loading
« دروس شرح الکافی : درس ۸ »
دورانِ غیبت طاغوتی حکومتوں میں عبادت کے مراتب
تدريس: آيت الله رضا عابدينی
تدوين: عون نقوی
الکافی سے مہدویت کے موضوع پر وارد ہونے والے ابواب اور ان میں موجود احادیث کی شرح پیش کی جا رہی تھی۔ انہی احادیث میں سے ایک حدیث اس موضوع پر ہے کہ غیبت کے زمانے میں عبادات انجام دینا زمانہِ ظہور میں عبادات انجام دینے سے زیادہ افضل ہے۔ اس کے ضمن میں آج کے درس میں درج ذیل چند عناوین زیر بحث لائے جا رہے ہیں:

امام سے محروم ہونے کا معیار:

گزشتہ دروس میں ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ زمانہ غیبت تمام زمانوں سے افضل زمانہ ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پرہمیں لگتا ہے کہ ہم امام کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے زمانہ محرومیت کا زمانہ ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہم اپنے زمانے کے امام کو نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ جبکہ امام کا کسی زمانے میں ظاہر ہونا بہت بڑی سعادت ہے جس سے ہم لوگ محروم ہیں۔ یقینا کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہم سب امام کو دیکھنے کےمشتاق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زیارت کریں۔ لیکن ان سب محرومیتوں کے باوجود کہا گیا ہے کہ زمانہ غیبت میں جہاں آپ کو محرومیت ہے وہیں نظام روحی کے ذریعے ابصار باطنی سے آپ امام سے ارتباط برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غیبت کو اللہ تعالی نے اسی لیے قرار دیا کہ مومنین اپنی باطنی آنکھوں کو روشن کریں اور ان سے قلبی ارتباط برقرار کریں ،اس دیدار کی اہمیت اور فضیلت ظاہری آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ ہے۔ اگر اللہ تعالی نے ایک طرف سے محرومیت قرار دی ہے تو دوسری طرف سے اس تلافی کا مکمل طور پر ہمیں موقع فراہم کیاہے۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر آج کے دور میں امام ہوتے تو میں زیادہ با استعداد ہوتا، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ آج بھی راستہ کھلا ہے۔ اگر ظاہری آنکھ سے دیکھنے کی محرومیت ہے تو وہیں قلبی ارتباط کا امکان ہے،اور یقینا یہ دیدار بالا تر درجے کی رُؤیت ہے۔
لیکن یہاں پر کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آج کے دور کا منتظر جو امیرالمومنینؑ کے دور میں بھی نہیں تھا اور ممکن ہے زمانہ ظہور میں بھی زندہ نہ ہو، یہ محروم نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ جن لوگوں نے امیرالمومنینؑ کے دور کو پایا، ان کا ساتھ دیا اور بصیرت سے ان کے ساتھ حق پر ڈٹے رہے یقینا ان کا بہت مقام ہے ،آج کا انسان اس مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا،کیا یہ نعمت صرف اس دور کے لوگوں کے ساتھ خاص تھی اور ہم اس نعمت سے محروم ہیں؟ زمانے کے لحاظ سے تو نا ہم رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی کر سکے ہیں اور نا کسی اور امام معصومؑ کی۔ بشر ہونے کی جہت سے تو ہم میں اور آئمہ معصومینؑ کے زمانے کے بشر میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں پر ہماری استعداد کا کیا بنے گا جو نکھر نہیں سکی؟ اس کے جواب میں مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم زمانے کو معیار قرار دیں تو ایسا ہی ہے کہ ہم محروم ہیں۔
لیکن اگر ہم بدن کو انسانی وجود کا ایک مرتبہ قرار دیں، ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ انسانی وجود کے تمام مراتب کے لیے تعین اور حجاب نہیں بلکہ انسان کے روحی نظام کے لیے نا تو کوئی زمانہ حائل بنتا ہے اور نا ہی مکان۔ اس صورت میں ہم محروم نہیں کہلائیں گے۔ کیونکہ ہماری روح اگرچہ بدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن خود بدن میں نہیں ہے۔ اگر بدن میں ہوتی تو بدن میں مقید ہوتی، ممکن ہے خود میں اپنی روح کو بدن میں مقید کر لوں اور یہ اعتقاد بنا لوں کہ میں یہی بدن ہوں اور روح وغیرہ کچھ نہیں، اس طرح تمام زمان اور مکان سے بالاتر روحی کمالات سے بھی محروم ہو جاؤں گا۔ لیکن خود انسان کی روح کی حقیقت اس سے جدا ہے۔ دین نے انسان کو بہت وسعت دی ہے اس کو درک کرنا ہوگا کیونکہ عدم ادراک باعث بنتا ہے کہ ہم حسرت کریں کہ امیرالمومنینؑ کے ہمراہ نہیں تھے، جبکہ یہ حسرت فعلیت میں بھی بدل سکتی ہے۔

انسان کی استعداد اور اس کی فعلیت

انسان کی تمام استعدادیں فعلیت کے مرحلے تک پہنچ سکتی ہیں، چاہے امام ظاہر ہو یا غائب،ایک تنہا مومن ہو یا چاہےمومنین کا ایک جمع۔ اس طرح سے نہیں کہ ہم کسی شے کو زمانی یا مکانی طور پر نہیں پا سکے تو اس کی حسرت کریں، اگرچہ حسرت ہے لیکن ایسی حسرت نہیں ہے جو حاصل نہ ہو سکے۔ کیونکہ خود حسرت بھی  ایک عمل ہے۔ حسرت انسان کے روحی نظام کو فعلیت عطا کرتی ہے۔ اگر یہ نگاہ انسان کے اندر پیدا ہو جاۓ تو وہ ہر دور کے انسان اور ہر جگہ پر رہنے والے انسان کے کمالات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا امکان دیکھتا ہے۔ راستہ کھلا ہے جو بھی اس راہ کا راہی بننا چاہے آ سکتا ہے۔ رجعت کی بحث بھی اسی بحث کے ذیل میں آتی ہے۔ رجعت کو کامل اور تبیین یہی بحث کرتی ہے۔ اگرچہ رجعت میں کہا گیا ہے کہ وہاں محض ایمان اور محض کفر کی رجعت ہے لیکن اس بحث میں ہم اس امر کو ہر انسان میں سرایت دے رہے ہیں۔ ہم مادی طور پر بھی اس کا شاہد لا سکتے ہیں۔ مثلا جب کسی انسان کی ایک حس کام کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کی دیگر حسیں زیادہ قوی ہو جاتی ہیں اور اس طرح ایک مقدار تک جبران ہو جاتا ہے۔ لیکن  ہماری محرومیت کا جواب کیا ہے؟ اور ہم محروم کیسے نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب امامؑ دیتے ہیں۔

 امام غائب ؑکے مراتب

ہم نے گزشتہ درس میں جس حدیث مبارک کو ملاحظہ کیا تھا اس میں امامؑ فرماتے ہیں: « الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَيُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِي السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْكُمُ الْمُسْتَتِرِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِي ظُهُورِ الْحَقِّ وَ دَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْكُمُ الظَّاهِرِ» ؛ عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام سے عرض کی: باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ سِری عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری عبادت؟ [1] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔ واضح رہے کہ خود امام کے مستتر ہونے کے بھی مراتب ہیں۔ جس طرح ظالم حکومتوں کو ظلم کی مقدار کی جہت سے ہم مراتب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔مثلا  ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ظالم حکومت کا مکمل طور پر تسلط ہے اور مومنین شدید تقیہ کی حالت میں ہیں، لیکن بعض دفعہ ایسا ہے کہ ظالم حکومت موجود ہے لیکن اسے خود اپنی پڑی ہوئی ہے۔ مومنین اگر کوئی فعلیت انجام دیتے ہیں تو اگر حکومت کو ان کاموں سے کوئی خطرہ نہیں تو وہ بھی ان کاموں سے حساس نہیں ہوتی۔ اگرچہ خود مومنین اور حق کے امام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی جبت، اور طاغوت کی حکومت میں اپنے کام سے کام رکھیں کیونکہ اللہ کی زمین پر قانون گذاری اور حکومت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔ کسی بھی غیر الہی قانون کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ کہ تقیہ کی حالت ہو۔

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام کے مستتر ہونے کا دورصرف زمانہ غیبت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ بقیہ گیارہ آئمہ معصومینؑ کے ادوار کو بھی شامل ہے۔ حتی امیرالمومنینؑ کا دور کہ اس دور میں بھی افراد ان کو امام ہونے کی حیثیت سے نہیں جانتے تھے۔ ان کو بقیہ خلفاء کی طرح ایک خلیفہ و حکمران سمجھتے تھے۔ خود امیرالمومنینؑ کی امامت مستتر تھی۔ بہت قلیل اور چند افراد ان کو اپنا امام مانتے تھے۔ یہ دور اسی طرح سے رہا یہاں تک کہ امام سجادؑ کے دور تک یہ استتار شدید تر ہوتا گیا۔ اسی طرح سے بقیہ آئمہ معصومینؑ کا دور مثلا امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کا دور، ان سب ادوار میں استتار کا مرتبہ شدید یا ضعیف ہوتا رہا۔ با الفاظ دیگر استتار ایک تشکیکی امر ہے۔ استتار کے تشکیکی ہونے  کے نتیجے میں ہمارے پاس جو احکام سامنے آتے ہیں وہ بھی تشکیکی ہونگے۔ ہر دور میں استتار کا جبران بھی تشکیکی ہوگا۔

سخت حالات میں عبادت کی افضلیت

راوی نے امام سے سوال کیا کہ باطل کی حکومت میں جب امام مستتر ہیں، اس دور میں چھپ کر کی جانے والی عبادت افضل ہے یا حق کے امام کی حکومت میں جب امام ظاہر ہیں علنى عبادت افضل ہے؟اگرچہ حق کے امام کی حکومت اور ظاہر ی امام کا اپنے اوج کو پہنچا ہوا مرتبہ ہمیں صرف زمانہ ظہور میں دیکھنے کو ملے گا۔تاہم  حق کی حکومت کا ایک مرتبہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں، ظاہری طور پر خفاء نہیں تھا مگر یہ کہ بعض مقامات پر خود امام صلاح نہیں سمجھتے تھے۔بہرحال کونسی عبادت افضل ہے؟ اس افضلیت کی اساس اور  معیار کیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے میں مومنین کی استعداد یں زیادہ نکھر کے سامنے آتی ہیں، اس زمانے کی عبادت زیادہ افضل ہوگی۔ اگر اس روایت کے ظاہر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے امام کسی زمانے کی افضلیت کو بیان کرنے چاہ رہے ہیں لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بتانا چاہتے ہیں کہ حالات کا تنگ ہو جانا اور شدید ترین حکومتی دباؤ اور مسائل مومن کی راہ کو بند نہیں کر سکتے۔ وہ ان حالات سے بھی نکل سکتا ہے۔ اس لیے امام افضلیت کو سخت ترین دور میں قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پرسکون حالات میں استعداد فعلیت کو نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن واضح رہے جہاں مومن کے لیے حالات سخت ہو جائیں اس کے لیے موانع نہ صرف مانع نہیں بنتے بلکہ اس کے اندر کمال اور استعداد کے مواقع کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ اس نگاہ کو اگر مومن اپنے اندر پیدا کر لے تو دشمن مجبور اور لاچار ہو کر رہ جاۓگا۔ کیونکہ اس کے پاس اب کوئی مومن کو شکست دینے کا راہ حل نہیں ہے ۔ حتی مومن کو زیر زمین زندان میں بند کر دیں وہاں بھی وہ سوچے گا کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے یہی تکلیف معین فرمائی ہے۔

دینی نکتہ نظر سے ایک مومن چاہے وہ جس دور یا جس جگہ کا بھی ہو اس کے لیے اللہ تعالی کا قانون یکساں ہے۔ وہ شخص جو کال کوٹھڑی میں قید ہے اور وہ شخص جو منظر عام پر تمام افراد کی طرح معمولی زندگی بسر کر رہا ہے ہر دو کے لیے اس الہی قانون گذاری کے مطابق کمال تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہے۔ کوئی بھی امر اس کے لیے مانع نہیں بن سکتا۔ دشمن جتنا بھی آپ کو مقید کر لے زیادہ سے زیادہ آپ کے بدن کو قید کر سکتا ہے لیکن کیا آپ کی روح کو بھی قید کر سکتا ہے؟ روح کو قید کرنا دشمن کے بس سے باہر ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ جب فرعون نے جادوگروں کو کہا کہ موسیؑ کے معجزے کا انکار کرو ورنہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دونگا تو انہوں نے کہا:« قَالُوا لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ » ؛ وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب کے حضور لوٹ جائیں گے۔[2] شعراء:۵۰۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکو۔ ان جادوگروں کا فہم و بصیرت کے اس درجہ تک پہنچ جانا کوئی معمولی مرتبہ نہیں۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تو کیا کر لے گا؟ ہمارے بدنوں کو شکنجہ کرے گا یا اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا، یہ بدن تو آج یا کل ویسے بھی مر جانے ہیں لیکن تو ہماری روح و روان کو ختم نہیں کر سکتا۔

اسی حدیث کے اگلے حصے میں امام صادق ؑ فرماتے ہیں: « وَاللَّهِ عِبَادَتُكُمْ فِي السِّرِّ مَعَ إِمَامِكُمُ‌ الْمُسْتَتِرِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَتَخَوُّفُكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَحَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ »؛ خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔امامؑ فرماتے ہیں کہ باطل کی حکومت میں جو مومنین کو خوف لاحق ہوتا ہے وہ بھی عبادت ہے۔ اگر مومن حق کا مطیع ہے تو اس کا حق کی اطاعت میں رہنا، ظاہری عبادات انجام دینا یا حتی کسب معاش کرنا اور روابط بھی عبادت شمار ہونگے۔حدیث معراجیہ میں وارد ہوا ہے کہ اگر عبادات کو دس حصوں میں تقسیم کریں تو اس کے نو حصے کسب حلال کو شامل ہیں۔[3] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۳،ص۹۔ ایک عبادت کا تصور ہم لوگ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنا اور روزے رکھنایا  تلاوت کرنا عبادت ہے جبکہ دین نے عبادت کے ۱۰ حصوں میں سے ۹ حصے کسب حلال میں قرار دیے ہیں۔ کیونکہ عبادت کا مغز اطاعت الہی ہے۔ اگر اطاعت الہی میں رہتے ہوۓ باطل کی حکومت میں کسب حلال کرتے ہیں ،بہت سخت ہے لیکن یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔

نظام الہی میں موانع اور مواقع

اللہ تعالی نے اس عالم کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ کہ دشمن کی جانب سے پیش آنے والی محدودیت اور موانع، یا حتی طبیعی موانع بھی اس سیر کی حرکت کو روک نہیں سکتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بہتے ہوۓ پانی کے سامنے ڈیم آ جاۓ، ڈیم جب لبریز ہو جاۓ گا پانی پھر سے اپنے راہ کو پا لے گا۔ یہ قانون الہی ہم عالم طبیعت میں بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے ہی مانع وجود میں آیا دیر نہیں لگتی کہ اسے راہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالی متعدد راستے نکال کر دے دیتا ہے۔

اس روایت میں لفظ « تَخَوُّفُكُمْ »وارد ہوا ہے۔ خود خوف مانع نہیں ہے بلکہ راہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ خوف اور دبدبہ ایجاد کر کے مانع ایجاد کرے لیکن خدا کہتا ہے کہ میں اسی مانع کو راہ بنا دونگا۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کے سامنے دریا موجود تھا، پیچھے فرعون اور اس کا لشکر، خدا نے اسی مانع(دریا) کو راہ بنا دیا۔ وہ آگ جسے نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو جلانے اور مارنے کے لیے بھڑکایا خدا نے اسی آگ کو ان کے لیے کامیابی اور فتح کا باعث بنا دیا۔ وہ جادوگر جو فرعون نے حضرت موسیؑ کا راستہ روکنے کے لیے مانع کے طور پر مدعو کیے تھے، اللہ تعالی نے انہیں جادوگروں کو ہدایت دی اور حضرت موسیؑ کی فتح کا ذریعہ بنا دیا۔

رکاوٹ پہنچنے کا ذریعہ

اگر اس طرح کی دینی نگاہ ہمارے وجود میں پیدا ہو جاۓ کبھی سلوک الی اللہ میں مانع نہیں پائیں گے۔ ہر ظاہری رکاوٹ ہمیں راستے کی نشانی لگنے لگے گی۔ اگر یوسفؑ کو کنویں میں ڈالا گیا تو وہی کنواں ان کے عزیز مصر بننے کی راہ بنا۔ جن بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو نابود کرنا چاہا وہی باعث بنے کہ یوسفؑ مصر کی نجات کا باعث بن جائیں۔ جس طرف بھی آپ حوادث کی طرف غور کریں یہی سنت الہی آپ کو نظر آۓ گی۔ غیبت میں بھی یہی سنت حاکم ہے۔کلی طور پر  ہر حکم الہی میں یہی سنت حاکم ہے۔  اللہ تعالی کا ہر کلی یا جزئی حکم جو ہم پر نازل ہوا ہے اس کے لیے مانع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی ان موانع پر قاہر ہے اور یہ سب مقہور ہیں۔ نا صرف مقہور ہیں بلکہ اس کے آگے مسخر ہیں۔ آگ اور دریا جو دو نبیوں کے لیے مانع بن رہے تھے نا صرف مانع نہ بن سکے بلکہ مسخر ہو کر ان انبیاء کی فتح و کامرانی کا باعث بنے۔ وہی آگ تھی جس نے حضرت ابراہیمؑ کو نجات دی اور وہی دریا تھا جس نے حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کو راستہ دیا۔انسان کی زندگی میں جتنے بھی حوادث اور واقعات پیش آتے ہیں ظاہری طور پر مانع نظر آتے ہیں۔ لیکن وہی موانع اللہ تعالی نے راہ قرار دیے ہیں۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا »؛ البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔[4] شرح:۵۔ آیت کریمہ میں اس طرح وارد نہیں ہوا: « فَإِنَّ بعدَ الْعُسْرِ يُسْرًا» کہ کوئی کہے عُسر کے بعد یُسر ہوگی۔بلکہ قرآن کریم میں مع کا لفظ بیان کرتا ہے کہ عُسر ’’یُسر‘‘ کے ہمراہ ہے۔

اس مسئلہ کو دو زاویوں سے  دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بدن کی جہت سے دیکھیں تو ممکن ہےعُسر ہو۔ لیکن روح کی جہت سے یُسر ہو۔ لہذا حضرت ایوبؑ کو جن تکلیفوں سے آزمایا گیا وہ تکالیف ان کے لیے گشائش کا سبب بنیں۔ یا حضرت موسیؑ کا قبطی کو قتل کے بعد فرار کرنا اور مشکلات میں پڑنا ہی باعث بنا کہ وہ حضرت شعیبؑ کے پاس جائیں اور وہاں رسالت جیسی عظیم  ماموریت کے لیے تیار ہو سکیں۔ وہی فرار ان کے لیے راہ بن گیا۔ اگر زندگی کے تمام واقعات کو اس الہی منظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جن ظاہری موانع کو ہم اپنی زندگی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں وہی ہمارے کمال کا باعث ہیں۔ تاہم جیسا کہ بیان ہوا دو متفاوت نگاہیں ہیں۔ ایک دفعہ انسان اور خدا کے درمیان رابطے کے ایجاد ہونے کی جہت سے دیکھتے ہیں، اور ایک دفعہ بدن کے اس جہان سے ارتباط کی جہت سے دیکھتے ہیں۔ اگر بدن کے اس جہان کے ارتباط کی جہت سے دیکھیں تو حتی خوشی اور سکون بھی مانع ہے۔ لیکن اگر پہلی نگاہ کو اختیار کریں تو جن کو ہم بدترین مانع قرار دے رہے ہیں وہ راہ ہیں اور مواقع ہیں۔ یہ نگاہ کنویں کی تاریک فضا میں بھی یوسفؑ کے لیے گشائش قرار پاتی ہے۔ بالالفاظ دیگر ایک منظر الہی ہے اور ایک منظر بدنی۔ بدنی نگاہ یا بشری تقاضوں کے مطابق دیکھیں تو ناامیدی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر حوادث کو منظر الہی سے  دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے اس کی ذات ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔« إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ »؛ میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔[5] شعراء:۶۲۔ یہ نگاہ انبیاء کو حاصل ہوتی ہے جب بھی وہ موانع کو دیکھتے ہیں اسی موانع میں راہ نجات بھی دیکھ لیتے ہیں۔جہاں ہمارے حساب کتاب اور ہوتے ہیں خدا کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے۔الله تعالی اپنے اولیاء کے امور کو بعض اوقات صرف ایک رات جیسے معمولی زمان میں درست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ  حضرت موسیؑ کو ایک رات میں رسالت عطا ہوگئی۔ روایت میں واردہوا ہے:« وَإِنَّ اَللَّهَ لَيُصْلِحُ أَمْرَهُ فِي لَيْلَةٍ كَمَا أَصْلَحَ أَمْرَ كَلِيمِهِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ »؛ اور بے شک اللہ تعالی اپنے امر (ظہور کے مقدمات) کو ایک ہی رات میں درست کرے گا جس طرح اس نے موسیؑ کے امر کی ایک رات میں اصلاح کی۔[6] راوندی، قطب الدین، الخرائج والجرائح،ج۳،ص۱۱۷۱۔ جیسا کہ امام جعفر صادقؑ کا فرمان مبارک ہے:« كُنْ لِمَا لَا تَرْجُو أَرْجَى مِنْكَ »؛ جس چیز میں تمہیں کوئی امید نہ ہو  اس میں زیادہ پر امید رہو۔[7] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۸۳۔ پس جہاں بھی ناامیدی شدید ہو جاۓ، زیادہ پر امید ہو جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں جب دوسرے عوامل اور اسباب کو کم دیکھ رہے ہیں اور موانع زیادہ، وہاں ہم رجاء کو بڑھا لیں، یہ نگاہ پیدا کرنا ضروری ہے۔

Views: 74

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حجت الہٰی سے عہد و میثاق کا تعلق