loading

خوارج کے نظریات اور امام علیؑ کا موقف

تحریر : سید محمد حسن رضوی 07/15/2023

۳۷ ھ جنگ صفین کے اختتام پر شام کے باغیوں کے سرغنہ کی جانب سے ایک سازشی چال چلی گئی جس کے نتیجہ میں لشکرِ امام علیؑ میں بے بصیرت و بے شعور طبقہ انتشار و پراگندگی کا شکار ہو گیا جو آنے والے دنوں میں خوارج کے نام سے پہچانا گیا۔ جنگ صفین میں لیلۃ الہریر کی سخت جنگ کے نتیجہ میں شامی لشکر شکست کے دہانے تک پہنچ گیا اور قریب تھا کہ باغیوں کے سرغنے معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص کی گردن جناب مالک اشترؓ کی تیز دھار تلوار سے اڑ جاتی کہ اتنے میں ہر طرف قرآن نیزوں پر اٹھانے اور جنگ روکنے کی آوازیں باغیوں کی جانب سے بلند ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے معاویہ بن ابی سفیان کے خیمہ کے باہر اور لشکرو ں کی صفوں میں کئی سو قرآن کریم کے نسخے نیزوں اور جھنڈوں پر آویزاں کر دئیے گے اور قرآن کریم کو فیصلہ کن کتاب و حَکم قرار دیتے ہوئے جنگ روکنے اور خون خرابہ بند کرنے کی التجائیں کی جانے لگیں۔ ایسے میں امام علیؑ کا موقف قرآن کو نیزوں پر اٹھانا سازش اور جنگ جاری رکھنے کی صورت میں تھا۔ یقیناً جنگ جاری رکھی جاتی تو قرآن کریم نیزوں کی دھاروں میں آتا اور پیروں اور گھوڑوں کی سُمّوں میں روندا جاتا ۔[1]ابن جریر، محمد، تاریخ الطبری، ج ۴، ص ۳۴۔ اس پر لشکرِ علوی میں ایک بڑے گروہ نے امام علیؑ کے موقف کی واضح طور پر مخالفت کی اور تقاضا کیا کہ قرآن کریم کو بطور فیصلہ کن کتاب کے طور پر قبول کیا جائے اور قرآن کے سامنے دونوں گروہوں کے نمائندے پیش ہوں اور قرآن کے ایک حکم پر راضی ہو جائیں اور اس پر عمل کریں۔ اس واقعہ کو تحکیم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امام علیؑ بحالتِ مجبوری تحکیم کو قبول کرنے پر راضی ہو گئے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی راہ باقی نہیں رہی۔ امام علیؑ نے اپنی طرف سے پہلے جناب عبد اللہ بن عباس اور جناب مالک اشترؓ کا نام اپنے لشکر کی نمائندگی کے لیے دیا لیکن انہی سرکش بھپرے ہوئے لوگوں نے امام علیؑ کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ابو موسی اشعری کا نام اپنے جانب سے پیش کیا اور بالآخر اہل شام کی جانب کی سے عمرو بن عاص اور امام علیؑ کی جانب سے باغیوں کی نافرمانیوں کے نتیجہ میں ابو موسی اشعری نمائندہ قرار پائے۔[2]ابن جریر، محمد، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۶۔[3]ابن مزاحم، نصر، وقعۃ صفین، ص ۴۹۹۔  عمر و بن عاص کی کھلے دوغلے پن کی وجہ سے تحکیم بغیر کسی فیصلہ پر اتفاق کے ختم ہو گئی لیکن شام کے باغیوں کو اپنی جان بچانے اور تازہ دَم ہونے کے لیے میدان جنگ سے فرار کی جو فرصت چاہیے تھی وہ امام علیؑ کے بے بصیرت اور بے شعور لوگوں کی وجہ سے حاصل ہو گئی ۔ امام علیؑ نے تحکیم کے بعد دوبارہ جنگ صفین کی تیاری شروع کی تاکہ اسلامی ریاست میں امن و امان بحال ہو جائے اور باغیوں کی جڑیں کٹ جائیں۔ لیکن تحکیم کے مسئلہ میں اعتراض کرنے والے بے بصیرت افراد ایک گروہ کی صورت میں سامنے آئے اور خوارج کے نام سے پہچانے گئے۔[4]ابن مزاحم ، نصر، وقعۃ صفین، ص ۴۹۹۔ خوارج نے تحکیم کو گمراہی قرار دیا اور تحکیم کے دونوں فریق کو دائرہ اسلام سے خارج شمار کرنے لگے۔

نیزوں پر قرآن ایک سازش:

امام علیؑ نے لوگوں کو بار بار ہوشیار کیا کہ نیزوں پر قرآن اٹھانا ایک سازش اور دشمن کا شکست و موت سے فرار کرنا ہے۔ لیکن لشکر میں بےشعور اور بے بصیرت افراد نے امام علیؑ کو ایک نہ سنی اور انہیں تحکیم پر مجبور کیا ۔ تاریخ طبری میں امام علیؑ کا نیزوں پر قرآن کو سازش قراردینے اور اپنے لشکر کو اس سے بچنے کی تلقین پر مشتمل خطبہ وارد ہوا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: {   تم نے ایسا کام کیا ہےجس سے تمہاری قوت کمزور ہو کر رہ  گئی ہے اور تمہارے احسانات ختم ہو گئے ہیں ۔ تم سست پڑ گئے اور تم نے سستی اور ذلت وراثت میں قبول کر لی ۔ جب تم بلند ہو چکے تھے اور تمہارے دشمن مقابلے سے گھبرا رہے تھے اور ان کا قتل عام رہا تھا اور انہیں زخموں کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی تو ان لوگوں نے قرآن اٹھا لیے اور تمہیں قرآن کے احکام پر چلنے کی اس لیے دعوت دی تاکہ تم ان سے اپنے ہاتھ روک لو اور تمہارے اور ان کے درمیان جنگ بند ہو جائےاور دھوکا بازوں کی طرح وہ تمہاری گھات میں لگ جائیں اور تمہیں دھوکہ و فریب میں مبتلا کر دیں۔ انہوں نے جو خواہش کی تھی تم نے اسے پورا کر دکھایا اور تم نے جو مداہنت و بزدلی کے علاوہ کسی شیء کو قبول نہیں کیا۔ قسم بخدا! مجھے لگتا ہے کہ تم آئندہ کبھی ہدایت حاصل نہیں کر سکو گے اور نہ تم کوئی یقینی بات کرنے والے ہو   }.[5]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۴۰۔اس کے بعد یہ قرار پایا کہ ہر دو فریق چار سو چارسوساتھی لے کر دومۃ الجندل پر تحکیم کے لیے جمع ہوں گے۔ یہ معاہدہ بدھ کے دن ۱۳ صفر ۳۷ ھ کو ہوا۔ [6]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۴۰۔

تحکیم کو ماننے سے خوارج کاانکار:

امام علیؑ کے مسلسل انکار پر اور لشکر کو جنگ پر لگاتار ابھارنے کے باوجود آپؑ کو تحکیم پر مجبور کیا گیا۔ جب تحکیم کا بحالتِ مجبوری معاہدہ لکھا گیا تو ایک گروہ کھڑا ہو گیا اور تحکیم کو قرآن کریم کے خلاف قرار دیتے ہوئے امام علیؑ سے تقاضا کرنے لگا کہ امام علیؑ تحکیم کا انکار کریں ۔ نصر بن مزاحم متوفی ۲۱۲ ھ لکھتے ہیں: فَأَبَى عَلَيٌّ أَنْ يَرْجِعَ وَ أَبَتِ الْخَوَارِجُ‏ إِلَّا تَضْلِيلَ التَّحْكِيمِ وَ الطَّعْنَ فِيهِ وَ بَرِئَتْ مِنْ عَلِيٍّ ع وَ بَرِئَ مِنْهُم‏؛ پس امام علیؑ نے اپنےفیصلے سے پلٹنے سے انکار کر دیا اور خوارج نے تحکیم کو گمراہی قرار دیا اور اس کو ماننے والے پر طعن و تشنیع کرنے لگے اور امام علیؑ سے اظہارِ براءت کیا اور امام علیؑ نے ان خوارج سے اظہار براءت  فرمایا   }.[7]مزاحم، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۵۱۴۔

خوارج کے مختلف نام:

امام علیؑ کی اطاعت اور ان کے لشکر سے خارج ہونے والا یہ گروہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین نے ناموں کے ان اختلاف کی وجہ خوارج کے مختلف فرقے قرار دیئے ہیں۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ ان ناموں کا تذکرہ اور وجہِ تسمیہ بیان کی جاتی ہے: ۱۔ محکمہ : لشکرِ امام علیؑ میں خوارج تحکیم کا انکار کرنے والے تھے اس وجہ سے انہیں محکمہ یا حکمیہ کہا جاتا ہے۔ [8]مقریزی، احمد بن علی، المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والاثار، ج ۴، ص ۱۸۵۔ بعض نے تحریر کیا ہے کہ خوارج میں یہ پہلا فرقہ ہے جس نے امام علیؑ کی خلافت سے سرگردانی کی اور ان کی اطاعت سے باہر آیا گیا۔ انہوں نے چونکہ لَا حُكْم إِلّا لله ’’حکم و حکومت فقط اللہ کے لیے ہے‘‘ کا شعار بلند کیا تھا اس لیے انہیں محکمہ کہا جاتا ہے۔ لا حُکم الا للہ کا شعار سب سے پہلے جنگ صفین میں امام علیؑ کے موقف کے مدمقابل عروۃ بن حدیم نے بلند کیا جوکہ مرداسِ خارجی کا بھائی ہے۔ [9]ابو ہلال عسکری، حسن بن عبد اللہ ، الاوائل، ص ۳۶۷۔ تحکیم کے موقع پر خوارج کا امیر عبد اللہ بن کوّاء تھا۔ [10]مقریزی ، احمد بن علی، ، المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والاثار، ج ۴، ص ۱۸۵۔خوارج نے سب سے پہلے عبد اللہ بن کوّاء کو اپنا امیر بنایا اور اس کے بعد انہوں نے عبد اللہ بن وہب راسبی کے ہاتھوں میں بیعت کر لی۔ پھر نافع بن ازرق کے ماتحت آ گئے ۔ [11]ابو ہلال عسکری، حسن بن عبد اللہ ، الاوائل، ص ۳۶۸۔ ۲۔ راسبیہ: یہ لوگ عبد اللہ بن وہب راسبی ازدی کے پیرو تھے۔ عبد اللہ بن وہب راسبی جنگ نہروان میں قتل ہوا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحابی رسول ﷺ جناب عبد اللہ بن خباب ارت اور ان کی حاملہ زوجہ کو شہید کیا اور خواتین کو بچوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھیوں کے خون کے بدلے کے نام سے شہید کیا ۔ جنگ نہروان میں امام علیؑ کے تلوار سے راسبی اور اس کے پیرو ہلاک ہوئے۔ [12]مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج ۵، ص ۲۲۴۔ ۳۔ الشراۃ: خوارج یہ نام خود سے تجویز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنی جانوں کو اللہ سبحانہ کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے اس کے بدلے میں اللہ کی مرضی کو انہوں نے حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت سے یہ نام مستعار لیاجس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّه‏. [13]بقره: ۲۰۷۔ ۴۔ مارقین: خوارج کا یہ نام رسول اللہ ﷺ کی ان متواتر احادیث کی بناء پر پڑا جو شیعہ و سنی ہر دو کی کتب میں وارد ہوئی ہیں۔ مرق کا مطلب کمان سے تیر کا خارج ہونا ہے۔ خوارج دینِ الہٰی سے اسی طرح نکل گئے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔

خوارج کے نظریات :

امام علیؑ کی اطاعت سے نکلنے والے اس گروہِ خوارج کے ایسے گمراہ کن نظریات تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی ہدایت کے راستے بند کر دیئے اور اسلامی ریاست میں مسلمانوں کی جان و مال و عزت  آبرو کے درپے ہو گئے۔ امام علیؑ کے کلام سے خوارج کے جو نظریات سامنے آتے ہیں انہیں عناوین کے تحت درج کیا جاتا ہے:

حکومت کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا:

خوارج نے تحکیم کے مقابلے میں لا حکم الا للہ کا شعار بلند کیا اور تمام لوگوں کی حکومت کا واضح انکار کر دیا ۔ اس موقع پر امام علیؑ نے ان کا کلام ردّ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: كَلِمَةُ حَقٍ‏ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ نَعَمْ إِنَّهُ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ وَ لَكِنَّ هَؤُلَاءِ يَقُولُونَ لَا إِمْرَةَ إِلَّا لِلَّهِ وَ إِنَّهُ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِيرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ وَ يَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ وَ يُبَلِّغُ اللَّهُ فِيهَا الْأَجَلَ وَ يُجْمَعُ بِهِ الْفَيْ‏ءُ وَ يُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَأْمَنُ بِهِ السُّبُلُ وَ يُؤْخَذُ بِهِ لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ وَ يُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِر. وَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى أَنَّهُ ع لَمَّا سَمِعَ تَحْكِيمَهُمْ قَالَ حُكْمَ اللَّهِ أَنْتَظِرُ فِيكُمْ وَ قَالَ أَمَّا الْإِمْرَةُ الْبَرَّةُ فَيَعْمَلُ فِيهَا التَّقِيُّ وَ أَمَّا الْإِمْرَةُ الْفَاجِرَةُ فَيَتَمَتَّعُ فِيهَا الشَّقِيُّ إِلَى أَنْ تَنْقَطِعَ مُدَّتُهُ وَ تُدْرِكَهُ مَنِيَّتُه‏؛یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں! بے شک حکم اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے، مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت بھی اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ (اگر اچھا ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا، (اگر برا ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا اور اللہ اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے کہ آپؑ نے تحکیم کے سلسلہ میں ان کا یہ قول سنا تو فرمایا: میں تمہارے بارے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں ، پھر فرمایا: اگر حکومت نیک ہو تو اس میں متقی و پرہیز گار اچھے عمل کرتا ہے اور بری حکومت ہو تو اس میں بدبخت لوگ جی بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا زمانہ ختم ہو جائے اور موت انہیں پالے.[14]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۸۲، خطبہ ۴۰۔

 امام علیؑ کو نعوذ باللہ گمراہ سمجھنا:

امام علیؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ امام علیؑ نے نعوذ باللہ کا تحکیم کا اختیار کرنا اور جہاد کو ترک کرنا وہ گناہ ہے جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:أَصَابَكُمْ‏ حَاصِبٌ‏ وَ لَا بَقِيَ مِنْكُمْ [آبِرٌ] آثِرٌ أَ بَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه‏ وَجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ لَ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَ ما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ‏ فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وَ ارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الْأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلًّا شَامِلًا وَ سَيْفاً قَاطِعاً وَ أَثَرَةً يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّة؛ تم پر سخت آندھیاں آئیں اور تم میں کوئی اصلاح کرنے والا باقی نہ رہے! کیا میں اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر جہاد کرنے کے بعد اپنے اوپر کفر کی گواہی دے سکتا ہوں؟ پھر تو میں گمراہ ہو گیا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا۔ تم اپنے (پرانے) بدترین ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنی ایڑیوں کے نشانوں پر پیچھے کی طرف پلٹ جاؤ۔ یاد رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلّت اور کاٹنے والی تلوار سے دو چار ہونا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں۔[15]سید رضی، نہج البلاغہ ، خطبہ ۵۸، ص۹۲۔

امام علیؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ امام علیؑ نے نعوذ باللہ کا تحکیم کا اختیار کرنا اور جہاد کو ترک کرنا وہ گناہ ہے جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:  أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ وَ لَا بَقِيَ‏ مِنْكُمْ‏ [آبِرٌ] آثِرٌ أَ بَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه‏، وَجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ لَ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ‏ فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وَارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الْأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلًّا شَامِلًا وَ سَيْفاً قَاطِعاً وَ أَثَرَةً يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّة؛ تم پر سخت آندھیاں آئیں اور تم میں کوئی اصلاح کرنے والا باقی نہ رہے! کیا میں اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر جہاد کرنے کے بعد اپنے اوپر کفر کی گواہی دے سکتا ہوں؟ پھر تو میں گمراہ ہو گیا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا۔ تم اپنے (پرانے) بدترین ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنی ایڑیوں کے نشانوں پر پیچھے کی طرف پلٹ جاؤ۔ یاد رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلّت اور کاٹنے والی تلوار سے دو چار ہونا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں۔[16]سید رضی، نہج البلاغہ ، خطبہ ۵۸، ص۹۲۔

اس گمراہ کن عقیدہ کو ردّ کرتے ہوئے امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي‏ أَخْطَأْتُ‏ وَ ضَلَلْتُ فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ص بِضَلَالِي وَ تَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي وَ تُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ وَ السُّقْمِ وَ تَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِبْ وَ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص رَجَمَ الزَّانِيَ الْمُحْصَنَ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ وَرَّثَهُ أَهْلَهُ وَ قَتَلَ الْقَاتِلَ وَ وَرَّثَ مِيرَاثَهُ أَهْلَهُ وَ قَطَعَ [يَدَ] السَّارِقَ وَ جَلَدَ الزَّانِيَ غَيْرَ الْمُحْصَنِ ثُمَّ قَسَمَ عَلَيْهِمَا مِنَ الْفَيْ‏ءِ وَ نَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ص بِذُنُوبِهِمْ وَ أَقَامَ حَقَّ اللَّهِ فِيهِمْ وَ لَمْ يَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الْإِسْلَامِ وَ لَمْ يُخْرِجْ أَسْمَاءَهُمْ مِنْ بَيْنِ أَهْلِهِ ثُمَّ أَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ وَ مَنْ رَمَى بِهِ الشَّيْطَانُ مَرَامِيَهُ وَ ضَرَبَ بِهِ تِيهَهُ وَ سَيَهْلِكُ فِيَّ صِنْفَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِهِ الْحُبُّ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ وَ مُبْغِضٌ مُفْرِطٌ يَذْهَبُ بِهِ الْبُغْضُ إِلَى غَيْرِ الْحَقِّ وَ خَيْرُ النَّاسِ فِيَّ حَالًا النَّمَطُ الْأَوْسَطُ فَالْزَمُوهُ وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ [عَلَى‏] مَعَ الْجَمَاعَةِ وَ إِيَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْب‏ أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوهُ وَ لَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي هَذِهِ فَإِنَّمَا حُكِّمَ 113 الْحَكَمَانِ لِيُحْيِيَا مَا أَحْيَا الْقُرْآنُ وَ يُمِيتَا مَا أَمَاتَ الْقُرْآنُ وَ إِحْيَاؤُهُ الِاجْتِمَاعُ عَلَيْهِ وَ إِمَاتَتُهُ الِافْتِرَاقُ عَنْهُ فَإِنْ جَرَّنَا الْقُرْآنُ إِلَيْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ وَ إِنْ جَرَّهُمْ إِلَيْنَا اتَّبَعُونَا فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً وَ لَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ وَ لَا لَبَّسْتُهُ عَلَيْكُمْ إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْهُ وَ تَرَكَا الْحَقَّ وَ هُمَا يُبْصِرَانِهِ وَ كَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْهِ وَ قَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ وَ الصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وَ جَوْرَ حُكْمِهِمَا؛ اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے اُمت ِمحمدؐ کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو؟ اور میری غلطی کی پاداش انہیں کیوں دیتے ہو؟ اور میرے گناہوں کے سبب سے انہیں کیوں کافر کہتے ہو؟ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کئے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطا کاروں کے ساتھ ملائے دیتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول ﷺ نے جب زانی کو سنگسار کیا تو نماز جنازہ بھی اس کی پڑھی اور اس کے وارثوں کو اس کا ورثہ بھی دلوایا اور قاتل سے قصاص لیا تو اس کی میراث اس کے گھر والوں کو دلائی، چور کے ہاتھ کاٹے اور زنائے غیر محصنہ کے مرتکب کو تازیانے لگوائے تو اس کے ساتھ انہیں مال غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور انہوں نے (مسلمان ہونے کی حیثیت سے) مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کئے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کے گناہوں کی سزا ان کو دی اور جو ان کے بارے میں اللہ کا حق (حد شرعی) تھا اسے جاری کیا، مگر انہیں اسلام کے حق سے محروم نہیں کیا اور نہ اہل اسلام سے ان کے نام خارج کئے۔ اس کے بعد (ان شر انگیزیوں کے معنی یہ ہیں کہ) تم ہو ہی شر پسند اور وہ کہ جنہیں شیطان نے اپنی مقصد برآری کی راہ پر لگا رکھا ہے اور گمراہی کے سنسان بیابان میں لا پھینکا ہے۔(یاد رکھو کہ) میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوں گے: ایک حد سے زیادہ چاہنے والے جنہیں محبت (کی افراط) غلط راستے پر لگا دے گی اور ایک میرے مرتبہ میں کمی کر کے دشمنی رکھنے والے کہ جنہیں یہ عناد حق سے بے راہ کر دے گا۔ میرے متعلق درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہی سب سے بہتر حالت میں ہوں گے۔ تم اسی راہ پر جمے رہو اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے، جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔خبردار! جو بھی ایسے نعرے لگا کر اپنی طرف بلائے اسے قتل کر دو، اگرچہ وہ اسی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ( یعنی میں خود کیوں نہ ہوں) اور وہ دونوں حَکم (ابو موسیٰ و عمر و ابن عاص) تو صرف اس لئے ثالث مقرر کئے گئے تھے کہ وہ انہی چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور انہی چیزوں کو نیست و نابود کریں جنہیں قرآن نے نیست و نابود کیا ہے۔ کسی چیز کے زندہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس پر یکجہتی کے ساتھ متحد ہوا جائے اور اس کے نیست و نابود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اب اگر قرآن ہمیں ان لوگوں (کی اطاعت) کی طرف لے جاتا تو ہم ان کے پیرو بن جاتے اور اگر انہیں ہماری طرف لائے تو پھر انہیں ہمارا اتباع کرنا چاہیے۔تمہارا بُرا ہو! میں نے کوئی مصیبت تو کھڑی نہیں کی اور نہ کسی بات میں تمہیں دھوکا دیا ہے اور نہ اس میں فریب کاری کی ہے۔ تمہاری جماعت ہی کی یہ رائے قرار پائی تھی کہ دو آدمی چن لئے جائیں جن سے ہم نے یہ اقرار لے لیا تھا کہ وہ قرآن سے تجاوز نہ کریں گے۔ لیکن وہ اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے باوجود قرآن سے بہک گئے اور حق کو چھوڑ بیٹھے اور ان کے جذبات بے راہ روی کے مقتضی ہوئے۔ چنانچہ وہ اس روش پر چل پڑے (حالانکہ) ہم نے پہلے ہی ان سے شرط کر لی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق کا مقصد پیش نظر رکھنے میں بد نیتی و بے راہ روی کو دخل نہ دیں گے۔ (اگر ایسا ہوا تو وہ فیصلہ ہمارے لئے قابل تسلیم نہ ہو گا).[17]سید رضی ، نہج البلاغہ ، ص ۱۸۴، خطبہ ۱۲۷۔

خوارج کا ماؤں کی صلب میں ہونا:

خوارج سے جب قتال کیا گیا اور وہ سب مارے گئے تو امام علیؑ کی خدمت میں کہا گیا کہ سب کے سب ہلاک ہو گئے، تب امام علیؑ نے ارشاد فرمایا:كَلَّا وَ اللَّهِ إِنَّهُمْ نُطَفٌ‏ فِي‏ أَصْلَابِ‏ الرِّجَالِ وَ قَرَارَاتِ النِّسَاء، كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِين‏، لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَهُ كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه‏؛ ہرگز نہیں! ابھی تو وہ مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے شکموں میں موجود ہیں  ۔ جب بھی ان میں کوئی سردار ظاہر ہو گا تو اسے کاٹ کر رکھ دیا جائے گا، یہاں تک کہ ان کی آخری فردیں چور اور ڈاکو ہو کر رہ جائیں گی۔انہی خوارج کے متعلق فرمایا:میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا!  اس لئے کہ جو حق کا طالب ہو اور اسے نہ پا سکے وہ ویسا نہیں ہے کہ جو باطل ہی کی طلب میں ہو اور پھر اُسے پا بھی لے۔سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس سے مراد معاویہ اور اس کے ساتھی ہیں۔[18]سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۵۹-۶۰، ص ۹۳۔

خوارج اور آخری زمانے کے لوگوں کا موقف:

امام علیؑ نے آخری زمانے میں آنے والے ان افراد کو اپنے ہمراہ شمار کیا ہے جو جنگوں میں امام علیؑ کے حق پر ہونے کے معتقد ہیں جیساکہ برقی نے المحاسن میں روایت نقل کی ہے:عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ: لَمَّا قَتَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع الْخَوَارِجَ‏ يَوْمَ‏ النَّهْرَوَانِ‏ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ طُوبَى لَنَا إِذْ شَهِدْنَا مَعَكَ هَذَا الْمَوْقِفَ وَ قَتَلْنَا مَعَكَ هَؤُلَاءِ الْخَوَارِجَ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ لَقَدْ شَهِدَنَا فِي هَذَا الْمَوْقِفِ أُنَاسٌ لَمْ يَخْلُقِ اللَّهُ آبَاءَهُمْ وَ لَا أَجْدَادَهُمْ بَعْدُ فَقَالَ الرَّجُلُ وَ كَيْفَ شَهِدَنَا قَوْمٌ لَمْ يُخْلَقُوا قَالَ بَلَى قَوْمٌ يَكُونُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ يَشْرَكُونَنَا فِيمَا نَحْنُ فِيهِ وَ هُمْ يُسَلِّمُونَ لَنَا فَأُولَئِكَ شُرَكَاؤُنَا فِيمَا كُنَّا فِيهِ حَقّاً حَقّاً؛حکم بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ جب امیر المؤمنین نے روزِ نہروان خوارج کو قتل کیا تو ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین ؑ طوبیٰ ہو ہمارے لیے کیونکہ ہم اس جنگ میں آپ کے ہمراہ شامل ہوئے اور ہم نے آپؑ کے ساتھ خوارج کو قتل کیا ۔ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو چیرا اور مخلوق کو خلق کیا ہے ۔ [19]برقی ، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج ۱، ص ۲۶۲۔

امت اسلامیہ کا بے دریغ قتل:

خوارج کے انحرافی نظریات اور بد اعمالیوں میں سے قبیح ترین ایک عمل مسلمین عامہ کے خون کو مباح قرار دیتے ہوئے آئے روز قتل و غارت مچانا ہے۔نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:فَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا أَنْ تَزْعُمُوا أَنِّي‏ أَخْطَأْتُ‏ وَ ضَلَلْتُ فَلِمَ تُضَلِّلُونَ عَامَّةَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ص بِضَلَالِي وَ تَأْخُذُونَهُمْ بِخَطَئِي وَ تُكَفِّرُونَهُمْ بِذُنُوبِي سُيُوفُكُمْ عَلَى عَوَاتِقِكُمْ تَضَعُونَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ وَ السُّقْمِ وَ تَخْلِطُونَ مَنْ أَذْنَبَ بِمَنْ لَمْ يُذْنِب‏؛ اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے اُمت ِمحمدؐ کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو؟ اور میری غلطی کی پاداش انہیں کیوں دیتے ہو؟ اور میرے گناہوں کے سبب سے انہیں کیوں کافر کہتے ہو؟ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کئے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطا کاروں کے ساتھ ملائے دیتے ہو۔ [20]سید رضی ، نہج البلاغہ ، ص ۱۸۴، خطبہ ۱۲۷۔ احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک قوی اور معتبر حدیث نقل کی ہے جس میں خوارج کے جرائم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح سے ہیں:حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَمِيلٍ أَبُو يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَتِ الْخَوَارِجُ بِالنَّهْرَوَانِ قَامَ عَلِيٌّ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، وَهُمْ أَقْرَبُ الْعَدُوِّ إِلَيْكُمْ، وَأَنْ تَسِيرُوا إِلَى عَدُوِّكُمْ أَنَا أَخَافُ أَنْ يَخْلُفَكُمْ هَؤُلَاءِ فِي أَعْقَابِكُمْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” تَخْرُجُ خَارِجَةٌ مِنْ أُمَّتِي، لَيْسَ صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَ لَهَا ذِرَاعٌ، عَلَيْهَا مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهَا شَعَرَاتٌ بِيضٌ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ لاتَّكَلُوا عَلَى الْعَمَلِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللهِ؛زید بن وہب بیان کرتا ہے کہ جب خوارج نہروان کی طرف نکلے تو امام علیؑ نے اپنے اصحاب میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا: اس قوم نے حرام خون بہایا ہے اور لوگوں کے مال کو لوٹا ہے ، تمہارے نزدیک ترین دشمن یہی ہیں لہٰذا اپنے دشمنوں کی طرف کوچ کرو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ پیچھے سے تمہارے اوپر ٹوٹ نہ پڑیں اور میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت سے ایک ایسا گروہ نکلے گا جس کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی اور تمہارے روزے ان کے روزے کے سامنے کوئی چیز ہوں گے  اور نہ تمہاری تلاوت ان کی تلاوتوں کے سامنے کوئی وقعت رکھتی ہوں گی ، وہ قرآن کی قراءت کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ ان کے حق میں ہے جبکہ یہ ان کے برخلاف ہو گا، قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکال جاتا ہے ، ان کی نشانی یہ ہو گی کہ ان میں ایک ایسا شخص ہو گا جس کا بازو تو ہو گا لیکن کہنی نہیں ہو گی، اس کے ہاتھ پر خاتون کی چھاتی کی مانند ایک ابھری ہوئی چیز ہو گی جس کے ارگرد سفید رنگ کے کچھ بالوں کا گچھا ہو گا ۔ وہ لشکر جو اِن سے روبرو ہو گا اگر اسے معلوم ہو جائے کہ ان کے نبی ﷺ کی زبانِ مبارک پر اس لشکر والوں کے لیے کیا جاری ہوا ہے تو عمل پر بھروسا کریں گے ، لہٰذا تم لوگ اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔ [21]ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۱۱۳، حدیث ۷۰۶۔

نبی اکرم ﷺ کی شفاعت کا انکار:

۔

منابع:

منابع:
1 ابن جریر، محمد، تاریخ الطبری، ج ۴، ص ۳۴۔
2 ابن جریر، محمد، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۶۔
3 ابن مزاحم، نصر، وقعۃ صفین، ص ۴۹۹۔
4 ابن مزاحم ، نصر، وقعۃ صفین، ص ۴۹۹۔
5 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۴۰۔
6 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۴۰۔
7 مزاحم، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۵۱۴۔
8 مقریزی، احمد بن علی، المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والاثار، ج ۴، ص ۱۸۵۔
9 ابو ہلال عسکری، حسن بن عبد اللہ ، الاوائل، ص ۳۶۷۔
10 مقریزی ، احمد بن علی، ، المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والاثار، ج ۴، ص ۱۸۵۔
11 ابو ہلال عسکری، حسن بن عبد اللہ ، الاوائل، ص ۳۶۸۔
12 مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج ۵، ص ۲۲۴۔
13 بقره: ۲۰۷۔
14 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۸۲، خطبہ ۴۰۔
15, 16 سید رضی، نہج البلاغہ ، خطبہ ۵۸، ص۹۲۔
17, 20 سید رضی ، نہج البلاغہ ، ص ۱۸۴، خطبہ ۱۲۷۔
18 سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۵۹-۶۰، ص ۹۳۔
19 برقی ، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج ۱، ص ۲۶۲۔
21 ابن حنبل، احمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۱۱۳، حدیث ۷۰۶۔
Views: 186

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شیعہ و سنی میں اصلی فرق