loading

{قرآني الفاظ معا ني}

قرآنی  لفظ  ختم کا تعارف

تحریر: منیر حسین

۲۰۲۳/۵/۱۱

ختم عربی زبان کا لفظ ہے۔ کلمہ ختم مفرد ہے اور اس کی  جمع “خَوَاتم و خُتُم”  آتی ہے ،لیکن اس کی جمع قرآن   کریم میں وارد نہیں ہوئی ہے ۔ اور کلمہ   ختم سے “خَتَّمَ”     مبالغہ کے لیے آتاہے ۔  اسی طرح کلمہ  ختم سے   “خاتم“اسم فاعل ،اور “مختوم” اسم مفعول آتا ہے ۔ختم  یعنی  ، کسی شیء کا اختتام وانتہاء ہونا ۔ کسی  شیء پر مہر  یا نشانی  لگادینا ،   آغاز اور شروع کے مقا بلے آنا ، کسی شیءکا ،کامل  ہوجانا۔کسی شیءکی تأثیر کا ہونا ، نقش  کی وجہ سے حاصل  ہو نے والااثر  ۔ کلمہ ختم  قرآن مجید میں اپنے تمام مشتقات کے ساتھ تقریبا ً  ۸ مرتبہ ذکر  ہوا ہے ۔

اہل لغت کی نظرمیں :

قدیمی  لغت کےماہر ین نے کلمہ ختم کےمعانی  اپنی کتب لغت میں درج کیے ہیں جن میں سے کچھ اہم  درجہ ذیل ہیں۔

۱۔مصباح المنیر : فیومی اپنی کتا ب  مصباح المنیر میں  کلمہ  ختم کےمعانی بیان کرتےہوئےلکھتے  ہیں: (خ ت م) خَتَمْتُ  الكتَابَ ونَحْوَهُ(خَتْماً) و خَتَمْتُ عَليه من بَاب طَبَعْتُ وَ منهُ (الخَاتم) حَلْقَةٌ ذَاتُ فَصّ من غَيْرهَا فَأنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا فَصٌّ فَهيَ فَتَخَةٌ؛ کلمہ ختم ،یعنی میں نے  کتاب  پر   اور ،دوسری چیز وں پر مہر لگادی ، خَتَمْتُ عليه” ختم ، باب طبعت سے آتا  ہے اور    اسی  ختم سے  خاتم ،ا سم فاعل آتاہے ،   خا تم یعنی       ایسا حلقہ جو دوسری کسی سے مرکب ہو، اور اگر مرکب نہ ہوتو ،ہاتھ میں جو انگوٹھی  ہے  وہ خاتم   کہلائیگی ۔[1]فیومی ،احمدبن محمد بن علی ،مصباح المنیر،ج۱،ص۸۸۔

۲۔ لسان العرب  :  ابن منظور   اپنی کتاب  لسان العرب میں  ختم کے معنی بیان کرتےہوئے  ذکرکرتے ہیں: ختم : خَتَمَهُ يَخْتمُهُ خَتَماً و ختَاماً” الأَخيرة عَن اللّحْيانيّ : طَبَعَهُ “فَهُو مَخْتُومٌ و مُخَتَّمٌ “شُدّدللْمُبَالَغَة”والخَاتم الفَاعلُ” وَالخَتْمُ عَلَي الْقَلْب : أَنْ لَا يَفْهَمَ شَيْئاً َو لَا يَخْرُجُ منْهُ شَيءٌ كَأَنَّهُ طَبْعٌ .وَفي التَّنْزيْل العَزيز : خَتَمَ اللهُ علي قُلُوبهم[2]بقرة۷۔؛هو كَقوله: طَبَعَ اللهُ علي قُلُوبهم[3]نحل۱۰۸۔ ؛ختم یعنی  کسی شیء پر مہر  لگنا ، اسی  سے (مَخْتُومٌ) اسم مفعول  اور(مُخَتَّمٌ) اسم مبالغہ ،(الخَاتم) اسم فاعل   آتا ہے ۔ اور قلب پر  مہر لگا نا ،یعنی    ایسا قلب جو نہ  سمجھ سکتا ہے ،اور   نہ  ہدایت اسے صا در ہوتی ہے ، جیسے اس پر مہر لگائی گئی ہے ۔ اور قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے  ۔اللہ نے ان کے دلوں پر مہر  لگا دی ہے   ۔اسی  سورۃ نحل  میں ارشاد  باری تعالی ہے،اللہ نے ان کے دلوں پر مہر  لگادی ہے ۔ [4]ابن منظور ،محمدبن مکرم بن علی  ابوالفضل ، لسان العرب،ج۱۲،ص۱۶۳۔

۳۔ معجم المقاییس اللغۃ:   احمد بن فارس اپنی  کتاب معجم المقاییس اللغۃ    میں کلمہ ختم کےمعانی  بیان کرتےہوئے  لکھتےہیں:  (خَتَمَ) الخَاءُ والتَّاءُ والميمُ أَصْلٌ واحدٌ”وهُوَ بُلُوْغُ آخر الشّيء. يُقال خَتَمْتُ العمل” وختمَ القَاري السُّورةَ.فَأَمّا الخَتْمُ“وَهُو الطَّبْعُ عَلَي الشَّيء؛ کلمہ ختم ” خ۔ت۔م”  کی ایک ہی اصل ہے ،یعنی کسی شیء کاا پنے انتہاء  تک پہنچ  جانا ۔ جیسے کہا جاتا ہے ، میں  نے  اس عمل کو ختم کیا ، قاری نے سورۃ  ختم کیا ۔  ختم  یعنی  ، کسی شیء پر  کوئی نشا نی لگادینا ۔[5]ابن فارس ، احمد، معجم المقاییس للغۃ،ج۲،ص۲۴۵۔

قرآنی لغات کی روشنی میں:

۴۔ التحقیق فی کلمات القرآن الکریم :  علامہ حسن مصطفوی  اپنی کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم میں کلمہ ختم کےمعانی کو لغات قدیمی اورقرآن  کریم کی روشنی میں  بیان کرتےہوئےذکرکرتےہیں :أَنَّ الأَصْلَ الوَاحدَ في هذا المادَّة : هُومَا يُقَابلُ الافْتتَاح والابْتدَاء”أَيْ اكْمَال الشَّيء والبُلُوغ الي آخره ونهايَته. وأَمّا مفهوم الطَّبْع : فهُو قريبٌ من التَّثْبيت”وهو متَّحدٌ مصداقاً بالختم لا مفهوماً؛  کلمہ ختم  کا ایک ہی اصلی معنی ہے ۔ وہ یہ کہ  آغازو شروع کے مقابلے میں آنا ، یعنی کسی شیء کا، کامل  ہوجانا ،اور  اس کا اپنے اختتام  و انتہا ء تک  پہنچ جانا ۔اور جہان تک  کلمہ طبع کا معنی   ہے  ، وہ معنی    قریب   ہے  تثبیت کے،  اور معنی طبع و ختم ،مصداقاًایک ہی ہیں ،لیکن مفهوماً نہیں ہیں ۔ [6]صاحب تحقیق ، علامہ حسن مصطفوی ، التحقیق فی کلمات القرآن   ،ج۳،ص۲۶۔

۵۔ المفردات فی غریب القرآن : راغب اصفہانی  کلمہ  ختم کو قرآن  کریم کی روشنی میں بیان کرتےہوئےذکر کرتےہیں: ختم”الخَتْمُ وَالطَّبْعُ يُقَال علي وَجْهَيْن : مَصْدرٌ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ “وَهُوَ تَأْثيْرُ الشَّيء كَنَقْش الخَاتم والطَّابع.وَ الثَّاني : الأَثَرُ الحَاصلُ عَن النَّقْش؛ کلمہ ختم وطبع  کی دوصورتیں  ہیں ۔  ایک  صورت  اول معنی مصدری ہے  ،” خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ ” یعنی کسی شیءکی تأثیر کا ہونا ، جیسے  انگشتر  اور مہر   کی نشانی ۔ اور  معنی ثانی ،  نقش کی وجہ سے حاصل ہونے والا أثر ،ختم کہلاتا ہے ۔[7]راغب اصفہانی ،ابوالقاسم حسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن،ج۱،ص۲۷۴۔

تفاسیر کی نگاہ میں :

۱۔ الخَتْمُ:نَظيْرُالطَّبْع.يُقال:طَبَعَ عليه بمعني :خَتَمَ عليه. وقوله : ختَامُهُ مسْكٌ[8]مطففین۲۴۔ أَيْ آخره”ومنه ختم الكتاب”لأَنَّهُ آخر حال الفراغ منه؛ کلمہ ختم  کا معنی بھی ، طبع کے معنی کی طرح ہے ۔جیسے کہا جاتا   ہے ، (طَبَعَ عليه) یعنی  اس چیز پر  آخر ی نشانی لگائی ۔ جیسے قرآن کریم  میں وار د ہوا ہے  (ختَامه مسك) یعنی اس پر  آخر ی نشانی مسک کی ہوگئی،اور اسی سے کتاب کاختم ہونا ہے ، کیونکہ  فراغت کی آخر ی حالت میں ہے ۔[9]الطبرسیؒ،الفضل بن حسن ،مجمع البیان  فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۱۱۷۔

۲۔ وَالْخَتمُ“آخر الشيءومنه قوله تعالي:ختَامُهُ مسْكٌ”[10] مطففین۲۴۔ منه” خاتم النَبيّين أَي آخرهم. الختم الطبع والخاتم الطابع؛ ختم یعنی ، کسی شیء کا آخر ،اور  قول ذات باری تعالی ہے (ختَامُهُ مسْكٌ) اسی سے    ہے  نبیّوں میں سے آخری ،نبیّ۔ ختم  ،یعنی طبع اور خاتم ،یعنی طابع ۔[11]الطوسیؒ،ابی جعفر محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۱۳۵۔

تحقیقی نظر:  

لغوی  اور قرآنی  لغات  پر دقت کرنے سے    درج ذیل نکات  ہمارے سامنے آتے ہیں :

۱۔ کلمہ  ختم ،یعنی  کسی شیءکی تأثیر ہونا ، نقش کی وجہ سے  حاصل ہونے  والا أثر ۔ آغاز وشروع  کے مقابلے میں آنا ، کسی شیءکا ،کامل ہوجانا، کسی چیز کا اختتام وانتہاء۔   کسی شیء پر نشانی ومہر لگا دینا ۔

۲۔ کلمہ ختم   کے متعد د مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں ۔کلمہ “خَتَمَ“فعل ماضی باب ثلاثی مجر دسے، ۳مرتبہ  قرآن کریم میں “سورة بقرة آيت ۷۔سورۃ انعام آیت ۴۶۔ سورۃ جاثیہ آیت ۲۳” وار د ہواہے ۔اسی طرح  کلمہ “نَخْتمُ.يَخْتمُ” فعل   مضارع باب ثلا ثی مجرد   سے قرآن کریم میں “سورۃ یٰس  آیت ۶۵۔ سورۃ  شوری آیت ۲۴”  وارد ہوئے ہیں  ۔ اور کلمہ  “خَاتَمَ” قرآن كريم میں    “سور ۃ أحزاب آیت  ۴۰” میں  اور کلمہ “ختَام ومَخْتُوْمٌ” ، ” سورة مطففین آیت ۲۶۔۲۵”  میں  وارد ہوا ہے ۔

 

منابع:

منابع:
1 فیومی ،احمدبن محمد بن علی ،مصباح المنیر،ج۱،ص۸۸۔
2 بقرة۷۔
3 نحل۱۰۸۔
4 ابن منظور ،محمدبن مکرم بن علی  ابوالفضل ، لسان العرب،ج۱۲،ص۱۶۳۔
5 ابن فارس ، احمد، معجم المقاییس للغۃ،ج۲،ص۲۴۵۔
6 صاحب تحقیق ، علامہ حسن مصطفوی ، التحقیق فی کلمات القرآن   ،ج۳،ص۲۶۔
7 راغب اصفہانی ،ابوالقاسم حسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن،ج۱،ص۲۷۴۔
8 مطففین۲۴۔
9 الطبرسیؒ،الفضل بن حسن ،مجمع البیان  فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۱۱۷۔
10 مطففین۲۴۔
11 الطوسیؒ،ابی جعفر محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن ،ج۱،ص۱۳۵۔
Views: 12

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: کلمہ کظم کاقرآنی تعارف