loading

{ قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل }

  لفظ نَزَعَ کی صرفی تحلیل

تحرير حافظ تقی  رضا
03/10/2023

نزع قرآنی لفظ ہے جو قرآن کریم میں متعدد آیات میں وارد ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں  استعمال ہوئے ہیں جن کا اجمالی تعارف پیش  خدمت ہے :

نزع اہل لغت کی نگاہ میں :

عربی ماہرین لغت نے کلمہ رفع کے معنی اپنی کتب میں تفصیل کے ساتھ درج کیے ہیں۔ قرونِ اول کی اہم لغات میں سے ایک لغت مقاييس اللغۃ  ہے  جس میں   احمد بن فارس متوفی ۳۹۵ھ تحریر کرتے ہیں:يدلّْ علي قلع شيءٍ، وَنَزَعْت الشيءَ من مكانِه نزعاً؛نزع کسی شیء کے اکھاڑنے پر دلالت کرتاہے ،میں نے کسی شی ء کو کھینچا اس کے مقام سے[1] ابن فارس ،احمد بن فارس بن زکریا،معجم مقاییس اللغۃ ، ج۵، ص ۴۱۵۔۔راغب اصفہانی متوفی ۵۰۲ ھ  اپنی لغوی کتاب میں مفردات راغب اصفہانی میں تحریر کرتے ہیں:جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن كبده؛نزع کےمعنی کسی چیز کواس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ،جیسا کہ کمان کو درمیان سے کھینچا جاتاہے ۔[2] راغب اصفہانی ،حسین بن محمد ،المفردات فی غریب القرآن ،ج۱،ص ۴۸۷۔   احمد بن محمد فیومی متوفی ۷۷۰ھ اپنی لغوی کتاب مصباح المنیر رقمطراز ہیں:وَنَزَعَ عن الشيء نُزُوعاً :کَفَّ وأقلع عنه؛کسی شیء کو کھینچنا نزع کہلاتا ہے اور روکنا اور اکھاڑنا اس کو[3]  الفیومی ،احمد بن محمد ، المصباح المنير فی غريب الشرح الکبیر، ج ۱ ،ص ۶۰۰۔۔صاحب التحقیق  حسن مصطفوی متوفی ۱۴۲۶ھ ان تمام عربی لغات کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے تناظر میں نزع  کا معنی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:ھوجذب  شيء وقلعه من محلّه،کسی شی ء  کو جذب کرنا اور اکھاڑنا اس کے محل سے۔[4]  مصطفوی، حسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ،جلد ۱۲،ص۸۶۔

کلمہ نزع مفسرین کی نگاہ میں :

قدیمی مفسرین نے کلمہ نزع  کےمعنی کو اپنی کتب میں تفصیل کے ساتھ درج ذیل کیے ہیں ۔ قرونِ اولی کی اہم لغات میں سے ایک تفسیر التبيان في تفسير القرآن  جس میں شیخ طوسی متوفی ۴۶۰تحریر کرتے ہیں:فالنزع ھو إزاله الشي ء عن مكانه الملابس له المتمكن فيه كنزع الرداء عن الإنسان؛کسی شیء کو اس کی جگہ سے اس طرح سے ہٹا دینا اور وہ اس سے اس طرح سےملی ہوئی ہو کہ وہ اس پر مسلط ہو   ، جیسے انسان سے چادر کو کھینچ لینا۔ [5]   شیخ طوسی ،محمد بن حسن، التبيان في تفسير القرآن ، ج ۴ ، ص ۴۹۲۔شيخ طبرسی متوفی ۵۴۸ اپنی تفسیر کتا ب مجمع البیان فی تفسیر القرآن  میں بیان کرتے ہیں:والنزع والقلع والجذب نظائر؛نزع اور اکھاڑنا اور کھینچنا ایک دوسرے کی نظیر و مشابہ ہیں[6]شیخ طبرسی ، فضل بن حسن ،مجمع البيان فی تفسير القرآن ، ج ۵ ، ص ۲۱۹۔

نزع کے قرآنی مشتقات

قرآن مجید میں نزع اپنے تمام مشتقات کےساتھ ۱۰ مرتبہ وارد ہواہےیہ مشتقات درج ذیل ہے:
قرآن کریم میں ا س لفظ کے باب  ثلاثی مجرد سے   مشتقات وارد ہوئے ہے ذیل میں ثلاثی مجرد سے وارد ہونے والے ابواب
کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے۔

۱:نَزَعَ

قرآن کریم میں  اس  باب سے  اس کا فعل ماضی  دو آیات  کریمہ میں آیا ہے:
۱۔ { وَّنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا هِىَ بَیۡضَآءُ لِلنّٰظِرِین؛اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ناظرین کے سامنے یکایک چمکنے لگا}[7]اعراف: ۱۰۸۔
۲۔ { وَّنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا هیَ بَیۡضَآءُ لِلنّٰظِرِیۡنَ؛اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ناظرین کے سامنے یکایک چمکنے لگا } [8]شعراء: ۳۳۔
صرفی تحلیل:لفظ نزع   ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعِلُ،ضَرَبَ یَضۡرِبُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل ماضی مفرد مذکر غائب کا صیغہ ہے جوکہ فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی :اس  ایک نے نکالا۔یہ معنی ایک مرد پے دلالت کرتا ہے۔فعل ماضی جوکہ  معنی گذشتہ(جو ہوچکا ہے) پے دلالت کرتا ہے۔
ان دونوں آیات میں لفظ نزع کےلغوی اعتبار سے معنی جدا کرنےکےہے۔

۲:نَزَعۡنَا

یہ مشتق قرآن مجید میں ۴مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{وَنَزَعْنا ما في‏ صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْري مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ وَ قالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذي هَدانا لِهذا وَ ما كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لا أَنْ هَدانَا اللَّهُ لَقَدْ جاءَتْ رُسُلُ رَبِّنا بِالْحَقِّ وَ نُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوها بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون؛ور جو کچھ ان کے دلوں میں کدورت ہوگی ہم اسے باہر نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ شکر کرتے ہوئے کہیں گے ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا۔ یقینا ہمارے پروردگار کے رسول حق کے ساتھ آئے اور انہیں ندا دی جائے گی کہ یہ بہشت ہے جس کے تم اپنے ان اعمال کی بدولت وارث بنائے گئے ہو۔ جو تم انجام دیا کرتے تھے۔}[9]اعراف :۴۳۔
۲۔{وَنَزَعْنا ما في‏ صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْواناً عَلى‏ سُرُرٍ مُتَقابِلين؛ور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔}[10]حجر:۴۷۔
۳۔{وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهيداً فَقُلْنا هاتُوا بُرْهانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ ما كانُوا يَفْتَرُون؛ور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال کر لائیں گے پھر ان سے کہیں گے کہ اپنی دلیل و برہان لاؤ تب انہیں معلوم ہوگا کہ حق اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ جو افتراء پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہو جائیں گی۔}[11]قصص:۷۵۔
۴۔{وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْناها مِنْهُ إِنَّهُ لَيَؤُسٌ كَفُور؛اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (کسی نعمت سے نوازیں) اور پھر اسے اس سے چھین لیں تو وہ بڑا مایوس اور بڑا ناشکرا ہو جاتا ہے۔}[12]ہود:۹۔
صرفی تحلیل:  لفظ نزعنا    ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعِلُ،ضَرَبَ یَضۡرِبُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل ماضی جمع مع الغیر  کا صیغہ ہے جوکہ فعل ماضی کاچودوہ صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی  :جس کا معنی ’’ہم نکال لےگے‘‘ بنے گا۔
نکتہ:سورہ ہودکے علاوہ باقی تمام  آیات میں ایک ہی معنی استعمال ہوا ہے ’’ہم نکال دے گے‘‘ سورہ ھود میں ’’چھین لے گے‘‘ اس میں معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اس باب سے فعل ماضی کےعلاوہ فعل مضارع بھی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔

۳:یَنۡزِعُ

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱مرتبہ وارد ہے ۔
۱۔{يا بَني‏ آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ كَما أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُما لِباسَهُما لِيُرِيَهُما سَوْآتِهِما إِنَّهُ يَراكُمْ هُوَ وَ قَبيلُهُ مِنْ حَيْثُ لا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّياطينَ أَوْلِياءَ لِلَّذينَ لا يُؤْمِنُون‏؛اے اولادِ آدم! (ہوشیار رہنا) کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح فتنہ میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا تھا۔ اور ان کے جسم سے کپڑے تک اتروا دیئے تھے تاکہ ان کے جسم کے قابلِ ستر حصے ان کو دکھا دے یقینا وہ (شیطان) اور اس کا قبیلہ تمہیں جس طرح اور جہاں سے دیکھتا ہے تم انہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتے بے شک ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے}[13]اعراف:۲۷۔
صرفی تحلیل:لفظ ینزع   ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعِلُ،ضَرَبَ یَضۡرِبُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل مضارع مفرد مذکر غائب کا  صیغہ ہے جوکہ فعل مضارع  کا پہلا صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی :’’وہ نکالے گایا وہ نکالتا ہے‘‘ ۔یہ معنی دو زمانوں پر دلالت کرتا ہےزمانہ حال(جو ابھی ہونا ہے) زمانہ مستقبل(جو ہوگا)۔
تبصرہ: یہاں  نکالنے کے معنی میں استعال کیا جا رہا ہے ۔شیطان کی وجہ سے حضرت آدم ؑ اور بی بی حواؑکو جنت سے نکالا گیا تھا اس لیے یہاں لفظ ’’ینزع‘‘ ’’نکالے جانے‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔

۴:تَنۡزِعُ 

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشاءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدير؛(اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے}[14]آل عمران :۲۶۔
۲۔
{تَنْزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِر؛وہ (آندھی) اس طرح آدمیوں کو اکھاڑ پھینکتی تھی کہ گویا وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہیں}[15]قمر:۲۰۔
صرفی تحلیل:لفظ تنزع   ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعِلُ،ضَرَبَ یَضۡرِبُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل مضارع مفرد مذکر مخاطب  کا صیغہ ہے۔ جوکہ فعل ماضی کا چوتھا صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی:’’تم چھین لیتےہو ‘‘۔
تبصرہ: ان دونوں آیات میں معنی الگ الگ کیا گیا ہے ۔سورہ قمر میں’’ اکھڑے ہو ئے ‘‘معنی کے لیے استعمال کیا گیا ہے ،سورہ آل  عمران میں’’ چھین لینے‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

۵:لَنَنْزِعَنَّ:

قرآن کریم میں یہ مشتق ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے ۔

۱۔{ ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا؛پھر ہم ضرور بہ ضرور ہر گروہ میں سے اس شخص کو جدا کر دیں گے جو  رحمن کے مقابلہ میں زیادہ سرکش تھا۔}[16]مريم: ۶۹۔
صرفی تحلیل:لفظ لنزعن    ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعِلُ،ضَرَبَ یَضۡرِبُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل مضارع فعل مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے جس پر لام تاکید و نون تاکید ثقلیہ داخل ہے  جوکہ فعل ماضی کا چودوہ  صیغہ ہے۔

اشتقاقی معنی :
اس مشتق پر لام تاکید آئی ۔چنانچہ اس کا معنی ’’ ہم ضرور بہ ضروجدا کرے گے ‘‘ بنے گا۔
تبصرہ:اس آیت میں لفظ نزع کا معنی جدا کرنے میں لیاگیااور اس معنی میں تاکید بیان کی جارہی ہے ۔

قرآن مجید میں لفظ نزع سے اسم فاعل کے مشتقات وارد ہوئے جن کا اجمالی تعارف درج ذیل ہے:

۶:نَازِعَات

یہ مشتق قرآن کریم  میں ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{ وَالنَّازِعاتِ غَرْقا؛قسم ہے ان( فرشتوں )کی جو گھس کر کھینچ لیتے ہیں۔} [17] نازعات:۱۔
صرفی تحلیل: اسم فاعل جمع مؤنث کا صیغہ ہے جس کی مفرد نازعۃ آتی ہے۔یہ اسم فاعل کا چھٹہ صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی :اسم فاعل استمرار اور شدت پر دلالت کر رہا ہے ۔ چنانچہ اس کا تحت اللفظی ترجمہ شدت سے کھینچنے والا بنے گا۔
تبصرہ:نزع کھینچنے کے معنی پر استعمال ہوا ہےیہاں ان فرشتوں کی قسم کھائی جو ارواح جسموں سے نکال لیتے ہیں ۔امام علی ؑ سے یہ روایت ہےکہ یہ آیت ان فرشتوں کےبارےمیں ہےجو کفار کی ارواح نکال لیتے ہیں۔

قرآن مجید میں لفظ نزع سے اسم مبالغہ کا صیغہ بھی وارد  ہواہےجو درج ذیل ہے:

۷:نَزَّاعَة

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱:{نَزَّاعَةً لِلشَّوى‏؛ جو کھال کو ادھیڑ کر رکھ دے گا}[18]معارج :۱۶۔
صرفی تحلیل: اسم مبالغہ کا صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی:’’بہت اکھاڑنے والی ‘‘ بنےگا۔اس معنی سے مراد آگ ہے جو بہت زیادہ ادھیڑنے والی ہے ۔

باب ثلاثی مزید فیہ سے قرآن کریم میں نزع کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں جن میں سے ایک باب ،باب تفعل وارد ہوا ہے جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے:

۸:تَنَازَعُوا

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{
وَأَطيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ ريحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرين؛اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اور آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ ورنہ کمزور پڑ جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور (ہر قسم کی مصیبت و تکلیف میں) صبر سے کام لو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے}[19]انفال :۴۶۔
۲۔{
فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَ أَسَرُّوا النَّجْوى؛پھر وہ اپنے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں کرنے لگے}[20]طہ:۶۲۔
صرفی تحلیل: فعل ماضی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔یہ فعل ماضی کا تیسرا صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی:’’ ان سب نے آپس میں اختلاف کیا ‘‘بنے گا۔
تبصرہ:یہاں پر لفظ نزع  جھگڑنہ کےمعنی میں استعمال کیاگیا ۔ان آیات سے مراد یہ ہےکہ کسی بھی معاملے میں  آپس میں اختلاف نہ کرے اور نہ کسی معاملے میں آپس میں جھگڑے ان دو معنی میں استعمال کیاگیا۔

۹:تَنَازَعۡتُمۡ

یہ مشتق قرآن مجید میں ۳ مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ وَ تَنازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَ عَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ما أَراكُمْ ما تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ يُريدُ الدُّنْيا وَ مِنْكُمْ مَنْ يُريدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَ لَقَدْ عَفا عَنْكُمْ وَ اللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنين‏؛خدا نے (جنگ احد میں) اپنا وعدہ (نصرت) اس وقت سچا کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے ان (کافروں) کا قلع قمع کر رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے کمزوری دکھائی تو تم نے حکم عدولی کی۔ (یہ اس لئے کہ) تم میں کچھ دنیا کے طلب گار تھے اور کچھ آخرت کے طلبگار تھے پھر اس نے تمہیں ان کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہارے ایمان و اخلاص کی آزمائش کرے۔ اور (پھر بھی) تمہیں معاف کر دیا۔ اور اللہ اہل ایمان پر بڑا فضل کرنے والا ہے}[21]آل عمران:۱۵۲۔
۲۔{ياأَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ في‏ شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْويلا؛اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع (یا جھگڑا) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان رکھتے ہو تو یہ طریقہ کار تمہارے لئے اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے عمدہ ہے}[22]نساء:۵۹۔
۳۔
{إِذْ يُريكَهُمُ اللَّهُ في‏ مَنامِكَ قَليلاً وَ لَوْ أَراكَهُمْ كَثيراً لَفَشِلْتُمْ وَ لَتَنازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَ لكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدُور؛(اور اے نبی) وہ وقت یاد کرو۔ جب اللہ نے خواب میں آپ کو ان (کفار) کی تعداد تھوڑی کرکے دکھائی تھی اور اگر وہ انہیں زیادہ کرکے دکھاتا تو تم ہمت ہار جاتے۔ اور آپس میں جھگڑنے لگتے۔ لیکن اللہ نے اس سے بچایا۔ بے شک اللہ سینوں کے اندر والی باتوں کا خوب جاننے والا ہے}[23]انفال:۴۳۔
صرفی تحلیل:جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے۔یہ فعل ماضی کا نوہ صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی :’’تم سب نے اختلاف کیا ‘‘بنے گا۔

اس باب سے فعل ماضی کےعلاوہ فعل مضارع بھی قرآن کریم میں وارد ہوا ہےجو درج ذیل ہے:

۱۰:یَتَنَازَعُونَ

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ وارد ہواہے
۱۔
{وَ كَذلِكَ أَعْثَرْنا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَ أَنَّ السَّاعَةَ لا رَيْبَ فيها إِذْ يَتَنازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْياناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذينَ غَلَبُوا عَلى‏ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدا؛اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان پر مطلع کیا تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچھا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ (بستی والے) لوگ ان (اصحافِ کہف) کے معاملہ میں آپس میں جھگڑ رہے تھے (کہ کیا کیا جائے؟) تو (کچھ) لوگوں نے کہا کہ ان پر (یعنی غار پر) ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جو لوگ ان کے معاملات پر غالب آئے تھے وہ بولے کہ ہم ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) بنائیں گے}[24]كہف :۲۱۔
۲
۔{يَتَنازَعُونَ فيها كَأْساً لا لَغْوٌ فيها وَ لا تَأْثيم؛اور وہ وہاں ایسے جامِ شراب پر چھینا جھپٹی بھی کریں گے جس میں نہ کوئی لغو بات ہوگی اور نہ گنہگار ٹھہرانے کی}[25]طور:۲۳۔
صرفی تحلیل:فعل مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔یہ فعل مضارع کا تیسرا صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی :’’ انہوں نے آپس میں اختلاف کرے گےیا کرتے ہے‘‘بنے گا۔
تبصرہ :اس باب سے جتنے بھی قرآن مجید میں مشتقات وارد ہوئے ہے ان سب کا معنی مشترکہ ہےجھگڑنا یا اختلاف کرنا۔

نتیجہ غور فکر :
لغوین و مفسرین کی نگاہ سے ہمارے لیے کلی معنی یہ نکلتا ہےہے کہ کسی بھی شی کو اس کی جگہ سے اکھاڑنا اور جدا کرنا نزع کہلاتا ہے ۔اور اس کو دیگر ابوا ب میں لے جائے تو معنی آپس میں نہ اختلاف کرے اور آپس  میں نہ جھگڑے معنی بنےگا۔

Views: 275

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ رفع کی صرفی تحلیل