زمانہ غیبت میں دین کی تعطیل کا نظریہ
زمانہ غیبت میں مسلمانوں کے اجتماعی و سیاسی امور کے حوالے سے علماء کرام کے دو متقابل نظریات ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ علماء پر مسلمین کے اجتماعی امور سنبھالنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ جس طرح انبیاء پر معاشروں کی اصلاح کرنا واجب ہے اسی طرح علماء پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمین کے اجتماعی امور کی اصلاح کریں۔
فہرست مقالہ
پہلا نظریے کا بیان
اس نظریہ کے مطابق زمانہ غیبت میں مسلمانوں کے اجتماعی امور کو انجام دینے کی ذمہ داری علماء کرام پر عائد نہیں ہوتی۔ حکومت اسلامی قائم کرنا یا اجتماعی و سیاسی امور میں مداخلت کر کے معاشرے کی اصلاح کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مباح ہے۔ اگر کوئی انجام دیتا ہے تو اللہ تعالی اس کو جزاء دے گا لیکن واجب فریضہ نہیں ہے۔ بعض دینی طبقوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو انقلاب اسلامی اور اسلامی حکومت کے بغض میں مسلمانوں کے اجتماعی امور کی اصلاح کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ حتی حوزہ جات علمیہ قم و نجف میں ایسے طلاب موجود ہیں جو زمانہ غیبت میں اکثر واجبات کی ادائیگی کو حرام سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک زمانہ غیبت میں جمعہ، جماعت، عیدین وغیرہ مسلمانوں پر واجب نہیں ہیں۔ جب پوجھا جاۓ کہ وہ کیسے؟ قرآن کریم تو ان میں سے بعض کو صراحت کے ساتھ انجام دینے کا حکم دے رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ امام نے تو کبھی جمعہ نہیں پڑھا تھا۔ یہ دین کے نام پر صرف چند انفرادی اعمال کو انجام دینے کے قائل ہیں۔ سیاست، اجتماعی تحرکات، تفکر، مسلمین کے امور کی اصلاح، امت مسلمہ کی کسمپرسی پر بات چیت کرنے کو درست قرار نہیں دیتے۔ جب ان سے پوچھا جاۓ کہ اچھا پھر تقلید کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ تقلید بھی اجتماعی احکام کا حصہ ہے اور فتاوی سیاسی امور پر بھی موجود ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مراجع کی توضیح المسائل میں زیادہ تر انفرادی فقہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے اس لیے اس کا جواز موجود ہے۔ لیکن جب پوچھا جاۓ کہ مراجع عظام آج کل اجتماعی مسائل میں بھی اجتہاد کر رہے ہیں، مثلا حکومت، قوانین، بینک کی جابز، تجارت، اسمگلنگ، غیر اسلامی ممالک میں آنے جانے کے مسائل وغیرہ۔ یا بعض مراجع سیاسی نظاموں میں ووٹ دینے یا نا دینے کے فتاوی دے رہے ہیں تو یہ سب کیا ہے؟ آپ تو اجتماعی امور کے منکر تھے تو پھر ووٹ کا فتوی کیوں لے رہے ہیں ؟ اس کے جواب میں دینی نکتہ نظر کو ترک کر کے علاقائیت و قومیت پر اتر آتے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت دین اور دنیا کی جدائی کے قائل ہیں، ان کی نظر میں دنیا کے امور میں نظریات دنیا سے لینے چاہئیں نا کہ دین سے، پھر چاہے وہ نظریات وطنیت سے ملیں یا قومیت سے یا کسی اور مبنی کی اساس پر ملیں لیکن دین سے اجتماعی نکتہ نظر نہیں لیتے۔ اس تفکر کے حامل افراد موجود ہیں تقریر و تحریر کی صورت میں اپنے نظریات کو عام کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلا دعوے سے کہیں گے کہ کب امام علیؑ نے نماز جمعہ پڑھا؟ جمعہ کی کیا دلیل ہے؟ اب اس سے پوچھا جاۓ کہ اچھا جمعہ کو رہنے دو بقیہ فقہی احکام اسی طرح سے ثابت کرو جس طرح نماز جمعہ کی دلیل مانگ رہے ہو۔ ذرا دکھاؤ کہ امام علیؑ غسل کرتے تھے اس کو ثابت کرو؟ کیا نعوذباللہ ان کو کسی نے دیکھا تھا کہ غسل ایسے انجام دینا ہے؟ اور کیا امام یہ چاہتے تھے کہ دین کے احکام معاشرے میں تعطیل ہو جائیں؟ امام علیؑ یہ چاہتے تھے کہ جمعہ، جماعت، عیدین اور دیگر احکام دین کو کوئی انجام نا دے؟ کیا دین کے احکام کو تعطیل دیکھنا چاہتے تھے؟ کیا امام کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ دین کے احکام کو قائم کرنے کی کوشش کرے یا الٹا وہ چاہتے تھے کہ دین تعطیل ہو جاۓ؟ خود غیبت کا کیا مطلب ہے؟ کیا غیبت کا مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ امام کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں اس لیے پورے دین کو ترک کر دیں؟ امام ظاہر ہے یا حاضر؟ امام ظاہر نہیں ہیں لیکن حضور تو رکھتے ہیں نا! بعض نے کہا کہ نا جی! امام کسی اور سیارے پر تشریف فرما ہیں۔ ان کے مطابق امام اس زمین پر ہوں تو ان پر امامت کی ذمہ داری عائد ہو جاۓ گی اس لیے اگر وہ زمین پر ہوں تو ان پر واجب ہے کہ دین کو قائم کریں لیکن چونکہ وہ زمین پر موجود نہیں ہیں اس لیے ان پر یہ تکلیف ساقط ہے۔ مثلا افغانستان کے معروف عالم دین شیخ آصف محسنیؒ اس نظریہ کے قائل تھے کہ امام کرہ ارض پر موجود نہیں ہیں۔ حضرت عیسیؑ کی طرح اللہ تعالی نے ان کو اٹھا لیا ہے۔ جب امام کو بھی معاشروں سے کاٹ کر دیکھا جا رہا ہو تو ایسے تفکرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص کیسے مان سکتا ہے کہ امام پوری امت کا حکمران ہوتا ہے وہ کہے گا کہ نا جی! امام صرف شیعوں کا امام ہے اور صرف شیعہ ہی اس کا ظہور کے بعد ساتھ دے گا بھلا اس کی مخالفت کیوں کرے گا؟
دوسرے نظریہ کا بیان
اس کے مقابلے میں دوسرا تفکر یہ ہے کہ قرآن کریم، روایات معصومینؑ کی اساس پر علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین کو عملی کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی نے دین کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ تعطیل ہو جاۓبلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ اس پر امت عمل کر سکے۔ غیبت امام زمانؑ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب لوگ دین کو صرف پڑھیں اور اس پر عمل نا کریں۔ شریعت اللہ تعالی نے اس لیے اتاری ہے کہ لوگ اس کے مطابق اپنی دنیوی زندگی کو منظم کریں۔ دین اس لیے نہیں آیا کہ آپ انفرادی احکام تو اس سے لے لیں اور اجتماعی امور، حکومت، سیاست اور اقتصاد کسی یزید اور فرعون کے حوالے کر دیں۔ دین میں ہر قسم کی ہدایت موجود ہے، حکومت اور حکمران کیسا ہو؟ امت حکمرانوں کے مقابلے میں کیا مؤقف رکھیں؟ کیا صرف ان کی چاپلوسی کریں اور ان ظالمین کے لیے میدان خالی کر دیں؟ اگر مومنین میدان خالی کر کے چھوڑ جائیں تو پھر تاقیامت یہی طواغیت ان پر مسلط رہیں گے۔ کیا خدا یہی چاہتا ہے کہ مومنین ہمیشہ ذلت میں رہیں اور ظالمین ان کو اپنے ظلم کا شکار کرتے رہیں؟ کیا دین صرف زمانہ امامت کے لیے اترا تھا؟ یا الہی قوانین کا یہ مجموعہ تاقیامت امت کی ہدایت کے لیے موجود ہے؟ کیا قوانین الہی صرف اس لیے اترے کہ مجتہدین ان پر سال ہا سال بحث کریں اور ان کو پڑھیں اور درس خارج میں پڑھاتے رہیں؟ یا قانون اجراء کے لیے بنتا ہے؟ قانون اعتقاد کے لیے تو نہیں بنتا، ہمیشہ قانون اس لیے بنتا ہے تاکہ اس کو اجراء کر سکیں۔ دشمن دین کو دین اور قوانین الہی کے پڑھنے سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ تو چاہتا ہے کہ یہ لوگ صرف پڑھتے رہیں قانون ہم خود بنا کر ان پر لاگو کریں گے۔ دشمن کو الہی قوانین کے اجراء سے تکلیف ہے۔ یہ کیسا نظریہ ہے کہ جب ظہور ہوگا تو سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا اور ہماری ذمہ داری دین کو تعطیل کر کے بیٹھ جانا ہے۔ دین کی تعطیلی کا یہ تفکر اس وقت موجود ہے اس کو تشیع کو اندر سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عین سیکولرزم ہے کہ آپ دین کے نام پر سیاست، اجتماعیت اور مسلمین کے امور سے خود کو دور کر لیں۔ سیکولرزم بھی تو یہی ہے۔ سیکولر دین کے دشمن تو نہیں ہیں وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ دین سے اجتماعی امور کو نا لو۔ دشمن بھی تشیع سے یہی چاہتا ہے کہ وہ اجتماعی و سیاسی امور کربلا، امام حسینؑ اور آئمہ معصومینؑ سے نا لیں۔ وہ تشیع سے اجتماعی فعالیت کو چھیننا چاہتے ہیں، سیاسی دین کی نفی کر کے آپ کو اجتماعی حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بھی اجتماعی امور سے پیچھے ہٹ گئے اور روڈوں پر نا آۓ، تو کل کیا ہوگا؟ سیکولر ریاست آپ سے کامل دین ترک کروا دے گی۔ ریاست میں شرابیں، فحاشی اور تفرقہ عام ہو جاۓ گا، امن و امنیت ختم ہو جاۓ گی پھر گھر کے کونے میں بھی دین کی بات نہیں کر سکو گے۔ یہ کیسا دین ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی مور پر آواز نکالنے سے روکتا ہے وہ آپ کو سود کے خلاف بولنے پر نہیں ابھارتا، امریکی غلامی کے خلاف نہیں ابھارتا، وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی فحاشی کے خلاف نہیں اٹھاتا۔لیکن توہین صحابہ بل کے خلاف فرقہ واریت کی اساس پر سب بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم کسی بھی ایسے بل کی حمایت نہیں کر رہے جو ملک میں تفرقہ پھیلاۓ اور فتنہ کا باعث بنے۔ کوئی ایسا بل جس میں کوئی بھی چیز دین کے احکام کے مطابق نا ہو، اس میں فساد، توہین کا معنی ہی اشکار نہیں کیا گیا، خودساختہ دین کے نام پر جو بھی ایک دوسرے کو قتل کرنا چاہے وہ مدمقابل پر توہین صحابہ کا الزام لگا کر اس سے جینے کا حق چھین لے یہ غیر دینی و غیر انسانی بل ہے۔ لیکن اس بل کی مخالفت کس اساس پر کی جاۓ؟ تفرقہ کی اساس پر یا اس بنا پر کہ یہ دین اسلام کے برخلاف ہے؟ ضروری ہے کہ ہر غیر دینی بل کی مخالفت کریں، نا صرف فرقہ واریت پر مشتمل بل کی مخالفت۔ پس دین کو اجتماعی امور سے ہٹ کر دیکھنے کا تفکر تشیع میں موجود ہے اس کے خلاف مبارزہ کرنا ضروری ہے۔ یہی تفکر اہل سنت میں تبلیغی جماعت کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک ہمیں صرف دعوت دینی ہے ایک دن پوری دنیا ٹھیک ہو جاۓ گی ہمیں کسی مزاحمت یا مبارزے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر رسول اللہﷺ نے نعوذباللہ غیر ضروری جنگیں لڑیں۔ اگر دعوت سے ہی کام چلانا تھا تو انہوں نے کیوں اپنے وفادار ساتھی شہید کرواۓ؟
ولایت فقیہ کا انکار کرنے والے علماء در اصل پہلے نظریہ کی اساس پر اپنا تفکر پیش کرتے ہیں۔ یہ تفکر جن ممالک میں موجود ہے وہاں علماء نا صرف ولایت فقیہ بلکہ اجتماعی و سیاسی تحرکات کی بھی نفی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہمیں صرف فقہ فردی پر عمل کرنا چاہیے، یہ طرز تفکر حتی ان کے استنباط اور اجتہاد میں بھی نظر آتا ہے۔ آیات و روایات سے فقہی و انفرادی پہلو کو لے لیتے ہیں لیکن اجتماعیات کو استنباط نہیں کرتے۔