loading

سادات سے مراد اور سید زادی کا غیر سید سے نکاح

تحریر: سید محمد حسن رضوی
10/06/2023

کلمہِ سادات آیات و روایات میں نسب کے معنی میں نہیں آیا بلکہ کسی بھی قوم کے سردار یا سربراہ کو سید کہا جاتا تھا اور آج بھی یہ کلمہ عربی زبان میں اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہارؑ کے دور میں سید مولیٰ اور آقا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جبکہ نسب کے لیے قرشی و ہاشمی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ کئی صدیوں کے بعد عالم اسلام میں خصوصاً ایران و عرب دنیا میں فاطمی ہاشمی کو سید کہا جانے لگا جیساکہ آج کے دور میں عالم اسلام میں یہی رائج ہے۔

سادات سے مراد:

سادات کا معیار جناب ہاشم ؑہیں جوکہ رسول اللہ ﷺ کے پَر دادا تھے۔ ان کی سب اولاد ہاشمی سید کہلاتی ہے ۔ جناب ہاشم کی اکلوتی اولاد جناب عبد المطلبؑ تھے۔ جناب عبد المطلب کے ۱۱ بیٹے تھے جن میں سے ایک ابو لہب تھا ۔ ابو لہب کو چھوڑ کر سب کی اولاد سادات ہاشمی کہلائے گی۔ اس اعتبار سے جناب عباس بن عبد المطلب ؓسے چلنی والی عباسی نسل بھی ہاشمی سادات میں شمار کی جائے گی  اور امام علیؑ کے دیگر فرزندان کی نسل بھی ہاشمی سادات کہلائے گی جیساکہ جناب عباس علمدارؑ کی اولاد ہاشمی سید کہلائیں گے۔ہاشمی سادات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ فاطمی ہاشمی سادات
۲۔ غیر فاطمی ہاشمی سادات
سادات چاہے فاطمی ہوں یا غیر فاطمی ، ہر دو کے بارے میں احادیث مبارکہ میں
دو الگ الگ حکم وارد ہوئے ہیں :
۱۔ ان میں سے پہلا  فقہی حکم ہے جس کا تعلق فقہی احکام سے ہےاور یہ تمام ہاشمی سادات پر لاگو ہوتے ہیں ، چاہے فاطمی سادات ہوں یا غیر فاطمی سادات۔
۲۔ دوسراحکم  آداب و تعظیم سے تعلق رکھتا ہے جوکہ فقط فاطمی سادات کے ساتھ مختص ہے۔
ذیل میں ہر دو احکام کو قدرے تفصیل سے ملاحظہ کرتے ہیں:

ہاشمی سادات کے بارے میں فقہی حکم:

جناب ہاشم سے چلنے والی نسل جو کئی قبائل پر مشتمل ہے اور بنی ہاشم کہلاتی تھی کے بارے میں دو اہم فقہی حکم وارد ہوئے ہیں جوکہ شیعہ و سنی ہر دو میں یکساں طور پر موجود ہیں اور فاطمی و غیر فاطمی تمام سادات پر لاگو ہوتے ہیں:
۱۔ پہلا فقہی حکم ہاشمی سادات کے بارے میں یہ ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔ صدقہ سے مراد واجب صدقہ یعنی زکات و فطرانہ ہے جبکہ بقیہ صدقات مراد نہیں ہیں۔ اس فقہی حکم میں عباسی خلفاء بھی آ جاتے ہیں چونکہ وہ جناب عباس بن عبد المطلب کی اولاد تھے۔ اسی طرح اس میں حضرت عباس علمدارؑ کی اولاد بھی آ جاتی ہے کیونکہ وہ امام علیؑ کی اولاد تھے۔

۲۔ دوسرا فقہی حکم خمس کا لینا ہے۔ خمس میں مالِ سادات ہاشمی سادات کے لیے ہے ، صرف فاطمی سادات کے لیے نہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ غیر سید خمس نہیں لے سکتا تو یہاں سید سے مراد جناب ہاشم سے چلنے والی ہاشمی سادات مراد ہوتے ہیں۔

آداب سے متعلق حکم

سادات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ہاشمی سادات
۲۔ فاطمی سادات
فاطمی سادات وہ ہاشمی سید کہلاتے ہیں جو جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نسل کہلاتے ہیں۔ ان سادات کو دو خصوصیت حاصل ہے: ۱۔ یہ سادات طرفینی ہاشمی ہیں کیونکہ امام علیؑ بھی ہاشمی ہیں اور جناب سیدہؑ بھی ہاشمیہ ہیں، ۲۔ تمام سادات میں صرف فاطمی سادات کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

شیعہ و سنی روایات میں رسول اللہﷺ کی وجہ سے ان کی اولاد کے احترام کا بیان وارد ہوا ہے اگرچے اس موضوع کی اکثر احادیث ضعیف السند ہیں لیکن ضعیف احادیث سے تقاضائے ادب ثابت ہو جاتا ہے۔ اس جگہ احترام اور فضیلت میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ہر صاحب فضیلت محترم اور قابل تعظیم ہے جبکہ ہر وہ شخص جس کا احترام کیا جائے ضروری نہیں ہے کہ وہ فضیلت بھی رکھتا ہے۔ دین اسلام میں فضیلت کا معیار تقوی اور ایمان ہے اس لیے فضیلت کے مقام کی رعایت کرتے ہوئے احترام دینا الگ چیز ہے اور نسبتِ رسولؐ کی خاطر احترام دینا الگ چیز ہے، مثلاً اگر نماز کے لیے امام جماعت کے تعین کا مسئلہ آئے تو یہاں سید ہونے کی وجہ سے کسی کو آگے نہیں کیا جائے گا بلکہ عادل اور دیگر شرائطِ امامت کی بناء پر پیش امام بنایا جائے گا۔ ہاں اگر سید اور غیر سید فضیلت میں برابر ہوں تو بلا شک و شبہ سید کو مقدم کیا جائے گا۔

اہم  نکتہ: سید زادی کا غیر سید سے نکاح

بعض لوگوں کی خود ساختہ بنائی ہوئی شریعت کے احکام کے مطابق سید زادی کا غیر سید سے نکاح باطل ہے جبکہ دین اسلام بالخصوص مکتبِ اہل بیتؑ میں سید زادی ہاشمی ہو یا فاطمی ہر دو کی شادی مسلمان سے ہو سکتی ہے بلکہ امام جعفر صادقؑ سے صحیح السند روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک اموی شخص سے کی اور امامؑ نے اس معتبر حدیث میں دلیل بھی یہی دی کہ رسول اللہؐ سے نسبت رکھنی والی بیٹیوں کی شادی خلیفہ سوم حضرت عثمان سے ہوئی جوکہ اموی تھے اسی طرح میری بیٹی کی شادی اموی سے ہو سکتی ہے البتہ وہ اموی اہل بیتؑ کا پیرو ہو گا کیونکہ دیگر روایات میں وارد ہوا ہے کہ ناصبی کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح الکافی کی روایات کے مطابق رسول اللہؐ نے جناب عبد المطلب کی بیٹی ضبۃ بنت عبد المطلب جوکہ ہاشمیہ سادات میں سے تھیں کا نکاح جناب مقداد سے کیا جوکہ عرب کے معروف قبائل سے تعلق نہیں رکھتے اور غیر سید تھے۔ پس دین اسلام میں ہم کفو سے مراد مومن ہونا ہے نہ کہ ہاشمی یا فاطمی سید ہونا۔ *لہٰذا نکاح کے فقہی احکام میں خمس و صدقات کے فقہی احکام کا قیاس نہیں کر سکتے۔*

دین الہٰی کے بیان کردہ احکام اور تعلیمات کے خلاف اپنے من گھڑت نظریات اور افکار لا کراسے دین سے منسوب کرنا وہ بدعتی عمل ہے جس کی مذمت شدید الفاظ میں قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ نبی اکرمﷺ کی بیان کردہ شریعت کے محافظ اور سیرتِ رسول ﷺ کے بیانگر آئمہ اطہارؑ ہیں جنہوں نے تمام زندگی شریعتِ اسلام کی تشریح اور سنتِ رسول ﷺ کو احیاء کرنے میں خرچ کی۔ ہمارے معاشرے کے جاہلانہ معیارات میں سے ایک معیار جو آئمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات کے واضح خلاف ہے سید زادی کا غیر سید سے نکاح کا ممنوع ہونا ہے۔ بعض جاہل اور نادان یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں حرمتِ سادات اور سید زادی کا احترام ہے جبکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ۔ دین اسلام نے نکاح کے باب ہم کفو ایمان اور دین کو قرار دیا ہے جس کی بناء پر خود رسول اللہ ﷺ نے ہاشمیہ کی شادی غلام سے کرائی اور نسب و قبائلی معیارات کا خاتمہ کرتے ہوئے قبیلہِ انصار کے سرداروں کی بیٹیوں سے افریقی غلاموں کی شادیاں کرائیں جیساکہ جناب جویبرؓ کا ذلفاء انصاری سے نکاح کا واقعہ امام باقرؑ کی زبانی الکافی جیسی معتبر کتاب میں وارد ہوا ہے۔ [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۰، ص ۶۱۳۔اسی طرح آئمہ اطہارؑ نے کنیزوں سے ازدواج کیا حتی سات آئمہ اطہارؑ کی والدہ ماجدہ کنیز کا درجہ رکھتیں ہیں جوکہ معاشرے کے اعتبار سے سب سے نچلا درجہ ہے لیکن آئمہؑ کی نگاہ ان کی پاکیزگی ، عفّت اور تقویٰ پر تھی جس کی وجہ سے انہیں کنیزوں سے اللہ تعالیٰ نے معصوم ہستیوں متولد فرمایا۔ ذیل میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آئمہ اطہار ؑ کی بعض بیٹیاں اور بعض ہاشمیہ غیر سادات سے بیاہی گئیں اور خود آئمہ اطہارؑ نے اس عمل کو انجام دیا ہے۔

امام صادقؑ کی بیٹی کا اموی سے نکاح:

جناب کشی نے رجال الکشی میں روایت نقل کی ہے جسے آیت اللہ خوئی اور دیگر بزرگان نے صحیح السند حدیث قرار دیا ہے۔ امام جعفر صادقؑ سے منقول اس  روایت کی سند اور مضمونِ حدیث مع ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:{ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ كَتَبَ إِلَيَّ الْفَضْلُ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: قَدِمَ أَبُو إِسْحَاقَ (ع) مِنْ مَكَّةَ، فَذُكِرَ لَهُ قَتْلُ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ: قَالَ، فَقَامَ مُغْضَباً يَجُرُّ ثَوْبَهُ، فَقَالَ لَهُ إِسْمَاعِيلُ ابْنُهُ يَا أَبَتِ أَيْنَ تَذْهَبُ ؟ قَالَ لَوْ كَانَتْ نَازِلَةٌ لَأَقْدَمْتُ عَلَيْهَا، فَجَاء حَتَّى دَخَلَ عَلَى دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ، فَقَالَ لَهُ: يَا دَاوُدُ لَقَدْ أَتَيْتَ ذَنْباً لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ لَكَ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ الذَّنْبُ ؟ قَالَ: قَتَلْتَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ دَاوُدُ : وَأَنْتَ قَدْ أَتَيْتَ ذَنْباً لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ لَكَ! قَالَ : وَمَا ذَاكَ الذَّنْبُ؟ قَالَ: زَوَّجْتَ ابْنَتَكَ فُلَاناً الْأُمَوِيَّ، قَالَ: إِنْ كُنْتُ زَوَّجْتُ فُلَاناً الْأُمَوِيَّ فَقَدْ زَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) عُثْمَانَ، وَ لِي بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ، قَالَ : مَا أَنَا قَتَلْتُهُ، قَالَ: فَمَنْ قَتَلَهُ ؟ قَالَ : قَتَلَهُ السِّيرَافِيُّ، قَالَ فَأَقِدْنَا مِنْهُ! قَالَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ غَدَا إِلَى السِّيرَافِيِّ فَأَخَذَهُ فَقَتَلَهُ، فَجَعَلَ يَصِيحُ: يَا عِبَادَ اللَّهِ يَأْمُرُونِّي أَنْ أَقْتُلَ لَهُمُ النَّاسَ وَ يَقْتُلُونِّي؛ اسماعیل بن جابر بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ابو اسحاق علیہ السلام) مکہ سے تشریف لائے تو ان کے سامنے معلی بن خنیسؓ کے قتل کا تذکرہ کیا گیا ، راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر امامؑ حالت غضب میں اپنی چارد کو زمین پر روندتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے ، امامؑ کے فرزند اسماعیل نے ان سے کہا : بابا جان کہاں جا رہے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: اگر کوئی بلاء ٹوٹ پڑتی تو میں اس کی طرف بھی  قدم بڑھاتاا، امامؑ نکلے اور داؤد بن علی (عباسی) کے دربار میں داخل ہوئے اور فرمایا: اے داؤد تم نے ایسا گناہ انجام دیا ہے جسے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا،  داؤد نے کہا:وہ  کونسا گناہ ہے؟ امامؑ نے فرمایا: تم نے اہل جنّت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو قتل کیا ہے ، پھر کچھ لحظے امامؑ نے توقف کیا  پھر فرمایا: ان شاء اللہ، داؤد نے  کہا: آپ نے بھی ایک ایسا گناہ کیا ہے جس سے اللہ مغفرت نہیں فرمائے گا، امامؑ نے فرمایا: وہ کونسا گناہ ہے؟ داؤد نے کہا: آپؑ نے اپنی بیٹی کی شادی فلاں اموی سے کر دی ہے!! امامؑ نے فرمایا: اگر میں نے فلاں اموی سے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے تو رسول اللہﷺ نے بھی تو حضرت عثمان (خلیفہ سوم) سے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی، میرے لیے رسول اللہﷺ کی شخصیت اسوہ ہے، داؤد نے کہا: میں نے معلّیؓ کو قتل نہیں کیا، امامؑ نے فرمایا: پھر کس نے قتل کیا ہے؟ داؤد نے کہا: اسے سیرافی (داؤد کے سپاہی) نے قتل کیا ہے، امامؑ نے فرمایا: اس سے ہمیں قصاص لے کر دو، پھر جب اگلا دن آیا تو داؤد نے سیرافی کو پکڑا اور اسے قتل کر دیا اور لوگوں میں چیخ چیخ کر کہنے لگا : اے بندگانِ خدا! وہ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں ان کی خاطر لوگوں کو قتل کروں تاکہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں  } [2]کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۳۸۰، معلی بن خنیس، حدیث: ۷۱۱۔[3] خوئی ، سید ابو القاسم ، معجم رجال الحدیث، ج ۱۹، ص ۲۶۱۔

شرح حدیث:

۱۔ رجال الکشی کی اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں جس کی بناء پر مکتب تشیع کے تمام علماء رجال نے اسے معتبر اور صحیح السند روایت قرار دیا ہے۔ آیت اللہ خوئیؒ اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں معلی بن خنیس کے حالات میں اس حدیث کو رجال کشی سے نقل کرنے کے بعد  ان الفاظ میں سند پر تبصرہ تحریر کرتے ہیں : > أقول: هذه الرواية أيضا صحيحة؛ میں کہتا ہوں: یہ روایت بھی صحیح ہے۔< [4] خوئی ، سید ابو القاسم ، معجم رجال الحدیث، ج ۱۹، ص ۲۶۱۔ اسی طرح معروف ناقدِ رجالی آیت اللہ آصف محسنیؒ اپنے سخت رجالی مبنی کے باوجود اس حدیث کو معتبر قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں۔ [5]محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج۱، ص ۱۹۲۔

۲۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب عباسی دور آیا عباسی بادشاہ ابو العباس سفاح نے حضرت عبد اللہ بن عباسؒ کے پوتے داؤد بن علی کو مدینہ کا حاکم بنا دیا جوکہ ظلم و ستم میں اپنی مثال آپ تھا۔ امام صادقؑ کے ایک صاحب اسرار صحابی جناب معلّی بن خنیس تھے جنہیں امامؑ نے ایسی احادیث بیان کیں تھیں جن کے لوگ متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ امامؑ نے پہلے خبر دی تھی کہ جو ان مشکل احادیث کو عیاں کرے گا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔ داؤد بن علی نے جناب معلّی بن خنیسؒ کو گرفتار کر کے سیرافی نامی سپاہی کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا اور اس نے داؤد کے حکم پر معلی بن خنیسؓ کو قتل کر دیا۔ امام صادقؑ نے جب یہ سنا تو حالت غضب میں آپؑ اپنے گھر سے نکلے اور والی مدینہ کے گھر یا دربار میں تشریف لے آئے اور اس پر غضبناک ہوئے اورسیرافی کو قصاص میں قتل کر دیا گیا اور داؤد بن علی کے خلاف بددعا کی جس سے وہ رات کے وقت ہلاک ہو گیا۔ 

۲۔ اس حدیث مبارک میں سید زادی نہیں بلکہ امام زادی کے نکاح کے بارے میں امام صادقؑ کے نظریہ اور عباسی ظالمین کے نظریہ کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ امام صادقؑ کا نظریہ یہ ہے کہ امام زادی اور بدرجہ اولی سید زادی کا نکاح اموی شخص سے ہو سکتا ہے جوکہ نہ سید ہے اور نہ ہاشمی بلکہ ایسے قبیلے سے ہے جو امام حسینؑ کا قاتل ہے اگرچے یہ اموی نیک و پاکیزہ اور محب اہل بیتؑ تھا۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ سید زادی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہو سکتا وہ عباسی ظالمین کے پیچھے چلنے والے ہیں نہ کہ امام جفعر صادقؑ کے ۔

۳۔ امام صادقؑ نے اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا عمل قرار دیا کہ انہوں نے ایک اموی حضرت عثمان سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں اگرچے ہمارے معاشرے میں رائج قول یہ ہے کہ یہ بیٹیاں لے پالک تھیں لیکن احادیثِ اہل بیتؑ کے مطابق لے پالک نہیں تھیں۔

۴۔ اس حدیث مبارک کو تمام علماء رجال خصوصا آیت اللہ العظمی سید ابو القاسم خوئی نے معجم رجال الحدیث میں واضح طور پر صحیح السند قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی اور آیت اللہ خوئی کے داماد اور دیگر سادات مراجع عظام کے متعدد داماد غیر سید ہیں۔

Views: 469

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: متنازعہ بل اور دورِ صحابہ
اگلا مقالہ: تناسخ ملکی اور ملکوتی