loading

{حدیث یوم}

تکبر کی بناء پر دعا کو ترک کرنا بھی کفر

تدوین:بلال حسین

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

فَسَمَّیْتَ دُعٰاکَ عِبٰادَةً وَ تَرْکُہُ اِسْتِکْبٰاراً وَتَوَعَّدْتَ عَلٰی تَرْکِہ دُخُوْلَ جَھَنَّم دٰا خِرِیْنَ۔[1]  صحيفہ سجّاديّہ ،سيّد محمّد باقر المشتهر بمحقّق الداماد، جلد : 1 ، صفحہ 371

ترجمہ:اے بار الہٰا! تیرے حضور سوال کرنے کو تونے عبادت نام رکھا(کیونکہ عبادت خداوند عالم کے حضور انتہائی ذلت ظاہر کرنا ہے اور اس کی سب سے اعلیٰ قسم اس سے سوال کرنا ہے یعنی محتاجی کی حالت میں خضوع و خشوع اور دکھے دل کے ساتھ) اور عبادت نہ کرنے کو تو نے تکبر کہا ہے کیونکہ خدائے عزوجل سے سوال نہ کرنا اپنے آپ کو خالق سے بے نیاز ظاہر کرنا ہے اور اس چیز کا انکار کرنا ہے کہ ہر شئے اس کی طرف سے ہے اور ہر مشکل کا حل اس کے توانا ہاتھ میں ہے۔دعا نہ کرنا اور عبادت خدا کو ترک کرنا اگر تکبر کی بنا پر ہو یعنی اپنے آپ کو اس(اللہ تعالیٰ)کا محتاج نہ سمجھتا ہو تو یہ بھی کفر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا موجب ہے۔قرآن مجید میں خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے۔

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکبِرُوْنِ عَنْ عِبٰادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰاخِرِیْنَ[2] سورہ موٴمن آیت۶۰ ۔ اور تمھارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری(دعا)قبول کروں گا جو لوگ ہماری عبادت سے سر کشی کرتے ہیں وہ عنقریب ہی ذلیل و خوار ہو کر یقینا جہنم واصل ہوں گے۔

تفیسر کا شفی میں لکھا ہے کہ دعا سے مراد سوال ہے یعنی طلب کرو۔ کیونکہ میرا خزانہ مالامال ہے اور میرا کرم آرزوٴں کو پورا کرتا ہے کون سا ایسا فقیر ہے جو اپنی حاجت لے کر میرے پاس آیا اور میں نے فوری طور پر اس کی حاجت پوری نہ کی ہو اورکون سا ایسا محتاج ہے جس نے سوال کے لئے اپنی زبان کھولی ہو اور میں نے اس کی توقع کے مطاق اس کی دعا قبول نہ کی ہو۔چنانچہ دعا کی حقیقت یعنی ضرورت کی حالت میں عجز وانکساری سے پروردگار کے حضور سوال کرنا ۔یہی عبدیت اور خدائے واحد ی پرستش ہے پس جو کوئی تکبر کی بنا پر دعا کو ترک کرے یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں سمجھے اور اسے پرستش کے لائق نہ جانے تو یہ محض کفر اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کا موجب ہے۔

امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

فَسَمَّیْتَ دُعٰاکَ عِبٰادَةً وَ تَرْکُہُ اِسْتِکْبٰاراً وَتَوَعَّدْتَ عَلٰی تَرْکِہ دُخُوْلَ جَھَنَّم دٰا خِرِیْنَ۔ اے بار الہٰا! تیرے حضور سوال کرنے کو تونے عبادت نام رکھا(کیونکہ عبادت خداوند عالم کے حضور انتہائی ذلت ظاہر کرنا ہے اور اس کی سب سے اعلیٰ قسم اس سے سوال کرنا ہے یعنی محتاجی کی حالت میں خضوع و خشوع اور دکھے دل کے ساتھ) اور عبادت نہ کرنے کو تو نے تکبر کہا ہے کیونکہ خدائے عزوجل سے سوال نہ کرنا اپنے آپ کو خالق سے بے نیاز ظاہر کرنا ہے اور اس چیز کا انکار کرنا ہے کہ ہر شئے اس کی طرف سے ہے اور ہر مشکل کا حل اس کے توانا ہاتھ میں ہے۔

دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں:

وَاِنَّ اَحَبَّ الْعِبٰادِ اِلَیْکَ مَنْ تَرَکَ الْاِسْتِکْبٰارَ وَجٰانَبَ الْاِصِرٰارَ وَلَزِمَ الْاِسْتِغْفٰارَ وَ اَنَااَبَرَْءُ اِلَیْکَ اَنْ اَسْتَکْبِرَ۔[3] شرح الصحيفہ سجّاديّہ سيّد م،حمّد باقر المشتهر بمحقّق الداماد، جلد : 1 ، صفحہ:  149تیرے بندگان میں سے پسندیدہ ترین بندہ وہ ہے جو تکبر نہیں کرتے اور گناہ پر اصرار سے اجتناب کرتےہیں اور استغفار کو اپنا شیوہ بناتے ہیں اور میں تیرے سامنے اس بات سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں کہ میں تکبر کروں اور تجھے نہ پکاروں۔

Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم