loading
{سیاسی افکار}

ارسطو کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

ارسطو ۳۸۴سال قبل از مسیح یونان کے شہر استاگیرا میں پیدا ہوۓ۔ سترہ سال کی عمر میں افلاطون کی اکیڈمی میں داخل ہوۓ۔ ارسطو کے فلسفہ سیاسی میں افلاطون کے نظریات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ارسطو نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں اخلاق نیکوماخوس (Nicomachean Ethics)، سیاست اور کتاب اصول حکومت آتن فلسفہ سیاسی ارسطو سے مربوط ہیں۔

ارسطو کی نظر میں سیاست

ارسطو کی نظر میں سیاست کی غایت خیر اعلی ہے۔ خیر کی دو اقسام ہیں:
۱۔ خیر براے غیر: یہ خیر خود مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اسے کسی اور خیر کے لیے چاہا جاتا ہے۔
۲۔ خیر براۓ خود: یہ خیر کسی اور خیر کے لیے نہیں بلکہ خود مطلوب ہوتا ہے۔ بلکہ اور خیر بھی اس خیر تک پہنچنے کے لیے انجام دیے جاتے ہیں۔ اسے خیر اعلی بھی کہتے ہیں۔ سیاست کی غایت و ہدف یہی خیر اعلی ہے۔ سیاست تعیین کرتی ہے کہ معاشرے میں کونسے علوم اور ہنر ہوں۔ کس طبقے کو کس حد تک علوم و ہنر سیکھنے چاہئیں یہ بھی سیاست تعیین کرتی ہے۔ اسی طرح سے مملکت کا نظام، دفاع، اقتصاد اور فنون دیگر سب سیاست کے تابع ہیں۔ سیاست اہم ترین و بہترین علم ہے جس کا موضوع خیر اعلی بہترین موضوعات میں سے ہے۔

انواع حکومت

ارسطو نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن اسے صرف ذاتی منفعت چاہیے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک قلیل  گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ صرف اپنی ذاتیات کی منفعت کے لیے کوشاں ہیں۔
ان دو قسموں میں اقلیت کی حکومت ہے۔

۵۔ جمہوری یا پولیٹی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ سب عوام کے منافع کے لیے کوشاں ہیں ۔
۶۔ ڈیموکریسی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور صرف اکثریت کے منفعت کے خواہاں ہیں۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔ جمہوری اور ڈیموکریسی کی حکومت میں فرق یہ ہے  کہ جمہوری حکومت میں اگرچہ اکثریت کی حکومت ہے لیکن وہ اکثریت ملک کی تمام اقلیتوں کا بھی خیال رکھتی ہے اور اس طرز حکومت میں تمام افراد برابر ہیں چاہے وہ اکثریت میں شامل ہوتے ہیں یا اقلیت میں۔ اس کے برعکس جمہوری حکومت صرف اکثریت کے منافع کو دیکھتی ہے اوراقلیت کو نظر انداز کرتی ہے۔[1] قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۶۳۔

منابع:

منابع:
1 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۶۳۔
Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: افلاطون کی نظر میں انواع حکومت
اگلا مقالہ: حاکم کے اعتبار سے حکومت کی اقسام