْتُمَا كَثِيراً أَ لَا تُخْبِرَانِي أَيُّ شَيْ‏ءٍ كَانَ لَكُمَا فِيهِ حَقٌّ دَفَعْتُكُمَا عَنْهُ أَمْ أَيُّ قَسْمٍ اسْتَأْثَرْتُ‏ عَلَيْكُمَا بِهِ أَمْ [أَوْ] أَيُّ حَقٍّ رَفَعَهُ إِلَيَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ضَعُفْتُ عَنْهُ أَمْ جَهِلْتُهُ أَمْ أَخْطَأْتُ بَابَهُ. وَاللَّهِ مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلَافَةِ رَغْبَةٌ وَلَا فِي الْوِلَايَةِ إِرْبَةٌ وَلَكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا وَحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَمَا وَضَعَ لَنَا وَأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهِ فَاتَّبَعْتُهُ وَمَا اسْتَنَّ النَّبِيُّ ص فَاقْتَدَيْتُهُ ، فَلَمْ أَحْتَجْ فِي ذَلِكَ إِلَى رَأْيِكُمَا وَلَا رَأْيِ غَيْرِكُمَا وَلَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُهُ فَأَسْتَشِيرَكُمَا وَإِخْوَانِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَ لَوْ كَانَ ذَلِكَ لَمْ أَرْغَبْ عَنْكُمَا وَلَا عَنْ غَيْرِكُمَا. وَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُمَا مِنْ أَمْرِ الْأُسْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ لَمْ أَحْكُمْ أَنَا فِيهِ بِرَأْيِي وَلَا وَلِيتُهُ هَوًى مِنِّي بَلْ وَجَدْتُ أَنَا وَ أَنْتُمَا مَا جَاءَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ص قَدْ فُرِغَ مِنْهُ فَلَمْ أَحْتَجْ إِلَيْكُمَا فِيمَا قَدْ فَرَغَ اللَّهُ مِنْ قَسْمِهِ وَ أَمْضَى فِيهِ حُكْمَهُ فَلَيْسَ لَكُمَا وَاللَّهِ عِنْدِي وَ لَا لِغَيْرِكُمَا فِي هَذَا عُتْبَى. أَخَذَ اللَّهُ بِقُلُوبِنَا وَقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ وَأَلْهَمَنَا وَإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ. رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا رَأَى حَقّاً فَأَعَانَ عَلَيْهِ أَوْ رَأَى جَوْراً فَرَدَّهُ وَكَانَ عَوْناً بِالْحَقِّ عَلَى صَاحِبِه‏. [15]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۱۰، خطبہ ۲۰۰۔

۔

طلحہ و زبیر کا حکومت میں شرکت کی شرط باندھنا

۔

وَقَدْ قَالَ لَهُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ: نُبَايِعُكَ عَلَى أَنَّا شُرَكَاؤُكَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، [فَقَالَ‏]: لَا وَلَكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُوَّةِ وَالِاسْتِعَانَةِ وَعَوْنَانِ عَلَى [الْعَجْرِ] الْعَجْزِ وَالْأَوَد. [16]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۱۹۸، حکمت قصار: ۲۰۲۔

ترجمہ:  طلحہ و زبیر نے امام علیؑ سے کہا: ہم اس شرط پر آپؑ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں آپؑ کے ساتھ شریک رہیں گے، امامؑ نے فرمایا: نہیں ! بلکہ تم تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور عاجزی و سختی کے موقع پر مددگار ہو گے۔

۔

انس بن مالک کا خدمات دینے سے انکار:

۔

وَقَالَ ع‏ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَقَدْ كَانَ بَعَثَهُ إِلَى طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ لَمَّا جَاءَ إِلَى الْبَصْرَةِ يُذَكِّرُهُمَا شَيْئاً مِمَّا [قَدْ] سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص فِي مَعْنَاهُمَا فَلَوَى عَنْ ذَلِكَ فَرَجَعَ إِلَيْهِ ں فَقَالَ: إِنِّي أُنْسِيتُ ذَلِكَ الْأَمْرَں فَقَالَ ع: إِنْ كُنْتَ كَاذِباً فَضَرَبَكَ اللَّهُ بِهَا بَيْضَاءَ لَامِعَةً لَا تُوَارِيهَا الْعِمَامَة. [17]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۲۲۷، حکمت قصار: ۳۱۱۔

ترجمہ:جب امام علیؑ بصرہ میں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا تاکہ ان دونوں کو وہ کچھ اقوال یاد دلائیں جو آپؑ کے بارے میں انہوں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنے ہیں، مگر انہوں نے اس سے پہلو تہی کی اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ وہ بات مجھے یاد نہیں ہے!! اس پر امام علیؑ نے فرمایا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو اس کی پاداش میں اللہ ایسے چمکدار داغ میں تمہیں مبتلا کرے جسے دستار بھی نہ چھپا سکے۔

۔

طلحہ کو مقتول دیکھا تو فرمایا:

۔

لَقَدْ أَصْبَحَ أَبُو مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْمَكَانِ غَرِيباً ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَكْرَهُ أَنْ تَكُونَ قُرَيْشٌ قَتْلَى تَحْتَ بُطُونِ الْكَوَاكِبِ ، أَدْرَكْتُ وَتْرِي‏ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ وَأَفْلَتَتْنِي أَعْيَانُ بَنِي جُمَحَ لَقَدْ أَتْلَعُوا أَعْنَاقَهُمْ إِلَى أَمْرٍ لَمْ يَكُونُوا أَهْلَهُ فَوُقِصُوا دُونَه‏. [18]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۲۹، خطبہ ۲۱۴۔

ترجمہ: ابو محمد (طلحہ) اس جگہ گھر یار سے دور پڑا ہے ، خدا کی قسم! میں پسند نہیں کرتا تھا کہ قریش ستاروں کے نیچے (کھلے میدانوں میں) مقتول پڑے ہوں، میں نے عبد مناف کی اولاد سے بدلہ لے لیا ہے، لیکن بنی جمح کے اکابر میرے ہاتھوں سے بچ نکلے ہیں ۔ انہوں نے اس چیز کی طرف گردنیں اٹھائی ہیں جس کے وہ اہل نہ تھے چنانچہ اس تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی گردنیں توڑ دی گئیں۔

۔

عثمان کے بارے میں طلحہ و زبیر کا رویہ:

۔

مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ جَبْهَةِ الْأَنْصَارِ وَسَنَامِ‏ الْعَرَبِ ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَمْرِ عُثْمَانَ حَتَّى يَكُونَ سَمْعُهُ كَعِيَانِهِ‏، إِنَّ النَّاسَ طَعَنُوا عَلَيْهِ فَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أُكْثِرُ اسْتِعْتَابَهُ‏ وَأُقِلُّ عِتَابَهُ ، وَكَانَ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ أَهْوَنُ سَيْرِهِمَا فِيهِ الْوَجِيفُ‏ وَأَرْفَقُ حِدَائِهِمَا الْعَنِيفُ ، وَكَانَ مِنْ عَائِشَةَ فِيهِ فَلْتَةُ غَضَبٍ فَأُتِيحَ لَهُ قَوْمٌ فَقَتَلُوهُ وَبَايَعَنِي النَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ وَلَا مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِينَ وَاعْلَمُوا أَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ ، قَدْ قَلَعَتْ بِأَهْلِهَا وَقَلَعُوا بِهَا وَجَاشَتْ‏ جَيْشَ الْمِرْجَلِ‏ وَقَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَى الْقُطْبِ فَأَسْرِعُوا إِلَى أَمِيرِكُمْ وَبَادِرُوا جِهَادَ عَدُوِّكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَ‏. [19]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۳، مکتوب ۱۔

۔

طلحہ و زبیر کو بیعت میں پلٹنے کی تلقین:

۔

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتُمَا وَإِنْ كَتَمْتُمَا أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى‏ أَرَادُونِي‏ وَ لَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي وَ إِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وَ بَايَعَنِي وَ إِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ وَ لَا [لِحِرْصٍ‏] لِعَرَضٍ‏ حَاضِرٍ فَإِنْ‏ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي طَائِعَيْنِ فَارْجِعَا وَ تُوبَا إِلَى اللَّهِ مِنْ قَرِيبٍ وَ إِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي كَارِهَيْنِ فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِي عَلَيْكُمَا السَّبِيلَ‏ بِإِظْهَارِكُمَا الطَّاعَةَ وَ إِسْرَارِكُمَا الْمَعْصِيَةَ وَ لَعَمْرِي مَا كُنْتُمَا بِأَحَقِّ الْمُهَاجِرِينَ بِالتَّقِيَّةِ وَ الْكِتْمَانِ وَ إِنَّ دَفْعَكُمَا هَذَا الْأَمْرَ [قَبْلَ‏] مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْخُلَا فِيهِ كَانَ أَوْسَعَ عَلَيْكُمَا مِنْ خُرُوجِكُمَا مِنْهُ بَعْدَ إِقْرَارِكُمَا بِهِ وَ قَدْ زَعَمْتُمَا أَنِّي قَتَلْتُ عُثْمَانَ فَبَيْنِي وَ بَيْنَكُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّي وَ عَنْكُمَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ يُلْزَمُ كُلُّ امْرِئٍ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ فَارْجِعَا أَيُّهَا الشَّيْخَانِ عَنْ رَأْيِكُمَا فَإِنَّ الْآنَ [أَعْظَمُ‏] أَعْظَمَ أَمْرِكُمَا الْعَارُ مِنْ قَبْلِ أَنْ [يَجْتَمِعَ‏] يَتَجَمَّعَ الْعَارُ وَ النَّارُ وَ السَّلَام‏. [20]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۱۲۲، مکتوب ۵۴۔

۔

طلحہ اور زبیر کی توبہ

شیخ مفید اپنی کتاب الفصول المختارۃ میں اس مسئلہ کی تحقیق ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

قال الشيخ أدام الله عزه أما طلحة فقتل بين الصفين وهو مصمم على الحرب ، وهذه حال ظاهرها الإقامة على الفسق ، ومن ادعى باطنا غيرها فقد ادعى علم غيب لا يجب قبوله منه إلا ببرهان ، ولا برهان على ذلك. مع أن الأخبار قد جاءت مستفيضة { عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع‏ أَنَّهُ مَرَّ بِهِ وَ هُوَ قَتِيلٌ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ أَجْلِسُوا طَلْحَةَ فَأَجْلَسُوهُ فَقَالَ هَلْ وَجَدْتَ مَا وَعَدَكَ رَبُّكَ حَقّاً فَقَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقّاً ثُمَّ قَالَ أَضْجِعُوا طَلْحَةَ. وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ وَقَدْ مَرَّ بِهِ لَقَدْ كَانَ‏ لَكَ بِرَسُولِ اللَّهِ صُحْبَةٌ لَكِنَّ الشَّيْطَانَ دَخَلَ مَنْخِرَيْكَ فَأَوْرَدَكَ النَّارَ. وَكَتَبَ ع إِلَى عُمَّالِهِ فِي الْآفَاقِ بِالْفَتْحِ وَكَانَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَتَلَ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ عَلَى بَغْيِهِمَا وَشِقَاقِهِمَا وَنَكْثِهِمَا وَهَزَمَ جَمْعَهُمَا وَرَدَّ عَائِشَةَ خَاسِرَةً }. في كلام طويل ولو كان الرجل تائبا لما قال هذا القول فيه أمير المؤمنين ع. مع أنا إن جوزنا توبة طلحة مع الحال التي وصفناها ووجب علينا الشك في أمره والانتقال عن ظاهر حاله وجب أن يشك في كل فاسق وكافر ظهر لنا ضلاله ولم يظهر منه ندمه بل كان على ظاهر الضلال إلى وقت خروجه من الدنيا ، وهذا فاسد وقد استقصيت القول في هذا الباب في كتابي المعروف بالمسألة الكافية. وأما الزبير فقتل وهو منهزم من غير إظهار ندم ولا إقلاع ولا توبة ولو كان انصرافه للندم والتوبة لكان يصير إلى أمير المؤمنين ع ويكون مصيره إلى حيزه ويظهر نصرته ومعونته كما جرد في حربه وعداوته ولو جاز أن يقطع على توبته ويجب علينا ولايته مع ما وصفناه لوجب على المسلمين أن يقطعوا على توبة كل منهزم عن الرسول ص وإن لم يصيروا إلى حيزه ولا أظهروا الإقرار بنبوته.[21]شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ ، ص ۱۴۲۔

۔

منابع:

منابع:
1 سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۵۴، ص ۹۹۔
2 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج ۴، ص ۴۵۹۔
3 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۱، ص ۴۰، خطبہ ۱۳۔
4 ابن قتیبہ، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص ۱۵۲۔
5 سید رضی ، نہج البلاغہ، ج ۳ ، ص ۲۶۰، حکمت قصار: ۴۵۳۔
6 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۶، خطبہ ۱۳۳۔
7 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۸، خطبہ ۸۔
8 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۶، خطبہ ۶۔
9 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۸، خطبہ ۱۰۔
10 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۳، خطبہ: ۴۔
11 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۷۲، خطبہ ۳۱۔
12 سید رضی ، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۴۴، خطبہ ۱۴۴۔
13 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۱۰۳، خطبہ ۱۶۷۔
14 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۱۰۷، خطبہ: ۱۶۹۔
15 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۱۰، خطبہ ۲۰۰۔
16 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۱۹۸، حکمت قصار: ۲۰۲۔
17 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۲۲۷، حکمت قصار: ۳۱۱۔
18 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۲، ص ۲۲۹، خطبہ ۲۱۴۔
19 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۳، مکتوب ۱۔
20 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۳، ص ۱۲۲، مکتوب ۵۴۔
21 شیخ مفید، محمد بن محمد، الفصول المختارۃ ، ص ۱۴۲۔
Views: 219

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: امام علی کا حکمرانوں  کی تقرری کرنا