loading

متنازعہ بل لے کر- آؤ چلیں صحابہ کے دور میں

تحریر : سید محمد حسن رضوی
08/16/2023

پاکستانی عدالت میں توہین کا مقدمہ:

 ماضی کےآئینہ میں دورِ صحابہ کو مشاہدہ کیجیےجہاں کئی توہین کے واقعات انجام پا چکے ہیں ۔ ان میں سے بعض کیسز اور مقدمات کی مختصر رُوداد پیش خدمت ہے۔  اس طرف توجہ رہے کہ عہدِ صحابہ میں پیش آنے والے ان واقعات کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور ریاستی اداروں سے مکمل قانونی کاروائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جن مقدمات اور کیسز کو پیش کیا جا رہا ہے اس وقوعہ کو معتبر ذرائع سے بیان کرنے والے گلی محلے کے عام افراد نہیں بلکہ اکابر محدثین و مؤرخین ہیں ۔  واقعہ کو محفوظ کرنے کا منبع  محدثین و علماء رجال و تاریخ کی معتبر کتب ہیں اور  عینی شاہد سمیت کیس دائرہ کرنے والے امت رسولﷺ  کے چند جرأت مند افرادہیں۔ کیس کی سماعت کے لیے پاکستانی عدالت کے جج اور مفتی حضرات کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ان عدالتوں اور مفتی حضرات سے درخواست ہے کہ متنازعہ توہین بل کے قانون کے تحت دورِ صحابہ میں توہین کرنے والوں کو سزا سنائی جائے اور مجرمین کو جیل کی تاریک کوٹھری میں عمر قید رکھا جائے۔

غیر اسلامی متنازعہ سازشی بل کی منظوری جمہوری نظام حکومت کے فساد کا ایک اور رخ ہے۔ جو کام ماضی میں بنو امیہ و بنو عباس نہ کر سکے ، افغانستان میں طالبان، مصر میں اخوان المسلمین، شام و عراق میں داعش اور عربستان میں علماء وہابی نہیں کر سکے اس متعصب اور مجرمانہ غیر شرعی قانون کو نام نہاد جمہوری اسمبلیوں اور سینٹ نے شریف بدمعاشوں کے دوش پر کر ڈالا۔ ہماری نگاہ میں اس کو متنازع بل کی بجائے غیر شرعی بل کہنا چاہیے۔ بالفرض اگر ہم اس کو شرعی و اسلامی قانون کے طور پر قبول کر لیں تویقیناً  اسلامی قوانین سے انبیاء ؑ اور صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ شریعت تو صحابہ کرام پر بھی لاگو ہو گی۔ آئیے اس بل کا جائزہ صحابہ کرام کے دور میں جا کر لیتے ہیں کہ اگر رسول اللہﷺ کے دور میں اور پہلی صدی ہجری میں یہ غیر شرعی بل قانون بن کر لاگو ہوتا تو کون کون عمر قید سزا کاٹ رہا ہوتا اور کس کس کو دس سال جیل میں قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہونا چاہیےتھأ؟! فہرست طولانی ہے لہٰذا ہم کتب احادیث و تواریخ و رجال کے دوش پر ماضی کا سفر طے کر کے متنازعہ توہین بل لے کر دورِ صحابہ میں جاتے ہیں اور چند بزرگ صحابہ کو پاکستانی مفتی اور جج حضرات کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اس قانون کے جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مفتی اور جج حضرات پاکستانی کورٹ میں لا کر کون کون سے صحابہ کرام کو عمر قید کی سزا سنائیں گے :

متنازعہ بل اور حضرت ابو بکر :

          جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا توانہوں نے عبد الرحمن بن عوف کو مرضِ موت کی حالت میں چند چیزوں کو یاد کر کے اظہارِ پشیمانی کیا ۔ حضرت ابو بکر کی پشیمانی اور ندامت کے ان واقعات کو تیسری و چوتھی صدی ہجری کے اکابر محدثین میں سے اموال میں ابن زنجویہ متوفی ۲۵۱ ھ نے ، طبرانی متوفی ۳۶۰ ھ نے معجم کبیرمیں ، خثیمہ بن سلیمان نے فضائل الصحابۃ میں ، ابن عساکر نے نے تاریخ میں اور سعید بن منصور نے بیان کیا ہے اور سعید بن منصور نے اس کو حسن درجہ کی حدیث قرار دیا ہے۔ حضرت ابو بکر کی ندامت کے الفاظ یہ ہیں: فَأَمَّا اللَّاتِى فَعَلْتُهَا وَوَدِدْتُ أَنِّى لَمْ أَفْعَلْهَا: فَوَدِدْتُ أنِّى لَمْ أَكُنْ كَشَفْتُ بَيْتَ فَاطِمَةَ وَتَرَكْتُهُ ؛ وہ کام جو میں نے کیے اور میں چاہتا تھا کہ کاش میں نے انہیں انجام نہ دیا ہوتا وہ یہ ہیں: اے کاش میں نے فاطمہؑ کے گھر کی تفتیش نہ کی ہوتی اور کاش اس کام کو ترک دیا ہوتا. [1]ابن زنجویہ، حمید بن مخلد، الاموال، ج ۱، ص ۳۰۱، حدیث ۴۶۷۔           متنازعہ بل کو عہدِ صحابہ میں لے کر جائیں تو جج حضرات سے گزارش ہے کہ وہ عدالتی فیصلہ سناتے ہوئے خلیفہ اول حضرت ابو بکر کو جناب فاطمہؑ کے گھر کی تفتیش کر کے ان کی اہانت کرنے پر عمر قید کی سزا سنائیں اور جیل میں بند کرنے کا فی الفور آڈر جاری کریں۔

متنازعہ بل اور حضرت عمر بن خطاب:

          اکابر محدثین و مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر نے جناب فاطمہؑ کے گھر کی اہانت کی اور انہیں دھمکی دی کہ وہ اہل بیتؑ سمیت گھر کو جلا دیں گے۔ مصنف ابن ابی شیبہ نے صحیح طریق سے حدیث نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ ، وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ ، وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ، أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ اللَّهِ لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ ؛ اسلم بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر کی بیعت کی گئی تو علی ؑ اور زبیر جناب فاطمہؑ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور جناب سیدہؑ سے انہوں نے مشورہ کیا اور وہ اپنے امرِ سیاسی کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس کی اطلاع جب عمر بن خطاب تک پہنچی تو وہ باہر نکلے اور جناب فاطمہؑ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے دختر رسول اللہ ﷺ ، قسم بخدا ہمیں آپؑ کے والد گرامی سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہے اور آپؑ کے والد ﷺ کے بعد ہمیں  آپؑ کی شخصیت سب سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہے ، اللہ کی قسم اگر آپؑ کے پاس یہ لوگ جمع ہو کر میٹنگزکرتے رہے تو مجھے یہ چیز اس کام سے نہیں روک سکے گی کہ میں انہیں حکم دوں کہ ان سمیت اس گھر کو آگ لگا دی جائے ۔ جب عمر چلے گئے تو وہ سب جناب سیدہؑ کے پاس جمع ہوئے ، اس وقت جناب سیدہؑ نے فرمایا: تم لوگ جانتے ہو کہ عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ اگر تم لوگ دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو وہ تم لوگوں سمیت اس گھر کو آگ لگا دے گا اور قسم بخدا وہ جس بات پر قسم کھائے اسے حتماً انجام دے کر رہتا ہے .[2]ابن ابی شیبہ، ابو بکر بن ابی شیبہ، المصنف فی الاحادیث والآثار، ج ۷، ص ۴۳۲، حدیث: ۳۷۹۴۵۔
          اس متنازعہ بل کو اگر ہم عہدِ صحابہ میں لے کر جائیں تو گھرانہِ رسالت اور درِ اہل بیت طہارتؑ کی توہین کے جرم میں حضرت عمر بن خطاب کو عمر قید سزا سنانی چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ انہیں جرمانہ سمیت زندان کی نظر کیا جائے۔

متنازعہ بل اور بنو امیہ :

          بنو امیہ کے بغض ِ اہل بیتؑ اور توہین اہل بیتؑ کی خبر آیت کریمہ نے بیان کی ہے جس کی تفسیر امام علیؑ نے فرمائی ہے۔ امام علیؑ سے منقول اس حدیث مبارک کو  حاکم نیشاپوری اور ذہبی ہر دو نے صحیح السندقرار دیا ہے۔  حدیث کے الفاظ یہ ہیں:فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوار } [إبراهيم: 28] قَالَ: هُمُ الْأَفْجَرَانِ مِنْ قُرَيْشٍ، بَنُو أُمَيَّةَ وَبَنُو الْمُغِيرَةِ، فَأَمَّا بَنُو الْمُغِيرَةِ فَقَدْ قَطَعَ اللَّهُ دَابِرَهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ، وَأَمَّا بَنُو أُمَيَّةَ فَمُتِّعُوا إِلَى حِينٍ ؛اللہ عز و جل کے فرمان { انہوں نے اپنی قوم ہلاکت کے گھر میں لا اتارا } کی تفسیر کرتے ہوئے امام علیؑ فرماتے ہیں:قوم سے مراد قریش کے دو فاجر قبیلے ہیں جوکہ بنو امیہ اور بنو مغیرہ ہیں ، جہاں تک بنو مغیرہ کا تعلق ہے تو اللہ نے روزِ بدر ان پاؤں جڑوں سے کاٹ ڈالے اور بنو امیہ کو ایک معین مدت تک متاعِ دنیا سمیٹنے کی مہلت دی گئی ہے. [3]حاکم نیشاپوری، محمدبن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۲، ص ۳۸۳، حدیث : ۳۳۴۳۔

          اس طرح حاکم اور ذہبی ہر دو کی تائید یافتہ صحیح السند حدیث جوکہ بخاری و مسلم کی شرط پر ہے میں صحابی رسول ﷺ ابو برزہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے قبیلے بنو امیہ ، بنو حَنیفہ اور ثقیف ہیں. [4]حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۴، ص ۵۲۸ ، حدیث: ۸۴۸۲۔

حاکم نیشاپوری نے ابو سعید خدری سے بخاری و مسلم کی شرط پر حدیث استخراج کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: إِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ مِنْ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي قَتْلًا وَتَشْرِيدًا، وَإِنَّ أَشَدَّ قَوْمِنَا لَنَا بُغْضًا بَنُو أُمَيَّةَ، وَبَنُو الْمُغِيرَةِ، وَبَنُو مَخْزُومٍ؛ بے شک میرے بعد میرے اہل بیت میری امت کے ہاتھوں قتل و غارت کا سامنا کریں گے اور ہماری قوم میں ہم سے سب سے شدید نفرت و بغض رکھنے والے بنو امیہ ، بنو مغیرہ اور بنی مخزوم ہیں. [5]حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۴، ص ۵۳۴، حدیث: ۸۵۰۰۔

 عبد اللہ بن زبیر رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں جس میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: وَشَرُّ قَبَائِلِ الْعَرَبِ بَنُو أُمَيَّةَ، وَبَنُو حَنِيفَةَ، وَثَقِيفٌ؛ عرب قبائل میں سب سے بدترین وشریر ترین قبیلے بنو امیہ، بنو حنیفہ اور ثقیف ہیں.[6]ہیثمی،علی بن ابی بکر ،المقصد العلی فی زوائد ابی یعلی الموصلی، ج ۴، ص ۳۹۳، حدیث: ۱۷۹۶۔ شیخ بوصیری کنانی متوفی ۸۴۰ ھ ابو بعلی موصلی کی زبانی اس حدیث کو حسن درجہ کی حدیث قرار دیتے ہیں. [7]بوصیری، احمد بن ابی بکر، اتحاف الخیرۃ المھرۃبزوائد المسانید العشرۃ، ج ۸، ص ۸۱، حدیث ۷۵۲۲۔ اسی طرح بخاری کے استاد نعیم بن حماد اپنی کتاب الفتن میں امام علیؑ کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ ہر امت کے لیے ایک آفت ہے اور اس امت کی آفت بنو امیہ ہے. [8]نعیم بن حماد، کتاب الفتن، ص ۷۲، حدیث: ۳۱۲۔

          اس کی عملی تصویر امام علیؑ پر لعن کی بدترین روش کو شروع کرنا اور واقعہِ کربلا کا برپا ہونا ہے۔ شجری جرجانی متوفی ۴۹۹ ھ اپنی کتاب ترتیب الأمالی الخمیسیۃ میں لکھتے ہیں: مّا أَسْقَطَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْخُطَبِ عَلَى الْمَنَابِرِ لَعْنَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَامَ إِلَيْهِ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ وَقَدْ بَلَغَ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَتْ بَنُو أُمَيَّةَ تَلْعَنُ فِيهِ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ فَقَرَأَ مَكَانَهُ: { إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسانِ وَ إيتاءِ ذِي الْقُرْبى‏ وَ يَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ } [النحل: 90] فَقَامَ إِلَيْهِ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ لَعَنَهُ اللَّهَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، السُّنَّةَ السُّنَّةَ، يُحَرِّضْهُ عَلَى لَعْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ عُمَرُ: اسْكُتْ قَبَّحَكَ اللَّهُ لَا السُّنَّةُ؛ جب عمر بن عبد العزیز نے منبروں پر خطبوں کے اندر امیر المؤمنین علیہ السلام پر لعنت بھیجنے کو ختم کر دیا تو ایک دن جب عمر بن عبد العزیزدورانِ خطبہ اس جگہ پر پہنچے جہاں بنو امیہ علی علیہ السلام پر لعنت بھیجا کرتے تھے تو انہوں نے اس کی بجائے یہ آیت کریمہ پڑھی . { إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسانِ وَ إيتاءِ ذِي الْقُرْبى‏ وَ يَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ } تو اس پر عمرو بن شعیب لعنہ اللہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے امیر المؤمنین سنت کا خیال رکھیں ، سنت کا خیال رکھیں، وہ علی علیہ السلام پر لعنت بھیجنے پر انہیں ابھار رہا تھا، عمر نے جواب دیا : بکواس بند کر ! اللہ تجھے مزید قباحتوں کا شکار کرے یہ سنت نہیں ہے ۔ [9]شجری، یحیی بن حسین، ترتیب الامالی الخمیسیۃ، ج ۱، ص ۲۰۱، حدیث: ۷۴۵۔           ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اہل بیتؑ کی بدترین توہین کرنے والی اور رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ کے ہاتھوں لعنت کی مستحق قرار پانے والا قبیلہ ہے۔ اس لیے اس متنازعہ بل کے نتیجہ میں ہماری درخواست ہے کہ یہ مطالبہ کیا جائے کہ دورِ صحابہ میں بنو امیہ کو عمر قید سزا ہونی چاہیے تھی اور انہیں بدترین زندان میں قید کر کے امت کو ان کے شر سے نجات دینی چاہیے تھی ۔ افسوس دورِ صحابہ میں اس بل پر عمل نہیں ہوا !!

متنازعہ بل اور معاویہ بن ابی سفیان:

صحیح مسلم میں معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ امام علیؑ کو سب و شتم کرے لیکن انہوں نے ایسے قبیح عمل کو انجام دینے سے انکار کر دیا۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے:حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ – وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ – قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ – عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ  ؛عامر اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا اور کہا: تمہیں ابو ترابؑ کو سب و شتم کرنے سے کونسی چیز روکتی ہے؟! سعد نے جواب دیا: مجھے وہ تیں چیزیں یاد آ جاتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کے لیے فرمائی تھیں ، لہٰذا میں ہر گز انہیں گالم گلوچ نہیں کر سکتا، اگر ان میں سے ایک بھی میرے لیے ہوتی تم یہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے . [10]نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۱۸۷۱، حدیث : ۳۲/۲۴۰۴۔بعض ناصبی حضرات نے نووی جیسے صحیح مسلم کے شارحین کے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے یہ تاویلات کی ہیں کہ معاویہ تو دیکھنا چاہ رہا تھا کہ سعد بن ابی وقاص کا امام علیؑ کو لعن نہ کرنے کا سبب آیا زہدو ورع ہے یا خوف ہے یا کوئی اور وجہ ہے۔ ان ناصبی مزاج حضرات نے صحابہ کرام کی تعظیم میں غلو پر مشتمل ایک قاعدہ ایجاد کیا ہے کہ ہر صحابی کے نقص اور عیب کی تأویل و توجیہ کرنا ضروری ہے ۔ گویا کہ سب صحابہ کو انبیاء کرامؑ کی مانند قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ بلا شک و شبہ غلو ہے۔ لہٰذا معاویہ کو بچانے کے لیے بعض نے تأویلات کی ہیں کہ معاویہ سعد بن ابی وقاص کا امتحان لینا چاہ رہا تھا۔ ان بے بنیاد تأویلات کو صحیح مسلم کے معروف شارح دکتور موسی شاہین لاشین ان الفاظ میں رد کرتے ہیں:وهذا تأويل واضح التعسف والبعد والثابت أن معاوية كان يأمر بسب علي، وهو غير معصوم، فهو يخطئ؛  یہ تأویلات واضح طور پر باطل اور حقیقت سے دور ہیں اور یہ مسلم الثبوت ہے کہ معاویہ امام علیؑ کو گالیاں دینے کا حکم دیا کرتا تھا ، معاویہ غیر معصوم ہے اس لیے وہ خطاء سے دوچار ہو سکتا ہے. [11]شاہین، موسی، فتح المنعم شرح صحیح مسلم، ج ۹، ص ۳۳۲۔جب معاویہ کا مجرم ہونا اور توہین کا ارتکاب کرنا محدثین  اور شارحین کی زبانی ثابت ہو گیا تو ہم اس کیس کے ذیل میں پاکستانی عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ماضی کے توسط سے معاویہ بن ابی سفیان پر توہینِ صحابہ و اہل بیتؑ کا قانون جاری کرتے ہوئے سخت سزا سنائی جائے اور عمر قید تک زندان کی نظر کیا جائے۔

صحیح مسلم میں ہی وارد ہوا ہے کہ معاویہ کے دور میں مدینہ کا حاکم صحابہ اور لوگوں کو امام علیؑ پر نعوذ باللہ لعنت بھیجا کرتا تھا اور دیگر افراد کو بھی لعنت پر ابھارتا تھا۔صحیح مسلم میں حدیث کے الفاظ اس طرح سے ہیں: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا؛سہل بن سعد(صحابی) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ پر آل مروان میں سے ایک شخص کو حاکم بنایا گیا، اس نے سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ علیؑ کو گالیاں دیں ، سہل نے گالیاں دینے سے انکار کر دیا ، اس حاکم نے سہل کو کہا: اب چونکہ تم نے انکار کیا اس لیے تمہیں یہ کہنا پڑے گا : اللہ کی لعنت ہو ابو تراب پر (نعوذ باللہ) ، سہل نے جواب میں کہا: علیؑ کو ابو تراب سے زیادہ کوئی اور نام محبوب نہیں تھا، اگر انہیں ابو تراب کہہ کر بلایا جاتا تو وہ اس سے خوش ہو جاتے تھے . [12]نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص ۱۸۷۴، حدیث: ۳۸/۲۴۰۹۔مدینہ کا یہ پست اور مستحقِ جہنم حاکم مروان بن حکم تھا اور بنو امیہ امام علیؑ کی توہین کرنے کے لیے انہیں ابو تراب کہتے تھے جبکہ ابو تراب کنیت رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کو فضیلت کی بناء پر دی تھی۔ پاکستانی عدالت میں یہ تقاضا کرتے ہیں کہ عہد صحابہ میں اس قانون کا اجراء  کرتے ہوئے مجرمین کو واقعی سزا سنائی جائے اور انہیں عمر قید تک زندان میں بند کیا جائے۔

          اسی طرح شرح معانی الآثار میں عکرمہ بیان کرتے ہیں : كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ نَتَحَدَّثُ حَتَّى ذَهَبَ هَزِيعٌ مِنَ اللَّيْلِ ، فَقَامَ مُعَاوِيَةُ , فَرَكَعَ رَكْعَةً وَاحِدَةً , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مِنْ أَيْنَ تُرَى أَخَذَهَا الْحِمَارُ؛معاویہ کے پاس میں ابن عباس کے ہمراہ موجود تھا ، ہم باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ رات کا زیادہ حصہ گزر گیا ، معاویہ اٹھا اور اس نے (نماز تہجد کی) ایک رکعت پڑھی ، اس پر ابن عباس نے کہا: یہ دیکھو گدھے نے اس بدعت کو کہاں سے لیا ہے؟! [13]طحاوی، احمد بن محمد، شرح معانى الآثار، ج ۱، ص ۲۸۹، حدیث ۱۷۱۹۔

متنازعہ بل اور خالد بن ولید :

          احمد بن حنبل اپنی مسند میں صحیح السند اور قابل قبول متن پر مشتمل حدیث ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں: كَانَ بَيْنَ عَمَّارٍ وَبَيْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ كَلَامٌ، فَشَكَاهُ عَمَّارٌ إِلَى رَسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ مَنْ يُعَادِ عَمَّارًا يُعَادِهِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يُبْغِضْهُ يُبْغِضْهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَسُبَّهُ يَسُبَّهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ؛عمار اور خالد بن ولید کے درمیان باہمی جھگڑا ہو گا، عمار نے رسول ﷺ کی خدمت میں شکایت پیش کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عمار سے عداوت تھی اس نے اللہ عز و جل سے عداوت کی اور جو عمار سے بغض رکھے گا اللہ عز و جل اس سے بغض رکھے گااور جس نے عمار سب و شتم کیا اللہ عز و جل اس پر سب و شتم فرمائے گا۔ [14]ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۲۸، ص ۲۴، حدیث ۱۶۸۲۱۔ یہ حدیث اکثر اکابر محدثینِ اہل سنت نے اپنی کتب میں نقل کی ہے۔ حدیث کے کلمات بہترین قرینہ ہیں کہ خالد بن ولید نے حضرت عمار کو سب و شتم کیا اور ان کو ناروا جملات سے پکار کر ان کی توہین کی ۔ اس توہین پر متنازعہ بل کی نئی شریعت کے مطابق عمر قید سزا کا مطالبہ ہمارا حق بنتا ہے!!

متنازعہ بل اور مغیرہ بن شعبہ:

          احمد بن حنبل نے مسند میں صحیح السند حدیث نقل کی ہے جسے البانی نے اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں صحیح قرار دیا ہے میں مذکور ہے کہ مغیرہ بن شبعہ امام علیؑ پر سب و شتم کیا کرتا تھا۔ حدیث کے الفاظ اس طرح سے ہیں: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: قَدْ عَلِمْتَ ” أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى “، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ ؟؛زیاد بن علاقہ بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ امام علیؑ کو سب و شتم کیا کرتا تھا ،پھر  زید بن ارقم نے کہا : کیا تم جانتے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو سب و شتم سے منع کیا ہے ، پھر تم علیؑ کو کیوں گالیاں دیتے ہو جبکہ وہ دنیا سے اٹھ چکے ہیں!![15]ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۳۲، ص۴۳، حدیث:  ۱۹۲۸۸۔البانی، محمد ناصر الدین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ج … Continue readingحاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں بخاری و مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے اور ذہبی نے موافقت میں حاکم کی بات کی تائید کی ہے۔ [16]حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۱، ص ۵۴۱، حدیث : ۱۴۱۹۔ عربی زبان میں ’’نال منہ‘‘ کا مطلب گالی دینا وارد ہوا ہے۔ اس پر دلیل زید بن ارقم کی گفتگو کا اختتامی حصہ ہے کہ انہوں نے لفظِ سبّ و شتم استعمال کیا۔ متنازعہ بل کی روشنی میں ہمارا تقاضا ہے کہ تاریخ کے آئینے میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ مغیرہ بن شعبہ کو عمر قید کی سزا اور ہمیشہ کے لیےزندان کی نظر کیا جائے۔

محدث کبیر عبد الرزاق بن ہمام کی توہین:

ابن عساکر اور ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ عبد الرزّاق نے حضرت عمر کی سخت الفاظ میں توہین کی جس کی بناء پر بعض قائل ہوئے کہ ہم ان سے کوئی حدیث نہیں لیں گے ۔واقعہ کو ذہبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء میں اس طرح سے نقل کرتے ہیں: فَلَمَّا قَرَأَ قَوْلَ عُمَرَ لِعَلِيٍّ وَالعَبَّاسِ: فَجِئْتَ أَنْتَ تَطْلُبَ مِيْرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيْكَ، وَجَاءَ هَذَا يَطلُبُ مِيْرَاثَ امْرَأَتِهِ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: انْظُرُوا إِلَى الأَنْوَكِ، يَقُوْلُ: تَطلُبُ أَنْتَ مِيْرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيْكَ، وَيَطلُبُ هَذَا مِيْرَاثَ زَوْجَتِهِ مِنْ أَبِيْهَا؛جب اس عبد الرزاق کے سامنے عمر کا علیؑ اور عباس (بن عبد المطلب) کے بارے میں یہ قول پڑھا جس میں عمر کہتے ہیں: تم اپنی میراث اپنے بھتیجے سے لینے آئے ہو اور یہ اپنی زوجہ کی میراث کا مطالبہ کر رہا ہے، یہ سن عبد الرزاق نے (عمر کی توہین کرتے ہوئے ) کہا: اس احمق بے وقوف کو دیکھو جو یہ کہہ رہا ہے: تم اپنی میراث اپنے بھتیجے سے طلب کر رہے ہو اور وہ اپنی زوجہ کی اس کے باپ سے ملنے والی میراث کا مطالبہ کر رہا ہے .[17]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۸، ص ۲۲۶، رقم راوی: ۱۵۳۳۔عبد الرزاق بن ہمام کا حضرت عمر بن خطاب کو احمق و بے وقوف کہنا بہت بڑی توہین ہے جس پر ہم پاکستانی عدالت سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس گستاخ کو عمر قید سزا سنائیں اور جیل کی تاریک کوٹھری میں بند کرنے کا حکم جاری کریں۔ نیز ذہبی کی بھی یہاں پکڑ کرنی چاہیے جو اس کے باوجود عبد الرزاق بن ہمام کو صادق سچا لکھ رہا ہے اور ان محدثین کی بھی پکڑ کرنی چاہیے جنہوں نے عبد الرزاق بن ہمام جیسے گستاخ اور توہینِ صحابہ کرنے والے سے حدیثیں لیں اور زید بن مبارک کی سیرت پر عمل نہیں کیا جو طویل عرصہ اس گستاخ کے ساتھ رہے لیکن جب عبد الرزاق بن ہمام کی اہانتِ صحابہ دیکھی تو جو کچھ اس سے نقل کر کے لکھا تھا سب پھاڑ کر پھینک دی۔ [18]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۸، ص ۲۲۵، رقم راوی: ۱۵۳۳۔لیکن افسوس ! اکابر محدثین نے ایسا نہیں کیا ۔ اس لیے ایسے محدثین کے خلاف بھی پاکستانی عدالت سے تقاضا ہے کہ گستاخوں سے تعلق کی بناء پر کسی نوعیت کی سزا جاری کریں۔

منابع:

منابع:
1 ابن زنجویہ، حمید بن مخلد، الاموال، ج ۱، ص ۳۰۱، حدیث ۴۶۷۔
2 ابن ابی شیبہ، ابو بکر بن ابی شیبہ، المصنف فی الاحادیث والآثار، ج ۷، ص ۴۳۲، حدیث: ۳۷۹۴۵۔
3 حاکم نیشاپوری، محمدبن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۲، ص ۳۸۳، حدیث : ۳۳۴۳۔
4 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۴، ص ۵۲۸ ، حدیث: ۸۴۸۲۔
5 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین ، ج ۴، ص ۵۳۴، حدیث: ۸۵۰۰۔
6 ہیثمی،علی بن ابی بکر ،المقصد العلی فی زوائد ابی یعلی الموصلی، ج ۴، ص ۳۹۳، حدیث: ۱۷۹۶۔
7 بوصیری، احمد بن ابی بکر، اتحاف الخیرۃ المھرۃبزوائد المسانید العشرۃ، ج ۸، ص ۸۱، حدیث ۷۵۲۲۔
8 نعیم بن حماد، کتاب الفتن، ص ۷۲، حدیث: ۳۱۲۔
9 شجری، یحیی بن حسین، ترتیب الامالی الخمیسیۃ، ج ۱، ص ۲۰۱، حدیث: ۷۴۵۔
10 نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۱۸۷۱، حدیث : ۳۲/۲۴۰۴۔
11 شاہین، موسی، فتح المنعم شرح صحیح مسلم، ج ۹، ص ۳۳۲۔
12 نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص ۱۸۷۴، حدیث: ۳۸/۲۴۰۹۔
13 طحاوی، احمد بن محمد، شرح معانى الآثار، ج ۱، ص ۲۸۹، حدیث ۱۷۱۹۔
14 ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۲۸، ص ۲۴، حدیث ۱۶۸۲۱۔
15 ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۳۲، ص۴۳، حدیث:  ۱۹۲۸۸۔البانی، محمد ناصر الدین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ج ۵، ص ۵۲۰، حدیث: ۲۳۹۷۔
16 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۱، ص ۵۴۱، حدیث : ۱۴۱۹۔
17 ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۸، ص ۲۲۶، رقم راوی: ۱۵۳۳۔
18 ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۸، ص ۲۲۵، رقم راوی: ۱۵۳۳۔
Views: 812

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زمانہ غیبت میں دین کی تعطیل کا نظریہ
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ پر روائی دلیل