loading

{حدیث یوم}

نیک گفتار

تدوین بلال حسین

 حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

اللِّسانُ میزانُ الْاِنْسانِ ۔[1]  غررالحکم،ص۲۰۹

‘زبان انسان کی میزان ( ترازو)ہے۔

شرح حدیث:

 قرآن مجید کی متعدد آیات زبان کے سلسلہ         میںہونے والی گفتگو، زبان کی عظمت اور گوشت کے اس لوتھڑے کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔زبان ہی کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت میں نجات پاتا ہے یا اسی زبان کے ذریعہ دنیا و آخرت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔زبان ہی کے ذریعہ انسان گھر اور معاشرہ میں چین و سکون پیدا کرتا ہے یا اسی زبان کے ذریعہ گھر اور معاشرہ میں تباہی و بربادی پھیلادیتا ہے۔زبان ہی یا اصلاح کرنے والی یا فساد برپا کرنے والی ہوتی ہے،اسی زبان سے لوگوں کی عزت و آبرو اور اسرار کو محفوظ کیا جاتا ہے یا دوسروں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیا جاتا ہے۔

قرآن کریم تمام انسانوں خصوصاً صاحبان ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ صرف نیک گفتار میں کلام کرو۔

زبان کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے علاوہ بہت سی اہم احادیث بھی رسول اکرم ﷺ اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بیان ہوئی ہیں کہ اگر کتب احادیث میں بیان شدہ تمام احادیث کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔

حضرت رسول خدا ﷺ کا فرمان ہے:اِذا اَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ اَصْبَحَتِ الْاَعْضائُ کُلُّھا تَسْتَکْفِی اللِّسانَ،اَیْ تَقولُ:اِتَّقِ اللّٰہَ فِینَا ،فَاِنَّکَ اِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنا ،وَاِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنا[2]محجتہ البیضاء

‘جس وقت انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء و جوارح بھی صبح کرتے ہیں ، چنانچہ تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں: ہمارے سلسلہ میں تقویٰ الٰہی کی رعایت کرنا کیونکہ اگر تو راہ مستقیم پر رہے گی تو ہم بھی مستقیم رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے پن میں گرفتارہوجائیں گے’۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَللِّسانُ میزانُ الْاِنْسانِ ‘۔[3] غررالحکم،ص۲۰۹

‘زبان انسان کی میزان ( ترازو)ہے (یعنی انسان کی شرافت اور اس کی بزرگی یا پستی اس کی زبان سے سمجھی جاتی ہے)

حضرت رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

یُعَذِّبُ اللّٰہُ اللِّسانَ بِعَذابٍ لَایُعَذِّبُ بِہِ شَیْئاً مِنَ الْجَوارِحِ فَیَقولُ:یارَبِّ عَذَّبْتَنِی بِعَذابٍ لَمْ تُعَذِّبْ بِہِ شَیْئاً مِنَ الْجَوارِحِ ، فَیُقالُ لَہُ:خَرَجَتْ مِنْکَ کَلِمَة فَبَلَغَتْ مَشارِقَ الْاَرْضِوَمَغارِبَھا فَسُفِکَ بِھَا الدَّمُ الْحَرامُ ،وَانْتُھِبَ بِہِ الْمالُ الْحَرامُ، وَانْتُھِکَ بِہِ الْفَرْجُ الْحَرامُ۔[4]اصول کافی،ج۲،ص۱۱۵

‘خداوندعالم زبان کو ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ کسی دوسرے حصہ پر ایسا عذاب نہیں کرے گا، اس وقت زبان گویا ہوگی:خدایا! تو نے مجھے ایسے عذاب میں مبتلا کیا ہے کہ کسی حصہ کو ایساعذاب نہیں کیا ہے، چنانچہ اس سے کہا جائے گا: تجھ سے ایسے الفاظ نکلے ہیں جو مشرق و مغرب تک پہنچ گئے ہیں جن کی وجہ سے بے گناہ کا خون بہا، بے گناہ کا مال غارت ہوا اور بے گناہ کی آبرو خاک میں مل گئی!’

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

کَمْ مِنْ اِنْسانٍ اَھْلَکَہُ لِسان۔[5]غررالحکم،ص۲۱۳

‘کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں’۔

بہر حال ہمیں شب و روز اپنی زبان کی حفاظت کرنا چاہئے، اور اس کو بولنے کے لئے آزاد نہیں چھوڑدینا چاہئے، کس جگہ، کس موقع پر، کس کے پاس اور کس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے غور و فکر کرنا ضروری ہے، نیز ہر حال میں خدا اور قیامت پر توجہ رکھنا ضروری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان زبان کے ذریعہ ایسا گناہ کر بیٹھے کہ اس سے توبہ کرنا مشکل اور ان کے نقصان کی تلافی کرنا محال ہو۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ‘مومن اور مخالف سے نیکی اور خوبی کے ساتھ گفتگو کرو، تمہاری گفتگو صرف نیک اور منطقی ہونا چاہئے’۔

مومنین سے خنداں پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ گفتگو کرنا چاہئے، اور وہ بھی نیکی اور اچھائی سے، اور مخالفوں (غیر شیعہ )سے اس طرح گفتگو کرو کہ ان کے لئے ایمان کے دائرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار ہوجائے، اور اگر وہ ایمانی دائرے میں داخل نہ ہوسکے تو اس سے دوسرے مومنین حفظ و امان میں رہیں، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: دشمنان خدا کے ساتھ تواضع ومدارا ت سے پیش آنا، اپنے اور دوسرے مومنین کی طرف سے صدقہ ہے۔

[6]  تفسیرصافی،ج۱،ص۱۵۲

حضرت امام باقر علیہ السلام سے آیہ شریفہ (وَ قولوا لِلنَّاسِ حُسناً) کے ذیل میں روایت ہے کہ لوگوں سے اس طرح نیک گفتار کرو جس طرح تم اپنے ساتھ گفتگو کیا جانا پسند کرتے ہوکیونکہ خداوندعالم مومن اور قابل احترام حضرات کی نسبت بدگوئی اور نازیبا الفاظ پسند نہیں کرتا (یعنی مومنین کو برا بھلا کہنے والوں کو دوست نہیں رکھتا)اور باحیا، بردبار، ضعیف اور باتقویٰ لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔[7]  تفسیر عیاشی،ج۱،ض۱۵۲

حضرت رسول خدا ﷺ کا فرمان ہے:

کَلامُ ابْنِ آدَمَ کُلُّہُ عَلَیْہِ لَا لَہُ اِلاَّ اَمْر بِالْمَعْروفِ ،وَنَھْی عَنِ الْمُنْکَرِ ،اَوْ ذِکْرُ اللّٰہِ ‘۔[8] مواعظ العددیہ ،ص۸۷

‘تمام لوگوں کی گفتگو ان کے نقصان میں ہے سوائے امر بالمعروف ،نہی عن المنکر اور ذکر خدا کے’۔

سورہ بقرہ آیت ٨٣  میں ماں باپ ، رشتہ داروں اورمساکین کے ساتھ احسان اور تمام لوگوں سے نیک گفتار اور اچھی باتیں معنوی زیبائیوں میں سے ہیں، گناہ خصوصاً گناہ کبیرہ سے توبہ کرنے والے کے لئے اپنی توبہ ، عمل اور گفتار کی اصلاح کے لئے اس آیت کے مضمون پر پابندی کرنا ضروری ہے اور اس مذکورہ آیت میں بیان شدہ اہم مسائل پر خوشحالی اور نشاط کے ساتھ عمل کرے تاکہ اس کے اندر موجود تمام برائیاں دُھل جائیں اور اس کے عمل، اخلاق اور گفتار کی اصلاح ہوجائے۔

منابع:

منابع:
1   غررالحکم،ص۲۰۹
2 محجتہ البیضاء
3 غررالحکم،ص۲۰۹
4 اصول کافی،ج۲،ص۱۱۵
5 غررالحکم،ص۲۱۳
6   تفسیرصافی،ج۱،ص۱۵۲
7   تفسیر عیاشی،ج۱،ض۱۵۲
8 مواعظ العددیہ ،ص۸۷
Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم