loading

مناظرانہ دین اورمحققانہ دین میں فرق

 تحریر: سید محمد حسن رضوی

قرآن کریم اور احادیث اہل بیت علیہم السلام وہ اصل سرچشمہ ہے جہاں سے خالص اور حقیقی دین نور بن کر جہالت و تعصب و فرقہ واریت کی ظلمت کو دور کرتے ہوئے انسان کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔ امت اسلامیہ میں ابک بڑا بحران ان افراد کے ہاتھوں پیدا ہوا جنہوں نے اپنی نفسانی رجحان کے مطابق موقف کو دین کا لبادہ پہنا کر عوام الناس کے ذہنوں کو بھرا اور تعصب و فرقہ واریت کا زہریلا بیج امت کے دلوں میں بویا۔ جب فرقہ واریت کی آگ بھڑک اٹھے اور حق و حقیقت کا دامن ترک کر کے اپنے بنائے ہوئے نظریات کے دفاع کی اساس پر اپنوں غیروں سے دشمنی کی جائے تو اس سے دین اسلام اور امتِ اسلامیہ کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بلا تفریق شیعہ و سنی ایک دوسرے کے خلاف کاذب فضاء بنا کر لعن طعن کا ماحول بنایا جاتا ہے جس کا اختتام ایک دوسرے کے قتل و غارت پر ہوتا ہے۔ اس وقت سرزمین پاک و ہند میں اگر ہم ناصبیوں اور غالیوں کو نظر انداز بھی کر دیں تو بھی کئی ایسے مدارس، ادارے، دینی شخصیات اور عوامی حلقوں میں موجود کئی ایسے افراد موجود ہیں جو مناظرانہ موضوعات کو کل دین سمجھتے ہیں اور فرقہ واریت ایجاد کر کے اپنی دنیا کا اہتمام کرتے ہیں۔ آیئے ایک اجمالی نظر ڈالی جائے کہ ذاکر، خطیب اور اہل مناظرہ کے پھیلائے ہوئے اور حقیقی علماء و فقہاء کے بتائے دین میں کیا فرق ہے:

دین کی اساس توحید و نبوت و امامت:

قرآن کریم اور اہل بیت ؑ کا طریقہِ تبلیغ و دعوت ’’توحید کی اساس‘‘  پر معاشروں کو ہدایت کرنا تھی۔ دین اسلام یہ چاہتا ہے کہ دین کے عنوان سے ہر عمل کی انجام دہی اللہ سبحانہ کی خاطر ہونی چاہیے۔ آج کے معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ توحید کے موضوع کو ایسا قرار دیا گیا ہے جیساکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے یا چونکہ سب مسلمان ہیں اس لیے اسے بیان کرنے کی حاجت نہیں!! حقیقت میں سب سے زیادہ معاشرے میں غفلت اور کوتاہی توحید ہی کے موضوع سے برتی گئی ہے۔ توحید کا حقیقی تعارف نبی اکرمﷺ  اور آئمہ ہدی علیہم السلام کی معصوم ہستیوں کے بتائے ہوئے افکار و نظریات کی روشنی میں کرانا ضروری ہے۔ اگر اہل بیتؑ کی بیان کردہ توحیدی تعلیمات پر ہم حقیقی معنی میں ایمان لے آئیں تو پھر نہ ہم ایسے نظام کو قبول کریں گے جو توحید و الہٰی حاکمیت کے منافی ہو اور نہ ایسی تعلیمات اور افکار کو قبول کریں گے جو توحید سے ٹکراتے ہوں۔ اس ترتیب کو مدنظر رکھیں تو ہم ایک امت اور ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کریں گے، جیساکہ آئمہ اہل بیتؑ اختلاف رکھنے کے باوجود اسلامی معاشرے کی بقاء اور اصلاح کے لیے کوشاں رہتے۔ امامت اگر محور بن جائے تو امامت کی راہ سے نبوت اور نبوت کی راہ سے اللہ تعالی کی ذات سے وابستہ ہو جائیں گے۔ امامت دین و دنیا ہر دو کی ریاستِ عامہ کا نام ہے۔ پس انبیاء و آئمہ علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ حساسیت افکار اور اعمال پر ہونی چاہیے۔ افکار سے مراد دین کے بنیاد عقائد کا صحیح فہم اور اس کا عمل کے ذریعے سے انسانی زندگی پر اثر انداز ہونا ہے۔ قرآن و اہل بیتؑ کے نشر کردہ دین میں امامت کا تعارف محبت، اطاعت اور نصرت سے کرایا جاتا ہے۔ امامؑ کو امت کا رہبر، ہادی، نذیر اور مفسر و مبینِ دین مانا جاتا ہے۔ امامؑ کی غیبت میں جس طرح فتوی میں نیابت ہے، قضاوت میں نیابت ہے اسی طرح رہبریت میں نیابت کی بات کی جاتی ہے۔ عملی دنیا میں صرف کسبِ حلال اور نماز کل دین نہیں بلکہ خمس و زکات و دفاع کے علاوہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، باہمی حقوق، عدالت کی کوشش کرنا، ظلم سے مبارزہ کرنا اور ظہورِ امام زمانؑ کی راہ ہموار کرنا ذمہ داری کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔

قرآنی دین کا یہ نکلتا ہے کہ جو شخص توحید ، نبوت و قیامت کے مجموعی نظریات میں موافق ہے وہ اسلام اور ایمان کی بدولت آپس میں اخوت کا رشتہ رکھتا ہے۔ امامت کا نظریہ امت اسلامیہ میں رحلتِ رسول اللہ ﷺ کے بعد شدید اختلاف و نزاع کا شکار ہو گیا جس کی بناء پر کئی شبہات جڑ پکڑ گئے اور آنے والے دنوں میں مکتب کی صورت اختیار کر گئے۔ اس لیے امامت کے مسئلہ میں اختلاف ہمیشہ ہی رہے گا ۔ ضروری امر یہ ہے کہ یہ اختلاف نزاع اور جھگڑے اور فرقہ واریت کا سبب نہیں بننا چاہیے تھاکہ جیساکہ امام علیؑ سے لے کر تمام آئمہؑ نے اختلاف کیا اور شدت کے ساتھ حق موقف اختیار کیا لیکن عالم اسلام میں رہتے ہوئے باہمی جھگڑا اختیار نہیں کیا اور فرقہ واریت کو جنم دینے کی بجائے ایک امت کے طور پر اصلاحی اقدامات فرمائے۔ بلا شک و شبہ جو شخص موقف میں ہم فکر ہو وہ زیادہ قریب اور موردِ عنایت قرار پاتا ہے۔ اس لیے امت کے اندر اختلاف کی اساس پر مختلف طرز تفکر کا ہونا ایک طبعی بات ہے اور اس طرز تفکر کی بناء پر مختلف دینی امور انجام دینا قابل مذمت نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا، جو عقیدہ ایک جماعت کا نہیں اس کی طرف جھوٹی نسبت دینا ، جن موضوعات کا تعلق عقائد سے نہیں انہیں عقائدی موضوع بنا کر عوام الناس کے ذہنوں میں نفرت و کینہ بھرنا حقیقت میں اپںے ہاتھوں سے اپنے گھر کو آگ لگانا اور دشمن کے مذموم عزائم کو پورا کرنا ہے۔ اس وقت ہر گروہ میں دوسری جماعت کے بارے میں منفی غلط فہمیاں ان کا عقیدہ بن چکی ہیں اور اہل مناظرہ اور خطیبوں کے چٹکلوں نے حاشیہ اور کنارے کے موضوعات کو اصلی اور اساسی موضوع بنا دیا ہے!!

مناظرانہ دین

خطیبوں، ذاکروں اور اہل مناظرہ نے جو دین متعارف کروایا جس کا آغاز توحید کی بجائے ایک دوسرے پر تبرّا سے ہوتا ہے۔ پھر تبرّا اور لعن کا سلسلہ ایسا پھیلا کہ آج شیعہ شیعہ پر ، سنی سنی پر ، اہل حدیث اہل حدیث پر اور سب ایک دوسرے پر تبرّا اور لعن طعن کر رہے ہیں۔ مناظرہ کرنے والے کے بیان کردہ دین میں عالم اسلام، امت اسلامیہ، طاغوت، معاشرے میں اصلاح، باہمی اخوت، وحدت، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، نظاموں پر گفتگو، اصلی دشمن کی پہچان وغیرہ جیسے مقولے عبث لغو اور بے معنی ہوتے ہیں۔ انہیں ان عناوین سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان کی نگاہ میں مدمقابل کو زیر کرنا ہے چاہے اس کے لیے سچ بولنا پڑے یا جھوٹ، زبان درازی کرنا پڑے یا تضحیک و توہین ۔۔۔ غرض سب کچھ جائز اور حلال ہو جاتا ہے بس ان کی بات مانی جانی چاہیے!! اس وقت معاشرے کی حالت دیکھیے کہ فرقوں کی شناخت اور پہچان اطرافی اور کنارے کے موضوعات سے زیادہ ہے اور عقائدی موضوعات سے کم ہے۔ گنتی کے چند عقائدی موضوعات ہیں جنہیں موردِ اختلاف قرار دیا جا سکتا ہے، جیسے امامت کا موضوع ، غیبت و رجعت کا موضوع ۔۔۔ وغیرہ جبکہ بقیہ موضوعات یا تو تاریخی ہیں، یا فقہی نوعیت کے ہیں یا حسب نسب سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اہل مناظرہ اور ذاکروں خطیبوں نے اسے عقائدی موضوع بنا کر گروہی تقسیم کر ڈالی ہے۔ بطور نمونہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱۔ نماز کے تشہد میں علیؑ ولی اللہ پڑھنا فقہی موضوع ہے لیکن استعمار نے اخباریت کا عنوان اس جھگڑے میں ڈال کر فقہاء و مراجع عظام و مومنین میں بھر پور تقسیم کی کوشش کی اور اس کے ںتائج اس وقت ہمیں اپنے وطنِ عزیز میں نظر آتے ہیں۔
۲۔ سید زادی کا غیر سید سے نکاح ایک فقہی موضوع ہے لیکن اس کو اتنا حساس کر دیا گیا کہ قتل و غارت کا اندیشہ بعض علاقوں میں ہوتا ہے۔
۳۔ زنجیر زنی اور قمہ زنی کا مسئلہ ایک فقہی مسئلہ ہے لیکن اس کو امام حسینؑ کی کل عزاداری کے مترادف قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی چار بیٹیاں تھیں یا ایک بیٹی ، علم الانساب کا مسئلہ ہے نہ کہ عقائدی۔
۵۔ جناب ام کلثومؑ کا نکاح خلیفہ دوم سے ہوا یا نہیں، اہل بیتؑ کی معاشرتی زندگی کا تاریخی مسئلہ ہے اور شیعہ فقہاء و علماء بھی اس مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس کو عقائدی مسائل میں شمار کر دیا گیا ہے ۔
۶۔ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا یا ہاتھ کھول کر نماز بڑھنا، نمازوں کو جمع کرنا یا نہ کرنا، روزہ پہلے کھولنا یا کچھ تاخیر سے کھولنا ۔۔۔ اور اس طرح کے کئی فقہی جزوی مسائل ہیں لیکن انہیں عقائدی مسائل جتنی حساسیت دے دی گئی ہے !!
۷۔ اب تو کچھ نئے موضوعات بھی داخل ہو گئے ہیں ، جیسے مختار ثقفی کے بارے میں مثبت یا منفی موقف رکھںا ایمان و نفاق کی علامت بن گئی ہے !! جبکہ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے نہ کہ اصول دین یا فروع دین کا مسئلہ !!
۸۔ جیسی فضاء قائم ہوتی جا رہی ہے جلد ہی ایک اور مسئلہ بھی عقائدی مسئلہ بن جائے گا اور وہ ’’استاد‘‘ ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے اہل سنت میں صحابہ کا مسئلہ ہے کہ کوئی تنقیدی پہلو سامنے آ جائے تو فورا منافق، مرتد، کافر ، خارج از دین و ملت وغیرہ کے فتوی لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے استاد کو کچھ کہہ دیا تو شائستہ زبان میں اختلاف کی بجائے تہمتوں اور تضحیک کی آگ بھڑکاتے ہوئے اعتراض کرنے والے پر چڑھ دوڑا جائے !!

Views: 50

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رجال کشی کی مختار کے بارے پہلی حدیث