loading

شیخوخۃ الاجازۃ

تحریر:بہادر علی
02/06/2023

شیخوخةالاجازۃ سے مراد وہ مشائخ جو اپنی احادیث کو نقل کرنے کا ،حدیث تحمل کرنے کا یا احادیث کو تحریر کرنے کا اجازۃ دیتے ہیں اس شیخ کا کسی کو اجازۃ دینا آیا یہ دلیل ہے کہ یہ شیخ ثقہ یا عادل ہے اس کے متعلق چند اقوال ہیں ۔اس سے پہلے کہ ہم ان اقوال کو بیان کریں ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ شیخوخة الاجازۃ میں کو نسی سی خصوصیات پائی جانی چاہیں :
۱:وہ  شیخ شہرت رکھتاہو اورعلماء و محدثین کے درمیان اس کے اجازۃ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہواسے قدر وجلالت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یعنی علماء اسکی طرف سے اجازۃ کا اہتمام کرتے ہیں ان کی نظر میں اس کی قدر وقیمت ہے اور وہ اجازۃ دینے کےعنوان سے شہرت بھی رکھتے ہیں۔
۲:اس شیخ سے کثرت سے اجازۃ لیا گیا ہے ۔
اگر کسی شخص کے اندر یہ خصوصیات نہ پائی جائیں تو وہ اجازۃ اصطلاح کے معنی میں نہیں شمار ہوگأ یعنی یہاں پے مطلق شیخوخة الاجازۃمراد نہیں ہے ۔
اقوال :
۱۔پہلے قول کے مطابق یہ وثاقت اور عدالت کے اوپر دلالت کرتا ہے اسے ہمارے بزرگان نے واضح طور پر لکھا ہے ۔
۲۔سید حسن صدر کا یہ کہنا ہے کہ شیخوخة الاجازۃ مدح کے اوپر دلالت کرتا ہے وثاقت کے اوپر دلالت نہیں کرتا    ۔
۳۔آیت اللہ خوئی نے اسے مطلقا رد کیا اور ان کے اکثر شاگردان  بھی اسے تسلیم نہیں کرتے ۔
آیت اللہ سیفی مازندانی نے شیخوخة الاجازۃ کا عمومی معنی مراد نہیں لیا بلکہ خصوصی معنی مراد لیا ہے ان کے مطابق جو مشائخ سے اجازات لیے گئے ہیں اور اجلاء محدثین میں ان کی شہرت بھی تھی اس کے علاوہ اجلاء محدثین نے ان سے کثرت کے ساتھ اجازے اخذ کیے ہیں تو بلا شک وشبہ انکا شیخوخة الاجازۃ ہونا ان کی وثاقت وعظمت اور جلالت کے اوپر دلالت کرتا ہے ،اس کے علاوہ بیان کرتےہیں کہ تنہا شیخوخةالاجازۃ کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے بلکہ اس کی وثاقت کی شہرت ہونی چاہیے اگر شہرت کو اسکے ساتھ جمع نا کیا جائے تنہا شیخوخة الاجازۃ کی اہمیت نہیں ہے یہ شہرت کسی بھی سبب کی وجہ سے ہو سکتی ہے کثرت اجازۃ کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ اجازۃ کے لیے ان کی طرف بہت زیادہ رجوع کیا جاتا ہے یا اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ انکے اجازۃ کو بہت زیادہ اہمیت اور وقعت دی جاتی ہے اگر اسے ان قرائن سے ہٹا کے دیکھیں تو یہ کسی بھی قسم کی دلالت نہیں کرتی ۔
اس جگہ پر آیت اللہ خوئی نے اسے رد کرنے کے لیے ایک حلی جواب دیا اور ایک نقضی جواب دیا ہے۔حلی جواب میں دو نقاط ہیں :پہلا یہ ہے مشائخ اجازۃ کا دیگر راویوں سے کوئی امتیاز نہیں ہے لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے اگر کوئی شیخ اجازۃ دیتا ہے تویہ اس کی وثاقت کے اوپر دلیل ہو سکتی ہے  ۔ آیت اللہ خو ئی کے مطابق یہ مشائخ عام راویو ں کی مانند ہیں ثقہ ہوئے تو ٹھیک اور اگر ثقہ نہ ہوئے تو رد مجھول ہوئے تو تب بھی حداقل قبول نہیں ہے۔اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ اجازۃ دینے سے شیخ کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہو جاتی اور اس سے ہمارےپاس کوئی خاص نتیجہ بھی نہیں نکلتا کیونکہ کسی بھی شخص کے حسن حال کے اوپر ثقہ کی روایت کا شف ہوتی ہے اگر ثقہ کی راویت نہیں ہے تواس سے ہمارے لیے کوئی حسن ظن حاصل نہیں ہوتا ۔آیت اللہ سیفی مازندرانی نے اس نقطے کو رد کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ آپ کی بات تب ٹھیک تھی کہ جب آپ شیخوخة الاجازۃ سے مطلق شیخوخۃ الاجازۃ مراد لیتے لیکن ہماری مراد شیخوخۃ الاجازۃ سے اجلاء اور بزرگان میں اس شیخ کی شہرت ہے کثرت سے اس سے اجازات لیے گئے ہیں محدثین اس سے لیے  گئے اجازات کو اہمیت دیتے ہیں۔
آیت اللہ خوئی کادوسرارد اور اسکا  نقضی جواب:
آیت اللہ خوئی بیان کرتے ہیں کہ نجاشی نے مشائخ اجازۃکو ضعیف قرار دیا ہے اگر مشائخ اجازۃ ثقہ ہوتے تو نجاشی اپنی رجال میں انھیں واضح طور پر ضعیف قرار نہ دیتے جیسے حسن بن محمد بن یحی،حسین بن حمدان خصیبی انھوں نے تلعکبری کو اجازۃ دیا تھاتلعکبری خود ثقہ ہیں لیکن تلعکبری کے یہ دونوں شیخ الاجازۃ کو نجاشی ضعیف قرار دے رہے ہیں ۔آیت اللہ سیفی مازندرانی کے جواب میں بیا ن فرماتے ہیں کہ آپ کی بات درست ہے کہ نجاشی نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے لیکن ہم آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگان اجازۃ کے باب میں شہرت رکھتے ہیں یا شہرت نہیں رکھتے ؟آپ کہیں گے کہ یہ شہرت نہیں رکھتے لیکن ہم تو کہا تھاکہ وہ علماء اور محدثین کے درمیان شہرت رکھتا ہو دوسراہم نے کہا تھا کہ ان سےکثرت کے ساتھ اجازۃ صادر ہوئے ہوں تو ان سے کثرت سے اجازات بھی صادرنہیں ہوئے ہم نے جو ملاق دیا تھا وہ ان دونوں میں نہیں پایا جاتا اس لیے ان سے ہم عام راوی والارویہ کرے گے۔
آیت اللہ خوئی کا تیسرا نکتہ:
بیان کرتے ہیں مشائخ اجازۃ اجلاء اور بلند منزلت میں سے نہیں تھےیعنی اصحاب اجماع سے بڑھ کر مقام نہیں ہے اصحاب اجماع تو آئمہ ؑ کے شاگر د اور ان سےروایات نقل کرنےوالے ہیں اور یہ مشائخ اجازۃ سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں جبکہ مشائخ جرح وتعدیل نہیں اصحاب اجماع کی توثیق وتعدیل سے بحث کی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اصحاب اجماع کے احوال کا تو جرح وتعدیل کے عتبار سے تذکر ہ کرے لیکن وہ مشائخ اجازات کواس سے مبرا قرار دے ؟
آیت اللہ سیفی مازندرانی آیت اللہ خوئی کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ اصحاب اجماع کےاوپر اعتماد کا سبب ان کی عظمت انکی جلالت اور ان کو شہرت حاصل تھی ان پر اعتماد کیا جاتا تھا جس بنیاد پر ہمارے لیے مشائخ اجازۃ قبول ہیں اس بنیاد پر اصحاب اجماع بدرجہ اولی قبول ہیں ۔
عبارت :
یہ بات شہرت رکھتی ہے کہ مشائخ اجازات توثیق کے محتاج نہیں ہیں بلکہ مشائخ اجازۃ ہونا وثاقت کے قوی ترین امارات میں سے ہے ۔
شہید ثانی نے اپنی کتاب الدرایۃ اور الرعایۃ میں یہی نظریہ اختیار کیا ہے کہ مجرد شیخوخۃ الاجازۃ مطلقا وثاقت کے اوپر امارۃ ہے ،اور ان کے بیٹے حسن بن زین الدین العاملی نے منتقی الجمان میں اسی نظریے کو اختیار کیا ہے [1] العاملی،سید جمال الدین الحسن،منتقی الجمان فی الاحادیث المصحاح والحسان،ج۱،صفحہ:۳۹ ۔،اور وحید البہبہانی[2] الوحید البھبھانی ،محمد باقر،الفوئدالرجالیۃ،ج ۱،صفحہ :۴۵ ۔و سید میر داماد [3] سیدمیر داماد،محمد باقر،الرواشح السماویۃ،ج۱،صفحہ :۱۰۴ ۔و سید بحر العلوم نے فوائدرجالیہ میں ان بزرگان نے اپنی ان کتابوں میں یہی نظریہ اختیار کیا ہے اور اسی کے ساتھی شیخ بھائی نے مشرق الشمسین میں اسی نظریے کو اختیار کیا ہے ۔محدث بحرانی نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ مشائخ الاجازات وثاقت کے اعلی درجات میں سے ہے۔اسکے علاوہ علماء رجال اور علماء درایۃ اور بڑے فحول فقہاء و محدثین نے بھی اسی نظریے کو اختیارکیا ہے ۔ہم یہاں پر تمام علماء کے کلمات کو ذکر نہیں کرسکتے ۔
محققین کی ایک جماعت نے اس کی مخالفت کی ہے جیسے سید حسن صدر [4] الصدر،سید حسن ،نھایۃالدرایۃ،جلد۱،صفحہ :۴۱۴ ۔کی نظر میں شیخوخۃ الاجازۃ وثاقت کے اوپر دلیل نہیں ہے بلکہ مدح کے امارات میں سے ہے مگر یہ کہ اس کے اجازۃ کو شہرت حاصل ہو اور اس کے قول کی اعتناء کرنا یہ اسکی شأنیت اور تجلیل وتعظیم کےاوپر دلالت کرتا ہے ۔
جنھوں نے مشہور کی مخالفت کی اور شیخوخۃ الاجازۃ کے امارۃ ہونے کا مطلقا انکار کیا ان میں سید محقق خوئی اور ان کے اکثر شاگردان ہیں ۔
بحث میں وارد ہونے سے پہلے ہم آپ کو بتا دیں کہ مشائخ اجازۃ سے ہماری مراد مطلق طور پے روایت کا اجازۃ دینے والا یا جس سےروایا ت کے نقل کی اجازت طلب کی جاتی ہے وہ مراد نہیں ہےاگر چہ ایک راویت کسی سے نقل کی ہے اور آ پ نے اس سے اجازۃ طلب کی اور اس نے اجازت دے دی تو اس سے وہ شیخ الاجازۃ نہیں کہلائے گا بلکہ ہمارا مقصود وہ شخص ہے جو اس عنوان سے شہرت رکھتا ہے یا پھر یہ کہ کتب مشہورہ کی روایت نقل کرنے کے لیے اس سے اجازت لی جاتی ہے ،جیسا کہ سید حسن صدر نھایۃ الدرایۃ میں بیان کرتے ہیں کہ مشائخ اجازۃ سے مرادکیا ہے :اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص جس سے کتب مشہورہ کی روایت کے باب میں اجازۃ طلب کیا جاتا ہے ،یا کثیر روایات ایسی ہیں کہ جن کے نقل کرنے کے لیے اجازت طلب کی گئی ہے ،یا بزرگ علماءواصحاب  میں اس سےروایت کا اجازۃ لینے کے اعتبار سے  بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ،جیسا کہ شہیدثانی  کا کلام اور شیخ بہائی کا کلام اور دوسرے بزرگ علماء کا کلام اس کے اوپر شاہد ہے  ۔اس سےہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ شیخوخۃ الاجازۃ سے انکا مقصودکیا ہے مطلق طورپے حدیث وروایت کا بیان کرناان سے اجازۃ لینایاان سے اجازۃ طلب کرنا یہ مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی شخصیت اس طور پر شہرت رکھتی ہو کہ بڑے بڑے بزرگ اجلاء روایت کا اجازۃ لینے کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
درج ذیل امور سے استدلال کرتے ہوئے شیخوخۃ الاجازۃ کا وثاقت   کے لیے امارۃ ہونے کو بیان کیا جاتا ہے :
الاول :شہید ثانی اور شیخ بہائی اور ان کے علاوہ دیگر کے کلام سے مشائخ اجازات کی وثاقت کی  شہرت کے ہونے کا استفادہ ہوتا ہے اور ہمارے اصحاب کے درمیا ن ان کا ضابط ہونا اوران کا ورع ہونا اس وجہ سے ہمارے بزرگ علماء اور متقدمین نے انکی شخصیت اور ان کی شان کا اہتمام کیا ہےاور ان سے کثیر روایات نقل کی ہیں ،اور قدماء اور متأخرین میں سے بڑے فقہاء کا ان روایات کے صحیح ہونے کا حکم لگاناجن روایات کے طرق میں یہ واقع ہوئے ہیں ۔
شہید ثانی بیان کرتے ہیں :کہ راوی میں معتبرعدالت کیسے پہچانی جائے گی کہ اس کی عدالت کے اوپر دو عادل مردوں نے صراحتا گواہی دی ہوکہ یہ عادل ہے یا اس کے عادل ہونے کی شہرت ہواہل نقل اور اہل علم کے درمیان اسکی عدالت کی شہرت ہے ۔جیسا کہ شیخ محمد بن یعقوب الکلینی کے زمانے کے جوہمارے گزشتہ مشائخ ہیں یا انکے بعد کے زمانے سے لے کے آج کے زمانے تک کے مشائخ میں اس کی عدالت کی شہرت ہو ۔ان مشہور مشائخ میں سے کوئی ایک بھی اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ اس کے تزکیہ کو کوئی آکے صراحتا بیان کرےیا اس کی عدالت کے اوپر کوئی گواہی یا دلیل لائی جائےوہ اس سے مبرا ہے ،کیونکہ ہر عصر میں انکی وثاقت انکے ضبط اور انکے محرمات سےبچنے کی شہرت حاصل ہے یہ انکی عدالت پر زائد اعتماد پردلالت کرتا ہے ان کے علاوہ دیگر روات جو مشہور نہیں ہیں ایکی وثاقت تزکیہ کے اوپر موقوف ہے غالبا جو احادیث کے طریق وارد ہوئے ہیں ان کی شہرت نہیں ہے تو انکے تزکیے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے ۔جیسا کہ منتقی الجمان کے فوائدمیں صاحب معالم نے اس بات کو ذکر کیا ہے ۔
یہ بات مخفی نہ رہے کہ شہید اور انکے بیٹے محقق صاحب المعالم کا مشائخ سے مقصود مطلقا شیخوخۃ نہیں ہے بلکہ انکی مراد مشہور مشائخ ہیں جیسا کہ شہید نے اسکی صراحت بھی کی ہے ۔العدۃ الرجالیہ میں سید محسن نے انھی تعبیرات اور اسکے معنی کے اوپر دلالت کو بیان کیا ہے :جنھوں نے احادیث کو حمل کیا ہے کہ وہ اجلاء اور بزرگان کہ جو روایت لینے میں غیر ثقہ سے اجتناب کرتے تھے کہاں وہ ان سےاستجازۃ لیں کہ ان کی روایت میں وہ اجازۃکو طلب کریں سوائے اسکے کہ وہ اس گروہ کا شیخ ہے اس گروہ کا فقیہ ومحدث اور انکی وثاقت مکتب تشیع میں آشکار ہے اور انھی کی طرف وہ لوگاعتماد کرتے ہیں انھی میں سے شیخ الاجازۃ ہے ان کے وہ مقام ہے جو راوی کے لیے نہیں ہے ۔
اسی طرح مشرق الشمسین میں بھی شیخ بہائی کا کلام بھی اسکے اوپر شاہد ہے وہ بیان کرتے ہیں :بعض احادیث کی اسانید میں ایسے افراد بھی آجاتے ہیں کہ جن کا کتب جرح وتعدیل میں نہ مدح کا اعتبار سے تذکرہ ہے اور نہ قدح کے اعتبار سے تذکر ہ ہے مگر یہ کہ ہمارے بڑے علماء متقدمین نے اس شخص کی شخصیت کا بڑا اہتمام کیا ہے اور اس سے کثیر روایتیں لی ہیں اور ہمارے متأخر بڑے بڑے علماء نے ان روایات کی صحت کا حکم لگایا ہے جس میں یہ شخص تھا کہ جس کی روایا ت کا اہتمام کیا جارہا ہے تو یہ مقدار کا فی ہے کہ اس کی عدالت کے حوالے سے حسن ظن قائم ہو جائے ۔
اسی طرح کی شخصیات کا ذکر کرتےہیں جن میں أحمد بن محمدبن الحسن بن الولید،وأحمد بن محمدبن یحیی العطار،والحسن بن الحسین بن أبان،وأبی الحسین علی بن أبی جید۔انکے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ ہمارے بزرگ قدما ومحدثین کے مشائخ ہیں ہمیں ان کے حسن حال کے اوپر ظن حاصل ہے اور ان کی عدالت کے اوپر حسن ظن حاصل ہےمیں نے اپنے بزرگ علماء ومشائخ کی روش پے چلتے ہوئے اپنی کتا ب حبل المتین میں انکی حدیثوں کو شمار کیا ہے اور اس کتاب میں صحیح قرار دیا ہے ،اور ہم اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ان مشائخ کے بارے میں اعتقاد واقع کے عین مطابق ہو۔
الثانی :یہ بات دونوں کے لیے قابل قبول ہے دونو ں اس پرمتفق ہیں کہ علماء رجال ومحدثین نے مشائخ کے احوال کو نہیں چھیڑالیکن سابق متقدم راویوں کے احوال سے بحث کی ہے ۔
کتب روائیہ میں جو احادیث تدوین کی گئی ہیں ا ن احادیث کے طرق میں وہ افراد جو وارد ہوئے ہیں جیسا کہ شہید ثانی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے اپنے اصحاب کے مشائخ جن سے انھوں نے بغیر واسطے کے حدیثیں لی ہیں ان کے بار ےمیں کسی قسم کا مناقشا یا ان کے بارے میں انھوں نے رائے نہیں دی کیونکہ انھوں نے انکے اوپراتنا اعتماد کیا کہ انکی توثیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔شیخ طوسی اور ان سے پہلے جتنے علماء ہیں ان کی سیرت یہی تھی جیسا کہ علامہ نے اپنے مشائخ سے مناقشا نہیں کیا بلکہ انکو انھوں اس سے ماوراء سمجھا ہے کہ وہ ان کی تصدیق کریں بلکہ وہ اجلاء ہیں یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ مشائخ اجازۃ ہیں یہ اس وجہ سے تھا کہ ان بزرگأن کی وثاقت ثابت تھی ۔
الثالث :
نجاشی وشیخ اور دیگر علماء رجال کے کلمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ر اویت لینے میں ضعیف سے اجتناب کر تے تھے ۔نجاشی کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ انکی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی ایسے شخص سے روایت نہ لیں جو کسی ایسے عنوان سے متہم ہے کہ جو روایت لینے میں مانع بنتا ہے یا یا جس کی شخصیت واضح نہیں ہے پوشیدہ ہے ۔نجاشی کے علاوہ دیگر مشائخ کی بھی یہی روش تھی۔یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان محتاط علماء کے مشائخ کی وثاقت ثابت ہے کیونکہ وہ نقل حدیث میں بڑے محتاط تھے یہ احتیاط اس بات پے دلالت کرتی ہے کہ ان کے مشائخ ثقہ تھے ۔
یہا ں پے یہ اشکا ل کیا جاتا ہے کہ رجالیوں نےاپنے مشائخ اجازۃ کے ذکر کو کیوں ترک کیا اور ان کی وثاقت کے اوپر انھوں نے صراحت کے ساتھ کچھ ذکر نہیں کیا ؟اس کے بارے میں صاحب معالم جواب دیتے ہیں کہ علم رجال تو اس در پے نہیں تھے کہ وہ اس شخص کے ذکر کو درج کریں جو معصومؑ سے روایت کو نقل کرتا ہے بلکہ وہ مصنفین کے ذکر کے در پے تھے ۔مشائخ کے ذکر سے غفلت برتنے کی وجہ شایدیہ ہو کیونکہ انکا شمار مصنفین میں نہیں ہوتا نہ یہ کہ انکی نظر میں انکی شخصیت اتنی مہم نہیں ہے کہ انکا اہتمام نہ کیا جائے یا انکی وثاقت انکے لیے ثابت نہیں تھی اس لیے انھوں نے انکا تذکر ہ نہیں کیا یہ وجوہات نہیں تھی۔
اس سے ہمارے لیے یہ جواب بھی دینا ممکن ہوتا ہے کہ وہ انسان جو طلب اجازۃ کرتا ہے اسکا شدت سے کسی شخصیت کا اہتمام کرنا اور اجازۃ دینے والے پر شدت سے اعتماد کرتا ہے اوراس کی تعظیم بجالاتا ہے  مستجیز کا مجیز کی تعظیم بجا لانا ایک قوی قرینہ ہے کہ مجیزکی وثاقت کا ظن حاصل ہو جائے اور یہ قرینہ ہمیں غنی کردیتا ہے کہ ہم اس مجیز کی مدح اور توثیق کی تنصیص کریں جیسا کہ محقق مامقانی نے شیخ محمد کے کلام کی یہی توجیح پیش کی ہے ،محقق مامقانی بیان کرتے ہیں کہ شاید محقق شیخ محمد کی مراد یہ ہوکہ مصنفین عادتا اپنے شیوخ کی توثیق نہیں کرتے شاید ان کی مراد یہ ہو کہ اکثر مصنفین کی سیرت یہی رہی تھی کہ وہ اپنے شیوخ کی توثیق ذکر نہیں کرتے تھے اور انھیں مستغنی جانتے تھے بے نیاز جانتے تھے انکی یہ روش آشکار کرتی ہے کہ اس شیخ اجازۃ کی وثاقت ان مصنفین کے درمیان مسلم ہے ۔

منابع:

منابع:
1 العاملی،سید جمال الدین الحسن،منتقی الجمان فی الاحادیث المصحاح والحسان،ج۱،صفحہ:۳۹
2 الوحید البھبھانی ،محمد باقر،الفوئدالرجالیۃ،ج ۱،صفحہ :۴۵
3 سیدمیر داماد،محمد باقر،الرواشح السماویۃ،ج۱،صفحہ :۱۰۴
4 الصدر،سید حسن ،نھایۃالدرایۃ،جلد۱،صفحہ :۴۱۴
Views: 66

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ہشام بن الحکم