loading

{قرآنی الفاظ معانی }

قرآنی لفظ عدل کا  تعارف

تحریر: منیر حسین
۲۸/۵/۲۰۲۳

عدل عربی زبان کالفظ ہے ۔کلمہ عدل مفرد    ہے  اور اس کی جمع “أَعْدَالٌ” آتی ہے ۔لیکن کلمہ عدل کی جمع قرآن کریم   میں وا رد نہیں ہوئی  ہے ۔کلمہ عدل کو  باب تفعیل میں لے  جا کر  متعدی کیا جاسکتا ہےجیسے “عَدَّلَ” ہے ۔  کلمہ  عدل سے   “عَدْلٌ”  صفت مشبھ کے معنی میں آتا ہے ، اور کلمہ “عَدِلٌ” صیغہ مبالغہ آتا ہے ،عدل سے ۔ظلم کی  نقیض کو عدل کہا جاتاہے ۔لوگوی کی رضامندی کے مطابق ان کے امور کو حل کرنا ۔ اپنے امور میں ثابت قدم رہنا  ،  اعتدال سے کام لینا ۔ کجی کا پایا جانا ۔ افراط وتفریط  سے بچنا اور میانہ روی سے کام لینا۔ عدل یعنی جس کے حسن کاتقاضہ عقل کرے ۔ کسی شیء کی مثل اور اس کا نعم البدل کا پایا جانا ۔کلمہ عدل،قرآن مجیدمیں  اپنے تمام مشتقات کےساتھ  تقریباً ۲۸ مرتبہ استعمال ہوا۔

اہل لغت کی نظرمیں :

قدیمی  لغت کےماہر ین نے کلمہ عدل کےمعانی  اپنی کتب لغت میں درج کیے ہیں جن میں سے کچھ اہم  درجہ ذیل ہیں۔
۱۔مصباح المنیر : فیومی اپنی کتا ب  مصباح المنیر میں  کلمہ  عدل کےمعانی بیان کرتےہوئےلکھتے  ہیں: العَدْلُ : القَصْدُ في الأُمور وَ هُوَ خلافُ الجُوْريُقَالُ (عَدَلَ) في أَمْره(عَدْلاً) من باب ضَرَبَ و (عَدَلَ) علي القَوْم عَدْلاً؛عدل یعنی اپنے امور کے میں ثابت قدم   رکھنا ،اور  کلمہ عدل ظلم کے برخلاف ہے ، جیسے کہا  جاتاہے کہ اس نے اپنے  کام میں عدل  کیا ۔ کلمہ عدل  باب ضرب سے آتا ہے ،اس نے اپنی قوم سے کے ساتھ   انصاف کیا ۔[1]فیومی ،احمدبن محمد بن علی ،مصباح المنیر،ج۱،ص۲۰۶۔
۲۔ لسان العرب  :ابن منظور   اپنی کتاب  لسان العرب میں  عدل کے معنی بیان کرتےہوئے  ذکرکرتے ہیں:       (عدل) العَدْلُ : مَا قَامَ في النُّفُوْس أَنَّهُ مُسْتَقيمُ” وَهُوَضِدُّ الجَوْر.عَدَلَ الحَاكمُ في الحُكْم يَعْدلُ عَدْلاً وَهُوَ عَادلٌ من قَوْم عُدُوْل وعَدْل؛کلمہ عدل ،یعنی وہ چیز جو نفوس انسانی میں   بطور مستقیم  قائم ہے   ،  ناانصافی کے برخلاف   کو عدل کہا جاتا ہے ۔حاکم نے اپنے حکم  میں  عدالت سے کام لیا ،اوروہ ا پنی قوم میں عادل ہے ۔[2]ابن منظور ،محمدبن مکرم بن علی  ابوالفضل ، لسان العرب، ج۱۱،ص۴۳۰۔
۳
۔ معجم المقاییس اللغۃ:   احمد بن فارس اپنی  کتاب معجم المقاییس اللغۃ    میں کلمہ عدل کےمعانی  بیان کرتےہوئے  لکھتےہیں:(عَدَلَ) العَينُ والدّالُ وَالّلامُ أَصْلان” لَكنَّهُما مُتَقَبلان كَالْمُتَضَادَّين:أَحْدُهُمايَدُلُّ علي اسْتوَاء”وَالآخريَدُلٌّ علي اعْوجَاج.فالأَوَّلُ العَدل من النَّاس: المَرَضيُّ المُسْتَوي الطَّريقَة؛کلمہ عدل “ع۔د۔ل”  کے دو اصلی معانی ہیں ۔   لیکن یہ دونوں  معانی آپس  میں متقابل ہیں  ،ضدین کی طرح ۔ان میں سے ایک معنی،اعتدال کا  ہونا ہے ،اور دوسرا معنی ،کَجی کا پایاجانا ہے ۔معنی اول ،یعنی لوگوں کی خواہش کے مطابق ان کے ساتھ  برابری کا   سلوک کرنا۔[3]ابن فارس ، احمد، معجم المقاییس اللغۃ،ج۴،ص۲۴۶۔

قرآنی لغات کی روشنی میں:

۱۔ التحقیق فی کلمات القرآن الکریم :  علامہ حسن مصطفوی  اپنی کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم میں کلمہ عدل کےمعانی کو لغات قدیمی اورقرآن  کریم کی روشنی میں  بیان کرتےہوئےذکرکرتےہیں :           أَنَّ الأَصلَ الوَاحدَ في المادَّة:هُوَ تَوَسُّطُ بَيْنَ الافْرَاط والتَفريْط بحيثُ لا تَكون فيه زيَادَةٌ ونَقيْصَة”وهُوَ الأعْتدَالُ وَالتَقَسٌّطُ الحَقيقيُّ؛کلمہ عدل ، کاایک ہی اصلی معنی ہے۔وہ یہ کہ افراط و تفریط کے  درمیان  میانہ روی سے  کام لینا  ،اس طرح سے کہ نہ  اس میں  کوئی زیادی ہو،اور نہ کوئی کمی ہو، اور عدل،یعنی میانہ  روی ،وحقیقی انصاف  کا قائم ہونا ۔[4]صاحب تحقیق ، علامہ حسن مصطفوی ، التحقیق فی کلمات القرآن   ،ج۸،ص۶۴۔
۲۔ المفردات فی غریب القرآن:راغب اصفہانی کلمہ عدل کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کرتےہوئےذکر کرتےہیں:عدل:العَدَالَةُوَالمُعَادلَةُ:لفظٌ يَقْتَضي معني المساواة”ويَسْتَعملُ باعْتبَارالمُضَايفَة”والعَدْلُ والعدْلُ يَتَقاربان”لكن العَدْلُ يُسْتعمل فيما يدْرَكُ بالبصيرة كالاحكام.العدل ضربان: مطلق: يقتضي العقلُ حسنَه”ولايكون في شيء من الأَزمنة مَنْسَوْخَاً.وَ عَدْلٌ يٌعْرَفُ كونُهُ عَدْلاً بالشرع”وَيُمْكنُ أَنْ يكون مَنْسَوْخاً في الأَزمنة “كالقصَاص وأَروش الجنايات”وأصل مال المرتد.لذك قال:فَمن اعْتَدي عليكم فَاْعْتَدُوا عليه[5]بقرة۱۹۴۔؛ کلمہ عدالت ، ایک ایسا   لفظ ہے ،جو  برابری کوطلب کرنا ،اور اس کلمہ عدل کو   نسبت و اضافے کے ا عتبار  سے استعمال کیا جاتا ہے ،( العَدْلُ) اور (العِدْلُ)  عین پر کسر پڑیں  ، تو ان دونوں  قریب المعنی ہیں ،لیکن  کلمہ (العَدْلُ) وہاں  استعمال ہوتا  ہے ،جہاں اسے  بصیرت کے زریعے ردک کیا جاتا  ہو۔ جیسے  احکام ہیں ۔ کلمہ (العدل)  کی دو       اقسا م  ہیں ۔ عد ل مطلق،یعنی جس کے حسن کا تقاضہ عقل کر  ے ، اور یہ  والی عدل کی قسم کسی بھی زمانے میں منسوخ نہیں ہوتی ہے ۔اور  (عَدْلٌ) کی دوسری قسم جس کی پہچان  شرع کے زریعے ہوتی ہیں ۔ اور ممکن ہے عدل کی یہ  والی قسم ، کسی زمانے میں منسوخ ہوجائے۔جیسے قصاص کا حکم ہے ، او ر اسی طرح    أرش و تعزیرات اور مرتد ّ کے مال وغیر ہ کا حکم   بیان ہوا ہے ۔ اسی لیے  ارشاد بار ی تعالی ہے ۔لہذا جوتم پر زیادتی کرے ،توتم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو۔[6]راغب اصفہانی ،ابوالقاسم حسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن،ج۱،ص۵۵۲۔

تفاسیر کی نگاہ میں :

۱۔مجمع البیان فی تفسیر القرآن: وَالعَدْلُ والحقُّ والإنصَافُ”نظَائرٌ.وَنقيضُ العدْل”الجُوْر.والعدل”المَرضيُّ من النَّاس”الذَّكر والأنْثي والجمع والواحدفيه سواءٌ.والعدل :الفدية في الآية .والفرق بين العَدْل والعدْل(كسرالعين):إنَّ العِدْل،هو مثْلُ الشَّيء من جنْسه .والعَدْلُ :هوبَدَلُ الشَّيء”وقديكون من غير جنسه.قال سبحانه:(أَوْ عَدْلُ ذَلكَ صيَاماً)؛کلمہ  عدل،حق وانصاف ایک دوسرے کے مثل ہیں ۔اور عدل کی نقیض،جور ہے ۔ عدل ،یعنی لوگوں کی مرضی مطابق چلنا ،چاہیے وہ مرد ہویاعورت،ایک ہو،یا کئی افراد کوئی فرق نہیں ہے ۔کلمہ عدل  ،ذیل کی آیت میں بمعنی فدیہ ،آیا  ہے ۔کلمہ(العَدْل)والعِدْل،میں  فرق پایا جاتا ہے ۔کلمہ العِدْل،یعنی کسی شیءکی مثل کا ہونا ،اس کی اپنی جنس میں سے ۔اور اسی طرح کلمہ(العَدْلُ) یعنی کسی کا نعم البدل  کا پایا جانا،اور کبھی یہ بدل اس شیءکی اپنی جنس  میں سے نہیں ہوتا ہے۔ا  ور اللہ سبحانہ وتعالی کا قول ہے ۔یا اس کے برابر روزے رکھے [7]مائدۃ۹۵۔ ۔ [8]الطبرسیؒ، الفضل بن حسن ،مجمع البیان  فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۲۵۶۔

۲۔التبیان فی تفسیر القرآن :وَالْعَدْلُ وَالْحقُّ”وَالإنْصَافُ نظائرٌ.وَالعَدْلُ :نقيضُ الجُوْريُقَالُ:عَدْلاً عدل واعتدال إعْتدَالاً وَ تعادُلٌ تعادلاً تعَدُّلاً .وَالعَدْلُ المَرْضيُّ من النَّاس. يَقَعُ علي الواحد والجماعة والذَّكر والأُنْثي؛کلمہ عدل  وحق اور انصاف  ، کا معنی ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔ العَدْلُ،ظلم کی نقیض ہے  ۔ اسی سے ،اعتدال ،تعادُل وتعدُّل آتا ہے ۔اور عدل،یعنی لوگوں کی رضایت کے مطابق  چلنا ۔چاہیے لوگوں میں سے ایک شخص ہوں یا کئی افراد ،مرد ہویا عورت ،کلمہ سب پر برابر صدق کرتا ہے۔ [9]طوسی،ابی جعفر محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۲۷۸۔

تحقیقی نظر:

لغوی  اور قرآنی  لغات  پر دقت کرنے سے    درج ذیل نکات  ہمارے سامنے آتے ہیں :
۱
۔ کلمہ عدل ،یعنی ظلم کی  نقیض کاہونا ۔لوگوی کی رضامندی کے مطابق ان کے امور کو حل کرنا ۔ اپنے امور میں ثابت قدم رہنا  ،  اعتدال سے کام لینا ۔ کجی کا پایا جانا ۔ افراط وتفریط  سے بچنا اور میانہ روی سے کام لینا ۔ عدل یعنی جس کے حسن کاتقاضہ عقل کرے ۔ کسی شیء کی مثل اور اس کا نعم البدل کا پایا جانا ۔
۲۔ کلمہ  عدل کے بہت سارے مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں ۔کلمہ  “أَعْدِلَ“قرآن کریم میں “سورۃ شوری آیت ۱۵”میں اور کلمہ “تَعْدِلُ“قرآن كريم میں “سورۃ انعام آیت ۷۰”میں وارد ہوا ہے ۔اسی کلمہ “تَعْدِلُوا“قرآن کریم میں ۴مرتبہ “سورۃ نساء آیت  ۳۔۱۲۹۔۱۳۵،سورۃ مائدۃ آیت ۸”میں وارد ہوا ہے ۔اسی طرح کلمہ  ” يَعْدِلُونَ”قرآن کریم ۵مرتبہ “سورۃ انعام آیت ۱۔۱۵۰،سورۃ اعراف آیت ۱۵۹۔۱۸۱،سورۃ ۶۰نمل”میں وارد ہوا ہے ۔ اور صیغہ “إِعْدِلُوا“قرآن کریم میں۲مرتبہ  “سور ۃ مائدۃ آیت ۸،سورۃ انعام آیت۲ ۱۵۔۱۱۵”میں وارد ہواہے ۔اسی طرح  کلمہ “عَدْلٌ” قرآن کریم ۱۴مرتبہ”سورۃ بقرۃ آیت ۴۸۔۱۲۳ ۔ ۲۸۲۔۲۸۲ ، سورۃ نساءآیت ۵۸،سورۃ مائدۃ آیت ۹۵۔۹۵۔۱۰۶،سورۃ انعام آیت ۷۰،سورۃ نحل آیت ۷۶۔۹۰،سورۃ حجرات  آیت ۹،سورۃ طلاق آیت ۲”میں وارد ہوا ہے ۔

منابع:

منابع:
1 فیومی ،احمدبن محمد بن علی ،مصباح المنیر،ج۱،ص۲۰۶۔
2 ابن منظور ،محمدبن مکرم بن علی  ابوالفضل ، لسان العرب، ج۱۱،ص۴۳۰۔
3 ابن فارس ، احمد، معجم المقاییس اللغۃ،ج۴،ص۲۴۶۔
4 صاحب تحقیق ، علامہ حسن مصطفوی ، التحقیق فی کلمات القرآن   ،ج۸،ص۶۴۔
5 بقرة۱۹۴۔
6 راغب اصفہانی ،ابوالقاسم حسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن،ج۱،ص۵۵۲۔
7 مائدۃ۹۵۔
8 الطبرسیؒ، الفضل بن حسن ،مجمع البیان  فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۲۵۶۔
9 طوسی،ابی جعفر محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۲۷۸۔
Views: 22

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ   فَصَل کی صرفی تحلیل