loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵۲}

ولایت بالذات اور بالعرض ہونا

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

سب مخلوقات پر حقیقی و ذاتی ولایت اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی کی ولایت کے اتباع میں یہ ولایت رسول اللہﷺ اور امام یا فقیہ کو حاصل ہے۔ 

ولایت کے مراتب

جب تک انسان پچپن میں ہے اس کی ولایت والدین کو حاصل ہے۔ والدین کے پاس یہ ولایت بالذات نہیں ہے۔ والدین بچے کے مالک نہیں ہیں بلکہ ولی ہیں۔ یعنی جب تک بچہ بالغ نہیں ہو جاتا تب تک اس کی سرپرستی والدین کو حاصل ہے۔ لیکن وہ مالک نہیں ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ کہتے جائیں بچے پر بات ماننا ضروری ہے۔ وہ اس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ جی نہیں! بلکہ یہ بچہ ان کے پاس امانت ہے۔ زبردستی نہیں کر سکتے۔ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو حقیقی ولایت رکھتی ہے۔ باپ ولی ہے لیکن بالعرض ولی ہے۔ باپ کی ولایت اصلی نہیں ہے بلکہ اس کو عطا ہوئی ہے۔ ایک اور مثال دیتے ہیں، مثلا ہمارے معاشرے میں عموما سمجھا جاتا ہے کہ اگر کہیں سے گرا ہوا مال مل جاۓ یا پیسے مل جائیں تو ان کو اٹھانے والا ہی مالک  ہوگا۔ جب کہ ایسا مال مجہول المال ہے اور اس کا مالک امام یا نائب امام ہے۔ ہمارا یہ دعوی کرنا کہ یہ مال میرا ہے، اس مال کی اپنی ملکیت کی طرف نسبت دینا درست نہیں۔ حقیقی معنی میں سب اشیاء کا مالک اللہ تعالی ہے اور اسی کو ولایت حاصل ہے۔ اس کے بعد جس کو خدا نے ولایت دے دی وہی ولی ہے۔

انسان کا اپنا ولی بنانا

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
« أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ فَاللهُ هُوَ الْوَلِيُّ».
ترجمہ:  کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[1] شوری: ۹۔
اس آیت کریمہ کے مطابق انسان اپنا ولی اور سرپرست بنانے کا حق نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس ولی بنانے کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ جب ہمارے پاس اختیار ہی نہیں ہے تو ہم کون ہوتے ہیں یہ حق کسی اور کو دینے والے؟ اس آیت میں ولایت کو صرف اللہ تعالی کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اگر ولی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ہے۔ ہر قسم کی ولایت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ چاہے وہ ولایت تکوینی ہو، ولایت بر تشریع ہو یا ولایت تشریعی۔رجوع کریں۔  ولایت تشریعی کہ جس میں ہم معاشرے کی مدیریت اور حاکمیت کا حق کسی کو دے دیتے ہیں، یہ حق تو ہمیں حاصل ہی نہیں کہ ہم کسی کو اپنا حاکم قرار دیں۔ یہ ہمارے اعتقاد کا حصہ ہے۔ اور اس میں کسی کی تقلید بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالی نے حق حاکمیت یا ولایت اپنے مخصوص نمائندوں کو عطا کیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اپنا ولی (ولی بمعنی حکمران) بنائیں۔ ہم صرف ان اولیاء کی اطاعت کر سکتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے ولی بنایا ہے۔

ولایت بالذات اور بالعرض در قرآن

اللہ تعالی وحدہ لا شریک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور شرک گناہ کبیرہ میں سے ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ آپ نے کہا اللہ بھی ولی ہے اور رسول یا امام بھی ولی ہے تو کیا یہ شرک نہیں ہے؟ اس کے جواب میں مصنف قرآن کریم سے جواب پیش کرتے ہیں:
«وَ لِلهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِلْمُؤْمِنينَ».
ترجمہ: جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے۔[2] منافقون: ۸۔
لیکن سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:
«فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ‌ جَميعاً».
ترجمہ: ے شک ساری عزت تو خدا کی ہے۔[3] نساء: ۱۳۹۔
شرک تب ہوتا ہے جب دو برابر میں عزت دار ہوں۔ سورہ نساء میں اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ ساری عزت تو اللہ کے لیے ہے، اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ عزت بالذات اللہ کے لیے ہے۔ بالعرض یہ عزت رسول اور مومنین کو بھی حاصل ہے۔ رسول اور مومنین اللہ کے برابر میں عزت نہیں رکھتے۔ موت دینے کے بارے میں بھی ہمارا یہی نظریہ ہے۔کیا موت اللہ تعالی دیتا ہے یا عزرائیلؑ؟ اگر مان لیں کہ عزرائیلؑ بھی موت دیتا ہے اور اللہ بھی تو یہ شرک ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقی موت کا مالک اللہ تعالی ہے اور عزرائیلؑ صرف منیجر ہیں یا ماتحت ہیں جو اس کام کو اللہ تعالی کی اجازت سے انجام دیتے ہیں۔ جس طرح ایک کمپنی ہوتی ہے۔ کمپنی کا ایک مالک ہوتا ہے اور ایک منیجر۔ ظاہری طور پر پوری کمپنی منیجر کے ماتحت ہوتی ہے اور وہی کمپنی کو چلاتا ہے۔ لیکن وہ خود مالک کا ماتحت ہوتا ہے۔ حقیقی ملکیت کمپنی کی مالک کے ہاتھ میں ہے۔

قوت کی نسبت

اللہ تعالی نے چند آیات میں قوت کی نسبت انسانوں کی طرف دی ہے۔ سورہ مریم میں وارد ہوا ہے:
«يا يَحْيى خُذِ الْكِتابَ بِقُوَّةٍ».
ترجمہ:  اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو قوت کے ساتھ تھام لو۔[4] مریم: ۱۲۔ اس آیت میں قوت کا منبع حضرت یحییؑ کو قرار دیا گیا ہے۔
سورہ بقرہ میں وارد ہوا:
«خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اسۡمَعُوۡا».
ترجمہ:   جو چیز (تورات) ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور سنو۔[5] بقرہ: ۹۳۔ اس آیت میں قوت کی نسبت بنی اسرائیل کی طرف دی گئی ہے۔
سورہ انفال میں آیا ہے:
«وَ اَعِدُّوۡا لَهمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ».
ترجمہ:   اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو۔[6] انفال: ۶۰۔
اس آیت ميں  عام مسلمانوں کی طرف قوت کے حصول کی نسبت دی گئی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قوت میں نبی، عام انسان اور اللہ تعالی شریک ہو جائیں؟ در اصل ان آیات میں مندرجہ بالا ذوات کو قوت تو حاصل ہے لیکن یہ سب عطا ہے۔ یہ قوت ان کو بالذات حاصل نہیں ہے۔ بلکہ بالعرض سب قوی ہیں۔ قوی بالذات نہیں ہیں۔ سورہ بقرہ میں وارد ہوا ہے:
«اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا».
ترجمہ:   ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں۔[7] بقرہ: ۱۶۵۔
یہ آیت در اصل جواب ہے۔ قوت کا حقیقی منبع اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس لیے شرک وجود میں نہیں آتا۔

رزق کی نسبت

سورہ جمعہ میں وارد ہوا ہے:
«وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ».
ترجمہ: اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔[8] جمعہ: ۱۱۔
بیان ہوا کہ سب سے بہترین رزق دینے والا اللہ ہے۔ کیا کوئی اور بھی ہے جو رزق دیتا ہے ؟ ظاہر آیت بتاتی ہے کہ رازقین تو بہت ہیں لیکن ان سب میں بہترین اللہ ہے۔ لیکن وہ سب رزق دینے میں اللہ تعالی کے شریک نہیں ہیں کیونکہ وہ بالذات رازق نہیں ہیں۔ سورہ ذاریات میں وارد ہوا ہے:
«اِنَّ اللّٰہَ هوَ الرَّزَّاقُ».
ترجمہ: یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا ہے۔[9] ذاریات: ۵۸۔
اس آیت میں ضمیر هو اور لفظ رزاق پر ال کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ حصر کا معنی موجود ہے۔ پس رزق دینے والا بالذات اللہ ہے۔ 

شفاعت کی نسبت

سورہ مدثر میں وارد ہوا ہے:
«فَمَا تَنۡفَعُهمۡ شَفَاعَة الشّٰفِعِیۡنَ».
ترجمہ: اب سفارش کرنے والوں کی سفارش انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی۔[10] مدثر: ۴۸۔
اس سے معلوم ہوا قیامت کے روز بہت سے شفاعت کرنے والے ہوں گے۔ لیکن سورہ زمر میں وارد ہوا ہے:
«قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَة جَمِیۡعًا». 
ترجمہ:کہدیجئے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔[11] زمر: ۴۴۔
بالکل اسی طرح سے ولایت کا نظریہ بھی ہے۔ کئی ولی بیان ہوۓ ہیں لیکن اصلی ولی کون ہے؟ وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ سورہ مائدہ میں زکات دینے والے مومنین کو بھی ولی قرار دیا گیا ہے:
«إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ». 
ترجمہ: تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔[12] مائدہ: ۵۵۔
سورہ احزاب میں بیان ہوا:
«النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ». 
ترجمہ: نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔[13] احزاب: ۶۔
ولایت کی نسبت رسول اور مومنین کی طرف دینے کے باوجود سورہ شوری میں وارد ہوا:
«فَاللهُ هُوَ الْوَلِيُّ». 
ترجمہ: پس ولی تو صرف اللہ ہے۔[14] شوری: ۹۔
بقیہ سب ولایتیں تبع میں ہیں۔ بقیہ سب ولی حقیقی ولی کے مظاہر میں سے ہیں۔ مصنف کے بقول اصلی ولایت کے آئینہ ہیں۔ مثلا آئینے کے اندر جو حقیقت نظر آتی ہے وہ مظہر ہے۔ حقیقت وہ نہیں ہے جو آئینے میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح سے کائنات کی ہر شے مظہر ہے اصل اللہ تعالی کی ذات ہے۔ در اصل ہر شے آیت ہے۔ اس میں اللہ کی ولایت کا جلوہ موجود ہے۔ اگر کسی مقدس شے کو ہم بوسہ دیتے ہیں تو در اصل اللہ کو بوسہ دے رہے ہیں۔ ان سب آیات میں سب سے بڑی آیت انسان کامل ہے اور وہ نبی یا امام کی ذات ہے۔ سب سے زیادہ اللہ تعالی کے مظاہر جس ذات میں موجود ہیں وہ یہی ہستیاں ہیں۔ جیسا کہ امیرالمومنینؑ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
«أنا الحجة العظمى والآية الكبرى».
ترجمہ: میں سب سے بڑی حجت اور آیت کبری ہوں۔[15] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۳۵۔ [16] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲۳، ص۲۰۶۔
ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت ایک مومن سے پوچھا جاۓ گا کہ تم نے خدا کی عیادت کیوں نہیں کی؟ تو وہ کہے گا بھلا خدا کی عیادت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کو جواب دیا جاۓ گا کہ جب فلاں بندہ مریض ہوا تھا اگر اس کی عیادت کرتے تو گویا تم نے خدا کی عیادت کی۔ مومن کی عیادت خدا کی عیادت ہے۔[17] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۸، ص۲۲۷۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی کی ذات ان سب ذوات میں حلول کر گئی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب ذوات اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور اسی کی محتاج ہیں بقاء میں بھی اور حدوث میں بھی۔ امام خمینیؒ کا بسیجیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور ان ہاتھوں پر میں بوسہ کرتا ہوں ،بھی اسی معنی میں ہے۔ امام فرماتے تھے کہ میں اس بوسہ پر فخر کرتا ہوں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بسیجیوں کے ہاتھ در اصل مظہر خدا ہیں۔ اللہ کی آیات ہیں۔[18] خمینی، سید روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۶، ص۹۶۔

ولی فقیہ کی ولایت

ان سب مقدمات کے بعد معلوم ہوا کہ ربوبیت، عبادت، ولایت، حکومت در اصل خدا کی ہے۔ اگر نبی یا امام ولایت تکوینی، ولایت بر تشریع یا ولایت تشریعی رکھتے ہیں تو یہ سب اذن الہی سے ہے۔ یہ سب ولایت الہی کے مظاہر ہیں۔ اور اگر زمانہ غیبت میں فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے اور اس کی سرپرستی عطا ہوئی ہے وہ بھی اذن خدا اور فرمان خدا سے ہے۔ ورنہ کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کسی قسم کی ولایت حاصل نہیں ہے۔[19] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۹تا۱۳۴۔

Views: 25

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولی فقیہ کی شرائط اور ذمہ داریاں
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ میں فقیہ سے مراد