loading

{  سياسی افکار  }

رہبر معظم کی نظر میں جہاد تبیین

تحرير: احمد علی رضائی اسد آبادی
ترجمہ: عون نقوی

 راہ الہٰی میں جہاد  عبادات میں سے ایک خاص عبادت ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی  ہے۔ جہاد اسلامِ محمدی ناب  کے مقدس دین کی تبلیغ و اشاعت کا واحد ذریعہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے اور مجاہدین کی قدر و منزلت کو بیان کیا ہے:

 يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ وَ جاهِدُوا في سَبيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون.

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔[1] مائدہ: ۳۵۔

قرآن کریم میں دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَ اسْجُدُوا وَ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَ جاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهادِهِ.

ترجمہ: اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو، امید ہے کہ (اس طرح) تم فلاح پا جاؤاور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔[2] حج: ۷۷تا۷۸۔

سوره نساء میں مجاہدین کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ فرمایا:

لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَ الْمُجاهِدُونَ في سَبيلِ اللهِ‌ بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللهُ‌ الْمُجاهِدينَ بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقاعِدينَ دَرَجَةً وَ كُلاًّ وَعَدَ اللهُ‌ الْحُسْنى وَ فَضَّلَ اللهُ‌ الْمُجاهِدينَ عَلَى الْقاعِدينَ أَجْراً عَظيماً.

ترجمہ: بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔[3] نساء: ۹۵۔

 سلفیوں کے علاوہ تمام اسلامی فرقے  جہاد کو فوجی و عسکری جنگ  تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ جہاد با نفس، جہاد با شیطان، علمی ثقافتی و تبلیغی جہاد اور گھریلو امور کی انجام دہی جیسے امور کو بھی جہاد میں شامل سمجھتے ہیں۔

جہاد تبیین کی اصطلاح:

لفظ جہادِ تبیین کی اصطلاح عالم اسلام کے عظیم مفکر، فقیہ بزرگوار  اور رہبر اعلیٰ حضرت امام خامنہ ای دام ظلہ العالی کی اختراع شدہ اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے۔  اس اصطلاح کی بنیادیں قرآن کریم اورروایات مبارکہ ہیں جہاں سے اس کو اختراع کیا گیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کو ثابت کرنے والی آیات اور احادیث جہادِ تبیین کی عمومی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ امر اور نہی کے اطلاق سے اس مسئلہ کی شرعی حیثیت بہت آسانی سے ثابت ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت، ان کی احادیث، آئمہ معصومینؑ کی سیرت اور روایات جہادِ تبیین کے جواز کی خاص دلیل ہیں۔ [4] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ لفظ ’’جہادِ تبیین‘‘ دو الفاظ ’’جہاد‘‘ اور ’’تبیین‘‘سے مل کر بنا ہے۔

جہاد اور اس کی اقسام:

جہاد کا مادہ ’’جَ – هـ – د‘‘ ہے جس کے لغوی معنی سخت زمین کے ہیں۔ [5] جوہری، ابو نصر، الصحاح-تاج اللغۃ و صحاح العربيۃ، ج‌۲، ص۴۶۱۔ اصطلاح میں ’’جہاد‘‘ سے مراد دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی آخری دَم تک کوشش کرنا ہے۔ [6] راغب اصفہانی، حسین بن محمد المفردات فی غریب القرآن، ص۲۰۸۔

’’جہاد‘‘ کی مختلف اقسام ہیں:

۱۔ اپنی جان کے ساتھ جہاد کرناد؛ یعنی فوجی جہاد۔

۲۔ اپنے مال کے ساتھ جہاد کرنا؛ یعنی: خمس یا زکوٰۃ یا مستحب صدقات دے کر اسلامی معاشرے کے ناقص امور کی دیکھ بھال کرنا اور مجاہدین کی مدد کرکے اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا۔

۳۔ خواہشات نفسانی کو کنٹرول کرنا یا شیطان سے جہاد۔

۴۔ زبان کے ساتھ جہاد؛ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا اور جہاد کی وضاحت کرنا۔

لفظ تبیین کا معنی :

جبکہ لفظ تبیین» باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ جو «بَیَّنَ یُبَیِّنُ» کے مادہ سے ہے۔ تبیین کے لغوی معنی وضاحت کرنے کے ہیں۔ [7] جوہری، ابو نصر، الصحاح-تاج اللغة و صحاح العربية، ج‌۵، ص۲۰۸۳۔ جبکہ اصطلاح میں تبیین سے مراد طرفِ مقابل کو اپنے ا مورد نظر معنی سمجھانا ہے۔ [8] الزبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۱۸، ص۸۲۔

جہاد تبیین کے مبانی

اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ، آئمہ معصومینؑ اور ان کی نیابت میں علماء کرام و تمام مومنین و مومنات کا یہ فریضہ قرار دیا ہے کہ وہ معاشرے کے ایک ایک فرد کو انذار، تبشیر[9] احزاب: ۴۵۔ ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر[10] آل عمران: ۱۰۴۔ [11] حج: ۴۱۔ کریں، اور نعمات الہی کی یاد آوری[12] مائدہ: ۱۱۔ ، سختیوں میں صبر اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے[13] عصر: ۱تا۳۔ پر آمادہ کریں۔ اس بنا پر ہم جہاد تبیین کی مشروعیت کو ان آیات کے اطلاق سے ثابت کر سکتے ہیں۔ خصوصا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مربوط عمومات اور احادیث صحیحہ فریقین کی نصوص سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

جہادِ تبیین کے قرآنی مبانی

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دین نے «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ جسمانی طور پر جا کر کسی امر کو قائم کریں یا کسی منکر اور برائی کو ختم کر دیں۔

۲۔ زبانی طور پر کسی معروف کا امر دیں یا کسی کو برائی کرنے سے منع کر دیں۔

۳۔ اگر جسمانی اور زبانی طور پر کسی کام کا حکم نہیں دے سکتے یا برے کام سے روک نہیں سکتے تو قلبی طور پر اسے برا سمجھیں۔

«جہاد» بھی تین قسموں میں تقسیم ہوتا ہے۔

۱۔ اپنی جان کے ساتھ «جہاد» کرنا

۲۔ مال کے ساتھ «جہاد» کرنا

۳۔ زبان کے ساتھ «جہاد» کرنا[14] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۴۹۔

«جہادِ تبیین» یہی تیسری قسم کا جہاد یعنی زبان کے ساتھ جہاد کرنا ہے یا «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کی دوسری قسم ہے۔

«جہادِ تبیین» کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لیے ہم «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کی آیات کو استناد کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«وَ لْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ».

ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔[15] آل عمران: ۱۰۴۔

اسی سورہ کی آیت ۱۱۰ میں ارشاد ہوتا ہے:

«لِلنّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ».

ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔[16] آل عمران: ۱۱۰۔

سورہ حج میں ارشاد ہوا:
«الَّذينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ للهِ عاقِبَةُ الْأُمُور».

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔[17] حج: ۴۱۔

جہادِ تبیین کے حدیثی مبانی

ہمارے پاس جہاد تبیین کی مشروعیت کے اثبات کے لیے صحیح السند حدیث موجود ہے۔ شیعہ امامیہ اور اہل سنت محدثین نے اپنے مبانی کے مطابق رسول اللہ ﷺ سے صحیح السند حدیث نقل کی ہے جس میں آپﷺ کا فرمانا ہے:

«جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ».

ترجمہ: مشرکین کے ساتھ اپنے اموال، اپنی جانوں اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو۔[18] پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، ج۱، ص۴۲۹۔ [19] سجستانی، ابو داؤود، سنن ابی داؤود، ج۴، ص۱۵۹۔ [20] حاكم نيشاپوری، ابو عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۹۱۔ [21] نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، ج۴، ص۲۶۹۔ [22] بیہقی، ابوبکر، السنن الصغیر، ج۳، ص۳۵۹۔ [23] احمد بن حنبل، مسند احمد مخرجا، ج۱۹، ص۲۷۲۔ [24] البانی، محمد ناصرالدین، صحيح الجامع الصغير وزيادتہ، ج۱، ص۵۹۳۔   

اس روایت کو لفظ «جَاهِدُوا الکُفَار» سے بھی نقل کیا گیا ہے۔[25] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۶۵، ص۳۷۰۔ [26] راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۲۰۸۔

فقہ الحدیث

اولا: یہ حدیث شریف شیعہ سنی مبانی رجالی کے مطابق صحیح السند ہے۔ محمد البانی سلفی، شعیب ارنؤوط حدیث شناس وہابی،اس حدیث کی صحت کی شہادت دیتے ہیں۔[27] البانی، محمد ناصرالدین، صحيح الجامع الصغير وزيادتہ، ج۱، ص۵۹۳۔ [28] احمد بن حنبل، مسند احمد مخرجا، ج۱۹، ص۲۷۲۔ ثانیا: اس حدیث شریف سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ «جہادِ تبیین» بھی جہاد کی اقسام میں سے ہے اور رسول اللہ ﷺ و امیرالمومنینؑ کی بھی اس پر تائید و تاکید موجود ہے۔ کیونکہ فعل امر کے صیغے «جَاهِدُوا» سے انہوں نے امر فرمایا ہے جس سے جہاد تبیین کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے، جس طرح سے جنگی جہاد اور مالی جہاد واجب ہے اسی طرح سے جہاد تبیین بھی واجب ہے۔ امیرالمومنین امام علیؑ نے امام حسنؑ و امام حسینؑ اور اپنے قیامت تک آنے والے پیروان کو وصیت نامے میں حکم دیا ہے:

«اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الْجِهَادِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ أَلْسِنَتِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، لَا تَتْرُكُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَيُوَلَّى عَلَيْكُمْ أَشْرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُم».

ترجمہ: جان، مال اور زبان سے راہ خدا میں جہاد کرنے کے بارے میں اللہ کو نہ بھولنا، اور تم پر لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا، اور خبردار! ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ تم پر بدکردار مسلط ہو جائیں گے پھر دعا مانگو تو قبول نہ ہوگی۔ [29] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۷۔

فقہ الحدیث

یہ وصیت امیرالمومنینؑ  صرف حسنینؑ کے لیے مختص نہیں۔ بلکہ امیرالمومنینؑ کے قیامت تک آنے والے افراد کو یہ حکم شامل ہے اور ان پر واجب ہے کہ اس وصیت پر عمل کریں۔[30] بقرہ: ۱۸۱۔ امیرالمومنینؑ «جہاد فی سبیل اللہ» کو صرف «جنگی جہاد» میں منحصر نہیں سمجھتے بلکہ فرماتے ہیں، «جہاد با اموال»، یعنی معاشرے کے فقراء کی رسیدگی، «جہاد با زبان»،یعنی «جہاد تبیین» بھی «جہاد فی سبیل اللہ» کے مصادیق میں سے ہے۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ اگر «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» یعنی «جہاد تبیین» کو تم لوگوں نے ترک کر دیا تو ایسے شرور افراد میں گرفتار ہو کر رہ جاؤگے کہ اس کے نتیجے میں ان شرور سے نجات کی دعا بھی مستجاب نہ ہوگی۔ لہٰذا رسول اللہ (ص) کی صحیح حدیث ،امیر المومنین (ص) کی صحیح حدیث اور ان کی وصیت کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہےکہ جہاد تبیین بھی «جہاد فی سبیل اللہ» میں سے ایک ہے اور اس کا بھی اسی طرح سے حکم دیا گیا ہے جس طرح سے کہ «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کا حکم دیا گیا ہے۔

جہاد تبیین کی خصوصیات

۱۔ «جہاد تبیین» عالمانہ انداز میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«وَ لاتَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ».

ترجمہ: اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے[31] اسراء: ۳۶۔

۲۔ «جہاد تبیین» صبر کے ہمراہ ہو۔ اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

«فَاصْبِرْ عَلى ما يَقُولُونَ».

ترجمہ: لہذا یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کریں۔ [32] طہ: ۱۳۰۔

۳۔ «جہاد تبیین» بشارت دینے والا اور انذار کنندہ ہونا چاہیے، اگر صرف بشارت دہندہ ہو تو غرور آور ہے اور اگر صرف انذار کنندہ ہو تو نامید کرنے والا ہوگا اس لیے ہر دو خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کو بھی بشیر اور نذیر متعارف کروایا ہے:

«يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْناكَ شاهِداً وَ مُبَشِّراً وَ نَذيراً».

ترجمہ:  اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ [33] احزاب: ۴۵۔

۴۔ «جہاد تبیین» کے ذریعے بہترین اور معتبر اسوہ کو متعارف کروایا جاۓ۔ بہترین اسوہ حسنہ رسول اللہﷺ اور صدر اسلام کے مومنین ہیں۔ جنہوں نے شعب ابی طالب میں اقتصادی اور جنگی محاصرے کے باوجود رسو ل اللہ ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔قرآن کریم نے ان افراد کے بارے میں فرمایا:

«لَقَدْ كانَ لَكُمْ في رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ».

ترجمہ: بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔ [34] احزاب: ۴۵۔

۵۔ «جہاد تبیین» حکیمانہ طرز اور برہانی و استدلالی ہو۔ ارشاد ہوتا ہے:

«ادْعُ إِلى سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتي هِيَ أَحْسَنُ».

ترجمہ: (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔ [35] نحل: ۱۲۵۔

۶۔ «جہاد تبیین» کو ثبات قدم کے ہمراہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ جہاد تبیین اور جنگی جہاد تقریبا ایک جیسے ہیں۔ ہر دو میدان میں مجاہد کا دشمنوں کی صف آرائی کے مقابلے میں ثابت قدم اور استوار ہونا ضروری ہے۔

«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا لَقيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا».

ترجمہ: اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔ [36] انفال: ۴۵۔

سورہ احزاب میں بیان ہوا:

«وَ لَمَّا رَأَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزابَ قالُوا هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ ما زادَهُمْ إِلاَّ إيماناً وَ تَسْليماً».

ترجمہ: اور جب مومنوں نے لشکر دیکھے تو کہنے لگے: یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ [37] احزاب: ۲۲۔

۷۔ «جہاد تبیین» کو مجاہدانہ ہونا چاہیے اس سے صرف دین خدا کی نصرت مقصود ہونی چاہیے۔ سورہ محمد مین ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ».

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ [38] محمد: ۷۔

جس طرح جنگی جہاد میں شخصیات کے قتل ہونے کا خوف ہوتا ہے، «جہاد تبیین» کے میدان میں بھی دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ افراد کی شخصیت کشی کریں اور ان کو «جہاد تبیین» کے میدان سے نکال باہر کریں۔

۸۔ «جہاد تبیین» روشن گر اور ہدایت کنندہ ہونا چاہیے۔ اگر جہاد تبیین سے مطالب روشن اور واضح نہ ہوں، امت کو ہدایت حاصل نہ ہویہ جہاد تبیین نہیں ہے۔ لیکن اگر جہاد تبیین روشن گر اور ہدایت کنندہ ہو تو اسلامی معاشرہ بحرانی مواقع میں صحیح انتخاب کرنے کی توانائی حاصل کر سکے گا۔

سورہ انسان میں وارد ہوا ہے:

«إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاكِراً وَ إِمَّا كَفُوراً».

ترجمہ: ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔[39] انسان: ۳۔

جہادِ تبیین کے اہداف

۱۔ اسلامی معاشرے کے لوگوں کی دنیاوی اور اخروی سعادت کی طرف رہنمائی کرنا۔

۲۔ معاشرے کی کمزوریوں اور خوبیوں کا بیان، اور تقویتی نقاط کو مضبوط کرنے اور کمزوریوں سے نجات کے لیے حل فراہم کرنا۔

۳۔ ملکی حکام کی پوزیشن کو اسلام اور عوام کے تئیں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرکے مضبوط کرنا۔

۴۔ معاشرے کے لوگوں کو اسلامی حکومت کے لیے ذمہ دار بنانا، اس کے فروغ میں ان کے مقام اور کردار کی وضاحت کرنا۔

۵۔ دشمنوں کی کمزوریوں اور تقویتی نقاط کی وضاحت کرنا اور ان سے ہوشیاری سے نمٹنے کے لیے مناسب حل فراہم کرنا۔

۶۔ شکوک و شبہات کا جواب دینا اور معاشرے کے دینی اور دنیوی مفاد کا دفاع۔

۷۔ معاشرے کے اراکین کو موجودہ مسائل کے سامنے صبر کرنے کی دعوت دینا اور انہیں روشن مستقبل کی امید دینا۔

۸۔ حکام اور لوگوں کو اسراف اور اشرافی گری سے پرہیز پر آمادہ کرنا۔

۹۔ معاشرے کے افراد کےاعتقادات کو خداشناسی اور معاد شناسی کی بنا پر تقویت بخشنا۔

نتیجہ

«جہاد تبیین» کا «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ «جہاد تبیین» کی مشروعیت کو «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کے متعلق نازل ہونے والی آیات، اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث معتبرہ و امیرالمومنینؑ کی وصیت سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ «جہاد تبیین» کی خصوصیات اور اہداف بھی واضح ہیں: مثلا «جہاد تبیین» کا عالمانہ ہونا، صبورانہ، تبشیر و انذار کے ہمراہ ہونا، حکیمانہ و استدلالی ہونا، و ہمراہ با اسوہ حسنہ۔ «جہاد تبیین» کے اہم ترین اہداف معاشرے کے افراد کے سوالات اور شبہات کا جواب، ان کی ہدایت کرنا، حکام مملکت کو مسؤول بنانا، معاشرے میں امید پیدا کرنا، اور خدا شناسی و معاد شناسی کے عقیدے کو سب نظریات کی زیر بنا قرار دینا ہے۔

منابع:

منابع:
1 مائدہ: ۳۵۔
2 حج: ۷۷تا۷۸۔
3 نساء: ۹۵۔
4 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
5 جوہری، ابو نصر، الصحاح-تاج اللغۃ و صحاح العربيۃ، ج‌۲، ص۴۶۱۔
6 راغب اصفہانی، حسین بن محمد المفردات فی غریب القرآن، ص۲۰۸۔
7 جوہری، ابو نصر، الصحاح-تاج اللغة و صحاح العربية، ج‌۵، ص۲۰۸۳۔
8 الزبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۱۸، ص۸۲۔
9, 33 احزاب: ۴۵۔
10, 15 آل عمران: ۱۰۴۔
11, 17 حج: ۴۱۔
12 مائدہ: ۱۱۔
13 عصر: ۱تا۳۔
14 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۴۹۔
16 آل عمران: ۱۱۰۔
18 پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، ج۱، ص۴۲۹۔
19 سجستانی، ابو داؤود، سنن ابی داؤود، ج۴، ص۱۵۹۔
20 حاكم نيشاپوری، ابو عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۹۱۔
21 نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، ج۴، ص۲۶۹۔
22 بیہقی، ابوبکر، السنن الصغیر، ج۳، ص۳۵۹۔
23, 28 احمد بن حنبل، مسند احمد مخرجا، ج۱۹، ص۲۷۲۔
24, 27 البانی، محمد ناصرالدین، صحيح الجامع الصغير وزيادتہ، ج۱، ص۵۹۳۔
25 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۶۵، ص۳۷۰۔
26 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۲۰۸۔
29 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۷۔
30 بقرہ: ۱۸۱۔
31 اسراء: ۳۶۔
32 طہ: ۱۳۰۔
34 احزاب: ۴۵۔
35 نحل: ۱۲۵۔
36 انفال: ۴۵۔
37 احزاب: ۲۲۔
38 محمد: ۷۔
39 انسان: ۳۔
Views: 182

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حکومت اسلامی میں عوام کا کردار
اگلا مقالہ: اسلامی حکومت اور الحادی حکومت میں فرق