loading

{حدیث یوم}

صبر

تدوین :بلال حسین

حضرت امام صادق علیہ السلام سے فرماتےہیں:

اَلصَّبْرُ صَبْرانِ:صَبْر عَلَی الْبَلائِ حَسَن جَمیل ،وَأَفْضَلُ الصَّبْرَیْنِ الْوَرَعَ عَنِ الْمَحارِمِ۔[1]    الكافی ،شيخ كلينی، جلد : 2 ، صفحہ: 91

ترجمہ:

صبر کی دو قسمیں ہیں:بلاء اور مصیبت پرصبرجوبہتراور زیباہے،لیکن دو قسموں میں بہترین صبر اپنےکوگناہوں سےمحفوظ رکھناہے۔

شرح حديث:

قرآن و احادیث میں صبر و شکیبائی کے سلسلہ میں حکم دیا گیا ہے جو واقعاً ایک الٰہی ، اخلاقی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کو خداوندعالم پسند کرتا ہے، جو عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے. صبر حافظ دین ہے اور انسان کو حق و حقیقت کی نسبت بے توجہ ہونے سے روکتا ہے، صبر کے ذریعہ انسان کے دل و جان میں طاقت پیدا ہوتی ہے، نیز صبر انسان کو شیاطین (جن و انس) سے حفاظت کرنے والا ہے۔

اگر سخت حوادث و ناگوار حالات(جو دین و ایمان کو غارت کرنے والے ہیں ) ، عبادت و اطاعت اور گناہ کے وقت صبر سے کام لیا جائے تو انسان یہ سوچتے ہوئے کہ حوادث بھی قواعد الٰہی سے ہم آہنگ ہیں، ان کو برداشت کرلیتا ہے،اور اپنی نجات کے لئے دشمنان خدا سے پناہ نہیں مانگتا، عبادت و اطاعت خدا کے وقت اپنے کو بندگی کے مورچہ پر کھڑا ہوکر استقامت کرتا ہے، اور گناہ و معصیت سے لذت کے وقت لذتوں کو چھوڑنے کی سختی کو برداشت کرتا ہے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق خداوندعالم کی صلوات و رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے

ولَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الاَْمْوَالِ وَالَْانفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ٭ الَّذِینَ ِاذَا َاصَابَتْهمْ مُصِیبَة قَالُوا ِنَّا لِلَّہِ وَِانَّا ِالَیْہِ رَاجِعُونَ٭ ُاوْلَئِکَ عَلَیْهمْ صَلَوَات مِنْ رَبِّهمْ وَرَحْمَة واُوْلَئِکَ هُمْ الْمُهتَدُن ( ( سورہ بقرہ۱۵۵۔۱۵۷ ))

‘اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں . جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں .کہ ان کے لئے پروردگار کی طرف صلوات اور رحمت ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں’

وَالْمَلَائِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ٭ سَلَام عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار [2]سورہ رعد۲۳۔۲۴ ۃ

‘اور ملائکہ ان کے پاس ہر دروازے سے حاضر ی دیں گے .کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین     منزل ہے’

مَا عِنْدَکُمْ یَنفَدُ وَمَا عِنْدَ اﷲِ بَاقٍ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِینَ صَبَرُوا َجْرَہُمْ بَاِحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ.[3]سورہ نحل  ۹۶

‘جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ سب خرچ ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے’۔

اُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ َجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا.[4] سورہ قصص۵۴

‘یہی وہ لوگ ہیں جن کو دہری جزادی جائے گی چونکہ انھوں نے صبر کیا ہے…۔

حضرت رسول خدا ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَسْتَعْفِفُ یُعِفَّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ وَمَا اُعْطِیَ عَبْد عَطا ئً ھُوَ خَیْر وَ اَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ[5]  توبه آغوش رحمت ،انصاريان، حسين، جلد : 1 ، صفحہ: 309

‘جو شخص صبر سے کام لے تو خداوندعالم اس کو صبر کی توفیق عطا کرتا ہے، اور جو شخص عفت و پارسائی کو اپناتا ہے تو خداوندعالم اس کو پارسائی تک پہنچادیتا ہے اور جو شخص خداوندعالم سے بے نیازی طلب کرتا ہے تو خداوندعالم اس کو بے نیاز بنادیا ہے ، لیکن بندہ کو صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی چیز عطا نہیں ہوتی’۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْحَقُّ ثَقِیل،وَقَدْ یُخَفِّفُہُ اللّٰہُ عَلیٰ اَقْوامٍ طَلَبُوا الْعاقِبةَ فَصَبَرُوا نُفُوسَھُمْ ،وَوَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللّٰہِ لِمَنْ صَبَرُوا ،اِحْتَسِبْ فَکُنْ مِنْھُمْ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ۔

[6]   نہج البلاغہ،سيد الشريف الرضي، جلد : 1 ، صفحہ : 720

‘حق کڑوا ہوتا ہے لیکن خداوندعالم اپنی عاقبت کے خواہاں لوگوں کے لئے شیرین بنادیتا ہے، جی ہاں ، جو لوگ صبر کے سلسلہ میں دئے گئے وعدہ الٰہی کو سچ مانتے ہیں خدا ان کے لئے حق کو آسان کردیتا ہے، خدا کے لئے نیک کام انجام دو اور حقائق کا حساب کرو جس کے نتیجہ میں تم صبر کرو اور خدا سے مدد طلب کرو’

نیز آپ کا ہی کا ارشاد ہے:

اصْبِرْ عَلیٰ مَرارَةِ الْحَقِّ ،وَاِیَّاکَ اَنْ تَنْخَدِعَ بِحَلاوَةِ الْباطِلِ۔[7]غرر الحكم ،آمدي، عبد الواحد بن محمد، جلد : 1 ، صفحہ: 149

‘صبر کے کڑوے پن پر صبر کرو اور باطل کی شیرینی سے فریب نہ کھائو’۔

ایک شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے کسی مسئلہ کے بارے میں نظر خواہی کی تو امام علیہ السلام نے اس شخص کے نظریہ کے برخلاف اپنی رائے کا اظہار فرمایا، اور امام نے اس کے چہرے پر بے توجہی کے آثار دیکھے تو اس سے فرمایا: ، حق پر صبر کرو، بے شک کسی نے صبر نہیں کیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے اس کے بدلے اس سے بہتر چیز عنایت فرمادی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

الْجَنَّةُ مَحْفُوفَة بِالْمَکارِہِ وَالصَّبْرِ ،فَمَنْ صَبَرَ عَلَی الْمَکارِہِ فِی الدُّنْیا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ جَھَنَّمُ مَحْفوفَة بِاللَّذّاتِ وَالشَّھَواتِ ،فَمَنْ اَعْطیٰ نَفْسَہُ لَذَّتھا وَشَھْوَتَھا دَخَلَ النّارَ۔[8] الكافی،اشيخ كلينی ، جلد : 2 ، صفحہ: 89

(جان لو کہ) جنت پر ناگواری اور صبر کاپہرہ ہے، جس شخص نے دنیا میں ناگواریوں پر صبر کیا و ہ جنت میں داخل ہوجائے گا، اور جہنم پر خوشیوں اور حیوانی خواہشات کا پہرہ ہے چنانچہ جو شخص بھی لذات اور شہوات کے پیچھے گیا تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا’۔

نیز آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

اَلصَّبْرُ صَبْرانِ:صَبْر عَلَی الْبَلائِ حَسَن جَمیل ،وَأَفْضَلُ الصَّبْرَیْنِ الْوَرَعَ عَنِ الْمَحارِمِ۔[9]   الکافی،ج۲،ص ۸۹

صبر کی دو قسمیں ہیں:بلاء اور مصیبت پرصبرجوبہتراور زیباہے،لیکن دو قسموں میں بہترین صبر اپنےکوگناہوں سےمحفوظ رکھناہے۔

یہ حقیقت ہے کہ تمام چیزوں میں صبر اس لئےضروری ہے کہ انسان کا دین، ایمان، عمل اور اخلاق صحیح و سالم رہے، اور انسان کی عاقبت بخیر ہوجائے واقعاً انسان کے لئے کیا بہترین اور خوبصورت زینت ہے ۔

گناہوں سے توبہ کرنے والے انسان کو چاہئے کہ مشق و تمرین کے ذریعہ اپنے کو صبر سے مزین کرلے،گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرے تاکہ ہوائے نفس ،شیطانی وسوسہ اور گناہوں کی آلودگی سے ہمیشہ کے لئے آسودہ خاطر رہے کیونکہ صبر کے بغیر توبہ برقرار نہیں رہ سکتی، اور اس کے سلسلہ میں رحمت خدا کا تدوام نہیں ہوتا۔

Views: 24

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم